سمیع اللہ خان
اِس وقت ملکی معیشت ٹوٹ پھوٹ چکی ہے، ہماری معیشت کا جی ڈی پی قابل رحم ہوچکاہے۔ مارکیٹ میں اب صرف ڈیمانڈ ہی نہیں سپلائی کا سیکٹر بھی قلاش ہوچکا ہے۔ بینکوں کا دیوالیہ نکل رہا ہے یا نکالا جا رہا ہے۔ ٹیلی کوم سیکٹر لاکھوں کروڑ کے خسارے میں ہیں۔ تیل کے ذرائع مہنگائی کی چوٹی پر ہیں۔ شیئر مارکیٹ اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کسادبازاری کے شکار ہيں۔ ہماری کرنسی کی گراوٹ مسلسل جاری ہے آٹو موبائل سیکٹر اور ذراعت، ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں تجارت مشکل ترین ہوتی جارہی ہے۔1991 میں ہندوستان نرسمہا راؤ کے دور میں بدترین معاشی بحران سے گزر رہا تھا، ملک کے سونے کے ذخائر تک داؤ پر لگ چکے تھے، اُس وقت ملک کے نو منتخب فائنانس منسٹر منموہن سنگھ نے ہندوستان کی معاشی تاریخ میں سب سے بڑا فیصلہ لیا، اور ہندوستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے دروازے کھولے، نجکاری اورلیبرلائزیشن کے ذریعے ہندوستانی معیشت کو مضبوطی دی گئی۔ یہ ہندوستان کے معاشی حالات کو مضبوط کرنے کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ پھر 1994 میں منموہن سنگھ نے ہی ایک نیا ٹیکس متعارف کروایا، “سروس ٹیکس”۔ جس کے ذریعہ پہلے سال کی آمدنی اُس زمانے میں لگ بھگ دس لاکھ ہوئی۔ جو دھیرے دھیرے ترقی کرتے ہوئے 2016 میں تقریباً 2000 کروڑ پہنچ گئی۔ اس طرح کے فیصلوں سے ہندوستان معاشی بحران سے اُبھرا اور ہندوستان کی معیشت کافی مضبوط ہوئی- اور ہندوستان کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہونے لگا۔
ليکن یہ ہندوستانیوں کی بدقسمتی رہی کہ عین جس وقت بھارتی معیشت انگڑائی لے رہی تھی اسی وقت انتخابات ہوگئے اور 2014 میں نومنتخب وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی غلط پالیسیوں پر عمل درآمد کرنا شروع کیا اور پہلے ہی فیصلہ میں “پلاننگ کمیشن” جو کہ ہندوستان میں 1951 سے تھا، یہ ملک کی معاشی حالات پر نظر رکھ کر حکومت کو مفید مشورے دیا کرتا تھا، اس قابل کمیشن کو نریندرمودی نے برخاست کر دیا۔
۸ نومبر 2016 کو ہندوستان کی مودی سرکار نے نوٹ بندی کا فیصلہ کیا، جس سے ہندوستان کی معیشت میں جو روپیہ گردش کررہاتھا وہ عوام کے ہاتھوں سے نکل گیا، اور ہندوستان کے بازار یکایک نقدی بحران کے شکار ہوگئے۔ جس کی وجہ سے ہندوستان کی ہر طرح کی معیشت کی سرمایہ کاری میں ریکارڈ گراوٹ آنے لگی، دوسری طرف نئے نوٹوں کی چھپائی کے لیے گورنمنٹ کو ہزاروں، لاکھوں کروڑ کا اضافی خرچ برداشت کرنا پڑا۔ نوٹ بندی کی وجہ سے ہندوستانی بازار بری طرح متاثر رہا ابھی نوٹ بندی کا نقصان برابر بھی نہیں ہوپایا تھا کہ نوٹ بندی کے ۸ مہینے بعد ہی GST کے نام سے ٹیکس وصولیابی کا نیا طریقہ رائج کیا گیا، ماہرین اقتصادیات کے مطابق جی ایس ٹی، درحقیقت ایک اچھی چیز تھی، لیکن اس کا نفاذ جس طریقے سے ہوا، اس نے ایک نئے معاشی بحران کو جنم دے دیا۔ جی ایس ٹی کے آنے کی وجہ سے پرانے بلاواسطہ ٹیکس (باستثنائے چند) ختم ہوگئے، نئے ٹیکس کی وصولیابی کا طریقہ منظم نہیں ہوا جس کی وجہ سے بجائے فائدہ ہونے کے حکومتی خزانے کو نقصان ہوگیا، اور جی ایس ٹی کے نفاذ کی سالانہ بلاواسطہ ٹیکس وصولی کی شرح گزشتہ سالوں کے مقابلےمیں تقریباﹰ ۱۰ فیصدی کمی واقع ہوئی، جبکہ گورنمنٹ کا دعویٰ یہ تھا کہ جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد بلاواسطہ ٹیکس کی مالیت میں اضافہ ہوگا، لیکن ایسا ہوا نہیں، جوکہ اس کا بات کا ثبوت ہےکہ نوٹ بندی کی طرح جی ایس ٹی بھی پوری طرح سے غلط فی مالیاتی سال کا اعلامیہ اس قدر خراب اور ملکی معیشت کے لیے اتنا تباہ کن ہے کہ، ہندوستان کی معروف ترین انفوسیس کمپنی کے ڈائریکٹر موہن داس پائی نے تو یہاں تک کہا کہ “Even Went So Far as to call it Tax Terrorism”(یہ حکومت کی ٹیکس کے ذریعے دہشت گردی ہے)
حکومتی خزانے کی صورتحال بدترین طور پر خستہ حالی کا شکار ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا تک کو مرکزی سرکار نے اپنی بدترین اور متعصبانہ پالیسیوں پر قربان کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے اسطرح جو لوٹ مار والی پالیسیاں 2014 سے شروع ہوئیں انہوں نے ۲۰۲۰ تک بھارتی معیشت کو قابلِ رحم حالت میں پہنچا دیا تھا، یہاں تک کہ کرونا وائرس لاک ڈاؤن آگیا۔
درج بالا تفصیلات کا مقصد اس سرکاری عذر لنگ کا تعاقب ہے جس میں یہ بیان کیا جاتاہے کہ موجودہ بھارتی معیشت کی ٹوٹ پھوٹ صرف اور صرف کورونا وائرس لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہوئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کورونا کی وباء آنے سے پہلے ہی ہندوستانی معیشت کا ہر ستون ہل چکا تھا اور مالیاتی نظام رینگنے لگا تھا، کورونا کے آنے سے پہلے ہی بھارت کا معاشی نظام گزشتہ دو دہائیوں کے اپنے سب سے بحرانی دور میں داخل ہوچکا تھا اور کرونا کےبعد یہاں کی معیشت پوری طرح تتر بتر ہوگئی۔ کورونا کے پہلے سے ہی بے روزگاری کا ریکارڈ گزشتہ 45برسوں میں سب سے زیادہ ہوچکا تھا اور کسانوں کا مارکیٹ بھی منفی وادیوں میں گر رہا تھا، بازار سے آمدورفت اور خریدوفروخت متاثر ہوچکی تھی، یہ سب کرونا سے پہلے تھا، کرونا لاک ڈاؤن نے بس یہاں کے زوال پذیر معاشی نظام کو آخری دھکا دے دیا۔ کورونا وائرس جس قدر طبی وباء تھی اس سے کئی گنا زیادہ یہ معاشی وباء کی صورت میں برپا ہوئی اور مودی سرکار کے غیر مرتب لاک ڈاون نے کم از کم ملک میں اس کورونا کے بحران کو معاشی اور غربت کی وبائی صورت دے دی۔ مالیاتی سال ۲۰۲۰-۲۱ کی پہلی سہ ماہی کے مطابق ہندوستانی معیشت %23.9 کے حاشیے پر آجاتی ہے، لیکن اگر ان اعداد و شمار سے اوپر اٹھ کر آپ دیکھیں تو حالت مزید قابلِ رحم نظر آتی ہے۔ ملک کے معاشی نظام میں غیر منظم یعنی مین اسٹریم کے علاوہ کاروبار کی نمائندگی اکنامک ٹائمز کے مطابق 94 فیصدی ہے جوکہ ملک کی تمام نمو کا 45 فیصدی بنتا ہے اس لحاظ سے جی ڈی پی شماری کا عمل بقیہ 6 فیصدی منظم کاروباریوں کےمطابق مرتب ہو رہا ہے جبکہ کورونا کے غیر مرتب اور احمقانہ لاک ڈاؤن کی مار چھوٹے دوکانداروں اور غیرمنظم کاروباری سیکٹر پر سب سے زیادہ پڑی ہے اور نہایت بے رحمی سے اس نے %94 فیصد لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ سب سے زیادہ بے روزگاری بھی اسی طبقے میں بڑھی ہے اور انہی کے زیادہ تر کام کاج ٹھپ ہوئے ہیں۔ لاک ڈاؤن اور کورونا کے پہلے سے ہی ملکی بازار ٹوٹنے لگے تھے، ڈیمانڈ میں کمی، نمو میں گراوٹ، اور بے روزگاری میں بے تحاشا اضافہ کورونا سےقبل ہی شروع ہوچکا تھا کرونا نے بس اس بحران کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کی معیشت ابھر رہی ہے، لیکن ان دعووں پر یقین کرنے کیلئے کوئی گراؤنڈ نظر نہیں آتا، قومی خزانے کا حال کیا ہے اندازہ لگائیےکہ امسال مرکزی حکومت نے اپنے خرچ میں ۲۰ فیصد سے زائد کٹوتی کی ہے دوسری طرف بازار میں کوئی ہلچل ڈیمانڈ کی نظر نہیں آتی اور بازار میں بڑی خرید و فروخت کے بند ہونے کی وجہ سے کاروباری سیکٹر میں بے روزگاری ویسے ہی بڑھ رہی ہے، اور جس طرح ملکی خزانہ برباد ہوچکا ہے وہ دیگر شعبوں میں روزگار اور انوسٹمنٹ کے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ رئیل اسٹیٹ تو پوری طرح دھکے کھا رہا ہے، ايسے میں جو بجٹ آیا ہے وہ بھی کوئی مؤثر مدد نہیں کر پا رہا ہے کیونکہ بجٹ کے تقریباﹰ اہداف 6 فیصد ہائی پروفائل کاروباری سیکٹرز کو فائدہ پہنچانا ہے، تعلیم، روزگار، گھریلو افزائش اور مقامی ریئل اسٹیٹ کاروبار کو بجٹ سے کوئی راحت نہیں ملے گی، بجٹ کا حال یہ ہے کہ وہ سرحدی سلامتی پر بھی خاطرخواہ فراہمی کو یقینی نہیں بناتا۔
ہر قسم کے تجارتی سیکٹروں میں ترقی کے لیے سرکاری امداد یا مختلف صورتوں میں پیشگی سرمایہ کا عمل دخل ہوتا ہے لیکن سرکاری خزانہ خود محتاج ہو رہا ہے۔ آر بی آئی کو موجودہ حکومت نے نوچ لیا ہے۔ سیبی، سیکوریٹی ایکسچینج بورڈ آف انڈیا،ایف سی آئی ، فوڈ کارپوریشن آف انڈیا،بی ایس این ایل، انڈین پٹرولیم، یہ تمام ادارے اپنی سانسیں گن رہے ہیں۔ انکم ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس، جی ڈی پی، جی این پی ، اور سرکاری بجٹ کےمزید مفصل ڈاٹا کی روشنی میں دیکھیں تو حالت بے حد نازک ہوچکی ہے، ایک طرف ملک کی مجموعی معیشت اور مالی صورتحال اس قدر قابلِ رحم حالت میں جارہی ہے تو دوسرا رخ مزید جھنجھوڑ رہا ہے۔ ان حالات میں چند مخصوص کمپنیوں اور پرائیویٹ سیکٹر کی ترقیات کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے جو کہ خاموشی کے ساتھ نظام سرمایہ داری کو فروغ دے رہا ہے۔ اور ہندوستان جیسے ملک میں یہ تیز رفتار نجی کاری عام انسانوں کے لئے عذاب بنتے جا رہی ہے۔ جس دھڑلے سے سرکاری سیکٹرز پرائیویٹ کمپنیوں کو فروخت کیے جا رہے ہیں وہ بھی اچھے مستقبل کی علامت نہیں ہیں۔ ان تمام صورتحال کا باریک بینی سے زمینی مشاہدہ کیجئے تو یہ نتیجہ نکل کر سامنے آتا ہے کہ اب تک جو کچھ معاشی سسٹم فعال یا کسی قدر زندہ ہے وہ منموہن سنگھ اینڈ کمپنی کی بدولت ہے وگرنہ ان پڑھ حریصوں کی پے در پے جاری جاہلانہ دستبرد اسے بہت پہلے بکھیر چکی ہوتی۔ حکومت کے نئے نئے منافقانہ فیصلوں اور بدترین پالیسیوں کی وجہ سے ہندوستانی معیشت بحران کا شکار ہے۔ حالت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں کا بجٹ بمشکل پورا کر پا رہی ہے، چہ جائیکہ تعلیمی ترقیات کے لئے اضافی رقم مختص کرسکے، عوامی سطح کے مزدور اور برسر روزگار افراد در بدر بھٹک رہے ہیں، متوسط درجے کا کاروباری طبقہ ہنوز نوٹ بندی اور جی ایس ٹی دفاتر کے چکر کاٹ رہا ہے، دیگر بڑی کمپنیاں نت نئے ٹیکس اور سرمایہ کاری کی غلط سرکاری پالیسیوں تلے دبے جارہے ہیں، ملک کا روپیہ اور سرکاری خزانہ بدترین گراوٹ کا شکار ہے، غرض پوری معیشت میں ہاہا کار مچی ہوئی ہے، گورنمنٹ چاہ کر بھی اس بحران کو کنٹرول نہیں کرپا رہی ہے، لیکن دوسری طرف ملک کے نسل پرست حکمرانوں کا مشغلہ اپنی متعصبانہ سرگرمیوں کے سوا نظر نہیں آتا، ملک کا میڈیا پوری طرح سے اس تباہ کن حقیقت سے آنکھیں بند کرچکا ہے، عام آدمی خطرناک سچویشن سے دوچار ہے، پیٹ پالنے کے لیے مارکیٹ سے چار روپیہ کمانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے، لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں، فاقہ کر رہے ہیں، دیوالیہ کا شکار ہو رہے ہیں اور ڈپریشن کے حوالے ہوکر ختم ہو رہے ہیں اور پالیسی سازی کے منصب پر براجمان لوگ ملک میں فساد اور نفرت کی آگ بھڑکانے میں مدہوش ہیں۔
ایسی خراب ترین صورتحال میں ایک نعرہ ہے کہ معیشت ابھر رہی ہے، لیکن یہ صرف جملہ ہے۔آسمان چھوتی مہنگائی دیکھئے اور یہ نعرہ سنئے۔ پٹرول اور ڈیزل کی لٹیری قیمتیں بربادی کی طرف لے جارہی ہیں اور ہر روز عام آدمی کی جیب پر ڈاکہ ڈال رہی ہیں۔ سمجھنا چاہئے کہ جب پٹرول اور ڈیزل مہنگے ہوں گے تو نقل و حمل کے ذرائع سمیت ہر چیز مہنگی ہوتی چلی جائے گی۔ ترقی زیادہ سے زیادہ چنندہ پرائیویٹ سیکٹر مثلاً امبانی اڈانی اور ان سے وابستہ پرائیویٹ سیکٹرز کی تو ہوسکتی ہے لیکن عوامی اور سرکاری مالیت میں اس سے کسی تقویت کی امید نہیں ہے، آنے والے دنوں میں اگر گھریلو افزائش کیلئے گنجائشیں اور روزگار جنگی پیمانے پر پیدا نہیں ہوتے ہیں تو بدترین فاقہ کشی، افلاس اور پیٹ کیلئے انارکی کا یہاں بڑا بھیانک منظر ہوگا ۔