مومن کی مثال شہد کی مکھی کی طرح ہے

ایڈمن

ؐوالذی نفس محمد بیدہ ان مثل المومن لکمثل النحلۃ اکلت طیبا ووضعت طیبا وو قعت فلم تکسر ولم تفسد۔(فی مسند الامام احمد ) آں حضرت ؐ نے فرمایا کہ اس (ذات) کی قسم جس کے قبضہ میں (محمد ؐ)کی جان…

ؐوالذی نفس محمد بیدہ ان مثل المومن لکمثل النحلۃ اکلت طیبا ووضعت طیبا وو قعت فلم تکسر ولم تفسد۔(فی مسند الامام احمد )
آں حضرت ؐ نے فرمایا کہ اس (ذات) کی قسم جس کے قبضہ میں (محمد ؐ)کی جان ہے، مومن کی مثال شہد کی مکھی کی طرح ہے جو پاک (چیز) کھاتی ہے۔
اور پاک (چیز) فراہم کرتی ہے اور ایسا کرنے میں نہ وہ کوئی کمی کرتی ہے اور نہ خرابی (فساد) پیدا کرتی ہے۔
یہ حدیث ان خصوصی احادیث میں ہے جس میں حضرت محمد ؐ نے والذی نفس محمد بیدہ (اس کی قسم جس کے قبضہ میں محمد یعنی میری ، جان ہے) جیسے خلاف معمول الفاظ اپنے زبان مبارک سے ادا کیا۔ یہ در اصل کسی بات پر بہت زور دینے کا انداز ہے تاکہ مخاطب اس بات کی اہمیت کو سمجھ سکے اور اس کے تقاضہ کو پورا کرنے کے لئے سنجیدہ ہو جائے۔ مزید یہ انداز اپنا مقام ، مرتبہ اور کام بتانے کیلئے تھا تاکہ لوگ یہ سمجھ سکیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو ایک خصوصی کام دے کر بھیجا اور اس کام تکمیل کے ساتھ ہی آپؐ کو واپس بلالیا جانا تھا۔ اب یہ امت کی ذمہ داری ہے کہ اس ذریعہ سے حاصل پیغام کو حرز جاں بنالے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لے ۔ کیوں کہ ہر فرد کی جان اللہ تعالیٰ کے ہی قبضہ قدر ت میں ہے جس نے مہلت عمل ختم ہونے کا علم کسی کو نہیں دیا ہے۔
مذکورہ حدیث میں مومن کی مثال شہد کی مکھی سے دے کر اس کی چار خوبیاں بیان کی گئی ہیں۔ اس طرح یہ تعلیم دی گئی ہے کہ افراد امت انفرادی حیثیتوں میں اور پوری امت بحیثیت مجموعی ان صفات کی مصداق اپنے آپ کو بنالے۔ وہ چار صفات ہیں (i) پاک اشیاء کا استعمال کرنا (ii) دنیا کو اچھی چیز فراہم کرنا (iii) ماحول میں موجود جو نظم ، حسن اور خیر ہے اس میں کسی کمی کا باعث نہ بننا اور (iv) فساد نہ پیدا کرنا۔ شہد کی مکھی باغ میں موجود مختلف پھولوں کا رس چوستی ہے اور شہد جیسی مزید ار اور مفید چیز فراہم کرتی ہے اورایسا کرنے میں کسی پھول کے حسن اور خوشبو میں کوئی کمی نہیں کرتی اور نہ باغ کے ماحول کو خراب کرتی ہے۔ پاک اشیاء کے استعمال کا مطلب یہ کہ مومن کی زندگی میں آنے والی تمام چیزیں خیر اور حلال ذرائع سے آئیں اور ان میں حرام کا شائبہ بھی نہ ہو اور پھر مومن اپنے گردوپیش میں، اپنے خاندان میں ، قوم میں ، ملک میں اور تمام دنیا میں خیر و فلاح کے فروغ پانے کا سبب بنے۔ اس کی ذات سے خوشبو پھیلے، حسن دوبالا ہو جائے اور زمین جنت نظیر بن جائے۔ دوسری طرف ماحول میں جو اچھائیاں اورخوبیاں پہلے سے موجود ہیں اس میں کوئی کمی (کسر) واقع نہ ہو اور اس طرح زمین فتنہ و فساد سے محفوظ رہ سکے۔
یہ تصویر ہر فرد مومن کی ہے اور ان کے مجموعہ یعنی امت مسلمہ کا یہی طرزعمل ہونا چاہیے۔ وہ زمین کے جس گوشہ اور خطہ میں رہتے ہوں یا بس جائیں اسے اپنے اس رویہ سے گلزار بنا دیں ، ان کا کردار زمین اور اہل زمین کے لئے رحمت بن جائے۔ اس سلسلہ مین یہ نکتہ بھی ذہن میں ہونا چاہیے کہ صرف کوخود سرتاپا خیر بن جانا کافی نہیں ہے بلکہ خیر کا داعی بن جانے کی تلقین اس حدیث میں کی گئی ہے۔ اصولی طور پر رحمتوں کی یہ بارش زمین کے ہر گوشہ مین محیط ہے لیکن اس کی فطری ترتیب یہ ہے کہ ایک فرد مومن پہلے خود نور مجسم بنے اور پھر اپنے خاندان، اپنے عزیزو اقرباء، اپنی قوم، اپنے علاقہ اپنے ملک اور اس ترتیب کے ساتھ پوری نوع انسانی اور دیگر مخلوقات تک نور کی ندیاں بہاتا چلا جائے۔ اسلام کی تعلیمات اسی فطری ترتیب کا تقاضہ کرتی ہیں۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص پوری دنیا کے لئے خیر خواہ ہو اور اس سرزمین کے لئے خیر خواہ نہ ہو جہاں وہ بستا ہو یا کوئی شخص اپنے والدین اور اہل خانہ سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوئے بغیر سارے جہاں کا درد اپنے جگر میں لئے پھرے۔
خیر کے داعی کے درج بالا مطلوبہ طریقہ کار کے حق میں قرآن مجید کی بہت سی آیات کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح حدیث مبارکہ سے بھی بہت سے دلائل جمع کئے جا سکتے ہیں۔ ہم صرف ایک حدیث کا حوالہ دے کر اپنی بات ختم کریں گے۔
خیر صدقۃ ما کان عن ظہر غنی وابد ابمن تعول (متفق علیہ /عن حکیم بن حزام) بہتر صدقہ وہ ہے جو غنا کے بعد ہو اور خرچ کرنے میں اہل و عیال (جن کی کفالت اپنے ذمہ ہے) سے آغاز کریں۔ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر مال میسر ہے تو پہلے اپنی ضرورت پوری کریں اور اگراس سے زائد مال ہے تو صدقہ (یعنی کار خیر ) کا آغاز انکی ضرورتوں کو پورا کرنے سے کریں جن کی کفالت کی ذمہ اپنے اوپر ہے۔ انگریزی زبان کا محاورہ کہCharity begins at home (کارخیر اپنے گھر سے شروع ہوتا ہے، اس حد تک درست ہے کہ اسے Charity Closes at home (کار خیر گھر پرہی ختم ہوتا ہے) نہ ہو نا چاہئے۔ خیر اپنی ذات سے شروع ہو اور حسب توفیق فطری ترتیب سے اللہ کی سر زمین پر جہاں تک پہنچ سکے، پہنچانے کی سعی کرنی چاہیے۔

 

از: ڈاکٹر وقار انور

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں