مدارس دینیہ اور تحقیق وتصنیف کی موجودہ صورتحال

0

اسعد مظہر فلاحی، اسلامی اکیڈمی، نئی دہلی

دینی مدارس میں اسلامی علوم و فنون کی اعلیٰ تعلیم اور تحقیق و تصنیف وقت کی اہم ترین اور فوری ضرورت ہے۔ بہت سے مدارس میں درسی تعلیم کے بعد تحقیق اور تصنیف کے شعبے گزشتہ چند برسوں میں کثرت سے قائم ہوئے ہیں۔ تحقیق اور تصنیف کے یہ شعبے بلا شبہہ مفید کام کرر ہے ہیں اور ان کی موجودگی سے اسلامی تحقیقات کی اہمیت کا احساس بڑھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی شعبہ سے تحقیق کے وہ مقاصد اب تک کما حقہ پورے نہیں ہوسکے جس کی آج ملک و ملت کو اشد ضرورت ہے۔
اس وقت موجودہ صور تحال یہ ہے کہ دینی مدارس کے نظام اور نصاب میں ان میں سے کسی بھی ضرورت کی تکمیل کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ اس وقت دینی مدارس کے فارغین کی بہت بڑی تعداد مساجد کی امامت اور خطابت کے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔ بلاشبہہ مساجد کی امامت اور خطابت مسلم معاشرہ میں ایک بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ معاشرہ کی دینی تشکیل اور رائے عامہ کی اسلامی تربیت میں ائمہ اور خطباء کے کام کو اساسی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن مدارس کا موجودہ نصاب اور نظام طلبہ کے لیے مطلوبہ صلاحیت اور صفات کے ائمہ اور خطباء تیار نہیں کرتا۔ کیا یہ مدارس کی ذمہ داری نہیں ہے؟
آج تحقیق وتصنیف کی حالت نہایت افسوس ناک ہے۔ اکثر مدارس میں صرف نصابی سرگرمیاں حاوی ہیں، جہاں تحقیق وتصنیف کا نام ونشان بھی نہیں ملتا، اور کچھ مدارس میں غیرنصابی سرگرمیوں کا دائرہ نمایاں طور پر تقریر کی مشق تک محدود ہے۔ نتیجہ کے طور پر مدارس سے غالب تعداد میں یا تو مدرسین پیدا ہورہے ہیں یا پھر مقررین یا پھر اسی درس و تقریر کی مشق کرنے کرانے والے شارحین وتقریر نگار۔اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد مسلکی اور گروہی زنجیروں میں جکڑی ہوتی ہے۔ اب دوسرے موضوعات کے علاوہ جو تعداد بچتی ہے وہ نہایت قلیل ہے۔ اور اس میں سے بھی بہت کم وہ تعداد ہے جو سنجیدہ علمی و تحقیقی کام میں لگی ہوئی ہے، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کئی کئی برسوں سے حدیث، تفسیر اورفقہ کی بڑی بڑی کتابیں پڑھانے والی شخصیات مدارس کی دنیا میں جن کے نام کا سکہ چلتا ہے وہ ابتدائی درسی کتابوں کی شرح وحاشیہ نگاری کو ممتاز علمی وتصنیفی کام تصور کربیٹھی ہے۔
تحقیقی اور تصنیفی فکر جو کہ موجودہ علمی سرمایہ میں اضافہ کا باعث ہو اور جس سے قافلہ علم کو آگے بڑھنے کے لیے توانائی حاصل ہو۔ ایسا کام اب مدارس میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔
موجودہ دور میں مدارس کے حلقوں سے جن موضوعات پر کتابیں چھپ رہی ہیں، ان کے سرسری جائزہ سے جو نقشہ سامنے آتا ہے وہ کچھ اس طرح ہے:
درسیات و متعلقات درسیات 60-65%
دینیات 15-20%
وعظ وتقریر 10-15%
مسلکی تنازعات، تعویذات، عملیات 8-10%
علمی و تحقیقی کتابیں 1 %
متفرقات 3-4%
یہ بات میں یہاں عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ جائزہ مدارس کے حلقوں خصوصاً دیوبند میں چھپنے والی کتابوں کی تمام بڑی اور اہم فہرستوں کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔ چونکہ دیوبند دینی کتابوں کا ہندوستان میں سب سے بڑا مرکز رہا ہے۔ لیکن پھر بھی میرے خیال میں ہندوستان میں پھیلے مدارس کے اہم حلقوں دار العلوم ندوۃ العلماء، جامعۃ الفلاح اور مدرسۃ الاصلاح، بریلوی مکتب فکر اور اہل حدیث کی مطبوعات و نشریات کاجائزہ لیا جانا چاہیے۔ تاکہ علمی و فکری سرگرمیوں اور اکیڈمک ارتقاء کا زیادہ بہتر اندازہ ہوسکے۔
تحقیق و تصنیف کے سلسلے میں مدارس کی اس صورتحال کے متعدد اسباب نظر آتے ہیں:
(۱) بنیادی سبب فکر و نظر کی محدودیت ہے، دراصل مدارس کے ارباب اختیار نے مدارس کے مقاصد کو محض چند امور تک محدود کردیا ہے۔ یعنی روز مرہ کے مذہبی مسائل میں عوام کی رہنمائی اور روایتی حدود و قیود کے ساتھ اسلامی ثقافت کے مظہر کو سماجی سطح پر محفوظ وبرقرار رکھنے کی کوشش کرنا۔ لیکن سوال یہاں یہ ہوتا ہے کہ اس کے لیے آٹھ سال کے عرصہ میں دس سے زائد علوم کی تحصیل کی ضرورت کیا ہے؟ حالانکہ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے روز مرہ کے شرعی مسائل سے ضروری واقفیت کے ساتھ دو تین سال کی دینی تربیت کافی ہے۔
(۲) مدارس اور دوسرے فکری و علمی حلقوں کے درمیان کوئی باضابطہ رشتہ اور تال میل اب تک قائم نہ ہوسکا، البتہ اس کے برعکس دونوں حلقوں میں کشیدگی کی سی فضا قائم ہے۔ جس میں دونوں ہی حلقوں کی کمزوریاں شامل ہیں۔ البتہ ارباب مدارس کی طرف سے دینی و دنیاوی علوم کے تصور نے اس تفریق اور دوری کو بڑھانے میں خصوصی کردار ادا کیا ہے۔
(۳) اکثر مدارس خاندانوں میں سمٹ کر رہ گئے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ان پر مخصوص خاندانو ں کی اجارہ داری قائم ہے۔ یہ ام الامراض ہے۔ جس نے مدارس کو مختلف حیثیتوں سے بے جان کر دیا ہے۔ ’’اہتمام کی گدی نشینی‘‘ کرنے والوں نے نشر و اشاعت کے حوالہ سے اپنی ساری توجہ اپنے آباء و اجداد کے کارناموں کو اجاگر کرنے پر صرف کردی ہے۔ چنانچہ انھیں کی سوانح و تذکرہ، خطبات و ملفوظات، تصنیفات و تالیفات شائع ہونے لگیں، اور انھیں پر علمی نشستوں اورسیمیناروں کا انعقاد ہونے لگا ہے۔
(۴) نصاب کی محدودیت کی وجہ سے ہمارے علماء مدارس چہار دیواری میں سمٹتے چلے گئے اور سماجی تبدیلیوں سے بے خبری کے ساتھ علوم و افکار کے میدانوں میں ہونے والی حالیہ پیش رفت سے وہ مکمل طور سے نا آشنا رہے۔
(۵) محنت اور صلاحیت سے متصف لوگوں کے لیے معاشی مسائل ان کے پاؤں کی زنجیریں بن گئے۔ بے صلاحیت مقررین اسٹیج کی تقریروں کے ذریعہ اعزازیے اور تحائف وصول کرنے لگے،چنانچہ ان لوگوں نے اپنے طلبہ کو اپنی تدریس سے زیادہ اپنی مطبوعہ شروحات کی طرف متوجہ کیا۔ اب حقیقی معنوں میں ان درسی کتابوں کی شروحات لکھنے والوں اور کتابوں کے ناشرین میں جیسے ایک دیدہ یا نادیدہ ساز باز کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔
(۶) مدارس میں یا تو سرے سے تحقیق وتصنیف کا کوئی شعبہ ہی نہیں ہے یا اگر ہے تو اسے لائق و فاضل افراد مشکل سے میسر آتے ہیں۔ اس کی وجہ مدارس کا وہ بند ماحول ہے جس میں تخلیقی فکر رکھنے والے اہل قلم کے لیے خود کو لے کر چلنا آسان نہیں ہوتا۔
اب اگر ہم اس بات پر غور کریں کہ موجودہ دور کے دینی مدارس میں سے فارغ ہونے والے طلبہ کی فکر اور تحقیق کا معیار کیا ہے؟ وہ علوم دینیہ پر کتنی دسترس رکھتے ہیں؟ ان کے اندر قدیم مصادر سے استفادہ کی صلاحیت کتنی پیدا ہوتی ہے۔ علم و حکمت و فلسفہ سے وہ کہاں تک آشنا ہیں؟ کیونکہ یہ وہ مضامین ہیں جو دینی مدارس میں پڑھا ئے جاتے ہیں اور یہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ کی فکر اور تحقیق کا جائزہ انھیں مضامین کے تعلق سے لیا جانا زیادہ مناسب ہے۔
اس حوالہ سے اگر ہم دینی مدارس کے فارغین کی تحقیق پر ایک گہری نظر ڈالیں تو اس بات سے انکار مشکل ہوگا کہ فارغین کی اکثریت میں مطلوبہ تحقیق کی کمی پائی جاتی ہے۔ علوم دینیہ یعنی تفسیر و حدیث اور فقہ اسلامی جو کہ تعلیم کا مرکز و محور ہیں اور آٹھ سے دس سال تک کی وسیع تعلیم کا بڑا حصہ انھیں مضامین کی تدریس و تفہیم میں خرچ کیا جاتا ہے۔ ان علوم پر دسترس حاصل کرلینے والے فارغین مدارس کی تعداد ’’ایک اندازہ کے مطابق شاید دس فیصد سے زائد نہ ہو۔‘‘ ایک بڑی تعداد ان مضامین میں بھی افسوسناک حد تک کم زور صلاحیت کی حامل نکل رہی ہے اور اس افسوسناک صورتحال کا اندازہ اس وقت زیادہ نمایاں ہوجاتا ہے جب وہ عربی زبان کی نصابی یا غیر نصابی کتابوں کی صحیح عبارت خوانی سے ہی قاصر ہوتے ہیں، عبارت فہمی تو اس کے آگے کا مرحلہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مدرسہ کی سند فراغت دراصل علوم دینیہ کے کمرہ میں داخل ہونے کی کنجی ہے گویا اب ایک فارغ التحصیل اب اس قابل سمجھا جاتا ہے کہ وہ اپنے طور پر شرعی مآخذ کا مطالعہ کرکے علم و تحقیق کے سمندر سے لعل و گہر نکال سکتا ہے۔
اس سے آگے بڑھ کر اگر ہم ان فارغین پر نظر ڈالیں تو آج کے دور انحطاط میں بھی بعض قابل رشک صلاحیتوں سے آراستہ ہوکر نکل رہے ہیں، گرچہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر کہی جاسکتی ہے۔ اب یہاں ایک سول ابھر کر آتا ہے کہ ہمارے ان ذہین فضلاء میں سے محدود تعداد ہی کے لیے سہی، کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے دینی پیغام اور دعوتی کردار کے ساتھ عصری علوم میں سے کسی بھی مضمون میں امتیاز پیدا کرکے اس موضوع پر شریعت اسلامی کی بالا دستی ثابت کریں۔ مثلاً، پولٹیکل سائنس، سوشیالوجی، معاشیات یا قانون کی تعلیم حاصل کرکے دنیا کو ان کی زبان میں بتا سکیں کہ اسلام کا نظام حکمرانی کیسا شفاف اور عادلانہ ہے۔ لیکن اس سلسلے میں کئی رکاوٹیں درپیش ہوتی ہیں، مثال کے طور پر
اول تو یہ کہ ہمارے یہ ذہین فضلاء اپنی حتی الوسع محنت کرکے بھی اسی نصاب کے دائرہ میں بڑی حد تک محدود رہتے ہیں جو ان کے لیے مقرر شدہ ہے۔ یہ بات کیونکر ممکن ہوگی کہ فقہ اسلامی کی تعلیم میں تو ہم ان مثالوں کی مددسے تفہیم کا کام لیں جو آج دنیا سے ہی ناپید ہیں اور یہ توقع کریں کہ ہمارے فارغین جدید مسائل پر اپنی رائے دے سکیں گے۔ جبکہ زندگی کا سفر جاری ہے اور مسائل نئے نئے پیدا ہوتے جا رہے ہیں، لہذا ہمارے نصاب میں بھی اس کی شمولیت یا نمائندگی ہونی چاہیے۔
دوسرے یہ کہ علم و تحقیق کا سفر رواں دواں ہے، ہمارے فضلاء کو بھی اسی رفتار کے ساتھ سفر جاری رکھنا ہوگا، ورنہ یا تو ہم ان راہوں پر دوبارہ چل رہے ہوں گے جن سے علم و تحقیق کا کارواں گزر چکا ہے یا ہم ایک انجام پا چکی علمی محنت کا بلاوجہ اعادہ کر رہے ہوں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے نصاب تعلیم کا دائرہ اتنی کشادگی پیدا کرے کہ وہ اپنے دامن میں جدید پیش رفت اور نئی تحقیقات و خدمات کو سمولے، تاکہ فقہ اسلامی کا فاضل جدید فقہی مباحث اور تحقیقات سے، علم حدیث کا فاضل فن حدیث کے میدان کی بیش قیمت تحقیقات و خدمات سے، اور علم تفسیر کا فاضل میدان تفسیر کی پیش رفت اور ضروریات جدیدہ سے کما حقہ واقف ہو۔
تیسرے یہ کہ کسی بھی نصاب کی تدریس میں ایک مؤثر کردار معلمین اور ساتذہ کا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اساتذہ اپنے موضوع کے میدان میں کس حد تک قدیم و جدید معلومات سے آراستہ ہیں۔ طلبہ کی صلاحیت اور دائرہ وسعت سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ دینی مدارس کے تعلیمی نظام میں اساتذہ اور معلمین کو ان کے متعلقہ موضوع سے واقف رکھنے کا کوئی نظم نہیں ہے۔ حالانکہ تدریسی عمل کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے۔
چوتھے یہ کہ طلبہ ایسے مواقع سے محروم رہتے ہیں جہاں وہ دیگر تعلیمی اداروں اور نظام کا مطالعہ کرسکیں اور دیگر طلبہ کے ساتھ تبادلہ خیال کرسکیں، اس سے نہ صرف طلبہ کے ذہنی افق میں وسعت پیدا ہوگی بلکہ وہ معاصر مسائل کو سمجھنے اور ان کا جواب دینے کی سمت عملی قدم اٹھا سکیں گے۔ اب آخر میں اس سوال پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ دینی مدارس کے فارغین سے کس قسم کی صلاحیتیں مطلوب ہیں؟ اور کن عملی و تحقیقی صلاحیتوں کی توقع کی جانی چاہیے۔
اس کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ علمی تحقیق و تصنیف ایک بڑا اور وسیع کام ہے۔ یہ صرف طلبہ یا افراد کے ذاتی شوق و جذبہ کی بنیاد پر ہی انجام نہیں دیا جاسکتا۔ زیادہ بہتر طور پر وہ علمی پروجیکٹوں کی بنیاد پر ہی انجام دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے اندر اس قسم کے ادارے تقریباً معدوم ہیں جو علمی و تحقیقی کاموں کو باضابطہ پروجیکٹوں کی شکل میں انجام دئیے جانے کے لیے ضروری وسائل فراہم کرتے ہیں۔ مدارس کی بڑی تعداد کے لیے سالانہ بجٹ کی فراہمی ہی ایک مسئلہ ہوتی ہے۔ البتہ بڑے مدارس جن کا سالانہ بجٹ کروڑوں میں ہے کم از کم اپنے فاضلین کو علمی پروجکٹوں میں مصروف کرنے کے لیے بجٹ کا ایک حصہ مختص کرسکتے ہیں۔
موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق فارغین مدارس اور طلبہ میں علم وتحقیق کا صحیح شعور بیدار کرنے کے لیے منصوبہ بند اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان قدامات میں چند مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ مدارس کے مجموعی ماحول کو اس طرح ترتیب دینا کہ مدارس کی نئی نسل کا صرف کتاب پڑھنے پڑھانے پر ہی انحصار نہ ہو، اور طلبہ صرف اس کی اہمیت سے واقف نہ ہوں بلکہ یہ بھی ان کے شعور کا حصہ بن سکے کہ مطالعہ کا مقصد محض علم کے دائرہ کو وسیع کرنا اور ترقی دینا نہیں بلکہ فکر کے دائرہ کو بھی وسیع کرنا اور ترقی دینا ہے۔
۲۔ تحقیق اور تصنیف کے لیے جس تجسس اور تخلیقی فکر کی ضرورت ہے وہ حقیقت میں مدارس میں رائج نصاب سے حاصل نہیں ہوتی۔ طلبہ کے مطالعہ اور مشاہدہ کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے زبان کے تعلق سے انگریزی کو باضابطہ نصاب کے اصل دھارے میں شامل کرنے اور ہر طالب علم کے لیے کم و بیش میٹرک کی سطح تک کی انگریزی زبان کی واقفیت کو لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔ آج کی ضروریات اور تقاضوں کو کل کے اکابر اور اسلاف سے مقابلہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔
۳۔ تمام بڑے مدارس میں تحقیقی اکیڈمیاں اور مراکز قائم ہونے چاہئیں۔ بعض مدارس میں ایسے مراکز قائم ہیں، لیکن ان کا کوئی واضح مقصد نظر نہیں آتا۔ ان میں سے زیادہ تر ادارہ کے بانیان و اکابر کے یا ان سے متعلق اور دوسری صورت میں گروہ بندیوں پر مبنی مواد شائع کیے جاتے ہیں۔ اس طرح علم کی یہ آواز یا تو اپنی ہی چہار دیواری میں گونج کر رہ جاتی ہے یا پھر وہ اتنی بھونڈی ہوتی ہے کہ اس چہار دیواری سے باہر اس کو سننے والا اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیتا ہے۔
۴۔ تحقیق وتصنیف کے مقصد کے حصول کے لیے غیر نصابی سرگرمیوں میں مختلف چیزوں پر توجہ کی ضرورت ہے، مثلاً ماہرین اصحاب علم کے ذریعہ پندرہ روزہ یا ماہانہ محاضرہ کا پروگرام، تقریری مجالس کی طرح تحریری مقابلوں کا پروگرام، مختلف موضوعات پر اوپن ڈسکشن کا اہتمام و انتظام۔ اس طرح طلبہ میں تحریری ذوق کو ابھارنے کے لیے سالانہ مقابلہ، طلبہ کی تحریری کوششوں پر انعامات۔یہ اور اس طرح کے اقدامات اور کوششوں کے ذریعے مدارس کے اندر طلبہ کے گرتے ہوئے معیار کا علاج ڈھونڈا جاسکتا ہے، مدارس کے طلبہ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ان کی ’’خود اطمینانی‘‘ کی یہ ذہنیت ہے کہ مدارس میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہی نہیں بلکہ اعلیٰ معیار کے مطابق ہے۔ اس لیے ان سے اس سے اوپر کی توقع کرنا غلط ہے۔ یہ ذہنیت علم میں اضافہ اور فکر میں نمو کے لیے تجسس کی اسپرٹ کو ختم کردیتی ہے۔
بہر حال مدارس میں علم و تحقیق کے معیار کی گراوٹ وقتی نہیں ہے کہ اس کے علاج کے لیے فوری کوئی پروگرام تیار کرلیا جائے۔ بلکہ اس کے لیے مدارس کے پورے نصاب و نظام کے حقیقت پسندانہ اور معروضی جائزہ کے ساتھ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ تبھی یہ مدارس عام درس گاہوں کی طرح محض پیشہ وارانہ انداز میں پڑھنے پڑھانے والے ادارے کی حیثیت سے اوپر اٹھ کر حقیقی معنوں میں فکر و تحقیق کے اعلیٰ اور اساسی اداروں کی حیثیت سے موجودہ دور کی نمائندگی کرنے اور سماج پر اپنے اثرات قائم کرسکنے کے لائق ہوسکتے ہیں۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights