مذاہب عالم کی آسمانی کتابیں – قسط اول

ایڈمن

محمد معاذ انسانی تاریخ کا مطالعہ دراصل قوموںکے عروج و زوال کی داستان ہے۔ مستند ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں انسان کسی نہ کسی شکل میں اپنے رب کو یاد کرتا رہا ہے۔ آج…

محمد معاذ

انسانی تاریخ کا مطالعہ دراصل قوموںکے عروج و زوال کی داستان ہے۔ مستند ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں انسان کسی نہ کسی شکل میں اپنے رب کو یاد کرتا رہا ہے۔ آج بھی دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں آثارِ مذہب بالکل ناپید ہوں۔ بلکہ رواں صدی مذہب کی نشاۃ ثانیہ محسوس ہوتی ہے۔ آج دنیا تمام ازموں اور نظام ہائے حیات کو اپنا کر بے قراری کا شکار ہے اور اپنے قلب کو مطمئن کرنے کے لیے پیغام ربانی کو سننے کے لیے بے چین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب یورپ اور مغربی دنیا میں بھی احیائے مذہب کی تحریکات اثر انداز ہورہی ہیں۔

دنیا کے نمایاں مذاہب کے ماننے والے اپنے پاس ایک یا زائد آسمانی کتابیں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جو ایک حد تک ان کے مذہب کی اساسی تعلیمات کو بیان کرتی ہیں۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ تمام مذاہب میں اچھی باتیں ہیں، اخلاقی تعلیمات ہیں، لہٰذا یہ تمام ہی مذاہب صحیح ہیں۔ قرآن کریم اس مفروضے کے جواب میں صحیح حقیقت بیان کرتا ہے۔ ’’ابتداء میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے۔ (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کجروی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے، اور اُن کے ساتھ کتابِ برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے تھے،ان کا فیصلہ کرے — (اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتداء میں لوگو ںکو حق بتایا نہیں گیا تھا۔ نہیں) اختلاف اُن لوگوں نے کیا، جنہیں حق کا علم دیا جاچکا تھا۔ انھوں نے روشن ہدایات پالینے کے بعد محض اس لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے۔ پس جو لوگ انبیاء پر ایمان لے آئے، انھیں اللہ نے اپنے اِذن سے اُس حق کا راستہ دکھادیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔ اللہ جسے چاہتا ہے، راہِ راست دکھادیتا ہے۔‘‘ (البقرۃ: ۲۱۳)

یہ آیت بتاتی ہے کہ ابتداء میں تمام نوعِ انسانی کا دین اسلام تھا۔ زمانہ کے ساتھ لوگ اپنے اصل دین کو بھلا بیٹھے اور چند وضعی ادیان پر عمل پیرا ہونے لگے۔ قرآن حکیم کی تصریحات کے مطابق حضرت موسیٰؑ کو توریت، حضرت عیسیٰؑ کو انجیل اور حضرت داؤدؑ کو زبور عطا کی گئی۔ علاوہ ازیں قرآن حکیم میں صحف ابراہیمؑ اور موسیٰؑ کا بھی ذکر ہے۔ لیکن جس طرح قرآن تمام انبیاء کا ذکر نہیں کرتا اسی طرح تمام آسمانی کتابوںکا بھی ذکر نہیںکرتا۔
زیرِ نظر مضمون میں چار بڑے اور نمایاں مذاہب کی آسمانی کتابوں کا تعارف جناب غلام احمد پرویز کی کتاب ’’مذاہب عالم کی آسمانیں کتابیں‘‘ کی روشنی میں پیش کیا جائے گا۔

کتب تورات:

Old Testament یا عہد نامہ عتیق دراصل ۳۹ کتابوں کا مجموعہ ہے جن میں سے پانچ کے متعلق اہلِ مذہب کا دعویٰ ہے کہ یہ حضرت موسیٰؑ نے تحریر کی ہیں۔ ان ۳۹ کتابوں کا مطالعہ یہ راز افشاں کرتا ہے کہ بعض ایسی کتابیں بھی ہیں جو کہ اب ضائع ہوچکی ہیں اور وہ عہدنامہ عتیق کا حصہ تھیں ۔ یہ کتابیں ۴۵-۴۴۴ میں عزراؔ نے اپنے حافظہ کی مدد سے مرتب کی تھیں ان کے بیان کے مطابق مرتب کردہ کتابوں کی اصل تعداد ۲۰۴ تھی۔

دوسری صدی قبل مسیح میں یونانیو ںنے یروشلم پر حملہ کیا تو کتب مقدسہ بھی اس کی زد میں آئیں۔ اس کے بعد انھیں پھر مرتب کیا گیا۔ ۷۰ء میں رومیوں نے یروشلم کو تباہ کردیا اور وہ ان کتابوں کے نسخے اپنے ساتھ روما لے گئے۔ مشہور مؤرخ جوزیفس کا بیان ہے کہ ان کتابوں کا ترجمہ یونانی زبان میں کیا گیا۔ ایسی ۲۲ کتابوں کا ذکر جوزیفس نے کیا ہے۔ (بحوالہ مذاہب عالم کی آسمانی کتابیں، ص ۲۱)۔

یعنی یروشلم کی تباہی کے بعد جوزیفس کے مطابق یہودیوں کے ہاں صرف ۲۲ کتابیں تھیں۔ غور طلب نکتہ ہے کہ عذرا(فقیہ) نے ۲۰۴ کتابوں کو مرتب کیا تھا اور ۳۹ کتابوں کو آج کتب تورات کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ یعنی اتنا تو ضرور ہے کہ ان نام نہاد آسمانی نسخوں کا ایک حصہ وضعی ہے۔ عہد نامہ عتیق کی تحریفات کا ذکر انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں ان الفاظ میں ملتا ہے: ’’عرصہ دراز تک کتب مقدسہ کا مطالعہ جرح و تعدیل کے مسلمہ اصول سے محروم رہا۔ یہود محض اس عبرانی نسخہ کی پیروی کرتے تھے جس کی نسبت مشہور تھا کہ غالباً دوسری صدی عیسوی میں مرتب کیا گیا ہے اور بعد ازاں احتیاط سے محفوظ رکھا گیا لیکن اس نسخہ میں چند تحریفات تو ایسی ہیں جو اب صاف صاف نظر آجاتی ہیں اور غالباً ایک کافی تعداد ایسی تحریفات کی بھی ہے جن کی شاید پورے طور پر قلعی نہ کھل سکے۔ (ص ۲۸، مذاہب عالم کی آسمانی کتابیں)
اسی طرح جوژف اپنی کتاب Judaism as creed and lifeمیں لکھتا ہے ’’بائبل کی بعض کہانیاں بالکل افسانے ہیں، اگرچہ نہایت حسین اور عبرت آموز،باقی رہے علوم وفنون سو وہ اس زمانہ کی سطح کے مطابق ہیں جس میں ان کتابوں کے مصنف پیدا ہوئے۔

ان تصریحات سے یہ اہم حقیقت واضح ہوگئی کہ موجودہ عہد نامہ عتیق خود مذہبی طبقہ کے علماء کے نزدیک بھی استناد سے محروم ہے۔ یعنی مذہب کی اصل تعلیمات تک رسائی ان کتب مقدسہ کے ذریعہ ممکن نہیں ہے۔ Leslie Paulاپنی کتاب The Annihilationمیں لکھتا ہے کہ ’’عہد نامہ عتیق یا جدید، سائٹنفک اصطلاح میں خدا کے الفاظ نہیں۔‘‘ (ص ۱۷۵)

عہد نامہ جدید اناجیل:

عیسائی مذہب کے ماننے والے بھی اپنے پاس خدا کی کتاب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے انجیل کے من جانب اللہ ہونے کی تصدیق ان الفاظ میں کی ہے : ’’اس نے تم پر یہ کتاب نازل کی، جو حق لے کر آئی ہے اور ان کتابوں کی تصدیق کررہی ہے جو پہلے سے آئی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے تورات اور انجیل نازل کرچکا ہے۔ (آل عمران:۳) اس آیتِ کریمہ میں کس انجیل کے من جانب اللہ ہونے کی تصدیق کی گئی ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں کہ ’’انجیل نام ہے دراصل ان الہامی خطبات کا اور اقوال کا جو مسیح علیہ السلام نے اپنی زندگی کے آخری ڈھائی تین برس میں بحیثیت نبی ارشاد فرمائے۔ وہ کلمات طیبات آپ کی زندگی میں لکھے اور مرتب کیے گئے تھے یا نہیں اس کے متعلق اب ہمارے پاس کوئی ذریعہ معلومات نہیں ہے۔ ممکن ہے بعض لوگوں نے انھیں نوٹ کرلیا ہو اور ممکن ہے کہ سننے والے معتقدین نے ان کو زبانی یاد کررکھا ہو۔ بہرحال ایک مدت کے بعد جب آنجناب کی سیرت پاک پر مختلف رسالے لکھے گئے تو ان میں تاریخی بیان کے ساتھ ساتھ وہ خطبات اور ارشادات بھی جگہ جگہ حسب موقع درج کردیے گئے، جو ان رسالوں کے مصنّفین تک زبانی روایات اور تحریری یادداشتوں کے ذریعے پہنچے تھے۔ آج متی، مرقس، لوقا اور یوحنا کی جن کتابوں کو انجیل کہا جاتا ہے دراصل وہ انجیل نہیں ہیں بلکہ انجیل حضرت مسیح علیہ السلام کے وہ ارشادات ہیں جوان کے اندر درج ہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن، حصہ اول، ص ۲۳۲)

یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ قرآن حکیم کی رو سے اناجیل اربعہ کا کون سا حصہ دراصل انجیل کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ یہ تحقیق بھی ضروری ہے کہ موجودہ اناجیل کی عیسائی مذہب میں کیا حیثیت ہے اور وہ کس طرح وجود میں آئیں۔ سب سے پہلے اس سلسلے کی پہلی کتاب متی کی انجیل پر نظر ڈالیے۔

متی کی انجیل:

اناجیل اربعہ کی مذہبی حیثیت کے بارے میں جناب عماد الحسن آزاد فاروقی لکھتے ہیں کہ ’’عیسائیت کی یہ اولین مقدس تحریریں نہ صرف عیسائیت کے ابتدائی عقائد، بلکہ حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں بھی جاننے کے لیے ہمارا واحد بنیادی ماخذ ہیں۔ اس مجموعہ میں چار اناجیل یعنی انجیل بہ روایت متی، انجیل بہ روایت مرقس انجیل بہ روایت لوقا، انجیل بہ روایت یوحنا شامل ہیں۔‘‘ (ص ۲۷۹، دنیا کے بڑے مذاہب)
اس اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان چار اناجیل کی اساسی حیثیت مذہب عیسائیت میں مسلم ہے۔ متی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سب سے قدیم ہے حالانکہ اس کے بارے میں یہ ابھی تک متعین نہیں ہوسکا ہے کہ یہ کس نے مرتب کی اور کس سن میں مرتب کی گئی۔ زمانۂ تالیف کے متعلق جناب غلام احمد پرویزؔ رقم طراز ہیں : ’’عہد تالیف کے متعلق عام طور پر خیال ہے کہ یہ ۶۱ء اور ۶۵ء کے درمیان مرتب ہوئی لیکن پروفیسر ہارنک کے نزدیک اس کا زمانۂ تالیف ۸۰ء اور ۱۰۰ء کے درمیان ہے۔ بہرحال زمانۂ تالیف ۶۱ء ہو یا ۱۰۰ء تاریخ کے صفحات میں اس انجیل کا نشان ۱۷۳ء سے قبل نہیں ملتا۔‘‘ (ص ۴۵، مذاہب عالم کی آسمانی کتابیں)
حضرت عیسیٰؑ کے حواریوں کے متعلق معلوم ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ وہ سب کے سب اَن پڑھ تھے۔ حضرت عیسیٰؑ کی زبان آرامی تھی لیکن یہ انجیل یونانی زبان میں لکھی گئی بعد میں اس کا ترجمہ عبرانی میں کیا گیا۔

مرقس:

اس بارے میں اختلاف ہے کہ متی زیادہ قدیم ہے یا مرقس۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ سب سے قدیمی انجیل مرقس ہے۔ اس کتاب (انجیل کا) زمانۂ تالیف ۶۴ء ہے۔ (بحوالہ تاریخ کلیسا)

لوقا:

تیسری انجیل لوقاؔ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے پہلی صدی کے اخیر میں مرتب کیا گیا۔

یوحنا:

چوتھی انجیل یوحنا کی ہے۔ جسے عام طور پر حضرت عیسیٰؑ کے حواری یوحناؔ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔لیکن چونکہ جدید تحقیق کے مطابق حواری کتابت کے فن سے ناواقف تھے اس لیے بعض علماء مذاہب کے مطابق یہ یوحنا ایشیائے کوچک کا رہنے والا تھا۔ اس انجیل میں فلسفہ یونان کی پوری پوری چاشنی موجود ہے۔

جناب غلام احمد پرویزؒ اپنی کتاب ’’مذاہب عالم کی – آسمانی کتابیں‘‘ میں ان اناجیل پر مختلف اہلِ نظر حضرات کے بصیرت آموز تبصرے نقل کرتے ہیں ان میں سے صرف دو قارئین کی نظر ہیں۔ موسیورینان لکھتا ہے:

’’حضرت مسیح کی تعلیم میں عملی اخلاقیات یا شرعی قوانین کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ صرف ایک مرتبہ شادی کے بارے میں آپ نے حتمی طور پر کچھ فرمایا اور طلاق کی ممانعت کی۔‘‘ (ص ۴۸، مذاہب عالم کی آسمانی کتابیں) اناجیل کے متعلق جو ڈ لکھتا ہے کہ ’’سیاسی اور اقتصادی معاملات کے متعلق (حضرت) عیسیٰؑ کی تعلیم افسوس ناک حد تک مبہم ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسیحی علماء سرمایہ داری، استعماریت، غلامی، جنگ، قیدوبند (دشمنوں) کو زندہ جلانا اور تکلیف دینا، غرضیکہ جس چیز کو چاہیں بلا دقت مسیح کی تعلیم سے ثابت کرسکتے ہیں۔‘‘ (ص ۴۸، ایضاً)
اسی طرح اناجیل اربعہ کی بہت سی تعلیمات باہم متضاد ہیں اور خدا کا صحیح اور واضح تصور پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح حضرت عیسیٰؑ کا کردار بھی اکثر مقامات پر بری طرح مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے جو سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو ہے۔ Charles Goreلکھتا ہے کہ
’’سینٹ کروسٹم کی طرح میرے لیے بھی اس امر کو تسلیم کرنا ناممکن ہے کہ اناجیل غلطی سے مبرا ہیں۔‘‘ (The Holy Spirit and Church)
(جاری)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں