مودی حکومت کی تعلیمی پالیسی کیخلاف طلبائی مزاہمت کی داستان

ایڈمن

ابھے کمار

            مودی حکومت کے پانچ سال پورے ہوگئے ہیں۔ اب انہیں پارلیمانی انتخاب میں حصہ لے کر اپنی کارکردگی کا حساب عوام کو دینا ہے۔یہ تو کہنا ابھی جلد بازی ہوگی کہ عوام کاآخری فیصلہ کیا ہوتا ہے،تاہم اتنا تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کرنے میں جو طبقہ گزشتہ پانچ سالوں میں پیش پیش رہاہے وہ طلبا اور نوجوانوں ہی کا طبقہ ہے۔طلبہ کے علاوہ، کسان، مزدور، اقلیت، دلت، آدی واسی، پسماندہ اور دیگر محروم طبقات بھی مودی حکومت کی پالیسیوں کے شکار رہے ہیں۔مگر حکومت کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ اس ماہ ہونے والے لوک سبھا انتخاب میں رائے دہندگان میں سب سے بڑی تعداد نوجوانوں اور طلبا کی ہے اور اگر ان کی ناراضگی انتخابات تک برقرار رہی، تو مودی جی کا دوبارہ اقتدار میں آنا مشکل ہوگا۔

            طلبا کی ناراضگی دور کرنے کے لیے، مودی حکومت اگر کچھ کرنا بھی چاہے تواب وہ نہیں کر سکتی ہے۔ دیر بہت ہو چکی ہے۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے۔ حکومت الیکشن کمیشن  کے بنائے گئے ضابطوں کو ماننے کے لیے پابند عہد ہے۔ اس لیے وہ بعض ‘من لبھاون’ منصوبے لانا بھی چاہے تو نہیں لا سکتی۔

            جب ہم مودی حکومت کی تعلیمی پالیسی نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔تعلیم کو سب تک پہنچانے، اس کے بجٹ کو بڑھانے اور روزگار کے مواقع زیادہ سے زیادہ فراہم کرنے کے وعدوں کو، مودی جی نے پورا نہیں کیا۔ یہ سارے وعدے صرف انتخابی جملے ہی ثابت ہوئے۔

            یہ وجہ ہے کہ مودی حکومت کے پانچ سالوں کے دوران، ریاستی مشینری اور طلبا آمنے سامے کھڑے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ مودی حکومت کے خلاف اصل معنوں میں طلبا نے ہی حزب اختلاف کا رول ادا کیا ہے۔ جب مودی جی کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرنے کی ہمت اپوزیشن پاڑٹیاں بھی نہیں جٹا پارہی تھیں،  تب یونیورسٹیوں نے ہی ’مودی سرکار مرداباد!‘کے نعرے بلندکیے۔

            جب مودی حکومت نے تعلیم کی نجی کاری اور ’بھگواکرن‘کا ایجنڈا تھوپنا شروع کیا، تب طلبا کے سامنے مزاحمت کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں  تھا۔پورے پانچ سال، طلبا سڑکوں پر ’بول رے ساتھی ہلّہ بول، مودی سن لے اتنا بول!‘کے نعرے بلند کرتے رہے۔ ایک لمبے عرصے کے بعد حکومت اور طلبا اس قدر ایک دوسرے سے بھڑتے رہے۔ مگر مودی حکومت نے جو حملے تعلیم پرکیے ان سب کا ذکر کرنا ایک یہاں ممکن نہیں ہے۔لہذامیں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی، ٹیس، جیسے نامور اداروں سے جڑے ہوئے کچھ واقعات کا تذکر ہ کروں گا۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مودی حکومت ان اداروں پرحملے در حملے کرتی رہی۔ دوسری طرف طلبا نے بھی اس کے خلاف زبرست مزاحمت کی۔یہ مضمون مودی حکومت کی طلبا مخالف پالیسی اور اس کے خلاف کی گئیں مزاہمتوں کا  مختصر تذکرہ ہے۔ راقم الحروف خود بھی ان حملوں کا شکار رہا ہے اوار ان مزاحمتوں کا حصہ رہا ہے۔

            طلبا کی مزاحمت اس بات کے خلاف تھی کہ مودی حکومت کی تعلیمی پالیسی نے غریب اور محروم طبقات کو تعلیم سے کافی دور دھکیل دیا۔ نہ صرف فیس میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا، بلکہ اسکالرشپ میں بھی کافی تخفیف کردی گئی۔اگر کاغذپراسکالرشپ رہی بھی تواس کے حصول کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں  کھڑی کر دی گئیں۔مثال کے طور پراقلیتی طبقات کو دی جانے والی مولانا آزاد نیشنل اسکالر شپ میں نیٹ پاس کرنا لازمی کر دیا گیا۔ وہیں دوسری طرف نیٹ پاس کرنے والے امیدواروں کی تعداد کم کر دی گئی۔ اتنا ہی نہیں تعلیمی اداروں میں طلبا کی’اِن ٹیک سیٹ‘کم کر دی گئی۔ کئی اداروں میں تحقیق کر رہے طلبا کے لیے دروازے بندکر دیے گئے۔یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے فنڈ اور گرانٹ میں زبردست تخفیف کر دی گئی۔ سیمینار، لائبریری، لیب کے لیے مختص بجٹ  میں اضافہ کرنے کے بجائے اسے میں بھی تخفیف کردی گئی۔تعلیمی اداروں کو خودمختار بنانے کے بہانے ان کو پیسہ اُگائی کرنے کا کھلالائسنس دے دیا گیا۔

            بتدریج تعلیم کا بجٹ کم ہوتا چلا گیا۔ایسا اس لیے بھی ہوا کہ اعلی مناصب پر براجمان افراد،جن کا کام پالیسی سازی ہے،عوام کی تعلیم پر خرچ کئے جارہے پیسے کو وسائل کی بربادی سمجھتے ہیں۔وہ یہ بھی فراموش کر دیتے ہیں کہ یہ پیسہ عوام کی محنت کی کمائی سے ٹیکس کی شکل میں وصول کیا جاتا ہے اور اگر یہ پیسہ عوام کی تعلیم پر خرچ ہو تو اس سے بہتربات اور کیا ہو سکتی ہے۔ مگر ان کا مقصدیہ ہے کہ جو بھی تعلیم سرکاری بجٹ پر فراہم کی جا رہی ہے اس کو پرائیویٹ کمپنیوں کو دے دیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ تعلیم بھی دوسری اشیاء کی طرح بازار میں فروخت ہو۔تعلیم کی نجی کاری کے پیچھے مقصد یہ ہے کہ اس کی سماج کے نچلے طبقات تک رسائی نہ ہو سکے۔ ان پالیسی سازوں کو ڈر ہے کہ اگر تعلیم محروم طبقات تک پہنچ جاتی ہے تویہ برہمنی اور سرمایہ دارانہ نظام کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔اگر غریب، محروم طبقات اور اقلیت تعلیم یافتہ ہو گئے تو ان کا تسلط کیسے بنا رہے گا؟

             یہ بھی کتنی افسوسناک بات ہے کہ جہاں مودی حکومت نے تعلیمی اداروں کے فنڈ میں تخفیف کی وہیں ہزاروں کروڑ کے سرکاری پیسوں کواپنے اور  اپنی حکومت کی بڑائی میں اشتہارات پر خرچ کیے۔ اگر تعلیمی اداروں پر پیسے خرچ بھی ہوئے تو وہ بنیادی ضرورتوں کے لیے نہیں، بلکہ کیمرے لگوانے اور سیکوریٹی بڑھانے کے نام پر خرچ کیا گیا۔ اس طرح کے منصوبوں کو لاگو کرنے پر لیڈران اور افسران کو بڑا کمیشن ملتا ہے۔جو باقی پیسے بچے ان کا بڑا حصہ بھگوا نظریہ ساز  لیڈروں کی ’مورتی‘(مجسمہ) لگانے، آر ایس ایس اور بی جے پی سے وابستہ بابا اور گرو کے پروگرام منعقد کرنے میں خرچ ہوئے۔

            تضاد دیکھئے کہ پسماندہ اور چائے بیچنے والے غریب کے نام پر ووٹ مانگنے والے نریندر مودی نے پورے پانچ سال سرمایہ داروں اور آر ایس ایس کے لیے کام کیا۔ اپنے آپ کوبابا صاحب امبیڈکا پیروکار بتاتے نہیں تھکنے والے، وزیر اعظم مودی نے یونیورسٹیوں میں ریزرویشن پر ہوئے حملے در حملے کے خلاف منہ تک نہیں کھولا۔کیا مودی یہ نہیں جانتے ہیں کہ امبیڈکر یہ چاہتے تھے کہ سرکار رفاہی کاموں کو زیادہ سے زیادہ انجام دے اور سماج کے ہر طبقے، بالخصوص محروم طبقات، کی نمائندگی کو یقینی بنائے؟ مگر بابا صاحب کے خود ساختہ پیروکارموددی نے رفاہی کاموں کو اُلٹاکم کر دیایا ختم کر دیا اورمحروم طبقات کی سرکاری اداروں سے بے دخلی پر منہ تک نہیں کھولے۔

            یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ مودی نے اپنی انتخابی تشہیر کے وقت یہ بھی کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کی طرقی کے خیر خواہ ہیں اور وہ ان کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپوٹر دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر مسلمانوں کے ساتھ بھی انصاف نہیں کیا گیا ہے اور ان سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا ہے۔اقلیتوں کی تعلیم پر توجہ دینا تو دور کہ بات ان کو اُلٹا نشانہ بنا یا گیا ہے۔ جن یونیورسیٹیز میں اقلیتی طبقے کے طلبا زیادہ تعداد میں زیر تعلیم ہیں ان کی فیس بڑھا  دی گئی۔ سچر رپورٹ اور مشرا کمیشن کی سفارشات کے باوجود، حکومت مسلمانوں کی تعلیم کو لے کر بے حس رہی۔الٹا اقلیتوں کے تعلیمی اداروں پر بھگوا شر پسند  عناصر نے حملے کیے۔اقلیتوں کو انصاف دینے اور حملہ آوروں کو سزا دینے کی بجائے، پولیس اور انتظامیہ حکومت کے دباؤمیں یا تو خاموش رہی یا حملہ آوروں کو تحفظ فراہم کرتی رہی۔

            اگر کہا جائے کہ مودی حکومت کی تعلیمی پالیسیوں نے ملک کے تعلیمی اداروں کی بنیاد کھودنے کا کام کیاہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ جو تعلیمی ادارے برسہا برس سے جاری تھے اور ملک کی ترقی میں ان کا نمایاں رول رہا ہے، ان پر ایک کے بعد ایک حملے کیے گئے۔ مقصد تھا ان کے کیریکٹر یعنی تشخص کو بدل دیا جائے۔ جو ادارے اپنے تشخص کو بدلنے کے لیے آسانی سے تیار نہیں تھے ان کو برباد کرنے کی کوشش ہوئی۔ ایسا اس لیے کیا گیا کیوں کہ لبرل اور سیکولر تعلیمی اداروں سے سنگھ پریوارکو ایک لمبے وقت سے ٹیس ہے۔ ان کودرد اس بات کا ہے کہ یہ ادارے اس کے فرقہ وارانہ نظریہ کو قبول نہیں کرتے اور مسلسل اس کے خلاف مواد پیدا  کرتے ہیں۔ یہاں ایک اور بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔ راقم الحروف کا یہ قطعی ماننا نہیں ہے کہ تعلیم پر حملے مودی کے دور حکوت سے پہلے نہیں ہوئے تھے۔ در اصل سابقہ حکومتوں نے بھی تعلیم کو کافی نقصان پہنچایا۔مودی جی سے پہلے منموہن سنگھ جی نے بھی تعلیم کی نجی کاری کے لیے پالیسی اپنائی۔اس سے پہلے  واجپئی سرکار نے تعلیم کی نجی کاری اور ’بھگواکرن‘کرنے کی کوششیں کیں۔ واجپئی کے زمانے میں نصاب بدلنے کی سازش کی گئی اور نوکریوں کی بحالی کم کر دی گئی۔ جہاں بحالی بھی ہوئی وہاں بھگوا نظریہ کے حامل لوگوں کوبا صلاحیت لوگوں پرترجیح دی گئی۔ یہ سب کچھ ایک طویل منصوبہ کے تحت کیا گیا۔

            تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ آر ایس ایس، جَن سنگھ اور بی جے پی روز اول سے تعلیم کے اوپر سرکاری بجٹ کو کم کرنے کے حق میں رہی ہیں۔ بھگوا طاقتیں چاہتی ہیں کہ تعلیم کا نجی کرن ہو۔اس کے ساتھ ساتھ سنگھی نظریہ لبرل فنون لطیفہ اورسماجی علوم کے تئیں بھی منفی رویہ رکھتا ہے۔ ان کے مقابلے وہ  تکنیکی اور پروفیشنل تعلیم کو ترجیح دیتا ہے۔حالانکہ اس کی تکنیکی اور پروفیشنل تعلیم سے’محبت‘بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کے دورحکومت میں ان اداروں کی فیس نہ بڑھتی۔  

            لبرل فنون لطیفہ اورسماجی علوم کی تیز دھار کو کند کرنے کے لیے، مودی حکومت نے ملک کے نامور تعلیمی اداروں پر حملے کیے۔ مودی حکومت نے یہ طے کیا کہ جو ادارے سنگھ پریوار کے خلاف تنقیدی افکار کو پیدا کرتے ہیں یا اسے فروغ دیتے ہیں، اس کو بدنام کیا جائے۔ اسی منصوبے کے تحت فلم اینڈ ٹیلی  ویژن انسٹی ٹیوٹ، پونے میں بی جے پی کا ڈائریکٹر مقرر کردیا گیا۔اس تقرری کے خلاف فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ، پونہ نے اپنی مٹھی تانی۔ سیکڑوں طلبا نے تقریباً 160 دنوں تک بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہے۔ ان کا واجب مطالبہ تھا کہ بی جے پی کے ممبر گجندر چوہان کو انسٹی ٹیوٹ کے صدر کے عہدے سے ہٹایا جائے کیوں کہ ان کی صلاحیت اس ذمہ داری کے لیے بالکل بھی میچ نہیں کھاتی تھی۔ یہ اس لیے کیا گیا کہ چوہان کو لا کر بی جے پی اس ادارے کے تشخص کو بدلنا چاہتی تھی۔مگر حکومت کو کون سمجھائے کہ اس سے ایک خاص پارٹی کو بھلے ہی فائدہ ہو جائے مگر اس طرح کی تقرری نے ادارے کو بہت نقصان پہنچایا۔  یہ سلسلہ رکنے کے بجائے چلتا رہا۔ بڑے بڑے اداروں کو چلانے کے لیے نااہل لوگوں کو بھیجا گیا۔ ڈائریکڑ، وائس چانسلراورپروفیسر بننے کے لیے سار ے ضابطوں اور قوانین کو طاق پر رکھا گیا اور سنگھ سے جڑے ہوئے لوگ ان اداروں پر بیٹھ کر اس کی بنیاد کمزور کرنے کا کام انجام دینے لگے۔اسی دوران حیدرآبادمیں واقع حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی میں بھی سرکار کے خلاف آواز اٹھنی شروع ہو گئی۔ ایچ سی یو میں ایک دلت طالب علم، جن کو ہم روہت ویمولا کے نام سے جانتے ہیں، کو خود کشی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ روہت ویمولا کو طرح طرح سے پریشان کیا گیا۔ اس کے وظیفے کو روک دیا گیا۔ اسے ہاسٹل سے نکا ل دیا گیا۔ ایک دلت طالب علم کے خلاف پورا برہمنی نطام مل کر کام کر رہا تھا۔ مجبوراً روہت ویمولا نے ایک دن خود کشی کر لی۔ اس خبر نے پورے ملک میں سنسنی پھیلا دی۔ دلت طلبا اس کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کرنے لگے۔ ان کی اس لڑائی میں پسماندہ، اقلیت اور دیگر روشن خیال طبقہ ساتھ آیا۔ احتجاج کی شدت سے گھبرا کر حکومت نے کیمپس میں پولیس بلائی اور طلبہ کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔ اس واقعہ نے یہ ثابت کر دیا کہ مودی حکومت کا

’دلت حمایتی‘ہونے کا دعوی محض ایک جملے سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔

            روہت ویمولا کے معاملے میں ’بیک فوٹ‘پر گئی مودی حکومت نے لوگوں کی توجہ دوسری طرف موڑنے کے لیے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اوپر حملہ کردیا۔ایک جلوس کا حوالہ دے کر،حکومت نے یہ دعوی کیا کہ جے این یو میں ’بھارت مخالف‘ نعرے لگے ہیں اور’دہشت گردوں‘کی ’حمایت‘ میں جلوس نکالا گیا۔کارپوریٹ میڈیا کی مدد سے جے این یو کو ’اینٹی نیشنل‘ یعنی ’غدار وطن‘کہا جا نے لگا۔حکومت کے اشارے پر جے این یو کوبرا بھلا کہا گیا۔کئی بارجے این یو کے طلبا کے ساتھ تشدد کے واقعات بھی انجام دیے گئے۔ابھی تک جے این یو کے طلبا کو کسی نہ کسی بہانے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ’اینٹی نیشنل‘کا اتنا پروپگنڈاہوا کہ  اینٹی نیشنل کی ایک نئی اصطلاح پبلک ڈسکورس کا حصہ بن گئی۔ بات بات پر حریفوں کو چُپ کرانے کے لیے بی جے پی اور آر ایس ایس کے افراد اینٹی نیشنل کا حربہ استعمال کرنے لگے۔بعض اوقات پولیس کی مدد سے بی جے پی نے اپنے حریفوں کو’وطن سے غداری‘کے کیس میں پھنسایاجس کی بنا پربہت سارے لوگوں کو جیل بھی بھیجا گیا۔ جے این یو میں بھی گزشتہ تین سالوں میں درجنوں طلبا کے خلاف انتظامہ نے جھوٹاکیس درج کیاگیا۔ بعض اوقات ان سے جرمانہ بھی وصول کیا گیا۔

            اینٹی نیشنل پروپگنڈے کے پیچھے سرکار کا اصل مقصد طلبا مخالف تعلیمی پالیسی سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جب ٹی وی شو میں بحث نیشنل بنام اینٹی نیشنل کی ہوتی ہے توحکومت کی ناقص تعلیمی پالیسی دب جاتی ہے۔ لوگ یہ نہیں جان پاتے ہیں کہ سرکار کی تعلیمی پالیسی محروم طبقات  کو تعلیم سے دور کررہی ہے۔جے این یومیں حملے ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ ادارہ سماجی انصاف اور روشن خیال نظریہ کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ جو حضرات جے ین یو سے واقف ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ یہاں فیس پرائیویٹ اداروں کے مقابلے کافی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غریب اور محروم طبقات کے طلبا یہاں پڑھنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ اس ادارے میں محروم طبقات اور خواتین کو بعض اضافی نمبر دیے جاتے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں داخلہ لے سکیں۔ روشن خیال نظریہ کو فروغ دینے والے اس ادارے میں تنوع دیگر اداروں کے مقابلے زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ ساری خصوصیت بھگوا قوتوں کو  ایک لمبے عرصے سے پسند نہیں تھی۔ وہ اس کے تشخص کو بدلنے کے لیے وہ موقع کی تلاش میں بہت دنوں سے لگے ہوئے تھے۔اینٹی نیشنل کا پروپگنڈا بھی تھما بھی نہیں تھاکہ جے این یومیں ایک دوسرا فتنہ کھڑا کر دیا گیا۔ نجیب کو جے این یو میں داخلہ لیے ابھی چند مہینے ہی گزرے تھے کہ اس پر بھگوا شر پسندوں نے حملے کر دیے۔ سال2016 میں نجیب نے ایم ایس سی کورس میں داخلہ حاصل کیاتھا۔ اسے ماہی مانڈوی ہوسٹل رہنے کے لیے ملا۔ اسی ہوسٹل میں ایک بڑی سازش کے تحت بھگوا شدت پسند عناصر، جن میں سے کچھ کا تعلق بی جے پی کی طلبا تظیم اے بی وی پی سے تھا،اسے معمولی سی بات کا بہانہ بناکار آدھی رات کو پیٹنے لگے۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ اس کی پٹائی ایک ایسے کیمپس میں ہوئی جہاں سیکورٹی کے پختہ انتظام ہیں۔ اس کی پٹائی اس طرح درد ناک طریقے سے کی گئی گویا اس کا ماب لنچنگ ہورہا ہو۔نجیب کو اس قدر پیٹا گیا کہ اس کے کان اور ناک سے خون بہنے لگے۔اس نے مدد کے لیے آواز لگائی، مگر گارڈ تک اس کی مدد کے لیے نہیں آئے۔جب صبح میں اس کی ماں (فاطمہ نفیس) اپنے بیٹے کو دیکھنے بدایوں سے جے این یو پہنچی تو نجیب وہاں نہیں تھا۔ اس وقت سے نجیب غائب بتایا جاتا ہے۔ اپنے بیٹے کو پانے کے لیے نجیب کی ماں گزشتہ دو سالوں سے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں، انہوں نے سب کو مدد کے لیے پکارا، تمام متعلق محکموں میں فریاد کی، مگر اب تک وہ اپنے بیٹے کے انتظار میں آنسو بہا رہی ہیں۔ نجیب سانحہ نے مسلم طلبا کے دلوں میں خوف بھر دیا۔ جے این یو اور دیگر تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے سے پہلے ان کے والدین کئی مرتبہ سوچنے لگے۔ محروم طبقات یونیورسیٹوں میں اپنے بچوں کو بھیجنے سے ڈرنے لگے۔

            اس طرح جے این یو پر حملے در حملے ہوتے رہے۔یونیورسیٹی کو مزید پرائیویٹ کرنے اور سنگھی نظریہ کے حامل افراد کو نوکریوں میں بحال کرنے کی کوششیں کی گئیں۔اس طرح یہاں کے تعلیمی معیا رکوچوپٹ کیا گیا۔ دوسری طر ف ریزرویشن بھی پورا نہیں کیا جا رہا ہے۔ داخلہ کے لیے بنائے گئے نئے’پیٹرن ‘میں ملٹی چوائیس سوالات کا نظام لایا جا رہا ہے۔ اگر ایساہوا تو طلبا کی ’اینالیٹکل‘یعنی تجزیاتی صلاحیتوں کی جانچ نہیں ہو سکے گی، جو کہ تحقیق اور ریسرچ کے لیے کافی اہم ہوتا ہے۔علاوہ ازیں، اس سال کے داخلہ سے متعلق امتحانات کی فیس کو 300 فیصد بڑھا دیا گیا ہے، جس کو لے کر طلبا احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک طر ف فیس میں اضافے کو فنڈ پیدا کرنے کے نام پر جائز قرار دیا گیا ہے وہیں عوام کے پیسے کو غیر ضروری چیزوں پر پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر جے این یو انتظامہ نے لاکھوں لاکھ روپے’مجسمے‘بنانے اور سنگھ سے جڑے بابا اورگروؤں کے پروگرام کو منعقد کرنے میں خرچ کیا ہے۔ممبئی میں واقع ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز (TISS) میں بھی فیس بڑھانے اور محروم طبقات کو دی جانے والی اسکالر شپ کو ختم کیے جانے کے خلاف لمبے وقت تک لڑائی چلی،مگر انتظامیہ اپنے طلبہ مخالف موقف پر بضد رہا۔ فیس نہ صرف سوشل سائنس بلکہ سائنس سے متعلق دوسرے کورسز کی بھی بڑھی ہے۔ تعلیمی اداروں کو پیسے اگائی کا اڈہ سمجھ لیا گیا ہے۔ ٹھیک اسی وقت دوسری جانب نوکریوں کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔ سالہا سال سے خالی پُرنہیں کی گئی ہیں۔ ہر جگہ گیسٹ پوزیشن بنا کر کام چلایا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔دہلی یونیورسیٹی میں زیادہ تراساتذہ گیسٹ فیکلٹی کے طور پرکام کر رہے ہیں۔ اس پوری پالیسی سے ہمارے ملک کی تعلیم کے معیار کو کافی نقصان پہنچاہے۔

            مودی جی کے دور حکومت میں علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی پر بھی کئی حملے ہوئے۔ بات بات پر پولیس بلائی گئی۔اس دوران بھگوا شدت پسند کیمپس میں کافی سرگرم رہے اور انہوں نے یونیورسیٹی کے ماحول کو خراب کرنے کے لیے ہرممکن جتن کیا۔ان کو حکومت اور انتظامیہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ پچھے سال پولس کے ذریعے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کئی طلبا پر تشدد کیاگیا۔ اس سال کئی سارے طلبا، جن میں طلبا یونین کے لیڈران بھی شامل ہیں، پر ’غداروطن‘ کا جھوٹا مقدمہ دائر کیا گیا۔ سب سے زیادہ ہنگامہ تومحمد علی جناح کی تصویر پر مچایا گیا۔ شر پسندوں نے مطالبہ کیا کہ جناح کی تصویرکو یونیورسٹی سے ہٹا کر پھینک دیا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو وہاں کے طلباکو دیش بھکت نہیں ماناجائے گا۔اس پورے فتنے کااصل مقصد اے ایم یو اور مسلمانوں کو بدنام کرنا تھا۔ جذباتی مسئلے اٹھا کر، شر پسند اصلی سوالات سے عوام کا دھیان ہٹانا چاہتے ہیں۔

            ان شر پسندوں کو کون بتائے کہ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم ایک حقیقت ہے۔ یہ ہندوستان کی بدقسمتی تھی کہ یہ تقسیم ہوا۔ مگر ملک کی تقسیم بھی دونوں ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ تاریخ کو الگ نہیں کر سکتی ہے۔اگر ملک کی تقسیم کے لیے جناح ’قصوروار‘تھے اورجناح کی تصویر، جو اس زمانہ میں اے ایم یو میں لگی جب جناح اورکانگریس کے لیڈران ایک ساتھ کام کرتے تھے، تو پھر انگریزوں سے جڑی ہوئی ساری یادگاریں کیسے جائز ہو سکتی ہیں جنہوں نے ہمارے ملک پر دو سو سالوں تک حکموت کی اور ہمارا استحصال کیا؟ جہاں تک بات اس کی ہے کہ تقسیم کے لیے کون ذمہ دار کہ ہے تو اس کا جواب بھی آسان نہیں ہے۔کیا  یہ حقیقت نہیں ہے کہ کانگریس پارٹی مسلمانوں کے واجب مطالبات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھی؟

            اے ایم یوکے علاوہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کو بھی ’جناح پریمی‘اور ’ہندو-مخالف‘ ہونے کا الزام لگایا گیا اور اس پر ہنگامہ کھڑاکیا گیا۔بھگوا شدت پسند تنظیموں سے جڑے ہوئے کچھ شر پسند جامعہ کے گیٹ پر آکر اشعاں ل انگیزی کرنے لگے۔ ان فرقہ پرستوں کو کون سمجھائے جامعہ کے قیام میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کابڑا اہم رول رہا ہے۔جامعہ جیسے قومی تعلیمی ادارے کا قیام کانگریس کے 1920 کی دہائی میں بنائی گئی قومی تعلیمی پالیسی کے بعد وجود میں آیا۔ قومی تعلیمی پالیسی کا مقصد تھا کہ ایسے تعلیمی اداروں کا قیام کیا جائے جو خود مخطار ہو اور جو ہندوستانیوں کی ضرورت کو پورا کرے۔

              مودی کے اس پانچ سال کے دور حکومت میں کشمیری طلبا بھی نشانہ پر رہے ہیں۔ تعلیم کے لیے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر ملک کے مختلف حصوں میں پڑھ رہے ان کشمیری طلبا کو ہر چھوٹی بات پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ اگر کرکٹ کے میدان میں بھارت پاکستان سے میچ ہار گیا تو اس کے غصے میں کشمیریوں پور حملے کیے گیے۔ ان پر الزام لاگایا گیا کہ وہ پاکستان کی جیت کا ’جشن‘ منا رہے تھے۔ جب کبھی ہندوستانی فوج پر حملے ہوئے تو ان کے سوشل میڈیا کے پوسٹ کو ڈھونڈھ دھونڈھ کر سامنے لایا گیا اور ان پوسٹ کو دہشت گردوں ؎کی حمایت میں لکھا گیا بتایا گیا۔ ان کے خلاف سخت کاروائی کی گئی اور ان کو یونیورسٹی سے باہر کر دیا گیا۔

            دلت، آدی واسی، پچھڑے طبقات کے اوپر بھی زبردست مار پڑی ہے۔انہیں بھلے ہی پاکستان حمایتی کہہ کر نہ ستایا گیا ہو، مگر ان کے آئینی حقو ق ریزرویشن پر ایک کے بعد ایک حملے کیے گئے ہیں۔ ان کے خلاف سازش رچی گئی اور 13پوائنٹ روسٹر کے نام پر ان کا ریزویشن ہضم کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔

            یہ سارے واقعات یہ بیان کر رہے ہیں کہ مودی سرکار کی تعلیمی پالیسی مجموعی طور پر طلبا مخالف رہی ہے۔ بھارت جیسے ملک میں ضرورت اس بات کی کہ ہے کہ تعلیم پر بجٹ کا زیادہ سے زیادہ حصہ خرچ کیا جائے، مگر مودی حکومت نے بجٹ بڑھانے کے بجائے اسے اور کم ہی کیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبا ان پانچ سالوں میں ان پالیسیوں کی مخالفت میں آواز بلند کرتے رہے ہیں۔اگر ان کا یہ غصہ برقرار رہا،تو مودی حکومت کے لیے دوبارہ اقتدار میں آنا مشکل کام ہوگا۔

Abhay Kumar

M Phil (Modern History)

Centre for Historical Studies

Jawaharlal Nehru University

New Delhi-110067

اپریل 2019

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں