معروف تحریکی رہنما مولانا عبدالعزیز کے سانحہ ارتحال پر

ایڈمن

معروف تحریکی رہنما جناب مولانا عبدالعزیز صاحب 16؍مارچ 2015 کو اس دارفانی سے کوچ کرگئے، اِنّا لِلّہِ وَاِنّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ۔ موصوف تحریک اسلامی کی نمایاں ترین شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔۔۔۔۔۔ بہت ہی دلنواز شخصیت۔۔۔۔ شعلہ بیاں مقرر۔۔۔۔ مشفق مربی۔۔۔۔ عظیم رہنما۔۔۔۔ آپ کے سانحہ ارتحال پر ادارہ رفیق منزل کو درج ذیل تعزیتی تأثرات موصول ہوئے، ان تأثرات میں یقیناًموصوف کے حالات زندگی کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے، تاہم یہ تأثرات موصوف کی شخصیت کے اہم پہلوؤں، تحریک اسلامی سے ان کے والہانہ لگاؤ، اور اس راہ میں ان کی نمایاں خدمات سے واقفیت حاصل کرنے میں معاون ہوں گے۔ امید کہ طلبہ ونوجوانوں کے لیے یہ تأثرات مہمیز کا کام کریں گے۔ (ادارہ)

پریس ریلیز مرکز جماعت اسلامی ہند
جماعت اسلامی ہند کے بزرگ قائد مولانا عبد العزیز صاحب کا حیدر آباد میں انتقال
نئی دہلی۔ جماعت اسلامی ہند کے سابق نائب امیر اور ملت اسلامیہ ہند کے عظیم قائد اور بزرگ و محبوب رہنما مولانا عبد العزیز صاحب کا آج حیدر آباد میں ۹۳؍ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ محترم امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے مولانا عبد العزیز صاحب کی رحلت پر بڑے ہی دکھ اور صدمے کا اظہار کیا اور دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ مولانا کی دینی و ملی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کے درجات کو بلند کرے۔ مولانا ایک طویل عرصے تک جماعت کی مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔
مولانا عبد العزیز صاحب حیدر آباد کی عام روایت کی مناسبت سے خطابت کی غیر معمولی صلاحیت کے مالک تھے اور موصوف نے سکریٹری جماعت اور نائب امیر جماعت اسلامی ہند کی حیثیت سے اپنے مسلسل دوروں کے ذریعہ جماعت کی دعوت و پیغام کو عام کرنے کا غیر معمولی فریضہ انجام دیا۔ ان ذمہ داریوں سے قبل موصوف نے حلقہ آندھرا پردیش اور حلقہ تمل ناڈو کے امیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس کے ساتھ ہی موصوف مغربی اور عرب ممالک کے سفر کرکے جماعت کے پیغام کو عام کرتے رہے۔ موصوف سادگی، انکساری اور محبت کا پیکر تھے۔
مولانا عبد العزیز صاحب امیر حلقہ کی حیثیت سے مدراس میں قیام کے دوران سالہا سال تک رمضان المبارک میں نماز تراویح کے بعد اپنے مخصوص انداز میں خلاصہ قرآن کریم بیان فرماتے رہے جس کی غیر معمولی شہرت تھی اور نمازیوں کی بڑی تعداد اس سے استفادہ کرتی رہی۔
قائد جماعت مولانا عبد العزیز صاحب نے ۱۹۷۵ ؁ء میں ملک میں نافذ کی گئی ایمرجنسی میں جماعت کے دیگر قائدین اور وابستگان کی طرح قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، لیکن ایام اسیری کا بہترین استعمال کرتے ہوئے ایک ضخیم کتاب ’’اللہ کی نشانیاں‘‘ مرتب کی جو مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز دہلی سے شائع ہورہی ہے۔ مولانا عبد العزیز صاحب جماعت اسلامی ہند کے آل انڈیا اجتماع ۱۹۸۱ ؁ء کے ناظم کی حیثیت سے تحریکی حلقوں میں اجتماع کے حسن انتظام اور اس کی غیر معمولی کامیابی کے لیے بڑے احترام و محبت سے یاد کیے جاتے تھے۔
مرکز جماعت میں قائد و خطیب تحریک کی رحلت کی اطلاع پورے مرکز اور اس کے مختلف اداروں کے وابستگان کو سوگوار کر گئی اور اپنے بزرگ رہنما کی تابناک زندگی کو ہر طرف یاد کیا گیا۔ احباب نے مولانا عبد العزیز صاحب کی رحلت پر شدید رنج و ملال کا اظہار کرتے ہوئے اس احساس کا اظہار کیا کہ ان کی رحلت تحریک اسلامی ہند کا بڑا خسارہ ہے اور ایک ایسا مجاہد اللہ کے جوار رحمت کی طرف رخصت ہوا جس نے اپنی پوری زندگی ہند میں تحریک اسلامی کے پیغام کو عام کرنے اور اللہ رب العالمین کی خوشنودی کے حصول میں لگادی تھی۔ محترم امیر جماعت مولانا عمری صاحب نے اپنے قدیم رفیق کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے مرکز کے نمائندے کی حیثیت سے مولانا محمد رفیق قاسمی صاحب کو حیدر آباد روانہ فرمایا۔

آہ! مربئ محترم، مولاناعبدالعزیز صاحب 
مجتبٰی فاروق، کارگزار صدر مسلم مجلس مشاورت، سابق سکریٹری جماعت اسلامی ہند وبانی صدر ویلفیئر پارٹی آف اندیا
جماعت اسلامی کو بر صغیر میں مسلمانوں کی سب سے منظم اورموثر جماعت سمجھا جاتا ہے، اور جاننے والوں میں اسے وقار بھی حاصل ہے۔ظاہر ہے کہ اس کی یہ شناخت اس کے وابستگان کی صلاحیتوں، علم وتقوی، اخلاص و قربانی اور نصرت الٰہی کے سبب ہے۔مقصد کی خاطر سب کچھ داؤ پر لگائے بغیر کسی تحریک کو یہ مقام حاصل نہیں ہوتا۔ناموافق حالات میں جن بزرگوں کی کوششوں اور اخلاص کے سبب یہ اعتبار حاصل ہے ان میں محترم عبدالعزیز صاحب کو امتیاز حاصل ہے۔بنیاد کے ان پتھروں میں سے آج مولانا عبدالعزیز صاحب حیدرآبادکے انتقال کی خبر نے رنجیدہ کردیا۔ انا للہ واناالیہ راجعون..جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں۔۔۔اللہ ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے۔ان کی کوتاہیاں اگر کچھ ہوں تو مغفرت فرمائے۔ درجات کو بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے۔ویسے بھی مولاناغالباًاس کے مستحق اس لئے بھی ہوں گے کہ وہ مکر و ریا سے دوربہت کشادہ ظرف اور صاف دل تھے۔ اس شعر کے مصداق ؂
نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز
تحریک کا وہ کوکب تاباں کہاں گیا؟
ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی
مولاناعبدالعزیز صاحب، حیدرآبادتحریک اسلامی ہند کی صف اول کے رہنماؤں میں تھے۔
صف اول کے تمام رہنما ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے۔ ان رہنماؤں میں ایک مولانا عبدالعزیز صاحب بچے تھے، جنہیں دیکھ کر اور جن سے مل کر طبیعت خوش ہوتی تھی، سو وہ بھی دو روز ہوئے یعنی ۱۶؍مارچ بروز دوشنبہ خاموشی سے رحلت فرماگئے اور اپنے رب سے جاملے۔
انہوں نے تحریک اسلامی سے وابستہ ہوکر نہ جانے کتنے لوگوں کی عاقبت سنواری، نہ جانے کتنے لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچایا، اور نہ جانے کتنے سینوں میں اللہ ورسول کی محبت کی انگیٹھیاں دہکا دیں۔ ان کا نورانی چہرہ دیکھ کر، اور ان کی ایمان افروز اور ولولہ انگیز باتیں سن کر تحریک اسلامی کے فرزندوں اور ایس آئی او کے نوجوانوں کو ایک جذبہ اور ایک حوصلہ ملتا تھا۔ وہ جماعت کے جن اجتماعات میں شریک ہوتے تھے، ان اجتماعات میں جان ڈال دیتے تھے۔
مولانا عبدالعزیز صاحب تحریک اسلامی کے شعلہ بیان مقررین میں تھے، مگر ان کی شعلہ بیانی کا تعلق غالباََ ان کی زبان سے نہیں بلکہ ان کے دل رنجور یا قلب مضطرب سے تھا۔ اسی لیے اس کا دلوں پر اثر ہوتا تھا کہ
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
مولانا عبدالعزیز صاحب مرحوم کو بانئ تحریک اسلامی جناب مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ساتھ امام حسن البنا شہید اور امام سید قطب شہید سے بے پناہ لگاؤ تھا۔ نوجوانی میں ان سے میری کئی بار ملاقاتیں ہوئیں، لیکن ہرملاقات میں انہیں یاددلانا پڑتا تھا کہ میں کون ہوں۔ مگر (نقوش راہ) اور (مجاہد کی اذان) شائع ہونے کے بعد صورتحال بدل گئی۔ ان کتابوں کے شائع ہونے کے بعد وہ ہمیں دیکھتے اور دیکھتے ہی پہچان لیتے اور دور سے ہی للکارتے:
(آیئے سبحانی صاحب آئیے، آپ کو دیکھ کر تو دل خوش ہوجاتا ہے،�آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں!)
اس میں میرا کوئی کمال اور میری کوئی خوبی نہ تھی، یہ دراصل حسن البنا شہید رحمۃ اللہ علیہ اور سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ کی محبت تھی جس کی چند بوندیں اس غریب کے حصے میں آگئی تھیں، ان کی کتابوں کے مترجم ہونے کے نتیجے میں۔
مولانا عبدالعزیز صاحب مرحوم عرصے تک نائب امیرجماعت اسلامی ہند کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور شروع سے ہی وہ جماعت کی مرکزی مجلس شوری کے رکن رہے۔
انہوں نے تحریک کے لیے ملک اور بیرون ملک کے بے شمار دورے کئے، اور جہاں بھی گئے اچھی یادیں اور اچھے اثرات چھوڑ کر آئے ؂
تحریک کا وہ کوکب تاباں کہاں گیا
جس سے چمن تھا رشک بہاراں کہاں گیا
دعا ہے کہ رب کریم انہیں اپنے سایۂ رحمت میں رکھے، جنت میں ان کے درجات بلند فرمائے، اور جو کچھ ان سے غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئی ہوں ان سے درگزر فرمائے۔
دین و ملت اور تحریک کی خدمت کے لیے خود کووقف کردیا تھا

محمد اقبال ملا، سکریٹری شعبہ دعوت جماعت اسلامی ہند
مولانا محمد عبد العزیز صاحب کی وفات پر بڑا صدمہ مجھے ہوا ہے۔ ۲۶؍ جنوری ۲۰۱۵ حیدر آباد میں ان کے گھر پر میں نے ملاقات کی تھی۔ بڑی محبت سے پیش آئے اور دیر تک گفتگو فرمائی۔
مولانا زمانہ طالب علمی سے جماعت سے وابستہ ہوے تھے ۱۹۶۰ ؁ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ سرکاری ملازمت کر رہے تھے لیکن جماعت سے وابستگی کی بناء پر ملازمت سے برخاست کردیے گئے۔
مولانا ۱۹۹۰ ؁ء سے ۸؍ سال تک نائب امیر جماعت اور اس سے قبل سکریٹری جماعت تھے۔ شعبہ دعوت کی ذمہ داری ان پر تھی۔ چنانچہ وہ پورے ملک کا دورہ فرماتے تھے۔ میں حلقہ کرناٹک و گوا کا ذمہ دار تھا۔ (۱۹۹۰ ؁ء تا ۲۰۰۳ ؁ء)۔ مولانا کے ساتھ دعوتی دورے کے بہت مواقع ملے۔وہ سمپوزیم کی صدارت، خطاب عام اور گروپ میٹنگوں میں برادرانِ وطن کے سامنے دعوت پیش فرماتے۔ اردو اور انگریزی میں اظہار خیال فرماتے مسلمانوں میں عمائدین شہر کی نشستیں ہوں یا خطبہ جمعہ، درس قرآن اور دیگر پروگراموں میں مسلمانوں کو دعوت دین کی اہمیت اورشہادت حق کی ذمہ داری کی ادائیگی پر متوجہ فرماتے۔ مختلف دعوتی مہمات میں بھی ان کی شرکت ہوتی تھی۔ ان کا خطاب مؤثر ہوتا تھا۔ خاص طور پر جب وہ قرآنی آیات تلاوت فرماتے تو سامعین بہت متأثر ہوتے۔ ان کے خطابات اور دروس کے بعد طویل عرصے تک لوگ انہیں یادکرتے۔
مولانا نے شعور سنبھالنے کے بعد تا دم زیست دین و ملت اور تحریک کی خدمت کے لیے خود کووقف کردیا تھا۔ ۹۳؍ سال کی عمر میں اپنے خالق سے جا ملے۔ ان کی ذات والا صفات سادگی، قناعت، بے لوثی اور قربانی کا پیکر تھی۔
مولانا کے اندر انتظامی صلاحیت زبردست تھی۔ اس کا ثبوت ۱۹۸۱ ؁ء کا کل ہند اجتماع جماعت اسلامی ہندہے۔ یہ اجتماع آخری کل ہند اجتماع ثابت ہوا کیونکہ اس میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ اس طرح ارکانِ جماعت کا کل ہند اجتماع ۱۹۹۶ ؁ء میں حیدر آباد میں منعقد کیا گیا تھا۔ مولانا دونوں اجتماعات کے ناظم تھے۔ اللہ تعالیٰ مولانا کی ان خدمات کو قبول فرمائے، ان کی خطاؤں اور کمزوریوں سے درگزر فرمائے۔ آمین۔

مرحوم عبدالعزیز صاحب
پرواز رحمانی، سینئر صحافی، چیف ایڈیٹر سہ روزہ دعوت
مرحوم عبدالعزیز صاحب جماعت اسلامی ہند کی اُن عظیم شخصیات میں سے تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی نوعمری ہی سے تحریک اقامت دین کی خدمت کے لیے وقف کررکھی تھی۔ جماعت نے انہیں جو ذمہ داری جس حیثیت سے بھی دی، انہوں نے اس میں ڈوب کر پوری خوش اسلوبی سے وہ خدمت انجام دی۔ مرحوم کی ذات کے اندر کچھ ایسی خصوصیات تھیں جو کم افراد میں دیکھی جاتی ہیں۔ تکلف وتصنع سے بہت دور، مزاج انتہائی سادہ، وی آئی پی کلچر کا غلبہ ان پر کسی بھی دور میں کسی بھی حیثیت میں نہیں ہوا۔ جو اُن سے پہلی بار ملتا تھا، تھوڑی ہی دیر بعد محسوس کرتا تھا کہ ملاقات وشناسائی برسوں پرانی ہے۔ اپنے بزرگوں اور ہم عمر وہم مرتبہ افراد کا ہی احترام نہیں کرتے تھے، اپنے چھوٹوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ مرحوم عبدالعزیز نہایت سخن فہم، بذلہ سنج اور خوش مزاج بھی تھے۔ جس محفل میں ہوتے اور وہ جب تک سجی رہتی مرحوم اس پر اس طرح چھائے رہتے کہ شرکاء محفل کی طوالت کی خواہش کرتے۔ ان کے ہمراہ چالیس گھنٹوں کا سفر بھی گراں نہیں گزرتا تھا۔ تحریک اسلامی کے فہم، اس کے محرک وتناظر اور اس کی ضرورت واہمیت پر وہ اتھارٹی تھے۔ قرآن سے شغف نہایت گہرا تھا۔
ہر دلعزیز عبدالعزیز نہ رہے
رفیق احمد ، اسسٹنٹ جنرل سکریٹری ہیومن ویلفیئر فاؤنڈیشن، نئی دہلی
اللہ تعالی مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام دے، آمین۔
محترم مولانا مرحوم سے ۱۹۶۳ ؁ء (دور طالب علمی) سے ربط وتعلق رہا۔ سفر وحضر میں ساتھ رہا۔ مختلف مواقع پر استفادہ کا موقع ملتا رہا۔ جس میں دسمبر ۱۹۸۶ ؁ء کی آل انڈیا ایس آئی او کانفرنس، ۱۹۸۱ ؁ء کا جماعت اسلامی ہند کا آل انڈیا اجتماع عام جس کے آپ ناظم تھے اور کل ہند طلبہ تنظیم کے قیام کے سلسلے میں SIM کے نمائندوں کے ساتھ کیرلا میں ہونے والی آخری نشست اور اسی سلسلے میں طلبہ تنظیموں کے نمائندوں کی شوری کی کمیٹی کے ساتھ بنگلور سے کیرلا کا سفر ناقابل فراموش ہیں۔ مولانا کی یادیں، باتیں اور واقعات جو کہ پرلطف ہونے کے ساتھ سبق آموز اور نصیحت کا عنصر لیے ہوئے ہیں، بہت سارے ہیں۔
ایک سبق آموز واقعہ ہے؛تحریکی زندگی کے ابتدائی دور میں جبکہ ابھی ہم طالب علم تھے۔ اپنے تحریکی بزرگوں سے مولاناؒ کی زندگی کا ایک اہم واقعہ سنا تھا جو کہ موصوف کی ذات اور فیملی سے متعلق تھا اورسب کے لیے عموماََ اور ہم افراد تحریک اسلامی کے لیے خصوصاََ مختلف سبق آموز پہلو اپنے اندر رکھتا ہے، جس سے میں اُس کم عمری میں بھی کافی متأثر ہوا تھا، یہ واقعہ میرے دل پر نقش ہوگیااور آج بھی جب یاد کرتا ہوں تو ایمان کی حرارت میں اضافہ محسوس کرتا ہوں، یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے؛
مولانا محمد عبدالعزیزؒ اُس دور کے گریجویٹ تھے۔ جماعت کی رکنیت اور منصبی ذمہ داریوں کے علاوہ شعبۂ تعلیمات میں سروس بھی کرتے تھے۔ ایک ہائی اسکول میں پڑھاتے تھے۔ اعلی اخلاق وکردار کے حامل ایک بہترین استاذ ہونے کے باوجود جماعت سے تعلق کی بنا پر معتوب تھے۔ آپ پر طرح طرح سے دباؤ ڈالا گیا کہ جماعت سے اپنے تعلق کو منقطع کرلیں۔ مولانا اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ آخرکار یہ فیصلہ ہوا کہ آپ کی خدمات ختم کردی جائیں۔ اسکول میں طلبہ ، اساتذہ، اسکول کے ذمہ دار سب میں مقبول تھے۔ چنانچہ ادارے کے ذمہ دار اعلی نے مختلف انداز سے سمجھایا۔ فیصلہ یہ تھا کہ مولانا جماعت سے الگ ہوجائیں تو خدمات جاری رہیں گی ورنہ برطرف کردیئے جائیں گے۔ مولانا نے مستعفی ہونے کے آپشن کو یہ فرماتے ہوئے مان لیا کہ جماعت سے کسی حال میں بھی علیحدگی اختیار نہیں کریں گے۔ اسکول کے ذمہ دار نے بہت سمجھایا۔ معاشی تنگی اور دیگر مسائل وغیرہ کی بات رکھتے ہوئے اپنی طرف سے یہ مشورہ دیا کہ مولانا عملاََ جماعت کا کام کرتے رہیں، صرف یہ جملہ لکھ کر دے دیں کہ میرا جماعت اسلامی ہند سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور خدمات جاری رکھیں، بقیہ چیزیں ذمہ دار سنبھال لیں گے۔ مولانا نے یہ کہتے ہوئے کہ رزق تو اللہ کے ذمہ ہے ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر اُسی وقت اس مشورہ کو ماننے سے انکار کردیا، اور سروس سے علیحدگی اختیار کرلی۔ مولانا کی معاشی حالت اچھی نہیں تھی۔ بیوی بچوں اور اہل خاندان کی معاشی ضروریات کی تکمیل کا واحد ذریعہ ملازمت تھی جو کہ چھن گئی۔
مولانا نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے اللہ کے لیے اللہ کی راہ میں اتنی بڑی قربانی ہنسی خوشی دے دی اور ہر طرح کی مشکلوں، مصیبتوں اور آزمائشوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ ، بلکہ کامیاب مقابلہ کیا۔
اس مرحلہ میں آپ محترم کی رفیقہ حیات کا کردار سامنے آتا ہے۔ ا س صابر وشاکر وذاکر خاتون نے شوہر کی اچھے اور برے وقتوں میں بہترین رفیق وساتھی کا رول بخوشی ادا کیا۔ جب خالی ہاتھ مولانا گھر لوٹے تو معاش کی ضروریات پریشان کررہی تھیں۔ بظاہر کوئی ذریعہ، وسیلہ اور حل نظر نہیں آرہا تھا۔ اس مومنہ ومسلمہ خاتون نے آگے بڑھ کر دلاسہ دیا، ڈھارس بندھائی، اللہ پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے کسی معمولی کام سے معاشی زندگی کے آغاز کا مشورہ دیتے ہوئے اپنے پاس جو زیور تھوڑا بہت تھا لاکر مولانا کے ہاتھ میں یہ کہتے ہوئے دیا کہ آپ فکر نہ کریں، اللہ راہیں کھولے گا۔ آپ نے صحیح فیصلہ کیا ہے۔ رازق اللہ ہی ہے۔ آپ بازار میں جائیے۔ اس زیور کو بیچ کر اللہ کا نام لے کر ایک چھوٹے بزنس کا آغاز کیجئے۔ کوئی کام چھوٹا بڑا یا حقیر نہیں ہوتا۔ اللہ اسی میں خیروبرکت دے گا۔ اس طرح کے کئی زیورات پھر سے بن سکتے ہیں۔ اللہ تعالی اس خاتون کو اجرعظیم عطا فرمائے۔
غور فرمائیے۔۔۔ سرچھپانے کے لیے کوئی آسرا نہیں۔ گزر معاش کے لیے کوئی ذریعہ نہیں، ایسے موقع پر زندگی کی ساتھی کا یہ رول ۔۔۔ مولانا کو بہت بڑا سہارا ملا۔
آپ نے رہنے کے لیے ایک جھونپڑے کا انتظام کیا، ایک چھوٹی دوکان لی۔ بہت ہی کم سرمایہ سے معمولی بزنس کا آغاز کیا۔ تحریک کا کام بھی کرتے رہے۔ اللہ نے اسی میں برکت عطا کی۔
پھر جماعت نے ہمہ وقتی کارکن کے طور پر آپ کی خدمات حاصل کیں۔ کفاف ؍مشاہرہ جو کچھ بھی اور جتنا کچھ بھی جماعت سے ملتا تھا، جماعت دے پاتی تھی، ہم اس کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ لیکن اس مرد مجاہد اور اس کی رفیقہ حیات نے پھر کبھی اچھے دنوں کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔ روکھا سوکھا کھاتے، بچوں کو کھلاتے، عسرت کی زندگی کو ترجیح دی اور جماعت سے علیحدگی کا تصور نہ کیا۔ زندگی بھر راضی رہے۔ قناعت کی زندگی بسر کرتے رہے، ہمیشہ اپنے اس فیصلہ پر مطمئن رہے اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہے۔
مولانا اگر دنیا بنانا چاہتے، مال ودولت حاصل کرنا چاہتے تو بہت سارے مواقع آپ کے سامنے تھے۔ نفس اور شیطان پیش بھی کررہے تھے۔ مثلاََ مولانا کی خطابت ، ذہانت بھری اور جذبات کو اپیل کرنے اور ماحول کو سازگار بنانے والی ہر جماعت اور تنظیم کی چاہے سیاسی ہو یاسماجی شدید ضرورت تھی۔ ایک ایک تقریر کے لیے ہزاروں روپے مل سکتے تھے۔ چند تقریروں کے لیے ملنے والی رقم شائد زندگی بھر کے کفاف؍مشاہرے سے زیادہ ہوتی۔ لیکن یہ مرد مومن، یہ مرد درویش اللہ کے در پر ہر حال میں پڑا رہا۔ اللہ شرف قبولیت بخشے اور مولانا سے راضی ہوجائے۔ اس ایک واقعہ میں ہمارے لیے بے شمار سبق ہیں:
۔۔۔ مقصد اور نصب العین کے حق ہونے پر پختہ یقین۔
۔۔۔ توکل علی اللہ راہ حق میں ایثار وقربانی اور قناعت۔
۔۔۔ مصائب ومشکلات اور آزمائشوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ۔
۔۔۔ آخرت پر پختہ یقین اور دنیا پر آخرت کو ترجیح دینا۔
۔۔۔ راہ حق میں استقامت۔
۔۔۔ رفیقہ حیات کی ذہن سازی، وغیرہ وغیرہ
غرض یہ کہ خدا کی دی ہوئی زندگی ، مال ومتاع اور صلاحیتوں کو جنت کے بدلے خدا کے ہاتھ بیچ دینے کے عہد وپیماں کی زندہ تصویر تھے مولانا عبدالعزیز! اللہ ہم سب کو نیک عمل کی توفیق دے۔ آمین
کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی
محمد اشفاق احمد، سابق صدرتنظیم ایس آئی او آف انڈیاو سکریٹری شعبہ تعلیم جماعت اسلامی ہند
مولانا عبد العزیز صاحب سابق نائب امیر جماعت اسلامی ہند کے سانحۂ ارتحال کی اطلاع سن کر بے ساختہ اقبالؔ کا یہ شعر زبان پر آگیا ؂
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی
مولانا عبد العزیز صاحب عرصۂ دراز تک تحریک کے لیے نہ صرف آندھرا پردیش بلکہ پورے ملک میں سرگرم عمل رہے۔ اپنے زورِ خطابت سے لوگوں میں اسلام اور تحریک کا تعارف کراتے رہے اور ان کو گرماتے رہے۔ خطابت، ان کی شخصیت کا بہت نمایاں وصف رہا ہے۔ اس وجہ سے وہ خاص طور پر ملک کی مختلف ریاستوں میں مدعو کیے جاتے رہے۔ پیرانہ سالی، ضعف اور کمزوری کے باوجود وہ اس کام کے لیے ہر وقت مستعد اور تیار رہتے تھے۔ ملک گیر سطح پر طلبہ کی تنظیم جماعت کے زیر نگرانی قائم ہوئی، اس کے وہ مؤید رہے اور آندھرا پردیش میں خاص طور پر طلبہ و نوجوانوں کی سرپرستی کی اور ان کی تربیت میں خصوصی دلچسپی لی۔ہمیشہ تیاری کے ساتھ تقریر کرنا، ان کا دوسرا نمایاں وصف رہا ہے۔ اپنی دینی اور علمی صلاحیتوں کو ترقی دینے کے سلسلے میں بھی وہ برابر فکر مند اور کوشاں رہے ہیں۔ان کے انتقال سے جماعت کا ایک نامور خطیب رخصت ہوا،اللہ تعالیٰ ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ مولانا کی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کے پھیلائے ہوئے ثمرات کو سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ملت کی بہتر ی اور اس کے مسائل کے حل کے لیے آپ مستقل فکرمند رہتے
ڈاکٹر محمد رفعت، سکریٹری شعبہ تربیت جماعت اسلامی ہند
جناب عبدالعزیز صاحب کے انتقال کی خبر بہت رنج کے ساتھ سنی گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا عبدالعزیز صاحب جماعت اسلامی ہند کے نمایاں رہنماؤں میں شامل تھے۔ آپ نے پوری زندگی دین کی خدمت میں گزاری۔ سراپا حرکت وعمل تھے اور بڑی لگن کے ساتھ دینی سرگرمیاں انجام دیتے تھے۔ جماعت اسلامی ہند کی بہت سی تنظیمی ذمہ داریاں آپ کے سپرد رہیں، جن میں اہم اجتماعات کی نگرانی، شعبوں کی رہنمائی، اداروں کی سربراہی اور تنظیمی حلقوں کی امارت شامل ہیں۔ آپ جماعت کے کل ہند نائب امیر بھی رہے۔
جناب عبدالعزیز صاحب کی گفتگو اور تقریر بڑی مؤثر ہوتی تھی۔ پورے ملک میں آپ کے خطابات پسند کئے جاتے تھے اور لوگ آپ کی تقریر سننے کے مشتاق رہتے تھے۔ ان خطابات سے لوگوں کو حوصلہ بھی ملتا تھا اور رہنمائی بھی۔ خطبات جمعہ کے ذریعہ بھی آپ نے اصلاح وتربیت کا کام انجام دیا۔ ملت کی بہتری اور اُس کے مسائل کے حل کے لیے آپ مستقل فکرمند رہتے اور کوشش کرتے تھے۔ اس سلسلے میں افراد اور تنظیموں کو توجہ بھی دلاتے تھے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ موصوف کی مغفرت فرمائے، آپ کے درجات بلند کرے اور جماعت وملت کو آپ کا نعم البدل عطا کرے۔ اللہ تعالی آپ کے پسماندگان واحباب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
اک کہکشاں روپوش ہوئی

انتظار نعیم، اسسٹنٹ سکریٹری جماعت اسلامی ہند
مولانا عبد العزیز صاحب سادگی اور منکسر المزاجی کا پیکر تھے لیکن ساتھ ہی شعلہ بیان خطیب کی حیثیت سے ملک و بیرون ملک شہرت رکھتے تھے اور اپنی اس خداداد صلاحیت کے ذریعہ انھوں نے ملک کے گوشے گوشے میں اسلام کی دعوت اور جماعت اسلامی کے پیغام کو عام کرنے کا حق ادا کیا۔
امیر حلقہ آندھرا پردیش، امیر حلقہ تمل ناڈو، اور نائب امیر جماعت اسلامی ہند کی منصبی تحریکی ذمہ داریوں کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ہی موصوف نے ایک طویل عرصے تک مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن کی حیثیت سے اپنی بہترین صلاحیتوں سے تحریک کو فائدہ پہنچایا۔ مولانا مرحوم شاعر و ادیب تو نہ تھے لیکن شعر و ادب سے غیر معمولی شغف رکھتے تھے۔ نمائندگان اور شوریٰ کے اجلاسوں کے مواقع پر مرکز جماعت پہنچتے ہی راقم الحروف سے انتہائی شفقت و محبت سے یہ ضرور دریافت فرماتے کہ شعری نشست کب ہے اور پھر انتہائی شوق وذوق اور اہتمام سے نشست میں شرکت کرتے اور شعراء کی حوصلہ افزائی فرماتے۔
مولانا عبد العزیز صاحب اگرچہ خود جماعت کے اعلیٰ مناصب پر فائز رہے لیکن اپنے بزرگوں کا خصوصی احترام فرماتے اور نوجوانوں پر اپنی شفقتیں لٹاتے۔ ۱۹۸۶ء میں SIO کے کل ہند اجتماع پریڈ گراونڈ بنگلور میں جب اچانک طوفان اور شدید بارش نے آ گھیرا تو مولانا عبد العزیز صاحب نے اسٹیج پر بانس کی چٹائی سرپر اٹھائے اور خود کو بھیگنے سے بچاتے ہوئے اپنے ولولہ انگیز خطاب سے نوجوانوں کے عظیم اجتماع میں برسات کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کی رگوں میں خون کو گرما دیا اور جوانوں کا بڑا مجمع بھی بیٹھنے کے لیے موجود بانس کی چٹائیوں کی چھت بنائے مولانا کا خطاب بہت صبر و سکون سے سنتارہا اور جیسے اپنے رب سے اس کی بندگی کرنے اور اس کی راہ میں اپنی زندگیاں لگا دینے کا عہد کرتا رہا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنی راہ میں مولانا عبد العزیز صاحب کی جہد مسلسل کی قدر افزائی فرمائے، ان کی مغفرت کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین
تحریک اسلامی کے افق کا 
اِک رہنما ستارہ ڈوب گیا 
انجینئر ایس امین الحسن، 
سابق صدرتنظیم ایس آئی او آف انڈیا ورکن مرکز مجلس شوری جماعت اسلامی ہند
مولانا عبدالعزیز مرحوم و مغفور ایک ہردلعزیز قائد تھے اور دلنواز شخصیت کے مالک تھے۔ انہیں پہلی مرتبہ 1986 میں ایس آئی او کی کل ہند کانفرنس میں دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ کچھ لوگوں کی کچھ یادیں کچھ باتیں ذہن میں انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔ ایک طرف آسمان کی گھن گرج تھی تو دوسری طرف مولانا اس کا مقابلہ کر رہے تھے۔ موسم کانفرنس میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کر رہا تھا، مولانا آگے بڑھے ، پوڈیم پر پہنچے ، مائک سنبھالا اور بلند آواز میں نوجوان کو للکارا کہ تم تو وہ ہو جو ہواؤں کا رخ موڑ سکتے ہو، آندھی اور طوفان کا مقابلہ کر سکتے ہو ، سمندروں کو پار کر سکتے ہو ، کہاں ان بوندوں سے ڈر کر بھاگ رہے ہو۔ میرے پر عزم نوجوانوں خبردار کہ تمہارے پیر اپنی جگہ سے ہٹنے نہ پائے ، پھر مولانا اپنی جگہ بیٹھ گئے اور مقرر نے اپنی تقریر جاری رکھی۔ کچھ اس طرح حوصلہ دیا کہ پھر آسمان نے یہ عجیب منظر دیکھا کہ ایک طرف زور کی بارش اپنا زور آزما رہی تھی دوسری طرف پروگرام حسب معمول جاری رہا، مگر آڈیٹوریم کے نظم میں ذرا بھی خلل واقع نہ ہوا۔ لوگ سروں پر حصیر رکھے مقرر کی طرف ہمہ تن گوش رہے۔ اس طرح مولانا نے طوفان کا رخ موڑ دیا اور ایس آئی او کے نوجوانوں کے اندر ایمان کی ایک نئی روح پھونک دی۔
اس کے بعد مولانا سے وقفے وقفے سے ملاقات ہوتی رہی اور ایک ملاقات کی مٹھاس دوسری ملاقات تک محسوس کرتا رہا۔ کچھ دنوں تک انہیں میرا نام یاد نہیں رہتا تھا ( لاکھوں چاہنے والوں کو وہ یاد بھی کیسے رکھ پاتے) مگر اس گرم جوشی سے ملتے اورعزت و شان بڑھا دینے والے القاب سے پکارتے کہ ہمارا نام یاد نہ رکھنے کا احساس غم غلط ہو جاتا۔ ( یہ گر میں نے بھی انہیں سے سیکھا )
مولانا پرشعلہ بیانی خود رشک کرتی تھی۔ فن تقریر پر کتابیں لکھنے والے مولانا کی تقاریر کا مشاہدہ کرکے اس موضوع پر اپنے معلومات کو اپ ڈیٹ کر سکتے تھے۔ 1970 کے دہے میں مدراس میں رمضان المبارک کی راتوں میں درس قرآن کی روح پرور مجلس ہوا کرتی تھی ، لوگ آج تک ان کیف آگیں راتوں اور مولانا کو یاد کرتے ہیں۔
مولانا ہمیشہ عزم و حوصلہ کی باتیں کیا کرتے تھے. ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو اپنے intellectual ہونے کے اظہار کے لئے ؛ تنقید و طنز کی لنگڑی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر ا، مایوسی کی کالی چادر تان کر مصنوعی مہیب فضا بنا کر اندر والوں کو پست ہمت اور باہر والوں کو خوفزدہ کر دیتے ہیں۔ مولانا اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
اللہ تعالیٰ مولانا کو یہاں کے گھر سے بہتر قیام گاہ اور یہاں کی مجلس سے بہتر حلقہ وہاں عطا کرے۔ ان کی روح کو تا قیام قیامت عافیت اور سکون دے اور جنتیوں میں آپ کو شامل کرے۔ آمین
پر جو ش و پر سوزطبیعت کے مالک تھے
ملک معتصم خان، سابق صدر تنظیم ایس آئی او آف انڈیا وسابق امیرحلقہ متحدہ آندھراپردیش، وسابق ریاستی صدر ویلفیئر پارٹی آف انڈیا
محترم مولانا عبدالعزیز صاحب کو دیکھنے اور سننے کا موقع 1985سے شروع ہوا۔جب وہ جماعت اسلامی حلقہ آندھرا پردیش واڑیسہ کے امیر تھے۔ مولانا کی شخصیت کے بارے میں تأثرات کا اظہارباعث تسکین جان ہے۔
مولانا کی تقریربہت متأثر کن ہوتی تھی دوران تقریرقرآن مجید کی آیات کا پڑھنا، علامہ اقبال کے اشعار،اور پرسوز وگرج دار آواز آپ کی تقریرکا خاصہ تھا۔تقریر میں انگریزی الفاظ اور جملوں کا بے ساختہ استعمال تقریر کی شان میں اضافہ کردیتا اور دوران تقریر آپ کی باڈی لنگویج اور نقل و حرکت بھی تقریر کے اثر میں اضافہ کردیتی۔ آندھرا پردیش و تلنگانہ کا کوئی اہم شہر وبستی ایسی نہ ہوگی جہاں محترم نے دین حق کی صدابلند نہ کی ہو۔ آپ کی تقریر موافق، مخالف،عوام اور خواص سب کے لئے دلچسپی اور کشش کا باعث تھی۔
آپ پر جو ش و پر سوزطبیعت کے مالک تھے اور وابستگان میں بھی کام کے جوش وجذبہ کی آبیاری کرتے تھے۔باہمت اور پر جوش لوگوں کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔سست اور جذبات سے خالی لوگوں کو پر لطف انداز سے مہمیز کرتے تھے۔
تحریک اسلامی کی وسعت اور پھیلاؤ آپ کی سرگرمیوں ،دوروں اور تقاریر کا سب سے ابھرا ہوا پہلو تھا۔یہ آپ کی زندگی کا عنوان تھا۔
آپ کی ذاتی وشخصی زندگی بھی ان ہی مقاصد کی آئینہ دار تھی،وہ گھر پرہوں، یا تنہائی میں،یا انفرادی ملاقات میں،ہر موقع پر تحریک اسلامی ہی چھائی رہتی۔
مولانا کا ادبی ذوق بلند تھا۔ادب دوست اور ادب نواز شخصیت تھے۔ بلند جمالیاتی ذوق رکہتے تھے۔
محترم مولانا عبدالعزیز صاحب،اللہ والے،نیک نفس،شریف،پاکیزہ اخلاق کے حامل انسان تھے۔
مولانا کو نوجوانوں سے بڑی محبت تھی۔وہ نئی نسل کو تحریک اسلامی کا ہر اول دستہ بنانا چاہتے تھے۔ وہ ایس آئی او کے کل ہند سطح پر قیام کے سلسلہ میں پیش پیش تھے اور ایس آئی او کے قیام سے قبل مقامی اور ریاستی سطح پر طلبہ تنظیم کی ترقی کے لئے کو شاں رہتے تھے۔
اللہ تعالی محترم کو اپنی رحمت میں لے لے۔جنت کے اعلی مقامات سرفراز فرمائے۔ہم سب وابستگان تحریک ان کے پسماندگان ہیں۔اللہ ہم سب کو توفیق دے کہ اس کی رضا وخوشنودی کہ لئے ہم بھی کچھ کرسکیں۔آمین
اس کی ادا دلفریب، اس کی نگہ دلنواز
سید سعادت اللہ حسینی، سابق صدر تنظیم ایس آئی او آف انڈیاو رکن مرکزی مجلس شوری جماعت اسلامی ہند
دور طالب علمی میں تحریک سے تعلق قائم ہوا تو ہمارے علاقہ میں مولانا عبد العزیز کی سحر انگیز خطابت کے ہر طرف چرچے تھے۔ ان کا نام نامی کسی بھی جلسہ کی کامیابی کی ضمانت تھا۔ نئے مقررین اُن کے انداز کو اپنانے کی کوشش کرتے تھے۔ طویل انتظار کے بعد اُن کو پہلی دفعہ سننے کا موقع ملا۔ سامعین میں مسلم و غیر مسلم دونوں شامل تھے۔ پورامجمع ساکت و جامد تھا اورسیکڑوں نگاہیں پلک جھپکائے بغیر مقرر پر مرکوز تھیں۔ مولانا کی تقریر ایک رواں دریا کی مانند جاری تھی۔ کبھی تموج تو کبھی سکون،کبھی شور انگیز تیزی تو کبھی سرورآفریں دھیماپن۔ لیکن بے پناہ روانی اور سحر انگیزی۔ مجمع بظاہر ساکت و مبہوت لیکن ہر ایک کے اندر جذبات کا تلاطم۔ جی چاہتا تھا کہ ابھی اٹھیں اور سب کچھ بدل کر رکھ دیں۔جس لب و لہجہ میں اردو میں تقریر شروع کی ،غیر مسلم سامعین کی رعایت سے، اسُی لب و لہجہ اور آہنگ میں ، کسی موڑ پرچپکے سے، انگریزی شروع کردی۔ ہمیں تو پتہ ہی نہیں چلا کہ انگریزی کا موڑ کب آیا؟ اور کمال تو یہ تھا کہ انگریزی نہ جاننے والوں نے بھی اُس حصہ کا اتنا ہی لطف لیاجتنا اردو حصہ کا۔پہلی بارمعلوم ہواکہ خطابت کسے کہتے ہیں؟
اس کے بعدجب حیدرآباد آمد ورفت اور پھر مستقل قیام شروع ہوا تو پتہ چلا کہ اس خطیب بے بدل کی شخصیت میں افراد سازی کی ایک پوری انجمن آباد ہے۔ جس سینئر باصلاحیت آدمی سے ملو، معلوم ہوتاکہ وہ عبد العزیز صاحب کے کسی اسٹڈی سرکل، کسی حلقہ قرآن یا کسی تربیتی پروگرام کی پیداوار ہے۔ تحریک کے حلقہ کے باہر بھی ایسے افراد کثرت سے ملے جنہیں مولانا کی شخصیت ساز محفلوں سے سوز دروں اور فکر صالح نصیب ہوئی تھی اور اس کا اثر ان کی شخصیتوں اور خدمات سے آج بھی نمایاں ہے۔معلوم ہوا کہ اس شخص کو اپنی خطابت کا سکہ جمانے سے کہیں زیادہ دلچسپی، تحریک کے فروغ کے لئے ہنر مندوں کی ایک پوری نسل تیار کرنے سے ہے۔
پھر جب آندھرا، تلنگانہ اور تمل ناڈو کے علاقوں میں سفر شروع ہوئے تو ایک اور انکشاف ہوا۔ اس علاقہ کے چپے چپے پر، مولانا کی سخت جہدو کاوش، جانفشانیوں اور قربانیوں اور سوز وساز اور تب وتاب کی انمٹ داستانیں رقم تھیں۔ہر جگہ سخت مزاحمت اور اس کے درمیان حوصلہ وہمت سے راہ نکالنے ، مشکلات کا سامنا کرنے اور سخت محنت کے ساتھ تحریک کے پودے کی آبیاری کی ایسی ششدرکردینے والی داستانیں موجود تھیں جو آج ایک افسانہ یا ناول لگتی ہیں ۔ مولاناان بے شمار سچے ناولوں کے ہیرو اور اس کے مرکزی کردار تھے۔ معلوم ہو اکہ ناولوں کے ہیرو صرف صلاح الدین ایوبی کے زمانہ ہی میں نہیں رہتے تھے، آج بھی رہتے ہیں اور ہم بھی بن سکتے ہیں۔
اور آخر میں گذشتہ دس سالوں سے حلقہ آندھرا پردیش و اڑیسہ کی مجلس شوری میں اور دیگر متعلقہ مجالس میں مولانا کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ ان اجلاسوں میں مولانا پابندی کے ساتھ شرکت کرتے رہے۔ اُن ذمہ داروں کی، جن کا تعلق ان کی تیسری نسل سے تھا، قابل رشک حد تک اطاعت کرتے ۔ شوری کے اجلاسوں میں نہایت سادگی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے اور انکساری سے اپنی رائے پیش کرتے۔نہ بزرگی کی دھونس، نہ تجربہ کی دھاک، نہ تحکمانہ اندازاورنہ ’’ہمارے دور میں‘‘ کا نوسٹالجیا (Nostalgia: ایک نفسیاتی بیماری ہے جس میں آدمی کو صرف ماضی اچھا لگتا ہے اور حال میں صرف خرابیاں ہی خرابیاں نظر آتی ہیں، عام طور پر اس سے بوڑھے لوگ متأثر ہوتے ہیں)۔ہم جیسے نوواردوں سے وہ اس طرح ہنس ہنس کر، ہاتھ پر ہاتھ مارکر بے تکلفی سے بات کرتے کہ احساس ہی نہیں رہتا کہ یہ وہ شخص ہے جس کی حیثیت جنوبی ہند کے ایک بڑے علاقہ میں بابائے تحریک کی اور باقی ملک میں تحریک کے اسٹار اسپیکر کی ہے۔
محنت سے حاصل کی ہوئی اعلی درجہ کی صلاحیت، کردار کی بلندی، انکساری و بے نفسی، اور انسان دوستی و انسان نوازی، یہی وہ اوصاف ہیں جن کا متناسب امتزاج، ایک خاکی انسان کو ستاروں کی تابندگی و روشنی اور لازوال حسن عطا کرتا ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ اس حوالہ سے ایک نہایت حسین و جمیل شخصیت کو ہم نے سہ شنبہ کی دوپہر جل پلی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا ہے۔ع

 

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سراپا بے تابی، مجسم بے قراری
ڈاکٹر محی الدین غازی، ہیڈ آف ریسرچ دارالشریعۃ، متحدہ عرب امارات
اگر کوئی پوچھتا کہ بے قراری اور بے تابی کو کسی زندہ اور محسوس مخلوق سے تشبیہ دے کر سمجھاؤ تو میرے ذہن میں مولانا عبدالعزیز مرحوم کا نام بھی آتا۔ ان کو اسٹیج پر تقریر کرتے ہوئے صاف محسوس ہوتا کہ ایک فرد اپنی زبان سے نہیں بلکہ پورے وجود سے تقریر کررہا ہے، الفاظ بے قرار، تیور اور لہجہ بے قرار، اعضاء وجوارح بے قرار، اور بے قراری ڈائس اور اسٹیج سے ہوتی ہوئی پورے جلسہ گاہ پر چھاجاتی، اور سامعین اپنی رگوں میں اک برق سی دوڑتی ہوئی محسوس کرنے لگتے۔
بے تکلف جملوں کے لیے بے باکی ضروری ہوتی ہے، اور فکرانگیز جملوں کے لیے سرمایۂ فکر ضروری ہوتا ہے، مولانا کے پاس وہ سب کچھ تھا جس کی ایک مقرر کو ضرورت پیش آتی ہے، فصیح وبلیغ اردو میں جب وہ انگریزی کی ملاوٹ کرتے تو سامعین رشک کرتے، انگریزی کے الفاظ اور جملے ان کی اردو تقریروں میں جس قدر موزوں اور زوردار لگتے تھے، مجھے کسی اور کی تقریر میں نہیں لگے، علامہ اقبال کے ایمان افروز اشعار جب مولانا کی تقریر میں شامل ہوتے تو ان اشعار کی طاقت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا۔ اور اس سب کے ساتھ وہ سوز اور بے قراری بھی جس کے بنا مقررمحض ایک اداکار لگتا ہے۔
جامعۃ الفلاح کے زمانہ طالب علمی میں بہت سارے مشہور مقررین کو سننے کا موقع ملتا تھا، اور ان کی تقریریں اچھی بھی لگتی تھیں، لیکن جب مولانا عبدالعزیز صاحب کی تقریر کو سنا، تو بہت سارے طلبہ میں ایک اچھا مقرر بننے کا جذبہ پیدا ہوا، میں نے بھی اس جوش اور بے تکلفی کے ساتھ تقریر کرنے کی کوشش کی مگر شاید اس کے لیے جس قدر ریاض مطلوب تھا اس کی ہمت نہیں جٹا سکا۔ میرے بعض ساتھیوں نے مشق کرکے اچھی صلاحیت پیدا کی مگر وہ نہ جانے کس جشن انبوہ میں گم ہوگئے۔
اعظم گڑھ کے ایک اسکول میں ان کی ایک تقریر خاص نوجوانوں کے لیے تھی، تقریر ایک بند ہال میں ہونا طے تھی، مولانا ڈائس پر آئے، مگر تقریر شروع کرنے سے پہلے یکایک ایک عجیب بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، اس بند جگہ تو لگتا ہے کہ جیسے کسی قفص میں قید ہوں، گھٹن محسوس ہورہی ہے، چلو باہر کھلی فضا میں چلتے ہیں، چنانچہ فوری طور سے ہم سب باہر نکلے اور مولانا نے اسکول کے میدان میں ایک اونچے مقام سے ہم نوجوانوں کو مخاطب کیا۔ ان کی یہ ادا میرے دل ودماغ پر ایک نقش چھوڑ گئی، دل میں وسعت کی قدر اور آفاقیت کا شوق پیدا ہوا۔ تنگی، تنگ ظرفی اور تنگ ذہنی سے ایک نفرت سی ہوگئی۔
وہ جب نوجوانوں سے خطاب کرتے تھے، تو گویا لہو کو گرما کے رکھ دیتے تھے۔ نوجوانوں کے لہو کو گرمانا عام طور سے عمر رسیدہ مقررین کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے، اور پھر کسی مثبت اور تعمیری کام کے لیے نوجوانوں کو جوش دلانے کی صلاحیت تو شاذونادر کسی کے حصے میں آتی ہے، اور یہ ملکہ مولانا کو خوب حاصل تھا۔
مولانا کو الوداع کہتے ہوئے یہ حسرت بھرا خیال شدت سے ستاتا ہے کہ ان کے ضعیفی کے مرحلے میں داخل ہونے سے پہلے ہی ہم میں سے کتنے نوجوانوں کو اس طرح کی سحرانگیزی اور اثرآفرینی اپنی شخصیت میں پیدا کرلینا تھی، سینوں میں سوزوعشق کی کتنی انگیٹھیاں دہک جانا چاہئے تھیں، آخر ہم کب تک صلاحیتوں کو الوداع کہنے کا غم اٹھاتے رہیں گے، دنیا پیدائش اور وفات پر قائم ہے، اور ہم سالہاسال سے صرف وفاتوں کا سامنا کررہے ہیں۔

’’میں تو تحریک کا محض ایک سپاہی ہوں‘‘
اقبال حسین، صدر تنظیم ایس آئی او�آف انڈیا
یہ وہ باتیں ہیں جو مولانا محمد عبدالعزیز صاحب نے گزشتہ دنوں ۲۶؍جنوری ۲۰۱۵ ؁ء کو ایس آئی او آف انڈیا کے مرکزی ذمہ داران سے گھر پر ہوئی ملاقات کے دوران فرمائی تھیں۔ مولانا نے حسب معمول تمام ذمہ داران کا مسکراتے ہوئے خوشی کے ساتھ نہ صرف استقبال کیا بلکہ فرداََ فرداََ ہمارا تعارف حاصل کرتے ہوئے دعائیہ کلمات کہے۔ مولانا سے ملاقات پر جس قدر ہم خوش تھے اس سے دوگنی خوشی ان کے چہرے پر دکھائی دے رہی تھی۔ مولانا کہنا تو بہت کچھ چاہ رہے تھے لیکن طبیعت ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ اس ملاقات میں مولانا نے دو باتیں کہی تھیں۔ ایک ہم سے مخاطب ہوکر کہ نماز باجماعت کا اہتمام کیجئے اور دوسرا اپنے تعلق سے کہ میں تو تحریک کا محض ایک سپاہی ہوں۔ یہ کہتے جاتے تھے اور اپنے ہاتھوں کے مخصوص اشاروں سے اللہ کا شکر ادا کرتے جاتے تھے۔
یقیناًمولانا عبدالعزیز صاحب تحریک کے ایک سپاہی تھے، جنہوں نے مختلف محاذوں پر تحریک کے لیے غیرمعمولی جدوجہد کی ہے۔ جوانی سے زندگی کے اختتام تک ایک ہی فکر دامن گیر تھی ’’اسلام کی اقامت اور انسانیت کی خدمت‘‘۔ اس راہ میں اپنی نوکری، اپنا مقام، تمام تر صلاحیتیں، اوقات اور جوانی کے حسین ایام سب کچھ لگادیا۔ ایک ایسا سپاہی کہ جس نے اپنی حرکت وعمل کے ذریعے پوری تحریک کو متحرک رکھا۔ مولانا عبدالعزیز صاحب کے کارناموں میں ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ مولانا نے اپنی تقریروں کے ذریعے ایمرجنسی اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملت پر چھائے مایوسی کے بادل کو چھانٹنے کا غیرمعمولی کام کیا۔ اللہ رب العزت نے مولانا کو تقریر کی غیرمعمولی صلاحیت سے نوازا تھا۔ آپ کے خطابات نوجوانوں میں امیداور حوصلہ پیدا کرنے والے ہوتے تھے، جن سے فکر وعمل کا جذبہ اور ایمانی حرارت حاصل ہوتی تھی۔ قرآن مجید کی آیات، حالات کا جائزہ، اور پھر مولانا کا مخصوص انداز میں جوش وولولے کا اظہار اپنے گہرے اثرات مرتب کرتا تھا۔
ایس آئی او آف انڈیا سے مولانا کو خصوصی لگاؤ تھا۔ اپنے دوروں کے موقع سے نوجوانوں سے ملاقات کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی فرماتے۔
وہ آواز جس نے بے شمار افراد کے دلوں میں اسلام کی شمع کو روشن رکھا، ۱۶؍ مارچ کو بہت ہی خاموشی کے ساتھ اس جہان فانی سے رخصت ہوگئی۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عنایت فرمائے، آمین ثم آمین۔
نہ ختم ہونے والی یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے
تاج الدین ، رکن جماعت اسلامی ہند، دہلی
مولانا عبد العزیز مرحوم مغفور تحریک اسلامی اور قوم و ملت کے ان سپہ سالاروں میں تھے جو شکست خوردہ و نیم مردہ فوجوں میں جان ڈال دینے کا ہنر رکھتے ہیں۔ میں نے کئی اجتماعات اور جلسوں میں دیکھا کہ لوگ بے چینی و اضطراب میں پہلو بدلتے رہتے تھے، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ کسی کو دیکھنے اور سننے کے لئے بے چین ہیں، وہ ایک دوسرے سے بار بار پوچھتے مولانا کی تقریر کب ہوگی؟ اگر کسی نے کہہ دیا کہ نماز کے بعد، تو غصہ میں کہتے: یہ لوگ مولانا کی تقریر ہی آخر میں کیوں رکھ دیتے ہیں؟ جب مولانا مائیک کے سامنے آ جاتے تو لوگوں کے چہروں پر بشاشت آ جاتی۔ مولانا کو ایک جھلک دیکھنا اور ان کا لوگوں کے سامنے نمودار ہونا ہی مجمع میں خاموشی اور سکوت کا سبب بن جاتا تھا۔ لوگ ان کی باتوں کو غور سے سننے کے لئے حد درجہ متجسس اور چوکنے ہو جاتے تھے۔
مولانا مرحوم بلا کی ذہانت، خطابت اور اپنے مخصوص انداز بیان کے لئے پہچانے جائیں گے اور تحریک اسلامی کی آغوش میں اس کی نہ ختم ہونے والی یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے اور اسے قوت عمل اور مسلسل جدوجہد کے لئے پکارتے اور ابھارتے رہیں گے۔ جب تک تحریک اقامت دین کی آواز بلند کرتی رہے گی، مولانا کی آواز پردۂ غیب سے ہمت بندھاتی رہے گی اور اللہ کی راہ میں مجاہدین قوم کو باطل سے نبرد آزمائی کا گر سکھاتی رہے گی۔

اپریل 2015

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں