ملی اتحاد میں طلبہ مدارس کا کردار

0

ڈاکٹر محی الدین غازی، ہیڈ آف ریسرچ، دارالشریعۃ، متحدہ عرب امارات
ملی اتحاد ضروری ہے ، اور اس لئے ضروری ہے کہ وہ ایک شرعی فریضہ ہے، قرآن وسنت میں اس کا تاکیدی حکم ہے، اور اس حکم کی پامالی پر شدید وعیدیں ہیں۔ملی اتحاد اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز اور روزہ فرض ہیں۔امت کا دشمن متحد ہو یا منتشر، غالب ہو یامغلوب، امت کا اتحاد ہر حال میں فرض کا درجہ رکھتا ہے۔
ملی اتحاد کے لیے علماء اور اہل مدارس کا اتحاد ناگزیر ہے۔ درحقیقت ملی اتحاد کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے جب تک دینی مدارس کی جانب سے اس سمت میں سنجیدہ کوششیں نہیں ہوں۔وجہ یہ ہے کہ ملت کے مزاج ورجحان پر مدارس اور مدارس سے فارغ ہونے والے فضلاء کا گہرااثر ہوتا ہے۔ ملت کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ وہ مختلف مسلکوں اور گروہوں میں تقسیم ہے اور ہر مسلک اور گروہ کی قیادت کا سر رشتہ کسی نہ کسی مدرسے سے جڑا ہوا ہے۔ دینی قیادت کی نشونما بھی وہیں ہوتی ہے اور انہی مدارس کے احاطہ میں دین کے مبلغین کی ذہن سازی بھی ہوتی ہے۔ مدارس میں ہونے والی ذہن سازی اور بنایا گیا مزاج بتدریج پورے معاشرے پر گہرے اور دور رس اثرات ڈالتا ہے۔
تا حال ملی اتحاد کے تعلق سے جتنی بھی کوششیں ہوئی ہیں ان میں ایک بڑی خامی یہ رہی ہے کہ یہ ادارہ جاتی تدبیر ی کوششوں سے خالی تھیں۔ مدارس کی سطح پر کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا گیا، بلکہ بسا اوقات تو اس سلسلے میں مدارس کے کردار کی نشان دہی بھی نہیں کی گئی۔ حالاں کہ ملی اتحاد کے لیے مدارس کی سطح پر ادارہ جاتی کوششوں کا کردار بہت ہی کلیدی نوعیت کا تھا اور ہنوز ہے۔
ملی اتحاد۔ مدارس کی ضرورت
جس طرح ملی اتحاد کے لیے مدارس کا رول ضروری ہے اسی طرح خود مدارس کے تحفظ اور ارتقاء کے لیے ملت کا متحد ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اہل مدارس جو موجودہ سخت حالات میں مدارس کی حفاظت کے تعلق سے بے چین اور فکر مند ہیں۔ انھیں یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ملت کا اتحادان کی اپنی ضرورت ہے۔ منتشر بکھری ہوئی اور باہم دست وگریباں قوم کسی بھی محاذ پر ہونے والی پے در پے شدید یلغار کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔ جس قوم کی توانائیوں کا بیشتر حصے اندرونی مسائل، داخلی اختلافات اور فرقہ بندیوں پر صرف ہوجائے وہ نہ تو اپنی عبادت گاہوں اور درس گاہوں کی حفاظت کر سکتی ہے، نہ اپنے تعلیمی نظام اور تہذیبی اعتبار کو باقی رکھ سکتی ہے۔ اور جب کہ حریف بہت طاقتور، بے حد عیار،اپنے مذموم مقاصد کے لیے سنجیدہ اور امت کے ساتھ چومکھی لڑائی کے لیے حد درجہ متحد ومنظم ہو،اور پھر جب کہ یہ کشمکش عالمی سطح کی ہو۔
اہل مدارس کا مدارس کے تحفظ کے لیے فکر مند ہونا اور ملی اتحاد کے تعلق سے بے فکر ہونا ایک طربناک المیہ ہے جس کا انجام کسی کے لیے بھی بہتر نہیں ہوسکتا ہے۔
مدارس کے مقاصد
مدارس کے اتحاد کی ایک اہم بنیاد خودان مدارس کے طے کردہ مقاصد ہوسکتے ہیں۔ امت مسلمہ کا متیاز یہ ہے کہ وہ امت واحدہ ہے اور اس کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ اس مقصدی وحدت وامتیاز کا اثر نمایاں طور سے مدارس کے طے کردہ مقاصد میں نظر آتا ہے۔ مسلکی وجماعتی تعصب کے اس پر آشوب ماحول میں بھی تمام ہی مدارس کے اہداف و مقاصد ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر نظر آتے ہیں۔ بعض مدارس نے تو اپنے مقاصد میں بہت کھل کر اس طرح کی گروہ بندیوں سے براء ت کا اعلان اور انھیں مٹانے کے عزم کا اظہار کیا ہے بقیہ مدارس نے بھی ایسے الفاظ اختیار کیے ہیں جو کسی تعصب اور گروہ بندی کی گنجائش نہیں رکھتے ہیں۔ مقاصد کا مطالعہ کرنے والا یقینی طور سے اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ ہندوستان کے تمام مدارس اپنے مقاصد کے آئینے میں امت واحدہ کے تصور کے علم بردار اور علوم اسلامیہ کی حفاظت واشاعت کے امین ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات بھی ایک حیرت انگیز انکشاف ہوگی کہ نصاب تعلیم کی متعدد کتابیں برصغیر کے تمام مدارس میں خواہ وہ کسی مسلک وگروہ سے تعلق رکھتے ہوں مشترک ہیں اور تمام مدارس میں یکساں انداز سے پڑھائی جاتی ہیں۔
لیکن تصویر کا تکلیف دہ رخ یہ بھی ہے اور جو کسی سے مخفی بھی نہیں ہے کہ مقاصد کی بلندی وہم آہنگی کے باوجود مدارس کی صورتحال اور ملی اتحاد میں مدارس کا رول نا قابل اطمینان اور بسا اوقات تشویش ناک ہے۔
شاہ ولی اللہ دہلوی ایک نمونہ
جب بات ملی اتحاد اور اس میں علماء اور اہل مدارس کے رول کی ہو تو بے اختیار شاہ ولی اللہ دہلوی کا ذکر آجاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کی شخصیت طلبہ مدارس کے لیے ایک نمونہ اور ایک سبق کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہندوستان کے تمام علمی سلسلے ان سے ملتے ہیں، تمام ہی مسلک و فکر کے لوگ ان سے اپنا رشتہ جوڑتے ہیں۔ بلکہ ہر مسلک کے لوگ انھیں اپنا سمجھتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کی شخصیت وسعت فکر و نظر اور مسلکی رواداری کی ایک درخشاں مثال ہے۔ مثبت رخ پر طلبہ کی ذہن سازی کے لیے یہ عظیم شخصیت معاون ہوسکتی ہے۔
طلبہ مدارس ایک عظیم سرمایہ
مدارس کے طلبہ ملت کا عظیم سرمایہ ہیں۔ یہ ملت کی دینی قیادت کا مستقبل ہیں۔انتہائی ضروری ہے کہ ان کی ذہن سازی مثبت خطوط پر ہو۔ ان کے اندر قلب ونظر کی وسعت پیدا کی جائے تاکہ ملت کے باہمی اختلافات کی المناک کہانی اختتام کو پہنچ سکے۔میں یہ نہیں کہتا کہ ملت کے اندرونی اختلافات کو فضلائے مدارس ہوا دیتے ہیں لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اگر فضلائے مدارس اخلاص اور سنجیدگی کے ساتھ کوشش کریں تو یہ اختلافات بہت محدود ہوجائیں گے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ متحدہ مجلس عمل برائے تحفظ مدارس قائم کرنے والے اہل مدارس متحدہ مجلس عمل برائے اتحاد ملت بھی قائم کریں تاکہ وہ جذبۂ خود حفاظت کے الزام سے بری رہ سکیں۔
چند تجاویز
سردست ادارہ جاتی کوششوں کے ذیل میں کچھ تجاویز پیش ہیں۔ ان کا تعلق طلبہ کی ذہن سازی سے ہے۔ اساتذہ وذمہ دار ان مدارس ان کے سلسلے میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ ان تجاویز کے پیش کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ادارہ جاتی کوششوں کے سلسلے میں غوروفکر کا سلسلہ آگے بڑھے۔
*بین المدارس طلبائی پروگرام
مدارس میں ایسے پروگرام ہوں جن میں مختلف مدارس کے طلبہ کو شریک ہونے اور تبادلہ خیال کرنے کے آزادانہ مواقع فراہم کیے جائیں۔ سن ۱۹۹۳ ؁ء میں جامعتہ الفلاح کی جمعیۃ الطلبہ نے علوم القرآن سیمینار کرایا تھا۔ اس میں ملک کے متعدد مشہور اداروں کے نمائندہ طلبہ نے مقالات پیش کیے تھے، دوروزہ سیمینار میں سوال و جواب کا وافر موقعہ تھا۔ معیار کے لحاظ سے یہ کسی بھی اعلیٰ سطح کے سیمینار سے کم نہیں تھا۔ دارلعلوم ندوۃالعلماء، جامعہ سلفیہ بنارس، مدرستہ الاصلاح کے علاوہ بھی کئی مدارس کے طلبہ شریک تھے۔ طلبہ کے اندر وسعت فکرونظر پیدا کرنے اور گفتگو کی خوشگوار فضا بنانے کے لیے اس طرح کے پروگرام بے حد مفید ہوسکتے ہیں۔
* مشترکہ پلیٹ فارم کا استعمال
طلبہ تنظیموں، ویلفیر سوسائٹیوں اور اس طرح کے دوسرے اداروں کے زیر اہتمام ہونے والے تربیتی کیمپوں، کانفرنسوں اور تقریبات میں شرکت بھی طلبہ کے ذہنی وفکری افق میں وسعت دیتی ہے۔ اس طرح کے پروگراموں میں شرکت کی اجازت بلکہ حوصلہ افزائی کے سلسلے میں مدارس کو اپنے تحفظات میں کچھ تخفیف کرنا چاہیے۔یقیناًاس سلسلے میں طلبہ کا تعلیمی وتربیتی مفاد ملحوظ رکھنا ضروری ہے لیکن اس میں بیجا شدت ان کو متعدد علمی وفکری تربیت کے مواقع سے محروم بھی کر سکتی ہے۔
بعض سفارت خانوں کی طرف سے ہونے والے مقابلہ حفظ قرآن وحفظ حدیث، اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے زیراہتمام ہونے والے تربیتی کیمپ اور ماضی میں مرحوم اسٹوڈنٹس اسلامک ویلفیر سوسائٹی کی جانب سے ہونے والے ورکشاپ اس سلسلے کی اچھی مثالیں ہیں۔
*طلبائی وفود کا تبادلہ
طلبہ کے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ ہندوستان کے تمام مدارس ملت اسلامیہ کے دینی وملی تشخص کے قلعے ہیں۔ ہر مدرسے کی اپنی خدمات ہیں۔ اور ہر مدرسہ لائق تو قیرو محبت ہے۔یہ جذبہ تو قیرو محبت انھیں مختلف مدارس کی طرف بقصدزیارت لے جائے، طلبہ کو بشکل وفود مختلف مدارس کا دورہ کرنے پر ابھارا جائے، دوسری جانب جن مدارس کا وہ دورہ کریں وہاں ان کا خوش دلی سے استقبال کیا جائے بحیثیت مہمان ان کے قیام کا انتظام اور وہاں کے طلبہ سے تبادلہ خیال کا موقع فراہم کیا جائے۔ میرے مشاہدے کی حد تک جامعہ دارالسلام عمر آباد سے شعبہ دعوت کے طلبہ کے وفود اور بشکل افراد مختلف مدارس کا باضابطہ دورہ کرتے ہیں، دیگر طلبہ مدارس کے غیر رسمی دورے بھی بشکل وفود ہوتے ہیں۔ یہ رجحان اور عام ہونا چاہیے۔ اور اس کی افادیت بڑھانے پر غور وفکر ہونا چاہیے۔
* فاصلاتی انعامی مقابلے
مختلف مدارس میں تحریری وتقریری مقابلے ہوتے ہیں۔ تقریری بہت زیادہ اور تحریری بہت کم۔ ضرورت ہے کہ تحریری سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے تحریری مقابلوں پر بھی زیادہ توجہ دی جائے اور اندرون مدرسہ مقابلوں کے علاوہ مختلف بڑے مدارس ایسے تحریری مقابلے بھی کرائیں جن میں دیگر مدارس کے طلبہ کو بھی شرکت کا موقع ملے۔ اس کے کئی فائدے ہیں۔ ان مدارس کے طلبہ کو بھی اس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع ملے گا جو تحریری ذوق رکھتے ہیں مگر ان کے یہاں ان کے شوق کی تکمیل کا سامان نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ اپنے مدرسے کے حدود سے باہر نکل کربین المدارس مقابلوں میں شرکت با ذوق طلبہ کے حوصلوں کو دوچند کر دیتی ہے اور انھیں مسابقت کے وسیع وہمہ گیر تصور سے متعارف کراتی ہے، پھریہ کہ اس قسم کی سرگرمیاں بین المدارس تعلق اور نسبت کا سبب بنتی ہیں۔ گذشتہ چند سالوں کے اندر اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا نے یوپی کی سطح پر دو مقابلے برائے مضمون نگاری کرائے اور دونوں ہی میں ریاست کے تیس سے زائد مدارس کے طلبہ کی کثیر تعداد نے حصہ لیا، فاصلاتی کا ذکر اس لیے کیا جارہا ہے کیونکہ ایک جگہ مختلف مقامات اور مدارس کے طلبہ کو یکجا کر کے اس انداز کی سرگرمیاں انجام دینا بسااوقات مشکل ہوتا ہے۔ادارہ علوم القرآن علی گڑھ نے بھی اس طرح کے مقابلوں کا اہتمام کیا ہے۔
فارغین مدارس کا تبادلہ
ہمارے محترم صباح الدین ملک فلاحی قاسمی کے ذہن نے یہ تجویز اختراع کی کہ ہندوستان کے ہر مشہور دینی مدرسے کی اپنی جداگانہ خصوصیات ہیں۔ کوئی بھی درس گاہ تمام تخصصات میں یکساں امتیاز کی حامل نہیں ہے۔ اس لیے ایک مدرسے سے فراغت کے بعد شوقین طلبہ کے لیے دوسرا مدرسہ بھی تکمیل شوق کا سامان فراہم کرتا ہے۔ جو طالب علم ایک مدرسہ سے فراغت کے بعد دوسرے مدارس میں تعلیم حاصل کرتا ہے وہ ایک طرف اپنی فکرو نظر میں حیرت انگیز وسعت پیدا کرلیتا ہے، اور مزیدخصوصیات اور تخصصات کا حامل ہوجاتا ہے، وہیں وہ اس دوسرے مدرسے اور اپنی سابق درسگاہ کے درمیان سفیر کا اہم کردار بھی ادا کرتا ہے، اور مختلف نقطہائے نظر میں قربت کا ذریعہ بنتا ہے۔ امام شافعیؒ کے بارے میں معروف ہے کہ انھوں نے حجاز سے عراق کا سفر کر کے حجازی مکتب فکر اور عراقی مکتب فکر میں قربت پیدا کی اور دونوں کو ایک دوسرے سے صحیح طور سے متعارف کرایا۔
آج ضرورت ہے کہ اس رجحان کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے اور اس کے لیے بھر پور اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا جائے۔یہ ہمارے اسلاف کی شاندار روایات کا حصہ ہے۔
* مشترکہ علمی سرمایہ سے استفادہ
دارالعلوم دیوبند کے ایک فاضل نے قرآن مجید کے تراجم وتفاسیر تک رہنمائی کے لیے ایک ویب سائٹ بنائی۔ ویب سائٹ کا نام ہے: www.mtkn_deoband.org جناب اشرف عثمانی ماہنامہ ترجمان دیوبند میں اس کاتعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یقیناًیہ ایک خوشی کی بات ہے کہ دارالعلوم کے ایک نوجوان فاضل کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کے نائب ناظم مولانا شاہ عالم گورکھپوری نے دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی اور جماعت اہل حدیث ان چاروں اسلامی مکاتب فکر کو مذکورہ ویب سائٹ میں ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے قرآن مجید کی صحیح دعوت وپیغام کو عام کرنے کا نہ صرف یہ کہ بہتر طریقہ اپنایا ہے بلکہ اسلام کے نام سے دین اسلام میں تخریب کاری کرنے والوں کے شر سے مسلمانوں کو محفوظ کرنے کا عمدہ اور متفق علیہ طریقہ اپنایا ہے۔‘‘ ( ترجمان دیوبند،جولائی ۲۰۰۳ ؁ء) ضرورت ہے کہ اس طرح کے خوش آئند اقدام کو اور وسعت دی جائے۔ ہمارے مدارس کے کتب خانوں میں ملت کے متقدمین، متأخرین اور معاصر علماء ومصلحین کی تمام علمی کاوشیں بلاتفریق مسلک وفکر فراہم کرنے کی کوشش کی جائے ۔بطور خاص معاصر علماء ومفکرین کے تعلق سے ہمارا کتب خانہ غیر جانبدار ہو۔ ہمارے اساتذہ کو طلبہ کے سلسلے میں اور ان پر صرف کی گئی برسوں کی تعلیمی وتربیتی محنت کے سلسلے میں بہت پر اعتماد ہونا چاہیے۔ ورنہ بقول حفیظ میرٹھی ؂
یہ نہ سننا یہ نہ پڑھنا یہ نہ بن جانا کہیں
شوق کے دروزاے ان پابندیوں نے واکئے
* ملی اتحاد پر خصوصی مطالعہ
دینی مدارس کے طلبہ کا ذہن ملی اتحاد کے تعلق سے بہت صاف اور مثبت ہو۔ وہ اتحادو یکجہتی اور مسلکی رواداری کے اصولوں سے پوری طرح واقف ہوں۔ وہ رواداری اور حق سے دست برداری کے فرق سے آگاہ ہوں، ملی اتحاد کی ضرورت واہمیت ان پر واضح ہو،اس کے لیے ان کتابوں کا خصوصی مطالعہ ضروری ہے جو اس مقصد کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہیں۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کی الانصاف فی مسائل الخلاف ،مولانا صدرالدین اصلاحی کا مذکورہ کتاب کا ترجمہ وتلخیص بعنوان ’’اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ‘‘ اس سلسلے کی اہم کتابیں ہیں۔ واضح رہے کہ مذکورہ تجاویز اسی وقت مفید ہوسکتی ہیں، جب دماغ ملی اتحاد کی واقعی اہمیت اور صحیح تصور سے واقف ہو، اور دل میں ملی اتحاد کے لئے ایک جذبہ صادق ہو، ورنہ امت کے لاکھوں افراد حج کے موقع پر جمع ہوتے ہیں ایک ساتھ مناسک حج ادا کرتے ہیں، ایک امام کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں، ایک خدا کے گھر کا طواف کرتے ہیں، اور پھر واپس آتے ہیں، تو کچھ کے دل میں جذبہ امت ہوتا ہے تو کچھ کے دل میں عصبیت کی عفونت۔
* وقت کی پکار
ہر سال ہندوستان بھر کے دینی مدارس سے ہزاروں فضلاء فارغ ہورہے ہیں۔ گو کہ ہندوستانی مسلمانوں کی آبادی میں ان کا تناسب ایک فیصد بھی نہیں ہے لیکن ماضی میں ان سے کہیں کم تعداد نے حیرت انگیز کارنامے انجام دئے تھے اور ان کی محنت وجدوجہد کے فیض سے ہندوستان کیا ساری دنیا میں عظیم تبدیلیاں آئی تھیں۔ آج بھی وقت آواز دے رہا ہے کہ طالبان علوم نبوت اپنا متوقع کردار ادا کریں۔ دعوت دین کی مہلت جوہر داعی قوم کو ملا کرتی ہے تیزی سے ختم ہورہی ہے۔ ہوش مند قیادت کی بات ہویا محنتی وباشعور کارکنان کی، ہر سمت قحط الرجال کا عالم ہے اور بقول اقبال ؂
دیکھ مسجد میں شکست رشتہ تسبیح شیخ
بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights