مردوں اور عورتوں کے درمیان تعامل کا اسلامی نقطۂ نظر

مستجاب خاطر، سمیط مظہری

یہ بات تو اب قبول کر لی گئی ہے کہ ہر تہذیب کی بنیاد اس کے ایمانیات اور اعتقادات پر قائم ہوتی ہے۔

یہ بات تو اب قبول کر لی گئی ہے کہ ہر تہذیب کی بنیاد اس کے ایمانیات اور اعتقادات پر قائم ہوتی ہے۔ ان ایمانی بنیادوں ہی کے نتیجہ میں اُس تہذیب کا داخلی نظام تشکیل پاتا ہے۔ اگر ایمانی بنیادیں خدا بیزاری کی ہوں تو اس سے عصر حاضر کی غالب تہذیب کا وجود ہوتا ہے۔ ایمانی بنیادوں سے تعرض کیے بغیر کسی تہذیب کے داخلی نظام میں سے کچھ ذیلی تبدیلیاں کر لینا  اور یہ سمجھنا کہ یہ اصلاح اور تعمیر کا کام ہے ،نہ صرف یہ کہ ایک نادانی پر مبنی عمل ہے بلکہ ایک غیر فطری امر ہے۔ مثلاً جب جدید ریاست میں جہاں کے امور  اسلامی روایات پر مبنی نہ ہوں، بلکہ ایک ملحدانہ دستور کے مطابق تشکیل پاتے ہوں وہاں اسلامی تعزیرات کا نفاذ نہ صرف ایک بے ہودہ امر ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی تعزیرات کا نظام اسلامی ایمانیات کی بنیاد پرتعمیر ہونے والی  اسلامی معاشرت اور اسلامی اجتماعی اخلاق کے داخلی تطابق پر مبنی نظام میں اپنا جلوہ اور فائدہ ظاہر کرتے ہیں۔  اسی لئے جدید ریاستی نظام میں اسلا jjjjمی تعزیرات کا نفاذ ایک انسجام ذہنی کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اس طرز ِ استدلال کو آگے بڑھائیں تو اسلامی تہذیبی روایتوں اور مظاہر پر بھی مغربی تعلیمات کا اطلاق اسی قسم کا بیہودہ امر ہے۔ عام طور پر مغربی روایتوں میں اسلامی تعلیمات کے تئیں غیر عمل پذیری پر بڑی بڑی بحثیں ہوتی ہیں لیکن یہ بات نظر انداز کردی جاتی ہے کہ اسلامی روایتوں میں مغرب کا چربہ اوڑھی ہوئی تعلیمات بھی اتنی ہی غیر عمل پذیر اور بے جوڑ ہوتی ہیں۔ 

اس تمہید کا مقصد اس بات کا تعین کرنا ہے کہ مرد و زن کے مابین تعاملات کے حوالے سے ہم مغربی روایتوں کو مکمل طور پر غیر متعلق، لا یعنی اور فضول سمجھتے ہیں۔ مغربی (اور اب مغرب کے زیر اثر ساری دنیا کی )بے راہ روی اور ظلم روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس لئے مغرب کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ ایک بگڑا ہوا بچہ ہے اور اب اہل علم و تہذیب کے سامنے بیٹھ کر اسلامی روایتوں کے اجزائے ترکیبی اور مظاہرتہذیبی کا سبق حاصل کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی اور شکل دماغی خلل ، کمزور ایمان اور شکست خوردہ شخصیت کی علامت ہے۔ خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں، ’ ہر دور کا ایک فکری اور لسانی سانچہ ہوتا ہے۔۔۔ ازمنۂ وسطی میں کوئی گفتگو، خواہ وہ کتنی ہی سیاسی کیوں نہ ہو، مذہب کی آمیزش کے بغیر ممکن ہی نہ تھی،  بعض چیزیں تو اس طرح زبان و بیان کا جزو بن گئی تھیں کہ ہندو مؤرخ بھی اپنے ہم مذہبوں کو نہ صرف ’’کافر‘‘ لکھتے تھے بلکہ ان کی موت پر ’’بہ جہنم رفت‘‘ ہی کہتے تھے‘۔تہذیبی  اور فکری مظاہر کی اسی ہمہ گیر سرایت ہی کے نتیجہ میں ہمارے یہاں لبرل ، جدیدی اور مابعد جدیدی مسلمان پیدا ہوتے ہیں۔ جب کہ ان تمام الفاظ کا کوئی سابقہ اور لاحقہ ،لفظ مسلمان  کے ساتھ لگانا ممکن نہیں ہے۔  اس مضمون میں ہم ان تہذیبی عناصر سے پاک ہو کر، صرف اور صرف اسلامی تہذیبی اور اخلاقی روایتوں کی روشنی میں مرد و زن کے مابین تعاملات کے بارے میں ایک داخلی طور پر مطابقت رکھنے والے نظام کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

عام طور پر گفتگو ’اختلاط‘ کے لفظ کے اطراف گردش کرتی ہے۔ یہ لفظ اسلامی تراث کے اعتبار سے نیا ہے اور مغرب کی روایت سے مرعوبیت کے ساتھ مستعار لیا گیا ہے۔ ہم اسے یک قلم مسترد کرتے ہیں۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان ’اختلاط‘ کی کوئی گنجائش اسلام اور اسلام کی تہذیبی روایتیں باقی نہیں رکھتی ہیں۔ اس لفظ کے استعمال کے نتیجہ میں مغربی تصورات کے چکر ویو میں مسلمان پھنس جاتا ہے۔ اس لئے ہم بحث کو ٹھیٹھ اسلامی نکات پر بڑھانے کے لئے تعامل اور ملاقات کے الفاظ استعمال کریں گے۔ یہاں یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ صرف الفاظ کی تبدیلی ہے جبکہ معنی اور مفہوم یکساں ہیں۔ ہرگز نہیں۔تعامل سے ہمارا مفہوم اختلاط سے بالکل مختلف ہے۔ چونکہ اسلام نے ایک جاہلی سماج میں جہاں مردوں اور عورتوں کے درمیان اخلاقی حدود و آداب کا کوئی تصور نہیں تھا، وہاں مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر امارت ارضی کو انجام دینے کے طریقے بتائے، اس لئے اسلام ملنے جلنے کے عمل کو استعانت،ضرورت اور تعمیر کی اغراض کے تحت رکھتا ہے۔جب کہ  اختلاط کے عمل میں مقصدیت نہ صرف غائب ہے بلکہ یہ ایک بدون قدر عمل ہے۔چونکہ اس قسم  کے ملنے جلنے کی کی کوئی گنجائش اسلامی روایت میں نہیں ہے، اس لئے ہم اس لفظ کا استعمال نہیں کریں گے۔

عہد نبوی اور عہد راشدون کا سماج ، انسانی ادوار کا سب سے سنہرا دور تھا۔ اس دور میں مردوں اور عورتوں نے مل کر ایک ایسی تہذیب کی تعمیر کی تھی جس میں عدل اور احسان صرف تصورات ہی تک محدود نہیں تھے بلکہ وہ ایک زندہ و تابندہ حقیقت تھے۔جن ’جدید دور کے تقاضوں‘ کی دہائی دیتے ہمارے معذرت خواہ بہی خواہان نہیں تھکتے ، وہ اس حقیقت تک رسائی نہیں کر پاتے ہیں کہ تعامل کی گنجائش اختلاط کے بغیر نہ صرف ممکن ہے بلکہ زیادہ موثر ہے۔

پیش آئند  گفتگو کے چار اجزاء ہیں۔ اول، ہم اس بات کا مشاہدہ کریں گے قرآن و حدیث میں اور صحابہ و صحابیات کے طرز عمل میں تعامل کے جواز کی کیا شکلیں ملتی ہیں۔ دوم یہ کہ کس طرح نبی اکرم نے اختلاط کو ناپسندیدہ قرار دیا اور جنس میں تفریق پر مبنی معاشرت اور آداب معاشرت کی مثالیں قائم کیں۔ سوم،  عصر حاضر کے علمی اور دروغ علمی pseudo-intellectual  حلقوں میں رائج پانے والے معاملات کی نزاکتوں پر عملی نقطۂ نظر سے بحث اور آخر میں(قسط دوّم) تبدیلی کا لائحہ عمل۔

 

اول: تعامل کا جواز

قرآن کریم نے سابقہ قوموں کا تذکرہ کرتے ہوئے برگزیدہ مردوں اور عورتوں کے درمیان ہونے والے مکالموں کو محفوظ کیا ہے۔ ان مکالموں کے ذریعے عام طور پرکسی ضرورت کی تکمیل کی غرض سے بلا حرج،  مرد و زن کے درمیان بات چیت کا تذکرہ ہے۔ اس کے علاوہ استعانت، مشاورت، علمی نکتہ سنجی اور انذار و تبشیر کے موضوعات ان مکالموں کے موضوعات ہوتے ہیں۔

حضرت موسیٰؑ جب مدین کے قریب پہنچے تو انہوں نے دو جوان لڑکیوں کو دیکھا ۔ انہوں نے  آگے بڑھ کر ان کی مدد کی غرض سے مکالمہ کا آغاز کیا۔ان کی دریافت کے جواب میں لڑکیوں نے حقیقت واقعہ ان کے سامنے بلا کم و کاست اور بلا حرج بیان کی۔ذیل میں اس کی تفصیل سورۃ القصص کی آیات ۲۳ تا ۲۵کے ترجمہ سے واضح ہوگی۔

“اور جب وہ مَدیَن کے کنوئیں پر پہنچا  تو اُس نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں اور اُن سے الگ ایک طرف دو عورتیں اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں۔موسیٰؑ نے ان عورتوں سے پوچھا”تمہیں کیا پریشانی ہے؟“ اُنہوں نے کہا”ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتیں جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نہ نکال لے جائیں، اور ہمارے والد ایک بہت بُوڑھے آدمی ہیں۔“ یہ سن کر موسیٰؑ نے ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا، پھر ایک سائے کی جگہ جا بیٹھا اور بولا ’پروردگار، جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں‘۔ (کچھ دیر نہ گزری تھی کہ)اُن دونوں عورتوں میں سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اُس کے پاس آئی اور کہنے لگی”میرے والد آپ کو بُلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے لیے جانوروں کو پانی جو پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں۔“

اس واقعہ کے ذریعے  استعانت اور امداد کی نیت سے مرد و زن کی ملاقات کی تصویر کشی کی جاسکتی ہے۔ یہاں جو چیزیں قابل ذکر ہیں وہ یہ ہیں کہ حضرت موسی کو حسب ضرورت کسی انجان خاتون سے بات کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوا۔ اسی طرح ان لڑکیوں نے اپنے مسئلہ کو بغیر کسی لاگ و لپٹ کے ان کے سامنے پیش کیا۔ ان آیتوں میں لڑکیوں کی جانب سے اسۡتِحۡيَآءکے رویہ کا تذکرہ بڑا معنی خیز ہے۔ تفہیم القران میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت عمر کا ایک قول رقم ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔ جاءت تمشی علی استحیاء قائلۃ بثوبھا علی وجھھا لیست بسلفع من النساء دلاجۃ ولاجۃ خراجۃ۔”وہ شرم حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اپنا منہ گھونگھٹ سے چھپائے ہوئے آئی۔ ان بے باک عورتوں کی طرح درّانہ نہیں چلی آئی جو ہر طرف نکل جاتی اور ہر جگہ جا گھستی ہیں“۔گویا یہ کہ جہاں کسی ضرورت کے تحت  تعامل کا جواز موجود ہے۔ وہیں اس کے آداب کا بھی تعین کیا گیا ہے۔ حیا کو بالخصوص عورتوں کی جانب منسوب کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مردوں کے لئے حیا پر مبنی رویہ لازمی نہیں ہے۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ فریقین میں  بولنے والے کے لئے مقدم طور پر مخاطب کے مقابلے میں حیا کا رویہ اختیار کرنا ضروری ہے۔

ایک اور مکالمہ حضرت سلیمانؑ اور ملکۂ سبا کے درمیان ہوا تھا۔ سورۃ النمل کی آیات ۴۲ تا۴۴ میں اس کا تذکرہ ہے۔ ملاحظہ ہو،

“ملکہ جب حاضر ہوئی تو اس سے کہا گیا کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے؟ وہ کہنے لگی”یہ تو گویا وہی ہے۔ ہم تو پہلے ہی جان گئے تھے اور ہم نے سرِ اطاعت جھکا دیا تھا۔ (یا ہم مسلم ہو چکے تھے)۔“ اُس کو (ایمان لانے سے)جس چیز نے روک رکھا تھا وہ اُن معبُودوں کی عبادت تھی جنہیں وہ اللہ کے سوا پُوجتی تھی، کیونکہ وہ ایک کافر قوم سے تھی۔ اس سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو۔ اس نے جو دیکھا تو سمجھی کہ پانی کا حوض ہے اور اُترنے کےلیے اس نےاپنے پائنچے اُٹھا لیے۔ سلیمانؑ نے کہا یہ شیشے کا چکنا فرش ہے۔اس پروہ پکار اُٹھی”اے میرے ربّ (آج تک)میں اپنے نفس پر بڑا ظلم کرتی رہی، اور اب میں نے سلیمانؑ کے ساتھ اللہ ربّ العالمین کی اطاعت قبول کر لی۔“

اس مکالمہ میں دو سربراہانِ مملکت کے درمیان دعوتِ دین کے عمل کی تصویر کشی کی گئی ہے۔حضرت سلیمان ؑ کی جانب سے کئے جانے والے تمام سوالات میں کوئی حِظ اٹھانے یا دل لگی کا مظاہرہ کرنے والےجملے درج نہیں ہیں۔ اسی طرح ملکہ نے بھی اس گفتگو کا تناظر اور پس منظر اچھی طرح سمجھ لیا تھا ۔ ان آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے بڑے ہی فطری انداز میں سلیمانؑ نے ملکہ کو مختلف امور کی جانب متوجہ کرتے ہوئے دین کی دعوت پیش کی۔ اس طرز گفتگو سے داعیان دین کے لئے بڑے اچھے اسباق میسر آتے ہیں۔ جہاں یہ مکالمہ دعوت کے سہل اور کارگر انداز کو قلم بند کرتا ہے وہیں فریقین کے مابین تعلق کی پاکیزگی اور صفائی کا بھی ایک نمونہ پیش کرتا ہے۔

سورۃ المریم میں اس تعامل کا بھی تذکرہ ہے جہاں نومولود عیسیٰؑ کو لے کر مریمؑ اپنی قوم میں واپس آئیں۔ جب قوم کے لوگوں نے ان سے نومولود کے بارے میں استفسار کیا تو مریمؑ نے صرف اشارے سے کام لیا۔ قرآن کے الفاظ میں فَاَشَارَتۡ اِلَيۡهِ​ ؕگویا یہ کہ جہاں بات چیت کے بغیر کام بن سکتا ہے وہاں بلاضرورت ایک اعلیٰ مقام خاتون کو اجنبیوں سے بات کرنے اور ان کے ساتھ تعامل کرتے رہنے کے بجائے باوقار اشاروں ہی سے کام لینا زیب دیتا ہے۔

اوپر کے معاملات میں ان  برگزیدہ مرد و خواتین کا تذکرہ ہے جو کہ ایک دوسرے کے لئے اجنبی تھے۔ قرآن میں ان کے علاوہ نبیوں کی بیویوں، بھانجیوں اور بیٹیوں کے بھی تذکرے ہیں۔ ان کے درمیان مکالمات میں بھی جو چیز متعین طور پر سامنے آتی ہے کہ ان مردوں اور خواتین کی حیثیت آپس میں مددگاروں، مشیروں اور ناصحین کی ہی تھی۔ اسلامی نظام کی تعمیر میں چونکہ دونوں جنسوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے اس لئے عہد نبوی میں بھی اس بات کی مثالیں ملتی ہیں جہاں کارِ دینی میں نبی اکرم نے مردوں اور عورتوں کی برابر تربیت اور نصیحت کا انتظام کیا۔ اس ضمن میں یہ تذکرہ ضروری ہے کہ مسجدِ نبوی میں عورتوں کے لئے انتظامات کئے گئے تھے۔ اس طرح براہِ راست علمِ دین کے حصول اور نظام اسلامی کی اقامت سے متعلق عورتوں کو بھی مردوں کے برابر مخاطب کیا گیا۔ جب عورتوں نے اللہ کے رسول سے شکایت کی کہ انہیں علمی استفادے کا موقع نہیں مل پارہا ہے تو نبی اکرم نے ان کے لئے خاص دن مقرر کئے جب کہ وہ صرف خواتین سے مخاطبت کرتے تھے۔

عہد راشدون میں عورتوں کی علمی مجالس کا تذکرہ تو بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ حضرت ام سلمہ اور حضرت عائشہ بالخصوص ان مدرسین میں سر فہرست ہیں۔عائشہؓ نے جس طرح حدیث کے اصول ہائے درایت متعین فرمائے ہیں اور کم عمر صحابہ اور تابعین کی بڑی جماعت کی تربیت فرمائی ہے اس کے لئے کہیں سے دلیل لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان مجالس کے ذریعے عورتوں کی جانب سے علمیاتی نقاط ہائے نظر بھی پیش ہوتے ہیں۔ اس تعامل اور تدریس کے نتیجہ میں فقہ اسلامی، احادیث اور تفسیر قرآن کے علوم کو رواج ملا۔

جنگ کے مواقع پر تو یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ عورتوں نے نہ صرف عملی جنگ میں حصہ لیا، بلکہ دور دراز کے سفر بھی کئے۔ ہاں اس جملہ میں کہ ’مردوں کے شانہ بہ شانہ‘ جنگ میں حصہ لیا، بہت بڑا مبالغہ ہے۔ عورتوں کو بھی جنگ میں ویسے ہی جان کا خطرہ لاحق تھا جیسے کہ مردوں کو تھا۔ جب ضرورت پڑی تو انہوں نے عدو کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ البتہ میدان جنگ میں ان کے ذمہ وہ کام تھا جس کے لئے رب کائنات نے ان کی تعمیر کی تھی۔درج ذیل کچھ روایتیں از راہِ تذکرہ ملاحظہ ہوں۔

صحیح مسلم میں حضرت انس سے روایت ہے: “حضرت عائشہ اور حضرت ام سلیم غزوہ احد میں شریک ہوئیں اور قربانیوں میں حصہ ڈالا، وہ پانی لے کر آتیں اور خالی برتن لے کر واپس جاتیں۔”

حضرت امام احمد نے ذکر کیا کہ خيبر کی فتح میں چھ خواتین فوج کے ساتھ تھیں، وہ تیر پکڑ کر دشمن کے مقابلے میں مدد دیتی تھیں، اور زخمیوں کا علاج کرتی تھیں، اور رسول اللہ ؐ نے انہیں غنیمت میں حصہ دیا۔

حضرت ام سلیم نے غزوہ حنین میں خنجر اٹھایا تاکہ اگر کوئی مشرک قریب آئے تو اسے قتل کر دے۔ حضرت انس نے اپنے والد سے روایت کی کہ “حضرت ام سلیم نے غزوہ حنین میں خنجر اٹھایا، اور جب ابو طلحہ نے اسے دیکھا، تو کہا: ‘یا رسول اللہ، یہ ام سلیم کے ہاتھ میں خنجر ہے!’ نبی ؐ نے پوچھا: ‘یہ خنجر کیا ہے؟’ تو ام سلیم نے کہا: ‘میں نے یہ خنجر اس لیے لیا ہے تاکہ اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا، تو میں اسے قتل کر دوں۔’ نبی ؐ نے اس پر ہنسنا شروع کر دیا۔” (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1809)

صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت انس سے روایت ہے کہ نبیؐ نے حضرت ام حرام بنت ملحان کے ہاں ایک دن قیام کیا اور پھر ہنس کر کہا: “میری امت کے کچھ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے سمندر کی سطح پر سفر کریں گے، وہ تختوں پر بادشاہوں کی طرح ہوں گے یا بادشاہوں کے مانند ہوں گے۔” حضرت ام حرام نے کہا: “یا رسول اللہ، دعا کریں کہ مجھے ان میں سے بنا دے۔” نبی ؐ نے ان کے لیے دعا کی اور بعد میں حضرت ام حرام نے عثمان کے دور میں قبرص کا سفر کیا اور وہاں اپنے شوہر حضرت عبادہ بن صامت کے ساتھ سمندر میں سوار ہو کر جہاد میں حصہ لیا۔ وہ وہاں گئیں اور اپنی سواری سے گر کر فوت ہو گئیں اور وہیں دفن ہو گئیں، جیسا کہ سیرت اور تاریخ میں ذکر کیا گیا ہے۔

جنگ میں شریک خواتین کا کام مختلف ہونے کے باوجود ، قابل احترام  سمجھا جاتا تھا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبیؐ نے انہیں مردوں کے برابر مال غنیمت کی تقسیم کے موقع پر اس  کا حصہ دیا۔ اس امر سے ان عقل کے اندھوں کی جڑ کٹ جاتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ برابری کے لئے ظاہری امور کا ہی نصاب ہوتا ہے۔ یہ بحث ان کے نزدیک زیادہ اہمیت کی حامل ہوسکتی  ہے کہ کیا پانی پلانے کا امر ، تلوار اٹھانے کے مقابلے میں برابری کا مانا جائے گا یا نہیں۔ ہم یہ سوال پوچھتے ہیں کہ اگر مرد وں کا کام پانے پلانے کا ہوجائے اور عورت عدو سے تلوار لڑائے تو کیا کوئی جنگ جیتی جاسکتی ہے؟  اس سوال کا جواب آپ خود تلاش کرلیجئے۔ جب آپ حقیقت تک پہنچیں تو یہ سمجھ جائیں گے کہ اسلام  کے نزدیک مردوں اور عورتوں کے تعامل کی گنجائش یہ ہے کہ دونوں کو اپنی فطری استعدادو ں کے اعتبار سے خدا کے حضور نذرانۂ بندگی کو پیش کرنا ہے۔  ایک جنس کے لئے اس کی افتاد اور طبیعت کے اعتبار سے کام انجام دینا اس لئے ضروری ہے تاکہ دوسری جنس کے انسان اپنی بندگی کو انجام دے سکیں۔ نہ عورتوں کی شرکت کے بغیر مرد جرات مندی کے ساتھ لڑ سکتے ہیں اور نہ مردوں کی شجاعت مندی کے بغیر عورتوں کو شرکت کا کوئی موقع باقی رہ سکتا ہے۔

علم اور جہاد کے بڑے امور کے علاوہ دیگر اجتماعی امور کی بھی ذمہ داری عہد اوّلین میں عورتوں کے سپرد کی گئی تھی۔ حضرت عمر نے حضرت شفا بنت عبداللہ العدویہ کو بازار کی محستبہ مقرر کیا تھا۔ اس حیثیت سے وہ مختلف کاروباری افراد کے ساتھ مل کر قیمتوں کے تقرر اور بازار میں پیش آمادہ صورت حال سے متعلق فیصلے لیا کرتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے انہیں مردوں سے بات چیت کرنے کی ضرورت پڑتی ہوگی۔ اس اعتبار سے بازار کی کیفیت میں توازن اور استحکام کو باقی رکھنے کے غرض سے دونوں جنس کے افراد کے درمیان تعامل کی شکلیں تو پیدا ہوئی ہی ہوں گی۔حضرت عمر ہی کے زمانے میں ’عمر نے غلط کہا اور عورت نے صحیح کہا‘ کے جملہ سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ احکام دین کو سمجھنے میں عورتیں مردوں کو بڑی بے باکی اور بلاحرج تعاون پیش کرتی تھیں۔

سورۃ التوبہ میں اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کا ولی قرار دیا ہے۔ اس کے آگے بڑھ کر اس تعامل کا مقصد بھی فراہم کردیا ہے۔ ’ مومن مر د اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں اور اس کے رسُول ؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقیناً اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے‘۔ گویا وہ تعامل جہاں امر ِ معروف اور نہی منکر کے فرض کی انجام دہی کی جارہی ہو اسے ہی قرآن نے درست تعامل کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ جہاں جہاں یہ مقصدیت فوت ہوتی ہو وہاں وہاں اسلام دونوں جنسوں کے درمیان محض تفریق ہی کا قائل ہے۔

 

دوم: تفریق کا جواز

اوپر کی تمام بحث میں تعامل کی جتنی مثالیں پیش کی گئی ہیں وہ اس انتباہ کے ساتھ ہیں کہ آدابِ معاشرت کو بہت صفائی سے ملحوظ رکھا جائے۔ جو حضرات و خواتین ان آداب کا لحاظ نہ رکھیں گے وہ نہ صرف گنہگار ہوں گے بلکہ قابل تعزیر بھی ہوں گے۔  نبئ اکرم ؐ کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ مرد و خواتین ایک جگہ مل کر بیٹھیں یا چلیں پھریں۔ انہوں نے بڑا صاف حکم یہ دیا تھا کہ عورتیں سڑک کے درمیان سے نہ گذریں۔ مدینہ کی گلیوں میں عورتیں سڑک کے کناروں ہی سے چلتی تھیں جبکہ مرد حضرات درمیان سے گذرتے۔ ہمارے عقل کے اندھے مرعوب ِ نسائیت افراد نبی اکرم پر عورتوں کو حاشیہ پہ ڈال دینے کا الزام رکھ دیں گے۔ لیکن اسلامی تہذیب میں جہاں  کہیں بھی مردوں اور عورتوں کی مجلسیں منعقد ہوں گی وہاں عورتیں اسی ’حاشیہ‘ پر ہی ہوں گی۔ جب نبی اکرم نے عورتوں کے لئے مسجد میں آنے کے  انتظامات فرمائے تو ایک علاحدہ دروازہ ان کے لئے مختص کیا۔ یہ مطلوب رویہ پیش کیا کہ عورت سب سے پیچھے کی صف میں اور مرد آگے کی جانب بیٹھیں۔اس تفریق کی حکمت اصلاً یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کی مستقل بالذات انفرادی حیثیت بندگانِ خدا کی ہے۔ اس حیثیت کے مندرجات میں ان کے اپنے جنسی وجود بھی ہیں۔ وہ امور  و عوامل جن میں ان دونوں کےجنسی وجود کو تحریک ملنے کا امکان زیادہ ہو،  انہیں گھر کی چار دیواری ہی میں محدود کردیا گیا۔  اجتماعی ماحول میں اسی وجہ سے عورتوں کے لئے خوشبولگانے، اور آواز کرنےپر بھی ’قدغنیں‘ لگا دی گئی۔مردوں کو بار بار آوارہ نظری سے ا    جتنب کرنے کی تلقین کی گئی۔ ان تحدیدات کے نتیجہ میں مرد و عورت کا جنسی وجود ختم نہیں ہوتا ہے لیکن محصور ضرور ہوجاتا ہے۔ اور ان دونوں  کا روحانی ، عقلی اور امارتِ ارض کے لئے درکار وجود اجاگر ہوتا ہے۔  ان تمام امور کے لئے احادیث میں بڑی تفصیل کے ساتھ تعلیمات موجود ہیں۔  ان تعلیمات کے تئیں سنجیدگی نبی اکرم کے رویہ میں بھی ظاہر تھی اور ان کے الفاظ میں بھی۔ ملاحظہ فرمائیں درج ذیل فقرے۔

المرأةُ عورةٌ فإذا خرجتِ استشرفَها الشَّيطانُ،    عورت (سراپا) پردہ ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔(صحيح الترمذي:1173)

كلُّ عينٍ زانيةٌ ، والمرأةُ إذا استعطَرَت فمرَّت بالمَجلسِ ، فَهيَ كذا وَكذا. يعني زانيةً؛ہر آنکھ زنا کار ہے اور عورت جب خوشبو لگا کر مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ بھی ایسی ہی ہے یعنی وہ بھی زانیہ ہے۔( صحيح الترمذي:2786)

عورت کے لئے سب سے بہتر جگہ اس کا اپنا گھر ہے۔ اس بات کی تائید قرآن اور احادیث کئی جگہ کرتے ہیں۔ سورۃالاحزاب میں جو یہ کہا گیا کہ وَقَرۡنَ فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ تو اس سے مراد یہی ہے کہ عورتیں گھر میں رہیں ، سکون و قرار سے رہیں۔ جبکہ ان کے مرد معیشت وجہادکے کام انجام دیتے رہیں۔ تفہیم القران میں اس فقرےکی تفسیر میں درج ذیل روایت رقم ہے۔

حافظ ابو بکر بزار حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے حضورؐ سے عرض کیا کہ ساری فضیلت تو مرد لُوٹ لے گئے ، وہ جہاد کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں بڑے بڑے کام کرتے ہیں۔ ہم کیا عمل کریں کہ ہمیں بھی مجاہدین کے برابر اجر مل کے ؟ جواب میں فرمایا  من قعدت منکن فی بیتھا فانھا تدرک عمل المجاھدین  جو تم میں سے گھر میں بیٹھے گی وہ مجاہدین کے عمل کو پالے گی‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ مجاہد دِل جمعی کے ساتھ اسی وقت تو خدا کی راہ میں لڑ سکتا ہے جبکہ اسے اپنے گھر کی طرف سے پورا اطمینان ہو، اس کی بیوی اس کے گھر اور بچوں کو سنبھالے بیٹھی ہو اور اسے کوئی خطرہ اس امر کا نہ ہو کہ پیچھے وہ کوئی گل کھلا بیٹھے گی۔ یہ اطمینان جو عورت اسے فراہم کرے گی وہ گھر بیٹھے اس کے جہاد میں برابر کی حصّہ دار ہو گی۔

حصہ اول میں درج جہاد میں حصہ لینے والی خواتین کی مثالوں کو اوپر کی روایت سے ملائیں تو یہ سمجھ آتا ہے کہ تفریق کا یہ عمل بھی فی الحقیقت تعامل ہی کا حصہ ہے۔مجروحانِ مغرب کہیں گے کہ عورت کو ’چار دیواری‘ میں قید کردیا۔ لیکن وہ ان تصورات کو سمجھنے کی عرفی ذکاوت سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے یہ نہیں جان پائیں گے کہ عورتوں کی یہ شرکت ، اسلامی قوانین ازلی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی معاشرت میں’عورت کی حقیقی آزادی‘ کے عنوان کے تحت درج کی جاتی ہے۔ وہ یہ سمجھ نہیں پاتے کہ یہ تو بڑے خسارہ کا سودا ہے کہ گھر کی چار دیواری اور خدا سے اس کے براہ راست تعلق سے  مفاہمت کرتے ہوئے اسے مجبوراً ’جدید زمانے‘ کے اداروں میں خوار و رسوا کیا جائے۔

بار بار کئی احادیث میں مردوں کو یہ تاکید کی گئی ہےکہ وہ اس طرف دیکھنے سے بھی گریز کریں جہاں خواتین کا گزر ہو۔  مردوں کو سڑک کے کناروں پر مجلسیں جمانے سے منع کیا گیا ہے۔تاکہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہوجہاں عورتوں پر نظر پڑ جائے۔

ابو طلحہؓ نے بیان کیا کہ ہم ایک بار گھر کے سامنے بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے کہ رسول اللہ تشریف لائے فرمایا تم لوگ راستہ پر کیوں بیٹھ جاتے ہو، اس سے بچو، ہم نے عرض کیا کہ ہم ایسے کام کے لیے بیٹھے ہیں جس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہم تو آپس میں باتیں اور تبادلہٴ خیال کے لیے بیٹھے ہیں، اس پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کرنا ہی ہے تو اس کا حق اداکرو، وہ یہ ہے کہ نظر نیچی رکھو، سلام کا جواب دو اور اچھی بات کرو۔ (صحیح مسلم)

غض بصر، اسلامی تہذیب کی معراج

جس طرح مغربی تہذیبوں میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط ایک نمائندہ مظہر ہے، اسی طرح اسلامی تہذیب کی نمائندگی سماج میں مردوں اور عورتوں کے مابین غض بصر کے مزاج اور رویہ سے ہوتی ہے۔ سورۃالنور کی آیات ۳۰ اور ۳۱ میں فرمایا گیا ہے کہ ’ اے نبیؐ ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں  اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ  اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے۔اور اے نبیؐ ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں،  اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔۔۔‘

غض بصر کے حوالے سے کئی صحابہ کو اللہ کے رسول نے تاکیداً احکامات دیے تھے۔ یہ بات متعدد موقعوں پر واضح فرمائی کہ نظر شیطان کا سب سے کارگر ہتھیار ہے۔  یہ فرمایا گیا ہے کہ غیر محرم پر پڑنے والی غیر اختیاری پہلی نظر معاف ہوجائے گی۔ لیکن دوسری نظر گناہ میں شامل ہے۔ کسی غیر محرم کو دیکھنا  آنکھوں کا زنا قرار دیا گیا ہے۔ ان تمام جملوں کے لئے حوالے آپ کو بکثرت قرآن و حدیث میں مل جائیں گے۔ جو چیز غور طلب ہے وہ یہ کہ جب کسی غیر محرم کو دیکھنا تک ناجائز ہو ، تو مل بیٹھنا، ساتھ میں چلنا پھرنا، ہنسی مذاق کرنا وغیرہ کیسے جائز ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح اس بات کی گنجائش کیا ہوگی کہ ایک مخلوط مجلس میں مرد و عورت شامل ہوں۔ اسلام ایسی تکلیف میں مسلمانوں کو مبتلا نہیں کرتا۔ جہاں ایک طرف شرکاء مجلس میں مردو خواتین موجود ہوں اور اسی وجہ سے انہیں سر اٹھانے کی اجازت ہی نہ ملے۔ وہ سرے سے ایسی مجالس کا خاتمہ کردیتا ہے اور تفریق پر مبنی نظام کو جاری کرتا ہے۔ اسی لئے مسجدوں میں بھی جہاں عام جگہوں کے مقابلے انسان زیادہ جذبۂ احترام کا مظاہرہ کرتا ہے وہاں بھی مکمل تفریق ہی کا نظام قائم کیا گیا۔

عام طور پر غیر محرم کے ساتھ نظریں ملانے کو اس جدید زمانے میں فتنہ انگیز کام نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن جہاں اوپر یہ واضح کیا گیا کہ نبی ؐ نے بڑے جید صحابہ کو بھی نگاہ کے فتنہ کے سلسلہ میں متنبہ کیا تھا۔ وہیں حد تو یہ ہے کہ ازواج مطہرات کو بھی نبیؐ نے نگاہوں کی حفاظت کی تاکید کی۔ جب کہ مطہرات کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ رہتی دنیا کی عورتوں میں سب سے زیادہ پاکیزہ ترین عورتیں تھیں۔ ملاحظہ ہو،

حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھی تھیں ، اتنے میں حضرت ابن ام مکتوم آ گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں بیویوں سے فرمایا حتجبا منہ ، ’’ ان سے پردہ کرو‘‘۔ بیویوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ الیس اعمیٰ لا یبصرناو لایعرفنا ، ’’ یا رسول اللہ ، کیا یہ اندھے نہیں ہیں ؟ نہ ہمیں دیکھیں گے نہ پہچانیں گے ‘‘۔ فرمایا : افعمیا وان انتما، الستما تبصرانہٖ ، ’’ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو ؟ کیا تم انہیں نہیں دیکھتیں ‘‘؟ حضرت ام سلمہ تصریح کرتی ہیں کہ : ذٰالک بعد ان اُمِرا بالحجاب ، ’’ یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب پردے کا حکم آ چکا تھا ‘‘۔ (احمد ، ابوداؤد، ترمذی)۔ اور اس کی تائید مؤطا کی یہ روایت کرتی ہے کہ حضرت عائشہؓ کے پاس ایک نا بینا آیا تو انہوں نے اس سے پردہ کیا۔ کہا گیا کہ آپ اس سے پردہ کیوں کرتی ہیں ، یہ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا۔ جواب میں ام المومنین نے فرمایا: لٰکنی نظرالیہ ، ’’ میں تو اسے دیکھتی ہوں ‘‘۔

ایک ایسا معاشرہ جہاں سب سے زیادہ با حیا مرد اور باحیا عورتیں بڑی سختی کے ساتھ نظریں جھکا کر زندگی گذارتے ہیں تو کیا یہ مناسب ہوگا کہ آج کل کے زہر آلود اور فتنہ انگیز معاشرے میں بے حیا مردوں اور بے حیا عورتوں کے  مابین نظریں جھکانے کا عمل ساقط ہوجائے ؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ آج کل کے مرد و خواتین خود کے نفس کے بارے میں حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ سے بھی زیادہ محافظت کرنے والے ہوں؟

 

سوم: عملی مسائل

مغربی تہذیب کے پروردہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ایمانی حس رکھنے والے طلبہ و طالبات اور اساتذہ کے لئےبہت سنگین مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ جہاں ایک طرف علانیہ شریعت کا مذاق اڑایا جاتا ہے وہیں دوسری طرف ان کے لئےاپنے نفس کی محافظت ایک بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ ہم ان طلبہ کو درپیش کچھ مسائل کے حوالے سے مختصراً گفتگو ذیل میں کریں گے۔

  1. خاتون اساتذہ سے علمی استفادہ کی شکلیں

اسلامی تہذیب میں خاتون اساتذہ سے علمی استفادہ کی بڑی روشن مثالیں موجود ہیں۔ یہ مثالیں اتنی کثیر تعداد میں موجود ہیں کہ ان کا محاکمہ بذات خود ایک کتاب کا محتاج ہے۔ اس مضمون میں حضرتِ عائشہؓ کی اکادمی کی ہم تصویر کشی کرتے ہیں۔ عائشہؓ نے حدیث کےاصول ہائے روایت سے لے کر تفسیر قرآن اور اجتہاد کے متعدد موضوعات میں ایسی خدمات انجام دی ہیں جن کے بغیر یہ ممکن نہ تھا کہ اس پوری امت میں رسول کریم کا دین بعد کی نسلوں تک پہنچ جائے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی تعلیم و تربیت کے کام میں صرف کی۔ سیرت عائشہؓ میں سید سلیمان ندوی ان کے ادارے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کے گھر میں دو حصے موجود تھے۔ درمیان میں ایک پردہ ڈال دیا جاتا۔ وہ ایک حصہ میں بیٹھ جاتیں جہاں ان کے محرم رشتہ دار، بھتیجے اور بھانجے بھی موجود ہوتے۔جب کہ پردہ کے دوسری طرف عوام ہوتی تھی۔ وہ سوالات کے جوابات دیتیں، وعظ و نصیحت کرتیں اور نقد و تبصرے فرماتیں۔اس کے علاوہ وہ محض عورتوں کی مجلسوں کا بھی انتظام کرتی جہاں وہ عورتوں کو دین کے احکام اور قرآن کی تفسیر کی تعلیم دیتیں۔ انہوں نے ایک دفعہ انصار کی عورتوں کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ سوال کرنے میں شرماتی نہیں ہیں۔

اس تناظر میں یہ بات تو متعین ہے کہ مرد طلبہ کو خاتون اساتذہ سے اور خاتون طلبہ کو مرد اساتذہ سے علمی استفادہ کے ضمن میں شرعاً کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ لیکن آداب یہ متعین کیے گئے ہوں کہ پردہ کا اہتمام جس قدر ممکن ہو کیا جائے۔ جدید تعلیمی اداروں میں پردہ کے وہ انتظامات نہ ہونے کے وجہ سے بہ حالتِ اضطرار کسی جماعت میں شریک ہونے کی گنجائش ضرور ہے لیکن مستحسن نہیں ہے۔  چاہے پردہ کے انتظامات ہوں یا نہ ہوں غضِ بصر کی تہذیبی اور شرعی قیود کا سختی سے پاس و لحاظ کرنا بے حد  ضروری ہے۔بے جا دل لگی اور بے مقصد تعامل کی کوئی گنجائش اس ضمن میں نہیں پیدا کی جاسکتی۔

  1. تنہائی میں مردوں اور عورتوں کا ملنا

یہ بات ہم سب جانتے ہیں  کہ دو نامحرم کا تنہائی میں ملنا حرام ہے۔ حضرت عمرؓ سے مروی رسول اللہ کا قول ہے کہ ’جب کوئی آدمی کسی (غیرمحرم)عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو ان دونوں میں تیسرا شیطان ہوتا ہے‘۔ اس قول کا براہ راست مفہوم یہ ہے کہ اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا چاہے تعلیمی ادارے ہوں یا مزدوری کے ادارے، کسی مرد کو کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں موجود نہیں ہونا چاہئے۔ تنہائی کا مفہوم بھی اس طرح متعین کیا جاسکتا ہے کہ وہ جگہ جہاں ان دونوں کے مابین ہونے والی گفتگو، اشارے اور اعمال پر تیسرا کوئی فرد کوئی گواہی نہ دے سکتا ہو۔ اس تعریف کے نتیجہ میں کسی پارک میں دو نا محرم کا ایک دوسرے سے ملنا اور راز و نیاز کی باتیں کرنا بھی عملی طور پر تنہائی ہی میں شامل ہوگا۔

شیطان کا اس تنہائی میں شریک کار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ گناہ کے راستوں کی طرف بڑھنے کے  امکانات اضعافاً مضاعفہ بڑھ جاتے ہیں۔ چونکہ غض بصر ہی کی طرح اسلامی تہذیب کا ایک اور نمائندہ اصول فحاشی کے قریب بھی نہ جانے سے معمور ہے اس لئے، ہر وہ موقع جہاں کسی بھی طرح اس امر کے امکانات بڑھ جائیں کہ تلذذ کی گنجائش بھی پیدا ہوسکتی  ہو اسے قطعاً حرام قرار دیا گیا ہے۔جدید تہذیب کے دلدادہ تو یہ کہیں گے کہ فریقین کے مابین اس قسم کا تعلق ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہوگا۔ لیکن اسلامی تہذیب میں فریقین کی کامیاب زندگی کا انحصار خدا پرستی اور معرفت پر مبنی ہوتا ہے اس لئے بعد از نکاح ہی ایک وہ شکل ہے جب کہ فریقین ایک دوسرے کو سمجھنے اور لطف اٹھانے کا موقع رکھتے ہیں۔

آج کل کی ٹیکنالوجی کا بھی ایک منفرد مزاج ہے۔ یہ ٹیکنالوجی مغربی تہذیب کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھ کر بنائی گئی ہے۔ اس اعتبار سے چاہے وہ پرسنل بات چیت کے ذرائع ہوں یا چاہے سماجی بات چیت کے ذرائع ہوں(واٹس ایپ اور فس بک وغیرہ)، انسانوں کو فوراً سے پیشتر تنہائی فراہم کرنے کے ذرائع ہیں۔ یہاں مردوں اور عورتوں کو راز و نیاز کی باتیں کرنے کا موقع بھی ملتا ہے ، مختلف اقسام کے اشارے بھی مہیا کئے جاسکتے ہیں اور تصاویر کو بھیج کر ہیجان میں بھی مبتلا کیا جا سکتا ہے۔ اس لئےنامحرموں کے درمیان  ہر وہ گفتگو جو فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہو، اس کا شمار شیطان کی رہنمائی اور نفس کی غلامی میں کی جانےوالی گفتگو ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں جب تک فریقین پوری ایمانداری کے ساتھ اپنی بات چیت اور اس کے عمل کو تیسرے کسی انسان کے ساتھ شئیر نہیں کرتے ہیں تب تک اس گفتگو اور اس کے مندرجات حرام ہی کی تعریف میں آتے ہیں۔

اوپر کی گفتگو کو آپ نبی اکرمؐ کے اسوہ مبارکہ سے تول کر دیکھیں۔

حضرت صفیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبیؐ اعتکاف کی حالت میں تھے ، میں رات کے وقت ملاقات کے لئے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی ،کچھ دیرباتیں کرنے کے بعد میں اٹھ کھڑی ہوئی ،نبی علیہ السلام بھی مجھے چھوڑنے کے لئے میرے ساتھ آئے ، میری رہائش اس وقت داراسامہ بن زید میں تھی، اسی اثناء میں وہاں سے دو انصاری آدمی  گزرے اور نبی علیہ السلام کو دیکھ کر انہوں نے اپنی رفتار تیز کردی ،نبی علیہ السلام نے ان سے فرمایا “ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی ہیں ، ان دونوں نے کہا کہ سبحان اللہ، اے اللہ کے رسول (کیا ہم آپ کے متعلق ذہن میں کوئی برا خیال لاسکتے ہیں ؟) نبی علیہ السلام نے فرمایا شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا ہے اس لئے مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کوئی وسوسہ پیدا نہ کردے”۔ (صحیح بخاری 2035)

یہ بڑا تعجب کا مقام ہے کہ وقت کا پیغمبر ، جس کہ معصومیت اور پاکیزگی پر آفاق و انفس شاہد ہیں، اور امت کی ماں جس کے فیض علم و حکمت سے ایک دنیا نے پاکیزگی سیکھی ہے، انہیں اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ وہ اپنے تعلقات کے تئیں ازخود وضاحت پیش کریں۔انگریزی میں اسے full disclosure   کا اصول کہتے ہیں۔ گویا یہ کہ جہاں جہاں سے انسان پر تہمت لگائی جاسکتی ہے ان تمام جگہوں سےانسان اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے۔  یہ وہ رویہ ہے جو کہ ایک مستحکم سماج کی تعمیر کرتا ہے۔ اس رویہ کے برعکس مابعد جدیدیت کے مردم بیزار ،سماج آزار،نیم انسانوں  کا اصول مکمل رازداری  complete privacy  کا ہے۔ اپنے کسی عمل کے تئیں وہ کسی انسان کے سامنے خود کو جوابدہ نہیں سمجھتے ہیں۔ اگر کسی درد مند صاحب نصیحت انہیں اپنے عمل کا مواخذہ کرنے کی دعوت دے تو بجائے یہ کہ وہ شکرگذار ہوں ہر ناصح کی سوچ پر ہی غلاظت کا الزام دھردیتے ہیں۔

اوپر درج اللہ کے رسولؐ کے رویہ کی روشنی میں یہ بات اور واضح ہوتی ہے کہ کسی جگہ چاہے طبیعی حیثیت میں ہو یا مجازی حیثیت (virtual)میں، دو نامحرموں کا ایک دوسرے سے مکالمہ بغیر کسی اور فرد کی شرکت کے ہرگز کوئی شرعی گنجائش نہیں رکھتا۔ بلکہ جب اس قسم کے کسی عمل کا علم ہوجائے تو اس کو شبہ کی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس لئے جب کبھی کسی نامحرم سے بات کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو یہ ہمارا اجتماعی ماحول ہونا چاہیے کہ ہم اس سلسلے میں کسی تیسرے کو اس پوری گفتگو کا راز دار بنائیں اور یقینی بنائیں کے ہماری گفتگو، اشارے اور موضوعات میں سے فریقین میں سے کسی  کو اس بات کا موقع نہ ملے کہ جس کے دل میں ٹیڑھ ہو وہ اسے بنیاد بنا کر گناہ کے راستے چلنے کی طرف متوجہ ہو۔

  1. صنف مخالف ہم جماعتوں (کلاس میٹس) کے ساتھ مشترکہ پروگرامس

تعلیمی اداروں میں تعلیمی گفت و شنید اور تبادلہ کے علاوہ بہت سے سماجی طور پر منعقد کیے جانے والے پروگرامس کا انعقاد ہوتا ہے۔ ان پروگرامس کے انعقاد کا عام طور پر مقصد حِظ اٹھانا، تفریح کرنا اور ایک دوسرے سے قربت کو بڑھانا ہوتا ہے۔ اگر ان میں شرکت نہ کی جائے تو اکثر طلبہ و طالبات کو  پیچھے چھوٹ جانے کا خوف لاحق ہوجاتا ہے۔ ہم اوپر یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ ایسی مخلوط مجلسیں شریعت کی صریح مخالف ہیں۔ ان میں شرکت بھی شریعت کا مذاق اڑانے کا عمل ہے۔ حضرت عائشہ سے اس بات کی روایت ہے کہ نبی اکرم نے ان کی تفریح کی غرض سے پردہ کا انتظام کرتے ہوئے ایک مرتبہ تماشہ دیکھنے کی خواہش کو پورا کیا تھا۔ اس روایت کے ذریعے یہ واضح ہوتا ہے کہ گوکہ تفریح طبع کا عمل کوئی معیوب بات نہیں ہے لیکن اس سے کہیں بھی باہم اختلاط اور اختلاط کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تفریح کی کہیں کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔

ان تفریحی پروگرامس کے علاوہ جب کسی اچھے مقصد کے تحت پروگرامس منعقد ہوں تو ان میں مردوں اور عورتوں میں تعامل کی وہی صورتیں ہوں گی جن کا تذکرہ حصۂ اول میں کیا گیا ہے۔اس بات کو یقینی بنانے کہ لئے کہ اس تعامل میں کسی حکم الہیٰ کی عدم تعمیل نہ ہورہی ہو کچھ اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ جب تک واقعتاً ناگزیر نہ ہو ایسے پروگرامس میں شرکت نہ کی جائے۔ عام طور پر ناگزیریت کا احساس حقیقی نہیں ہوتا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر دفعہ خطرۂ ایمان پروگرامس میں شرکت کرکے مومنین اپنے ایمان کو ٹیسٹ کرتے رہیں۔ بلاوجہ خود کو اس امتحان میں ڈال دیں۔ اس ضمن میں یہ سوال خود سے پوچھیں کہ کیا اس پروگرام میں شرکت کے نتیجہ میں میرے ایمان  و عمل کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے؟اگر ہاں تو اس میں شرکت اور تعامل دونوں سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔اگر وہ ایک بڑا ہی ناگزیر پروگرام ہے(جس کا امکان تقریباًناممکن ہے)  تو شرکت سے قبل اس بات کا اندازہ کرلیں کہ کہاں کہاں سے ان نقصانات کےوارد ہونے کا امکان ہے۔ اور دوران پروگرام بھی مستقل اپنے نفس کی حفاظت کرتے رہیں۔

  1. مصافحہ کرنا

جب ہم مغربی تہذیب سے مرعوبیت کے ساتھ مختلف سماجوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ ہم ہماری تہذیبی شناختوں میں کن چیزوں کو ترک کریں اور کن کو اختیار۔ اگر ایک تہذیبی امر ملیشیا میں معیوب نہ ہو اور ہندوستان میں ہو تو سوال یہ ہے کہ ہندوستانی تہذیب کو ترک کرکے ملیشیائی تہذیب کو اختیار کرنے کی کوئی قابل اعتبار وجہ تو ہونی چاہئے۔بالخصوص جب معاملہ شریعت کی روشنی میں صاف صاف متعین ہدایات آچکی ہوں تو کیا ملیشیا، کیا ہند اور کیا مغرب، ان تمام کی تہذیبی روایات کو اسلامی روایتوں اور اوامر و نہی  کے ماتحت رکھنا ہی ایمان کا تقاضا ہے۔ ایسی ہی ایک روایت(نامحرم) مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے سے مصافحہ کرنا، چھونا، بے تکلفی سے ہاتھ پر یا کسی اور حصہ جسم پر ہاتھ رکھنا وغیر شامل ہے۔اس قسم کی حرکتوں کو ترقی اور تعاونِ باہمی کے لئے ناگزیر بھی سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ شریعت اس عمل  کی سختی سے مخالفت کرتی ہے۔   طبرانی میں بروایت حضرت معقل بن یسار رسولِ اکرم کا فرمان منقول ہے’’اپنے سر کو لوہے کہ کنگن سے زخمی کرنا بہتر ہے اس بات سے کہ وہ نا محرم خاتون کو چھوئے۔‘‘

اس سلسلے میں مغرب میں موجود مسلمانوں کے رویہ سے ترغیب حاصل کرنی چاہئے۔ وہاں کے مسلمانوں میں یہ رجحان بہت تیزی سے فروغ پارہا ہے کہ جب ان کا صنف مخالف سے سامنا ہو اور وہ مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا دیں تو یہ غیرت مند مسلمان بڑی نرمی اور اعتماد کے ساتھ اپنی معذرت پیش کرتے ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ ’ہمارے مذہب میں کسی عورت کو (یا صنف مخالف کو)چھونا جائز نہیں ہے‘۔ ان کی یہ سلیقہ مند معذرت ایک طرف ان کے ایمان کو تقویت دیتی ہے بلکہ دوسری طرف دین کی دعوت کو پہنچانے کا ایک موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ ان غیرت مند مغربی مسلمانوں کے برعکس ہندوستان کے مزاج میں عام طور پر مردوں اور عورتوں میں مصافحہ کا بالعموم رجحان موجود ہی نہیں ہے۔ اگر کبھی ایسی کوئی صورت پیش بھی آئے تو محض اپنے ہاتھوں کو باندھے رکھنے سے ہی یا دیگر حرکات و سکنات جسمانی body language   ہی کے ذریعے  عام طور پر نہ صرف عورتوں کو بلکہ مردوں کو بھی مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھانے کی ہمت سے باز رکھا جاسکتا ہے۔ عام طور پر معذرت خواہ، شکست خوردہ شخصیت کے افراد ہی دوستوں اور ساتھیوں کے دباؤ  میں آکر اپنی مرضی اور خدا کے حکم  کے برخلاف کام کرتے ہیں۔

  1. منہ بولے رشتوں کا فتنہ

عام طور پر مردوں اور عورتوں میں ناجائز قرب کو حاصل کرنے ، تنہائی میں ملاقات کرنے، ہنسی مذاق اور بےتکلفی کا مظاہرہ کرنےکا ایک آزمودہ نسخہ یہ پایا جاتا ہے کہ انہیں کسی منہ بولے رشتہ سے منسوب کردیا جائے۔ اس طرح سماج میں بھی اور اپنے دیگر رشتہ داروں میں بھی اس بےشرمی کو قابل قبول بنانے کے لئے ایک حربہ میسر آجائے۔ چونکہ سماج میں بھی اور رشتہ داروں میں بھی منہ بولے رشتوں کی حیثیت  کےحوالے سے دین میں کیا تعلیمات اور احکامات دی گئی ہیں ان کا علم نہیں ہوتا اس لئے انہیں بڑی آسانی سے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔

یہ بات متعین طور پر شریعت میں واضح ہے کہ منہ بولے رشتوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ نہ منہ بولے رشتہ داروں کو ترکہ میں کوئی حق ملتا ہے، نہ ان کو خون کے رشتوں پر حقِ صلہ رحمی پر فضیلت حاصل ہے، اور نہ ہی ان رشتوں کے قائم ہونے کے نتیجہ میں نامحرم ، کو محرم میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس فتنہ سے بچاؤ کی خاطر اللہ نے اپنے رسول کو ایک بہت بڑی آزمائش میں ڈال کر حضرت زینبؓ سے شادی کا حکم دیا تھا۔اس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔ اختصار کے ساتھ اس معاملہ کا تذکرہ ذیل میں ہے۔

حضرت زید ، نبی اکرم کے منہ بولے بیٹے تھے۔ جب زید کی زینب سے نہ بنی تو انہوں نے زینب کو طلاق دے دی۔ تب اللہ تعالیٰ نے زینبؓ کا نکاح نبی اکرم سے کردیا ۔ اب یہ فتنہ منافقین نے پیدا کیا کس طرح اپنے بیٹے کی مطلقہ سے کوئی باپ شادی کرسکتا ہے؟ تو اس کے جواب میں اللہ نے اس امر کی وضاحت کی کہ رشتے تو وہی ہوتے ہیں جنہیں اللہ مقرر کرتا ہے۔ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اللہ کی مرضی میں دخل اندازی کرتے ہوئے ان لوگوں پر بھی وہ احکامات اور امور کا اطلاق کریں جن کے سلسلے میں اللہ نے کوئی پابندی نہیں رکھی ہے۔ اور اس طرح جن رشتوں کو اللہ نے حرام نہ رکھا ہو اسے حرام سے تعبیر کرنے کی جسارت کی جائے۔

اس اعتبار سے جہاں منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے شادی جائز ہے تو منہ بولی بہن سے کیوں نہیں۔بلکہ یہ بات سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہے کہ نبی اکرم کو خود اس شادی سے کچھ پریشانی تھی۔ لیکن یہ اللہ ہی کہ حکمتِ بالغہ تھی کہ آئندہ پیدا ہونے والے تمام منہ بولے رشتوں کے فتنوں کی سرکوبی کرنے کے لئے اللہ نے ہمیشہ ہمیش کے لئے یہ متعین کردیا کہ رشتوں کی تعمیر اللہ ہی کی مرضی سے ہوتی ہے۔  عام طور پر مردوں اور عورتوں میں بے تکلفی پر جب اہل تہذیب و روایت کی جانب سے اعتراض ہوتا ہے تو فوراً یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تو میرے بھائی ہیں ، فلاں کو تو میں بہن سمجھتا ہوں، ہم تو بچپن سے ساتھ کھیلے ہیں، وغیرہ وغیرہ ۔ اس قسم کے مکر و فریب سے وہ دنیا کی نگاہ نیم باز میں تو اپنے دامن کو جھٹک دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ خدا کی نگاہ ِ عتاب کے شکار ہوتے ہیں۔

اسی سے متعلق ایک اور مسئلہ مشترکہ خاندانی نظام کی مفسدتوں سے متعلق ہے۔ جہاں عام طور پر کزن اور دیور سے پردہ کرنے سے متعلق بڑی بے احتیاطیاں سرزد ہوتی ہے۔ اللہ کے رسول نے ان قریب کے رشتہ داروں کو موت سے تعبیر کیا ہے۔ یہ وہ رشتے ہیں جہاں ان کے تقدس کو پامال کرنے کے مواقع عام طور پر زیادہ میسر آتے ہیں۔ جس طرح کسی کو بھائی یا بہن بنا کر اس قسم کے مواقع پیدا کیے جاتےہیں وہیں دیور وغیرہ کے معاملہ میں یہ مواقع پہلے سے میسر ہوتے ہیں۔ اس لئے شریعت بڑی ہی سختی کے ساتھ ان رشتوں میں تعامل کی غرض سے حدود و قیود کا تعین کرتی ہے۔

 

اختتامیہ

یہ گفتگو ہماری کوشش کے علی الرغم بہت طویل ہوگئی ہے۔ اس سے پیوست اگلی قسط میں ہم یہ بحث کرنے کی کوشش کریں گے کہ اس طوفان بد تمیزی اور بدتہذیبی میں اہل اسلام اور غیرت مندلوگوں کو کیا کام کرنا چاہیے۔

اسلام ایک آسان مذہب ہے۔ لیکن یہ ان لوگوں کے لئے آسان ہے جو اپنے رب کے حضور جوابدہی کا یقین رکھتے ہیں۔ جن کے علم و معرفت کے چراغوں نے مغربی اندھیروں کے سامنے سپر نہیں ڈالا ہو۔ آج بھی اس جاہلی نظام کے باوجود اہل اسلام میں وہ لوگ موجود ہیں جو کہ اعتماد کے ساتھ اسلامی تہذیب اور خدا کی مرضی کی سختی سے پابندی کرتے  ہیں۔ اور ایسا نہیں دیکھا گیا ہے کہ اس تسلیم و رضا کے نتیجہ میں وہ علمی اور عملی قیادت سے بے دخل کردے گئے ہیں۔ بلکہ خدا پرستی کے درجۂ احسان تک پہنچنے کی کوشش انہیں دل کی دنیا کی وہ دولت فراہم کردیتی ہے کہ وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔ کسی خریدنے والے سے خریدے نہ جاسکتے ہیں اور کسی تکلیف اور آزمائش سے دل شکستہ نہیں ہوتے ہوں۔

حالیہ شمارے

عام انتخابات کے نتائج 2024 – مستقبل کی راہیں

شمارہ پڑھیں

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں