مسئلہ

ایڈمن

خزیمہ عظیم الدین

’’آپ کو کیا لگتا ہے کیا حل ہے؟‘‘ فیض نے پریشان کن لہجے میں کہا۔
’’کس بات کا؟‘‘ زید نے سوال کیا ۔
’’یہی۔۔۔ تنظیم میں موجود اس مسئلہ کا۔ سچ پوچھو توکچھ کام کرنے کا دل ہی نہیں کر تا اب۔‘‘
زید، فیض سے عمر میں بڑا تھا اور تنظیم کا بھی کافی پہلے سے حصہ تھا، تنظیمی معاملات میں فیض کی رہنمائی کرتا اور اس کو کوئی پریشانی در پیش ہوتی تو وہ اسے راہ دکھاتا تھا۔ فیض کو تنظیم کے ساتھ زیدسے بھی بہت محبت تھی ۔ فیض اس وقت تنظیمی دفتر کا ملازم تھا اور زید کچھ دنوں کے لئے کسی کام کی غرض سے دفتر میں آیا ہوا تھا۔ جب بھی زید دفتر میں آتا دونوں کا معمول تھا کہ رات کے کھانے کے بعد وہ ٹہلنے نکلتے اور مختلف موضوعات پر گفتگو ہوا کرتی۔اس وقت تنظیم میں ہو رہے کچھ معاملات فیض کی پریشانی کا سبب بنے ہوئے تھے۔ اور وہ اسی کے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔


’’دیکھو فیض، جہاں تک امین کا معاملہ ہے ۔ تو وہ بالکل طلحہ کا فین ہے۔طلحہ جو کہتا ہے اس کے لئے اصل کام وہی ہے ۔ اس کے لئے تنظیم صرف اور صرف طلحہ ہی ہے۔ ‘‘ زید نے سنجیدگی سے کہا ۔ ’’امین کو مقصد زندگی دینا جبکہ وہ بالکل عام سا طالب علم تھا یہ طلحہ کا ہی کام ہے۔ ‘‘
’’یہ تو اچھی بات ہوئی نا؟‘‘ فیض نے پوچھا۔
’’بہت اچھی بات ہے۔ کسی بے مقصد نوجوان کو راہ راست پر لانا ۔ وہ بھی اتنے عظیم مقصد کے تحت۔‘‘ زید کچھ دیر خاموش ہوا پھر کہنے لگا۔
’’لیکن شیطان راہ راست پر بھی تو بیٹھا ہوتاہے۔ بلکہ اس کی محنت ان لوگوں پر زیادہ ہوتی ہے جو راہ راست پر ہیں، جو اس کے چنگل میں نہیں ہیں ۔وہ انہیں اتنی چالاکی سے بہلاتا ہے کہ خبر بھی نہیں ہوتی۔اور کئی دفعہ تو ہم گناہ کے کام کر بیٹھتے ہیں عین ثواب کا کام سمجھ کر۔‘‘
’’لا شعوریطور پر ؟‘‘
’’ہاں ۔ لا شعوری طور پر۔‘‘ زید نے تصدیق کی ۔
’’تو ان کی نیت گناہ کرنے کی نہیں ہوتی ۔ وہ تو یہ کام تنظیم کی بہتری کے لئے کرتے ہیں ۔‘‘
’’یقینا انکے خیال میں یہ کام تنظیم کی بہتری ہی کے لئے ہوتے ہیں۔لیکن بہتان لگانا ، جھوٹ بولنا، چالیں چلنا ،اور معاملے کی حقیقت کو جانے بنا بدگمان ہونا، کسی مخصوص سوچ رکھنے والے فرد کے خلاف لوگوں میں باتیں کرناکسی صحیح مقصد کے لئے بھی جائز نہیں ۔ اچھی نیت سے برے کام کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ ‘‘ زید تھوڑی دیر کے لئے رک گیا ۔
پھر کہا، ’’معاف کرنا میں بہت سخت الفاظ کہہ گیا لیکن میں مجبور ہوں یہ سب کہنے کیلئے ۔ بات در اصل یہ ہے کہ شیطان بڑی چالاکی سے ہمیں ہمارے اعمال کا جائزہ تک لینے نہیں دیتا۔‘‘


’’اتنے لوگوں میں کسی کا بھی خیال نہیں جاتا ہوگا اس طرف؟‘‘ فیض نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’جب کچھ افراد ایک گروپ کی شکل لیتے ہیں تو انکی انفرادی سوچ کوئی معنی نہیں رکھتی۔جن بے چاروں کے دل میں کھٹک ہوتی بھی ہوگی تو وہ اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس ڈر سے کہ جن سے وہ محبت کرتے ہیں، ناراض نہ ہوجائیں۔گروپ میں ہر فرد کی سوچ ایک ہوتی ہے۔ درمیان میں اگر کسی کا ضمیر بیدار بھی ہوتا ہے تو لا شعوری طور پر وہ اس دستک کو دبا دیتا ہے۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ ‘‘ فیض نے کچھ سوچتے ہوئے حامی بھری۔
’’لیکن ایک وقت آتا ہے کہ فرد ان دھیمی دھیمی لیکن مستقل ہونے والی دستک کو سن لیتا ہے۔اور دروازہ کھول کر اس جنجال سے باہر نکل آتا ہے۔ ‘‘ زید نے نہ جانے کیوں دبی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ فیض نے اس چھپی مسکراہٹ کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ نہیں بس کچھ ایسے لوگ یاد آگئے ۔ ۔۔ پتہ نہیں کیوں لیکن اس طرح گروپ سے الگ ہونے والے افراد کی میرے دل میں بہت عزت اور محبت ہوتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو منہ اوندھائے نہیں بلکہ سر اٹھائے سیدھے راستے پر چل رہے ہیں ۔‘‘
’’ اچھا! ایسے لوگ ہیں تنظیم میں ؟‘‘ فیض نے خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’ہیں۔ کیوں نہیں؟ تم نے تنظیم کے افراد کو اتنا گیا گزرا سمجھ کر رکھا ہے کیا؟‘‘ زید نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’ارے نہیں ۔۔۔ مجھے ایسے کسی فرد کا پتہ نہیں اسی لئے پوچھا۔‘‘ فیض نے بات سنبھالتے ہوئے کہا۔
’’ہاں اس بات سے میں بالکل متفق ہوں کے ایسے لوگ اچانک غائب ہو جاتے ہیں ۔‘‘
’’کون غائب کر دیتا ہے انھیں؟‘‘ فیض نے حیران ہوتے ہوئے ایسے پوچھا جیسے پتہ نہیں کون اغوا کر لیتا ہوگا ایسے افراد کو۔
’’کس کی مجال کے وہ انھیں غائب کردے، وہ دراصل خود اپنے آپ کوغائب کرلیتے ہیں اس جنجال سے پیچھا چھڑانے کے لیے۔‘‘
’’مطلب۔۔۔؟‘‘
’’ایسے افراد خود کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔یہ سوچ کر کہ اب وہ ان سب معاملوں میں نہیں پڑینگے ۔‘‘
’’ صحیح تو ہے ۔۔۔ انکی جگہ میں ہوتا تو یہی کرتا۔ چپ چاپ اپنے کام سے کام رکھو کسی کے لینے میں نہ دینے میں۔ ‘‘
’’شاباش ! تم سے یہی امید تھی۔۔۔‘‘ فیض نے غصیلے انداز میں کہا۔
’’کیوں اس میں کیا غلط ہے۔؟‘‘ فیض نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں ۔۔۔ کچھ غلط نہیں ہے؟‘‘ زید نے طنزیہ لہجے میں کہا۔’’سوائے اس کے کہ جو لوگ حقیقت میں اس مسئلہ کو حل کر سکتے ہیں وہی ایک طرف بیٹھ جائیں اور نا امیدی کی باتیں کریں ۔کہ تنظیم میں اب کچھ اچھائی باقی نہیں رہی اور اسکا کچھ نہیں ہو سکتا۔ حا لانکہ انکی باتوں کی مخالفت میں وہ خود ایک جیتی جاگتی دلیل ہے۔‘‘
’’مطلب؟‘‘ فیض نے معصومیت سے پوچھا۔
’’یہی کہ لوگ تبدیل ہو سکتے ہیں ۔‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ فیض نے منہ کھول کر کہا جیسے اسے اب ساری بات سمجھ میں آگئی ہو۔
چہل قدمی کرتے ہوئے دونوں دوست چائے کی ہوٹل پر پہنچ چکے تھے۔چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے بات دوبارہ شروع ہوئی۔


’’تنظیم کا مقصد کیا ہے؟‘‘ زید نے سمجھانے کی شروعات کرتے ہوئے پوچھا ۔
’’ اچھائی کا قیام‘‘ فیض نے بلا جھجھک کہہ ڈالا۔
’’قیام ہی کیوں؟ صرف ’اچھائی پر عمل ‘میں کیا حرج ہے ؟کہ بس ہر فرد اچھائی کو اپنے حد تک ہی رکھے ،کیا ضرورت ہے اسے معاشرہ میں قائم کرنے کی؟ہر فرد اچھا ہوجائے تو معاشرہ خود بہ خود اچھا ہو جائے گا۔‘‘
فیض نے کچھ دیر تک سوچنے کے بعد کہا: ’’شاید اسی لئے کہ ہر فرد اچھا ہوجائے ایسا ضروری نہیں ۔ معاشرہ میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ برے افراد رہتے ہی ہیں ۔ اگر اچھے افراد حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرنا چھوڑدیں تو یہ افراد ہیں ہی اپنے ایجنڈوں کو نافذ کرنے کے لئے تیار۔‘‘
’’بالکل صحیح !‘‘ زید نے توقع کے مطابق جواب سن کر کہا۔’’اب یہی معاملہ تنظیم میں بھی دیکھ لو۔میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی فرد دانستہ طور پر تنظیم کو نقصان پہچانا چاہتا ہے۔بلکہ کسی فرد سے غلطی ہو جاتی ہے ۔ ‘‘
’’اتنی بڑی؟‘‘فیض نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’شروعات میںغلطیاں اتنی بڑی نہیں ہوتی۔ شروع میں تو غلطیاں چھوٹی ہوتی ہیں اگر اسی وقت کوئی ٹوک دے تو فرد سنبھل جائے ۔لیکن ہماری نظر انداز کرنے کی عادت ۔۔اف‘‘
زید نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’ ہمارے اکابرین اس معاملہ میں کہتے ہیںکہ ہر رکن اجتماعیت کا سنتری یعنی گارڈ ہوتا ہے جو جہاں کوئی غلطی دیکھتا ہے اسے سدھارنے کی کوشش کرتا ہے۔ذرا سوچو اگر ہر فرد اس کام کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر کرنے لگے تو غلطی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوگی۔‘‘
’’سب کا تو پتہ نہیں لیکن میں تیار ہوں۔ بتایئے کہاں سے شروع کروں؟ سیدھے طلحہ بھائی سے یا پہلے امین کے پاس جائوں؟‘‘
’’ اتنا جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘ زید نے ہنستے ہوئے کہا۔’’ان لوگوں کا تم سے کیا معاملہ بھلا؟اگر تم کو کوئی آکر اس طرح کے کام میں ملوث کرے تو تمہارا فرض بنتا ہے اسے نصیحت کرنے کا ورنہ تمہیں کچھ لینا دینا نہیں ہونا چاہئے ان لوگوں سے۔ ان سے جا کر کیا کہوگے کس نے بتایا تمہیں ان سب چیزوں کے بارے میں ؟‘‘
’’اگر ایسا ہے تو اسکا مطلب ہمیں بھی یہ سب باتیں نہیں کرنی چاہئے۔۔۔‘‘ فیض نے کہا۔
’’اصولی طور پر تو تمہاری بات صحیح ہے ‘‘ زید نے اعتراف کرتے ہوئے کہا۔تھوڑی دیر تک دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی۔پھرفیض نے سوال کرتے ہوئے خاموشی کو توڑا۔


’’آپ کہہ رہے تھے کہ جو لوگ الگ ہو جاتے ہیں وہی لوگ اصل میں اس مسئلہ کو حل کرسکتے ہیں۔۔۔‘‘
’’ہاں ۔ کیوں کہ انھیں افراد کو معاملہ کی جڑ پتہ ہوتی ہے اور چونکہ یہ افراد گروپ بندی کرنے والے افراد کے کبھی نزدیکی ہوا کرتے تھے تو شاید انکے مخلصانہ احساس دلانے پر وہ سنبھل جائیں۔‘‘
’’ اوراگر یہ سدھرنے کا نام ہی نہ لیں تو؟‘
’’ تو۔۔۔ انھیں ایسے مقام پر ان کے راز کھول دینے چاہئے جہاں موقع ہو۔ تاکہ اسطرح کہ افراد اور انکی ایکٹیویز دوسرے متعلقہ افراد کے سامنے آجائے اور تنظیم کے افراد کے سامنے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔‘‘
ــ’’بہرحال اﷲ تعالی ہمیں اور ہماری تنظیم کو ان برائیوں سے بچائے۔آمین‘‘ فیض نے گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے کہا۔
اتنی دیر میں وہ دونوں گھوم کر دفتر تک پہنچ چکے تھے ۔ اور وہاں پہنچ کر زید کچھ کام میں مصروف ہو گیا اور فیض سونے کی تیاری کرنے لگا۔

مارچ 2019

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں