ملک میں فرقہ واریت کے بڑھتے رجحانات

0

ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلمانوں کو کچھ ملا ہو یا نہ ملا ہو لیکن فسادات کی سوغات ضرور میسر آئی ہے۔ہندوستان کی آزادی میں جہاں ایک جانب مسلمانوں کی قیمتی جانیں شہید ہوئیں، وہیں دوسری جانب آزاد ہندوستان کی تاریخ لکھنے والوں نے شاید بہت پہلے ہی یہ طے کر لیا تھا کہ مسلمانوں کی شہید جانوں کا بدلہ ضرور دیں گے اور یہ بدلہ لگاتار منصوبہ بند سازشوں کے نتیجہ میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی شکل میں دیا گیا ہے۔اسی طویل سلسلہ کی حالیہ کٹری مظفر نگر فسادات ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک تقریباً40؍افراد ہلاک ہو چکے ہیں ،ہلاک شدگان میں فوٹو گرافر اور ٹی وی جرنلسٹ بھی شامل ہیں،دوران واقعہ اور اس کے بعد حالات انتہائی خراب رہے، 3تھانہ حلقوں میں کرفیو لگا اس کے باوجود دیگر مقامات سے انسانی جانوں کی ہلاکت کی خبریں آتی رہیں، دوران مدت متأثرہ علاقوں کے شہریوں میں خوف و ہراس چھایا رہا، ریاست اتر پردیش اور اس کی آس پاس کی ریاستوں میں بھی ہائی الرٹ رہا،متوفی رپورٹر کے اہل خانہ کو 15؍لاگھ اور دیگر ہلاک شدگان کے لواحقین کو 10-10لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا گیا ہے۔ڈی جی پی دیوراج ناگرنے اعلیٰ حکام کی میٹنگ میں قانون و انتظامات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ کوال کے قصوروروں کو جلد گرفتار کیا جائے اور بے قصوروں کو نشانہ نہ بنایا جائے ساتھ ہی ایس ٹی ایف کی مدد لینے کا بھی حکم دیا ہے۔دوسری طرف میرٹھ، شاملی،مظفر نگر اور اطراف کے علاقوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر اکھلیش یادو سے مولانا ارشد مدنی نے ملاقات کے دوران موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ کو مزید چاق و چوبند بنانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ حالات پر فوری طور سے قابو پانے کی ضرورت ہے۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حکومت فرقہ پرست قوتوں پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے، جن افراد کو فساد برپا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے ان پر قومی سلامتی ایکٹ نافذ کر دیا گیا ہے اور کسی کے ساتھ کوئی جانبداری نہیں برتی جائے گی۔وہیں جماعت اسلامی ہند کے ذمہ داران نے پریس میٹ کے دوران کہا کہ جب بھی الیکشن کا وقت قریب آتا ہے، ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کا ماحول گرم ہو جاتا ہے۔صرف ایک سال کے قلیل عرصہ میں یوپی میں تقریباً50سے زائد فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مزید کہا کہ مرکزی حکومت کو چاہیے کہ انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل کو جلد از جلد پالیمنٹ میں پاس کروائے تاکہ اقلیتوں کی جان و مال کو قانونی تحفظ حاصل ہو سکے۔ گزشتہ کئی برسوں سے فرقہ پرست عناصر کے شبہ پر پولیس کی جانب سے مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد بتاکر سلاخوں کے پیچھے ڈالا جا رہا ہے۔ خالد مجاہد جیسے کئی نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنساکر حراست میں ہلاک کیا جاتا رہا ہے۔ادھر بی ایس پی کے ترجمان کہتے ہیں کہ مظفر نگر فسادات کے پیچھے فرقہ پرست طاقتوں نیز بی جے پی اور سماج وادی پارٹی کی ملی بھکت ہے۔وہیں ریاستی حکومت نے منظم اندازمیں منافرت پھیلانے والوں پر شکنجہ کستے ہوئے بظاہر اس بات کی مکمل کوشش کی ہے کہ جن لوگوں پر الزام عائد ہوتا ہے اُن کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے،مقدمات چلائے جائیں،اور مجرم ثابت ہونے پر سزا بھی دی جائے۔اس سب کے باوجود حالیہ واقعہ نے سماج وادی پارٹی کے طریقہ کار پر سوالات کھڑے کر دئیے ہیں اور اس اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے جس کی بنا پر گزشتہ دنوں وہ اسمبلی میں اکثریت کے ساتھ جیتے تھے۔ واقعہ کے پس منظر میں ملی جماعتوں کے نمائندوں کا ماننا ہے کہ سماج وادی پارٹی کی حکومت کو فوراً برخاست کیا جائے، صدر راج نافذ ہو اور جلد از جلد انتخابات کروائے جائیں،تاکہ ایک بہتر حکومت ریاست میں انتظام و انصرام کے فرائض انجام دے، ساتھ ہی قصورواروں کو سزاملے اور متأثرہ افراد کو حق و انصاف۔ممکن ہے کہ اس پر عمل درآمد ہو لیکن چونکہ مرکز میں کانگریس کی حکومت موجود ہے، اور یہ وہی حکومت ہے جو سماج وادی پارٹی اور اس جیسی دیگر جماعتوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے، لہذا مرکزی حکومت سے کسی صورت یہ امید وابستہ نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ لوگوں کے غم و غصہ اور ان کے نقصانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اتر پردیش حکومت کو برخاست کرے گی۔
مظفر نگر فساد اور اس میں بڑے پیمانہ پر جانی و مالی نقصانات کو جو حکومت کنٹرول نہیں کرپائی، اسی حکومت کے دور میں موجودہ واقعہ سے چند دن قبل چوراسی کوسی پریکرما پر جس طرح حکومت اترپردیش نے روک لگائی، اور معاملہ کو کنٹرول کیا اس پر بھی نظر رکھنی چاہیے ۔ریاستی حکومت نے نظم و نسق برقرار رکھنے اور کسی بھی طرح کے تشدد پھیلنے جیسے واقعات سے بچنے کے لیے مکمل مستعدی کا اظہار کرتے ہوئے اجودھیا کی جانب جانے والے تمام42؍راستوں کو سیل کر دیاتھا، گاڑیوں کی چیکنگ کی،سنتوں کو گرفتار کر لیا،ملحق ریاستوں کی سرحدوں پر چوکسی بڑھا دی،پریکرما کے مد نظر اجودھیا کو پوری طرح چھاؤنی میں تبدیل کر دیا، چپے چپے پر خفیہ میکانزم اور پولس اہلکاروں کی تعیناتی کی گئی۔ ضلع انتظامیہ نے اشوک سنگھل، پروین توگڑیا، چمپت رائے، ڈاکٹر ولاس داس ویدانتی اور سوامی چنمیا نند سمیت300؍لوگوں کا گرفتاری وارنٹ تیار کیا۔ عارضی جیلیں بنائی گئیں نیز کئی اضلاع میں سنتوں کو ان کے آشرم میں ہی نظر بند کر دیا۔ بعد میں سرگرم لیڈران کو گرفتار کیا گیا اور ان تمام امور پر عمل درآمد ہوا جو طے کیے گئے تھے۔اس موقع پر بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ وہی ریاست اور وہی حکومت ہے جس کے دور اقتدار میں اب تک چھوٹے بڑے تقریباًچالیس فسادات ہو چکے ہیں جن میں نو بڑے فسادات کوسی کلاں، بریلی، کانپور، الہ آباد، پرتاپ گڑھ دیگر اور یہ حالیہ مظفر نگر فسادات شامل ہیں۔ گزشتہ فسادات اور حالیہ واقعہ کے پس منظر میں بھی یہی بات باربار کہی جاتی رہی کہ مسلم مخالف فسادات کا نہ رکنا اورافسران کا بے لگام ہونا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ سماج وادی پارٹی کا افسران پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔اُس میں کتنی سچائی تھی اور ہے، ہم نہیں جانتے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک منظم کوشش”چوراسی کوسی پریکرما”کو ناکام بنانے والی ریاستی حکومت کیسے کامیاب ہو گئی؟جبکہ پولیس وہی، افسران وہی اور انتظامیہ بھی وہی۔وہاں نہ کسی ذمہ دار کو منتقل کرنے کی ضرورت پیش آئی اور نہ ہی معطل پھر یہ سب کیونکر کنٹرول ہو ا جو پہلے اور اب متعدد مقامات پر نہ ہو سکا ؟چوراسی کوسی پریکرما کی کوشش تو بڑی منظم تھی جسے پورا ملک دیکھ رہا تھا لیکن سابقہ فسادات اور حالیہ مظفر نگر فسادات تو اتنے منظم بھی نہیں ۔پھر آپ وہاں کامیاب اور یہاں ناکام کیونکر ہوئے!
مسائل کے فروغ میں ہمارا رویہ بھی شامل ہے!
معاملہ یہ ہے کہ یورپ کے انڈسٹریلائیزیشن سے لے کر آج تک معاش کی تلاش میں انسان کی حیثیت مشینوں کے ایک پارٹ سے زیادہ کچھ نہیں رہی۔جب تک وہ پارٹ اپنے کام کو بہتر انداز میں ادا کرتا ہے تب تک وہ قابل ستائش ، نہیں توٹھیک اسی طرح ان کارخانوں اور انڈسٹریز میں لگی مشینوں کے بے کار پارٹ سے تبدیل کر دیا جاتا ہے جیسے کہ ایک ناکارہ اور بے جان شء۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایک طویل عرصہ سے تعلیم کا مقصد بچوں کو صرف انجینئر بنانا رہا ہے۔وجہ یہ ہے اس سے کہ تلاش معاش میں آسانی ہوتی ہے نیز معاشرے میں “رائج عزت”میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ آج کے انجینئرس اُس نظام کا حصہ ہیں جہاں ان کی شناخت بحیثیت انسان نہ ہو کر ایک مشینی روبوٹ سے زیادہ کچھ نہیں۔پھر جس تیزی سے ہمارے ملک میں ملٹی نیشنل کمپنیاں آئیں اور آرہی ہیں نیز دیگر ممالک کی کمپنیوں کی ضرورتیں پوری کرنے جیسی خدمات انجام دی جا رہی ہیں،ان کی ضرورتیں اور ٹائمنگ کے نتیجہ میں معاشرہ سے ہمارا تعلق کم سے کمتر ہوتا جا رہا ہے۔وہیں دوسری جانب انٹرنیٹ کی آمد اور اس کے پھیلاؤ نے ایک ورچول ورلڈ( غیر حقیقی دنیا) قائم کی ، جس میںآج ہر شخص منہمک اور سرگرداں ہے۔معلوم نہیں یہ وقت اور صلاحیتوں کا زیاں ہے یا دور جدید کے ترقی یافتہ انسان کی شناخت، یہ کچھ بھی ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہِ اسی انٹر نیٹ اورسوشل نیٹ ورکنگ نے حالیہ دنوں میں بڑی کرامت خیزیاں برپا کی ہیں۔ایک جانب سوشل نیٹ ورکنگ نے چھوٹے بڑے انقلابات ” عرب بہار”میں نمایاں کردار ادا کیا ہے تو وہیں دوسری جانب بہت ہی طاقتوراور ذاتی مفاد میں مبتلا میڈیا پر بھی شکنجہ کسنے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کی ہے ۔نتیجتاً ہر سطح کے افراد آج انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ کی گرفت میں ہیں۔فوائد کے باوجود یہی انٹر نیٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ ہے جس نے معاشرے سے انسان کے تعلق کو بہت محدود کردیا ہے۔پھر آرام و آسائش میں اضافہ، محدودتعلقات اور معاشرتی مسائل سے کنارہ کشی،ہی وہ اسباب بنے جنھوں نے بے شمار نئے مسائل کو جنم دیا۔متذکرہ دو واقعات نے ہمارے وقت کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ آج ہمارے پاس جدید مسائل کے حل کے لیے نہ غور و فکر کا وقت ہے اور نہ ہی اس کے خاتمہ کا عزم۔ظاہر ہے کہ معاشرہ اور معاشرہ میں پائے جانے والے رویوں سے حکومتیں بھی واقف ہیں۔اسی لیے وہ جب چاہتی ہیں مسائل پر جلد قابو پالیتی ہیں اور جب چاہتی ہیں نظر انداز کردیتی ہیں۔کیونکہ وہ اچھی طرح واقف ہیں کہ معاشرہ کن لغویات میں مبتلا ہے۔انھیں یہ بھی معلوم ہے یہ معاشرہ آج ان افراد پر مشتمل ہے جو کسی بھی بڑے سے بڑے مسلۂ کا حل صرف ایک یا چند دنوں پر مشتمل مظاہرہ سمجھتا ہے،انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ مسلۂ حل ہوتا ہے یا نہیں بلکہ بعض اوقات یہی مظاہرے ان کی تشہیرو ترقی کا ذریعہ بنتے ہیں اور مظاہرین بس اسی کامیابی پر مطمئن ہو جاتے ہیں۔تو پھر کیا غرض ہے کہ حکومت یا حکومت کے کارندے کسی بھی مسلۂ پر سنجیدگی اختیار کریں یا نہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ وقت، حالات اور نفع و نقصان کے پیش نظر جمع گھٹا کی جاتی ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ آسام اور اترپردیش کے حالیہ واقعات اور اس کے کنٹرول کرنے کا رہا ہے۔ضرورت ہے کہ ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں۔جزوقتی مسائل اور جز وقتی حل پر مطمئن نہ ہوں۔بلکہ جس مسئلہ سے بھی وابستہ ہوں اس کے اختتام تک سعی و جہد کرنے کا عزم لے کر اٹھیں،تب ہی ممکن ہے کہ ملک اور اہل ملک ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن ہو سکیں گے۔
کرنے کے کام:
جزوقتی مسائل اور ان کے حل کے لیے پہلی اور لازمی بات قرآن حکیم کا وہ اصول اور قاعدہ ہے جس میں فرمایا گیا:”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو”۔(الحجرات:۶)۔دوسری بات اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف اور مساوات کی ہے۔ معاشرے میں رہنے والے تمام انسانوں کی جان و مال قابل احترام ہے۔ قرآن اور حدیث کے مطابق رنگ، نسل، خاندان، مذہب کے لحاظ سے کوئی کسی سے کم تر نہیں۔ بحیثیت انسان سب کے حقوق برابر ہیں۔ آزاد، غلام، مرد وعورت، امیرو غریب، چھوٹا بڑا سب برابر ہیں۔ مجرم کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، اس کو سزا ملنی چاہئے، سوائے اس کے کہ مظلوم خود اپنی مرضی سے ظالم کو معاف کردے۔ موجودہ حالات اور آئندہ آنے والے دنوں میں محسوس ہوتا ہے کہ ملک عزیز میں شر پسند عناصر مزید کوشش کریں گے کہ ماحول خراب ہو،فرقہ وارانہ تصادم میں مزید اضافہ ہو،کمزوروں اورمظلوموں پراور ظلم ڈھایا جائے،امن و آشتی کے ماحول کو مکدر کیا جائے نیز ان جیسے دیگر مقاصد کے حصول کے لیے منظم کوششیں کی جائیں گی۔ان حالات میں قرآنی تعلیمات اور امن و امان کی خاطرمسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کہیں بھی اور کسی بھی معاملے میں جہاں ان کو بھڑکانے اور اکسانے کی کوششیں کی جا رہی ہوں، اپنے حواس اور جذبات کو کنٹرول میں رکھیں، معاملہ کی خوب اچھی طرح تحقیق کر لیں، حکومتی سطح پر جو ادارے مسائل کے حل کے لیے موجود ہیں ان کو استعمال کریں ، ایک مخصوص منفی جذبہ سے سرشار گروہ سے نفرت کے نتیجہ میں دیگرامن پسند عوام سے دوری نہ اختیار کریں بلکہ قربت اختیار کریں،قربت کا لازمی تقاضا ہے کہ دلوں میں کدورت نہ پائی جائے،لوگوں کے کام آئیں، ان کے حق میں دعائے خیر کریں،ساتھ ہی مقامی و علاقائی سطح پر ایسے پلیٹ فارم تیارکیے جائیں جہاں لوگوں میں برائی اور شر انگیزی کے بالمقابل امن و امان قائم کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہو۔
جزوقتی مسائل اور ان کے جز وقتی حل کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو اس بات کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے کہ وہ مسائل کے ممکنہ خاتمہ کے لیے کوشاں ہوں۔اس کے لیے لازم ہے کہ جن دو رویوں کا تذکرہ کیا گیا۔یعنی تعلیم کا معاشی نظریہ اور وقت اور صلاحیتوں کا غیر مناسب استعمال، جس میں معاشرہ سے لاتعلقی خود ایک بڑا مسلۂ بنتی جا رہی ہے، اس پر قابو پایا جائے۔تعلیم کے معاشی نظریہ سے ہماری مراد یہ ہے کہ تعلیم کا مقصد صرف اور صرف بہتر معاش کا حصول ہی نہ رہے بلکہ تعلیم سے انسان میں جو تبدیلیاں مقصود ہیں وہ بھی پیش نظر ہوں۔
ساتھ ہی اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے عصری تعلیم کے ان سبجیکٹس کو بھی اختیار کیا جائے جو انسان کو ایک مشین نما روبوٹ نہیں بلکہ معاشرہ سے راست تعلق قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ وہ سبجیکٹس ہیں جومعاشرتی مسائل کوایڈریس کرتے ہیں،معاشرہ میں اور حکومتی اداروں میں ان کولے جانے کا ذریعہ بنتے ہیں جہاں عہدے مسائل کے حل میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔مطلب صاف ہے کہ سائنس وٹیکنالوجی اور پروفیشنل علوم کے علاوہ آرٹس، سوشل سائنس اور زبان و ادب پر بھی توجہ دی جائے تاکہ فرد معاشرتی مسائل سے آگاہی کے علاوہ ان سے راست تعلق بھی قائم کر سکے۔پھر ان خدمات کی انجام دہی میں نہ صرف غور و فکر ہو بلکہ ذاتی کردار بھی ادا کیا جائے۔لازم ہے کہ سب سے پہلے ہماری فکر اور نظریہ تبدیل ہو۔اور اس تبدیلی فکر سے مراد یہ نہیں ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی اور پروفیشنل علوم سے لا تعلق ہوا جائے بلکہ اگر ایک گھر میں دو بچے ہوں تو سائنس و ٹیکنالوجی اور آرٹس اور سوشل سائنس کے تناسب کو برقرار رکھا جائے۔ممکن ہے اس طرح مسائل پر قابو پایا جا سکے گا،جبکہ ان علوم کے حصول، اس میں انفرادیت،مہارت اور بلندی کے ساتھ ساتھ اخلاق حسنہ میں بھی فرداپنی ایک خاص پہچان بنا چکا ہو،کیونکہ اخلاق حسنہ سے مبرا کوئی علم کسی بھی زمانے میں نفع بخش نہیں ہو سکتا!

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights