ڈاکٹر اسلم پرویز کا نام علمی دنیا میں ایک معروف نام ہے۔ آپ کا تعلق دہلی سے ہے۔ نباتیات میں آپ نے M.Sc کی تعلیم حاصل کی اور تحقیقی میدان سے منسلک ہوئے پھر CSIR (Council of Scientific & Industrial Research) کے تحت پوسٹ ڈاکٹریٹ مکمل کیا۔کئی تعلیمی اداروں کے ذمہ دار کی حیثیت سے آپ نے خدمات انجام دی ہیں۔ آپ نے ۱۹۹۴ء میں اردو زبان میں ’’ماہنامہ سائنس‘‘ جاری کیا، جس کے تا حال مدیر ہیں۔ اردو داں طبقہ میں سائنسی علوم کی اشاعت آپ کا بڑا کارنامہ ہے۔ اسی طرح قرانی فکر کو سائنسی پیرائے میں سمجھنے کے حوالے سے آپ کی بے مثال کوششیں ہیں۔ آپ کے سینکڑوں مضامین شائع ہو چکے ہیں، نیز قومی اور عالمی سطح کی متعدد کانفرنسوں میں آپ اپنے مقالات پیش کر چکے ہیں۔ ہارورڈ اور Yale جیسی یونیورسٹیوں میں آپ کے لیکچر منعقد ہوئے ہیں۔ فی الحال آپ مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔
سوال: موجودہ دور میں الحاد اور مذہب بیزاری لوگوں بالخصوص نوجوانوں میں ایک فیشن کی سی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ کیا سائنس حق شناسی کا ذریعہ بن سکتا ہے؟ کیا اسلام کی ترویج و اشاعت میں، انسان کے وجود سے متعلق اہم سوالات کے جوابات دینے کی غرض سے سائنس ایک وسیلہ بن سکتا ہے؟
جواب: چونکہ آپ نے مذہب بیزاری کا تذکرہ کیا، تو میں اپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کرنا چاہوں گا۔ کچھ سالوں قبل داخلہ کے وقت ایک طالب علم نے فارم میں مذہب کے خانہ پر کوئی نشان نہیں لگایا، اور میرے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ وہ کسی مذہب پر یقین نہیں کرتا۔ جس کی وجہ یہ بتائی کہ مذہب لوگوں کے مابین نفرت پیدا کرتا ہے۔ اس کی بات میں وزن تھا۔ اور جہاں تک اس کی بات کا تعلق مذہب اسلام سے ہے تو اس میں سراسر مسلمانوں کا قصور ہے۔ اسلام نہ کبھی ایک مذہب تھا اور نہ ہے،بدقسمتی سے مسلمانوں نے مذہب کی مروجہ تعریف کے مطابق اسلام کو بھی اسی خانے میں ڈال رکھا ہے۔ مثلاً آپ دیکھیں کہ بندگی کے وسیع مفہوم کو مسلمانوں نے محض رسوم عبادت جیسے نماز، روزہ ، حج وغیرہ تک محدود کر دیا ہے۔ جبکہ اللہ کا ہر حکم چاہے وہ ذات، معاشرت، اخلاق یا کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو بندگی میں شامل ہے۔مگر مسلمان اس کے بجائے محض رسوم کی پرواہ کرتے ہیں۔ لہٰذا جب ہم اسلام کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں تو لوگوں کے لئے اس میں کوئی اپیل نہیں رہ جاتی۔ مثلاً ایک عام غیر مسلم گنگا اشنان کے ذریعے پاپوں کا پراشچت اور حج کے ذریعے گناہوں سے پاکی کو یکساں نظر سے دیکھتا ہے۔
لہٰذا جب معاملاتِ زندگی میں بندگی کا تصور ہی نہیں رہے گا تو ایک عام ذہن کی مذہب میں کیا دلچپی رہ جائے گی۔ لہٰذا مذہب بیزاری کے مقابلے کے لئے مذہبِ اسلام کے تعارف نو کی ضرورت ہے۔ اسلام کو ایک نظریہ حیات کی شکل میں پیش کرنے کی ضرورت ہے اور یہ نظریہ محض تقاریر اور سیمینار کے ذریعے نہیں، بلکہ عملی مثالوں کے ذریعے ہی اشاعت پا سکتا ہے۔
سوال: مذہب کی عملی نظیر کو پیش کرنا بہر حال ایک اہم کام ہے۔ مگر کیا عقائد کی روشنی میں چند بنیادی سواالات، جیسے کہ انسان کا مقصد وجود، وجود خدا، انسان کا خدا سے تعلق، اخلاق کے معیارات وغیرہ، کے سلسلے میں سائنس کوئی رہنمائی پیش کر سکتی ہے۔ اور کیا ملحدانہ نقطہ نظر سے مرعوب ذہنیت والے نوجوان کو راہ دکھا سکتی ہے۔
جواب: اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم قران کی بنیاد پر کوئی ڈسکورس کھڑا کرنے کے بجائے، دیگر نظریہ ہائے حیات کو موضوع بحث بنا کر اسلام کی بات کرتے ہیں۔یہ ہماری قران سے دوری کا ثبوت ہے۔ قران کے فلسفہ، نظریات اور نظام ہائے زندگی کو ڈسکورس کی حیثیت میں کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً قران نے نظام معیشت کا جو تصور پیش کیا، اس میں ہم زکوٰۃ کی ڈھائی فیصد ادائیگی سے آگے ہی نہیں بڑھ پاتے۔جبکہ قران جس نظام معیشت کی بات کرتا ہے وہ ایک ڈیولپمنٹ فنڈ ہے، جو ہر شخص کو اس کے زائد از ضرورت سرمائے کو خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسی طرز پر قران کا سارا فلسفہ لوگوں کے سامنے لانے کی ضرورت ہے، جو انسانیت کی فلاح پر کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اور جہاں تک مرعوب ذہن کا سوال ہے، یہ مرعوبیت دلائل کی بنیاد پر ہے۔ جس طرح الحاد زدہ سائنسی فلسفوں نے دلائل دئے، اسی طرح قران کے فلسفوں کو مدلل انداز میں پیش کیا جانا چاہئے۔ ہمارے نوجوان جو دین سیکھتے ہیں، وہ محض ایک پدرانہ تحکم کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے، اور فریق مخالف اسے دلائل کی قوت سے مسمار کر دیتا ہے۔ لہٰذا نوجوان مرعوب ہو جاتے ہیں۔ جبکہ خود قران دلائل اور برہان سے بات کرتا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ ہماری نسلوں کو اسی انداز قرانی سے دین کی تعلیم نہ دی جائے۔
سوال: مسلم طلبہ میں سائنسی تحقیق کی جانب رجحان کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ کیا مشکلات آپ کو درپیش ہوتی ہیں جب آپ مسلمانوں کو سائنس اور تحقیق کی جانب متوجہ کرنا چاہتے ہیں؟
جواب: نہ صرف مسلم بلکہ عام طلبہ کے تناظر میں بھی اگر اس سوال کو پرکھا جائے تو اس میں سب سے اہم بات گھروں کا ماحول ہے۔ ہمارے گھروں میںبچے اپنی بالیدگی میں جن باتوں کو اپنے اطراف پاتے ہیں، اسی انداز کی سوچ ان میں پروان چڑھتی ہے، جیسے مال کمانا، جمع کرنا، مستقبل کے لئے سرمایہ کاری، شادی بیاہ کے انتظامات اور بہتر معیار زندگی وغیرہ۔ جب کہ سائنسی تحقیقات جیسے کام اصلاً سماجی بہبود کے زمرے میں آتے ہیں، جس کے تعلق سے ہمارے گھروں میں تذکرہ اور اس پر عمل انتہائی کم ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا ہماری شخصیت سازی کے عمل میں یہ عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے۔ پھر ایسی شخصیت سے یہ امید کیسے کی جائے گی کہ وہ جلد کمائی میں مدد دینے والے پروفیشنل کورسیس کے بجائے کسی صبر آزما تحقیقی میدان کا انتخاب کرے اور سماج کی خدمت کرے۔
سوال: بحیثیت مجموعی، سماج میںکن رجحانات کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ تحقیقی میدانوں کی طرف رجوع کریں، اورجس کے نتیجے میں سماج کا بھی ایک عمومی تفکر، تعقل اور تدبر کا مزاج بنے؟
جواب: اس سلسلے میں گھروں کے ماحول میں ایک انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے، کہ ہم لینے کے بجائے دینے والے بنیں۔ خود قران میں مسلمانوں کو جگہ جگہ انفاق کی ترغیب دی گئی۔ پہلی ہی سورہ میں ایّاک نستعین کا سبق ہماری تربیت کی بنیاد ہونا چاہئے۔ریسرچ کے میدان میں اسکالر شپس اور ریزرویشن کے حوالے سے جو جدوجہد مسلمان کرتے ہیں، انہیں یہودیوں سے سبق حاصل کرنا چاہئے جو اقلیت میں ہونے کے باوجود سب سے زیادہ نوبل انعامات پاتے ہیں۔ لہٰذا اقلیت میں ہونا یا مسلمان ہونا ہماری پسماندگی کا سبب نہیں، بلکہ ہماری پسماندگی ہماری کم محنتی کا مظہر ہے۔ ہمیں اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے، اور اگر ہم اقلیت میں ہیں تو ہمیں اکثریتوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ محنت کرنی چاہیے۔ تعصبات کا رونا بھی ہمارے ایمان کی کمزوری کا مظہر ہے۔ اگر ہم اپنا سو فیصد کسی کام میں لگاتے ہیں اور نتائج کی امید اللہ سے کرتے ہیں تو تعصبات کا شکوہ کرنے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے۔ مگر ایک عام رویہ اب یہ ہے کہ اپنی ناکامیوں کی وجوہات کو تعصب سے جوڑ دیا جائے۔
سوال: مسلم طلبہ میں بیشتر ایسے ہیں جو معاشی تنگ دستی کے شکار ہیں۔ تحقیقی کاموں میں دلچسپی رکھنا اور آگے بڑھنا ان کے لئے کافی مشکل ہوتا ہے۔ ان حالات کے سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے۔
جواب: سب سے پہلے ایسے طلبہ کو صبر کی تلقین کرنا چاہوں گا کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور صبر سے میرا مطلب وہ ہےجو اس کے اصل عربی مادہ سے حاصل ہوتا ہے یعنی ’’ڈٹے رہنا‘‘۔ ایسے طلبہ کو حتی الامکان اپنی دلچسپی کے تحقیقی میدان میں خوب محنت اور لگن سے ڈٹے رہنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا پہلو اس سلسلے میں ایک بیدار سماج کے حوالے سے ہے۔ جس علاقےمیں ایسے طلبہ ہوں اور وہاںکے مکین جو اس طالب علم کے ساتھ محلے کی مسجد میں نماز ادا کرتے ہوں، اگر اس کے حالات سے باخبر نہ ہوں یا اس اعانت نہ کر سکیں تو ایسے ہی نمازیوں کی تباہی کی خبر سورۃ الماعون میںسنائی گئی ہے (جو ضرورت کی چیزیں ایک دوسرے کو دینے سےمنع کرتے ہیں)۔ لہٰذا یہ ذمہ داری اس معاشرے کی ہے کہ ایسے طلبہ کی اعانت کرے اوراپنی زندہ ہونے کا ثبوت پیش کرے۔ جب یہ ماحول پروان چڑھے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کو فکر مندی سے آزاد کرے گا۔ اگر ایسے کاموں کے لئے آپ ادارہ جاتی کاموں کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں شفافیت کے بڑے مسائل آتے ہیں اور لوگ میں دوبارہ اپنی جیب سے دینے کے بجائے لوگوں سے جمع کرنے کا مزاج بنتا ہے۔لہٰذا ایسی کوششوں کی ابتدا پہلے ہماری ذات کی جانب سے ہونی چاہئے۔
سوال: آپ نے’’ ماہنامہ سائنس‘‘کی اشاعت کے علاوہ ایک ادارہ بنام’’ انجمن فروغ سائنس‘‘ قائم کیا۔ اس کی غرض و غایت اور سرگرمیوں پر کچھ روشنی ڈالیں۔
جواب: یہ ادارہ ’’ماہنامہ سائنس‘‘ کی اشاعت سے قبل ۱۹۹۲ء میںوجود میں آیا۔جس کے بانیان میں سید حامد صاحب،حکیم عبدالحمید صاحب اور عبدالسلام صاحب (نوبل انعام یافتہ) بحیثیت سرپرست رہے۔ مگر افراد کی مصروفیات کے باعث کچھ خاص پیش رفت اس سلسلے میں نہیں ہو سکی، حالانکہ ادارہ اب بھی قائم ہے۔ اسی دوران ہم قران کانفرنس بھی انعقاد کرتے رہے ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ قران پر فقہی کے بجائے علمی انداز سے مزید کام کیا جائے، جس کے لئے ہم اس ادارہ کو جاری و ساری رکھنے کے لئے افراد کو بھی تلاش کر رہے ہیں۔
اسی طرح ہم نے ’’نیشنل سائنس کانگریس‘‘ کی طرز پر’’اردو سائنس کانگریس‘‘ کا بھی انعقاد کیا۔ جس کا مقصد یہ تھا اردو داں طبقہ میں جو حضرات سائنس سے دلچسپ رکھتے ہیں ان کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے۔ یہ کانفرنس پہلے پہل ذاکر حسین کالج میں، پھرعلیگڑھ میں ہوئی، اور گذشتہ دنوں میں اسے مولانا آزاد یونیورسٹی میں منعقد کیا گیا، اس کے ساتھ ہی ’’اردو سوشل سائنس کانگریس‘‘ بھی منعقد کی جاتی ہے۔لہٰذا اب یہ سرکار سے منظور شدہ، مرکزی یونیورسٹی کی تعلیمی سرگرمی کا حصہ بن چکی ہے، لہٰذا ہمیں یہ امید ہے کہ آئندہ بھی یہ ہوتی رہے گی، اور اگر کسی وجہ سے یونیورسٹی میں نہ ہو تو انجمن فروغ سائنس کے ذریعے اسے منعقد کیا جاتا رہے گا۔
سوال: ادب کے علاوہ، جن سماجی یا سائنسی علوم میں تحقیقات اردو زبان میں ہوتی ہیں، وہ بہت زیادہ معیاری نہیں ہوتی۔ یہ ایک عمومی مفروضہ ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے۔
جواب: یہ محض ایک مفروضہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے، اور اس کے ذمہ دار اصلاً اہل زبان ہیں۔ کیونکہ اردو زبان میں بلا شبہ نہایت وسعت ہےبالخصوص سماجی علوم کے حوالے سے تو میدان کھلا ہے۔ سائنس کے معاملے میں کچھ حدود ہو سکتی ہیں مگر ایسی نہیں کہ جن سے کام رک جائے۔ اور دوسری بات یہ کہ اردو اسکولوں میں انگریزی زبان کی تدریس کا نظم اکثر ناقص ہوتا ہے۔ لہٰذا اردو داں طبقہ انگریزی میں کئے گئے کاموں کے حوالے سے تشنہ بھی رہ جاتے ہیں۔ اس محاذ پر مولانا آزاد یونیورسٹی میںہم نے ادارتی سطح پر کوششیں شروع کی ہیں۔ اردو سائنس کانگریس وغیرہ سے بھی کسی حد تک یہ کام ہو سکتا ہے۔
سوال: موجودہ دور میں جب کہ سائنس میں مسلسل تحقیق کے نئے میدان دریافت ہو رہے ہیں ایسےمیںطلبہ کے لئے کیا بات کہنا چاہیں گے؟
جواب: پہلی سیڑھی تو یہ ہے کہ طلبہ تحقیقی میدان میں دلچسپی کو پروان چڑھائیں۔ اور ایک وسیع سائنسی پلیٹ فارم پر اپنی تعلیم کی بنیاد قائم کریں۔ پھر آگے چل کر دلچسپی کی مناسبت سے نینوٹکنالوجی، بایوٹکنالوجی، مصنوعی ذہانت، جینیاتی انجنیرنگ، روبوٹکس وغیرہ بے شمار مواقع سامنے آئیں گے۔ اور یہ سائنسی میدان مستقبل قریب میں بہت تیزی کے ساتھ فروغ پائیں گے۔ مثال کے طور پر آئندہ دس سالوں میں وکیلوں کے کام جیسے کیس کا جائزہ لینا، کیس تیار کرنا وغیرہ جیسے کام کے لئے سافٹ وئیر تیار کئے جا رہے ہیں۔ اسی خودکاری کے نتیجے میں بہیترے غیر خودکار کاموں کی مانگ کم ہوتی جائے گی۔ اس بنیاد پر ملت کے مفکرین کو ایک زبردست تعلیمی ایجنڈا ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
سوال: بحیثیت وائس چانسلرآپ کی معیاد میں مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی میں کار گر تبدیلیاں محسوس کی گئی ہیں۔ آپ اس ضمن میں اپنی کوششوں پر روشنی ڈالیں۔
جواب: اس یونیورسٹی کے تمام ہی شعبہ جات میں ہم ابھی بد نظمی کے خاتمے اور سنجیدہ و منظم انداز سے کارکردگی کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ اس طرح کہ ہر شعبہ اور ہر شخص کا دائرہ کار متعین کر دیا جائے۔ دوسری بات اس سلسلے میں یہ کہ یہ محض کسی شعبہ اردو کا پھیلاو نہیں، بلکہ ایک اردو یونیورسٹی ہے، جس کا مقصد اردو میں علوم کی منتقلی اور اردو زبان میں مزید علمی مواد کی تیاری ہے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی کے اساتذہ کو کئی ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں اور ان سے امیدیں بھی ہیں۔ حالیہ اردو سائنس کانگریس میں سائنسی اصطلاحات پر مبنی ایک فرہنگ کو بھی شائع کیا گیا۔ تا کہ طلبہ سائنسی اصطلاحات کا باآسانی اردو زبان میں مفہوم سمجھ سکیں۔
سوال: قران پر سائنسی نقطہ نظر سے جو علمی کام کی کوششیں آپ نے کی ہیں، اس سلسے میں آپ کے محرکات کیا رہے، کن شخصیات نے آپ کو متاثر کیا۔
جواب: سورۃ القصص کی آیت نمبر 85، اس ضمن میں میرے لئے بنیادی محرک رہی۔ جس نے مجھے یہ بتایا کہ قران مجھ پر فرض کیا گیا ہے۔ اور قران کی فرضیت کا مجھ سے تقاضا یہ ہے کہ میں قران کی طرف رجوع کروں، اس میں دیئے گئے علوم سے استفادہ کروں۔ لہٰذا میں نے اس کام کو شروع کیا۔پڑھنے اور سمجھنے کے بعد مجھے اس بات کا ادراک ہوا کہ یہ اسلام تو مجھے کسی نے بتایا ہی نہیں تھا۔ لہٰذا میں قران ہی کو اپنا اصل محرک مانتا ہوں۔
سوال: قران کی بنیاد پر آپ نے جو کام کیا، اس سلسلے میں ایک مثبت ردعمل اور بیداری لوگوں ے درمیان نظر آئی۔ آپ کے نزدیک اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟
جواب: اس کی بنیادی وجہ خود قران ہی ہے۔ کیونکہ قران کا یہ اعجاز ہے کہ یہ دلوں پر اثر کرنے والی کتاب ہے۔ الٹا ہماری جانب سے اس سلسلے میں نہایت کوتاہی رہی ہے۔ خود مدارس کا حال دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں پر بھی قران کی بنیاد پر اصل تعلیم نہیں ہوتی۔ بلکہ قران ان کے نصاب کا محض ایک جزوی حصہ ہے۔ لہٰذا قران کی دعوت کو عام کرنا اس قت مسلمانوں کے لئے انتہائی اہم کام ہے۔ قریب قریب ایک ہزار سال قران سے دوری کی بنیاد پر ہم خود اپنے زوال کی شہادت دے رہے ہیں۔
سوال: آپ اپنے طالب علمی کے زمانے سے کوئی خاص پیغام قارئین اور طلبہ کے لئے دینا چاہیں گے؟
جواب: یوں تو بہت سی باتیں ہیں، مگر ایک خاص بات میں آپ سے شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے ابتدائی تعلیم سرکاری اسکول سے حاصل کی، جہاں تعلیم کا بالخصوص انگریزی زبان سیکھنے کا کوئی خاص نظم نہیں تھا۔ چھٹی جماعت سے انگریزی سیکھنے کے لئے میں نے راستوں کے اطراف لگے بورڈ اور پرانے اخبارات کے ذریعے انگریزی سیکھنے کی کوشش شروع کی۔ اس جذبہ کے ساتھ کوشش شروع کی اور محنت و لگن سے کام کرتا رہا تو اللہ نے ایک وہ دن بھی دکھایا کہ مجھے ہاردرڈ یونیورسٹی میں Islam and Ecology کے عنوان پر بات کرنے کے لئے مدعو کیا گیا۔ ہاروڈ پریس کی کتابوں میں میراایک مضمون بھی شامل ہے۔ الغرض یہ کہ سخت محنت اور سچی لگن سے کسی نیک مقصد کی جستجو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ضرور بالضرور قبول ہوتی ہے۔ طلبہ کے لئے یہی خاص پیغام ہے کہ محنت اور لگن سے اپنے مقصد کی جستجو میں ہمیشہ سرگرداں رہیں، اور خدا سے یقین کے ساتھ دعا کریں۔