مدارس دینیہ اورامکانات کی وسیع دنیا

ایڈمن

ڈاکٹروارث مظہری، [email protected]

عصر حاضرمیں دینی مدارس کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے جو امکانات حاصل ہیں، وہ ماضی میں انہیں کبھی حاصل نہیں تھے۔ خاص طور پر جنوبی ایشیا کے مدارس دین کے احیاء و تجدید اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے پھیلاؤ میں زیادہ وسعت، ہمہ گیری اور رسوخ کے ساتھ اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں کے مدارس احیائے اسلام کی نہایت متمول وراثت اور کامیاب تجربات کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر دوسرے علاقوں کے مدارس کے مقابلے میں حکومتی گرفت سے مکمل طور پر آزادا ور خودمختار ہیں۔ اس لیے زیادہ آزادی و خود مختاری کے ساتھ اپنے دینی ودعوتی فرائض کو انجام دے سکتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت حد تک دے بھی رہے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کی نگاہ اس وقت اسی لیے سب سے زیادہ جنوبی ایشیا کے مدارس پر ہے۔ یہاں جمہوری حقوق و اختیارات سے بہرہ وران مدارس کو شکنجے میں کسنا آسان نہیں ہے۔تاہم صرف جنوبی ایشیا کے مدارس کو ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے اکثر مدارس کو موجودہ دور میں یہ امکانات حاصل ہوگئے ہیں کہ وہ ماضی کے مقابلے میں اپنی عملی خدمات کے دائرے کو زیادہ سے زیادہ وسعت دے سکیں۔
آج مدارس کا دائرہ ایشیا سے پھیل کر یورپ ، امریکہ اور لاطینی امریکہ تک جا پہنچا ہے۔ کل دارالعلوم دیوبند قائم ہوا۔ اس کی نسبت محض ایک قصبے کی طرف تھی، اور اس نے برصغیر ہند کی فضا میں دینی ارتعاش پیدا کردیا۔ آج دارالعلوم نیویارک،دار العلوم شکاگو،دار العلوم المدنیہ ،بفیلو،جامعہ اسلامیہ دار العلوم ، ڈیٹرائٹ، دار العلوم، لندن، دار العلوم بری (یوکے)دار العلوم کناڈا ،دار العلوم تری نیداد اینڈ ٹوبیکو،دارالعلوم زکریا، جنوبی افریقہ وغیرہ قائم ہیں اور کوئی وجہ ناامیدی کی نہیں ہے کہ وہ دیار غیر کی شب تاریک میں قندیل رہبانی ثابت نہ ہوں۔ مدارس کے فضلاء اس وقت پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں،ان کے وجود سے دنیا کے کم ہی خطے خالی ہوں گے۔
ان مدارس کو قائم کرنے والے زیادہ ترہندوستان کے صوبہ گجرات سے تعلق رکھنے والے اہل خیر اور دین کا درد رکھنے والے لوگ ہیں۔دوسری عالمی جنگ کے بعدامریکہ سمیت یورپ اور افریقہ کے مختلف ملکوں میں جو دینی تعلیم کی درس گاہیں قائم ہوئیں ،ان میں پیش روی کا سہرا گجرات کی مسلم تاجر برادری کو حاصل ہے۔ تجارت کی غرض سے جہاں بھی ان کے قدم پڑے انہوں نے وہاں دینی تعلیم کی درس گاہیں قائم کرنے کی کوشش کی۔ یہ وہی صورت حال ہے جو ہندوستان کے ساتھ پیش آئی ۔ہندوستان میں اسلام جنوبی ہند سے عرب میںآنے والے تاجروں کے ذریعے ہی متعارف ہوا ۔ ان عرب تاجروں نے تجارت کے ساتھ اسلام کی دعوت واشاعت کواپنا مقصود بنایا۔اوراس طرح یہ خطہ اسلام کی ابتدائی روشنی سے معمور ہوا۔پھریہ روشنی دیار ہند کے دوسرے خطوں میں پھیلتی چلی گئی۔اس وقت جنوبی افریقہ ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں بڑے بڑے مدارس قائم ہیں۔ان میں دارالعلوم زکریا، جامعہ محمودیہ ،جامعہ آزادویل، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔یہ سب اسی گجراتی تاجر برادری کے قائم کردہ ہیں۔’دیار غیر ‘میں قائم یہاں بعض نسبتاََ بڑے مدارس کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
یورپ وامریکہ کے بعض مدارس
دار العلوم نیویارک:جمائیکا، نیویارک میں قائم ہے(۱)۔اس کی تاسیس1997میں ایک نیک دل اور دین کی فکر رکھنے والے شخص شہید الاسلام کے ہاتھوں عمل میںآئی جو بنگلہ دیش کے رہنے والے تھے۔ نیویارک میں چونکہ مسلمانوں کی آبادی ملک کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں زیادہ ہے،اس لیے یہاں مدتوں سے ایسے ادارے کی ضرورت محسوس ہورہی تھی جہاں روایتی دینی تعلیم کا عصری معیارکے مطابق نظم ہو۔ یہ مدرسہ طلبہ کی تعدادکے لحاظ سے زیادہ بڑا نہیں ہے لیکن کار کردگی اورنتائج کے لحاظ سے بلاشبہ قابل رشک ہے۔راقم الحروف کو باربار امریکہ جانے اور اس ادارے کے متعددفضلاء سے ملاقات کا موقع ملا ہے۔مجھے اندازہ ہوا کہ اس کے فضلاء اپنی مجموعی دینی صلاحیتوں کے لحاظ سے ہندوپاک کے بہت سے اداروں سے فائق و برتر ہوتے ہیں۔
یہاں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہاں عصری اور دینی دونوں تعلیم کوجمع کرلیا گیا ہے۔حفظ قرآن اور عا لمیت کے تعلیمی کورسیز کے پہلو بہ پہلو یہاں سیکولرمضامین: ریاضی، انگلش،سائنس اور سماجیات ( socila studies) کی مسلم معلمین کے ذریعے تعلیم دی جاتی ہے۔ شرعی وضع قطع اور اسلامی معاشرت کا پورا پورا لحاظ رکھا جاتا ہے۔اس کے متعدد فضلاء ملک وبیرون ملک میں دین ودعوت کے کام میں مصروف ہیں۔
دارالعلوم لندن: (۲)دارالعلوم لندن کی تاسیس 1988میں عمل میںآئی۔ یہ لندن کے قریب Chislehurst,Kent میں ایک نہایت پرفضا مقام پر واقع ہے۔’قومی نصاب کے مضامین‘ : یعنی انگلش ،ریاضی،انفارمیشن ٹکنالوجی، ہیومنٹیز، اور سائنس کو ،لندن بورڈ آف اگزامنیشن کے مجوزہ درجات تک پڑھا نے کے ساتھ ساتھ عربی اوراردو بھی پڑھا ئی جاتی ہے۔اس کا عمارتی ڈھانچہ کافی وسیع ہے ۔ چنانچہ ادارے میں130بورڈنگ روم ہیں۔ ان کے علاوہ،ڈائننگ ہال،اسمبلی ہال، پریئر ہال (prayer hall) ہے۔ مدرسے کی اپنی پارکنگ ہے جس میں کم از کم 100گاڑیوں کو پارک کرنے کی سہولت ہے۔تعلیم کے علاوہ ادارے کی دوسری سرگرمیاں بھی ہیں جیسے،کثیرمذہبی پروگرام اور تقریبات کاانعقاد،شرعی کاؤنسلنگ،فرقہ وارانہ کش مکش کے خاتمے کوششیں، غیر مسلموں کے لیے ثقافتی پروگراموں کا انعقاد،اسلامی ماہنامے کی اشاعت وغیرہ۔ فضلاء ومستفیدین نے بھی اس ملک میں دین کی اشاعت وترویج اور احیا و بقا میں گراں قدر رول ادا کیا ہے۔ دعوتی اسپرٹ رکھنے والے نوجوان جو اس ملک میں دعوتی میدان میں سرگر م ہیں ان میں اس ادارے کے منتسبین وفضلاء پیش پیش ہیں۔
دارالعلوم بری، انگلینڈ: دارالعلوم،بری کا قیام ۱۹۷۳میں عمل میںآیا تھا۔اس کے بانی یوسف متالا ہیں۔یہ برطانیہ کی سب سے قدیم دینی تعلیم گاہ ہے۔ اس میں یورپ، شمالی امریکہ، مشرق وسطی،ایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ زیرتعلیم ہیں۔اب تک اس مدرسے سے کئی سو کی تعداد میں علماء،حفاظ،قراء فارغ ہوکرنکل چکے ہیں۔یہاں سکنڈری سطح کی عصری تعلیم کے ساتھ ۔ درس نظامی کے مطابق اعلی دینی تعلیم دی جا تی ہے۔(۳)
دارالعلوم المدنیہ، بفیلو: یہ مدرسہ۱۹۸۶میں قائم ہوا۔اس کے بانی اسماعیل مینن ہیں۔ اس مدرسے کی عمارتیں دوچرچوں کو وقفے وقفے سے خرید کر ان کی اراضی پر بنائی گئی ہیں۔یہ ادارہ تین مختلف اسکولوں پر مشتمل ہے:مدینۃ العلوم،دار الرشید، اور دار العلوم اکیڈمی۔اس کا کمپلیکس سولہ عمارتوں پر مشتمل ہے جس میں کئی سو روم ہیں۔یہاں کئی طرح کے اسلامی کورسیز چلائے جاتے ہیں:حفظ ، عا لمیت ۔ عالمیت کا کورس چھ سالوں پرمشتمل ہے۔ اور اس کے تحت علوم شرعیہ :تفسیر،حدیث اور فقہ وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔دارالرشید میں تقریبا ایک سو طالبات زیر تعلیم ہیں۔اس کی اپنی ایک دارالعلوم اکیڈمی ہے جس کے تحت کنڈرگارڈن سے آٹھویں درجے تک کی تعلیم کا نیو یارک بورڈ سے منظورشدہ سیکولرتعلیم کا نصاب پڑھا یا جاتا ہے۔اوراس کے ساتھ دینی تعلیم کا کورس بھی پڑھایا جاتا ہے۔اس ادارے کی ایک انفرادیت اور خصوصیت یہ ہے کہ یہاں ایک ای عالم (eAalim) (۴) کورس بھی چلایا جاتا ہے جس کا آغاز۲۰۱۰میں کیا گیا تھا۔ اس کا نصاب۵؍ سالوں پرمشتمل ہے۔ای عالم کورس کے توسط سے ایک شخص گھر بیٹھے آن لائن قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کرکے عالم بن سکتا ہے۔(۵)
دارالعلوم ،کناڈا:دارالعلوم کناڈا ایک روایتی دینی تعلیم کا ادارہ ہے ۔اس کی تاسیس۱۹۹۳میں عمل میں آئی۔ اس میں۵۰۰؍ طلبہ زیرتعلیم ہیں۔ اس کا نظم و نسق شوری کے ہاتھ میں ہے۔اس کاعالمیت کا نصاب چھ سالوں پرمشتمل ہے ۔جس کے تحت ہندوپاک کے عام مدارس کے طرز پرتعلیم دی جاتی ہے۔یہ مدرسہ ۸۰؍ہزاراسکوائرفٹ پرقائم ہے۔ اور اس کا شماریہاں کے بڑے مدارس میں ہوتا ہے۔اس کے فضلا ملک اورملک سے باہردینی ودعوتی کاموں میں مصروف ہیں۔(۶)
دارالعلوم زکریا ،جنوبی افریقہ:دیار غیر‘ میں مدارس کے تعلق سے ایک اہم نام جنوبی افریقہ کا ہے۔یہاں درجنوں مدارس قائم ہیں۔ اس مدرسہ کا قیام ۱۹۸۳میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کی رہنمائی میں عمل میںآیا تھا، اسی لیے وہ ا ن کے نا م سے منسوب ہے۔بانی مولانا عبدالحمید اور مولانا شبیراحمدصالوجی ہیں۔ ثانی الذکر اس وقت اس مدرسے کے مہتمم ہیں۔ مدرسے کا آغاز صرف ۲۰؍ طلبہ سے ہوا تھا۔ آج یہاں۸۰۰؍ طلبہ زیر تعلیم ہیں جن کا تعلق دنیا کے۵۵؍ مختلف ملکوں سے ہے۔ اب تک دار العلوم زکریا سے ۲۸۲؍علماء واصحاب افتاء اور۹۰۰؍ حفاظ وقراء اورخطا ط نکل چکے ہیں۔ تقریبا چالیس اساتذہ درس وتدریس کی خدمت پر مامور ہیں۔مدرسہ رفاہی کاموں کے لیے بھی خصوصی شہرت رکھتا ہے۔(۷) جنوبی افریقہ میں مسلم آبادی کا تناسب1.5 ہے۔ بزنس کمیونٹی ہونے کی وجہ سے اقتصادی سطح پر یہاں کے مسلمان نہایت خوشحال ہیں۔ ہند و پاک کے دینی مدارس کو سب سے زیادہ مالی تعاون وہیں سے حاصل ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا سطور میں’ مشتے نمونہ از خروارے‘ کے طور پر صرف چند مدارس کا تذکرہ گیا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہاںآئے دن مدارس قائم ہورہے ہیں۔صرف امریکہ میں ایک درجن سے کم مدارس نہیں ہوں گے۔افریقہ کے چھوٹے چھوٹے ممالک، زامبیا، ری یونین، زمبابوے ،فجی وغیرہ بھی مدار س کے وجود سے خالی نہیں رہے۔ اسی طرح وسط ایشیا کے مختلف ملکوں میں سوویت یونین کے زمانے میں جن مدارس پر پابندی عائد کردی گئی تھی، اب وہ پابندی اٹھا لی گئی ہے۔ بعض مدارس زیر زمین ہوگئے تھے، اب ان مدارس نے کام کرنا شروع کردیا ہے۔(۸) فی زمانہ جیسے جیسے اخلاقیات کا بحران بڑھ رہا ہے۔ خاص طور پر غیرمسلم ملکوں میں جدید طرز تعلیم کے بعض منفی پہلو لوگوں کی نگاہوں میں آنے لگے ہیں۔ مدارس کی تعلیم کی طرف توجہ بڑھنے لگی ہے۔ اگر غیرممالک میں قائم یہ مدارس دینی و دنیوی تعلیم کی تفریق کو ختم کرتے ہوئے اور زمانے کے تقاضوں کی رعایت کرتے ہوئے اپنے نصاب میں مناسب ترمیم کرسکیں اور اس طرح مدارس اور اسکول کی تعلیم کے درمیان پائی جانے والی خلیج کم سے کم ہوسکے تو مدارس زیادہ وسیع پیمانے پر ان ممالک میں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔
اس پہلوسے دیکھا جائے تو موجودہ عہد مدارس کے لیے اپنے دامن میں امکانات کی وسیع دنیا سموئے ہوئے ہے ۔ جن کو استعمال کرکے موجودہ دور میں مدارس دعوت دین اور سماجی اصلاح کے میدانوں میں اہم کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔ اپنے متعلق پیدا ہونے والی بدگمانی اور بدنامی کی مہم کا رخ موڑ سکتے ہیں۔ اصل ضرورت موجودہ عہد کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر منظم حکمت عملی طے کرنے اور اسے روبہ عمل لانے کی ہے۔
آج سے پہلے مدرسہ کا لفظ کم از کم غیر مسلمین خصوصاً آج کی ’متمدن‘ دنیا کے لیے انتہائی غیر مانوس اور اس کا وجود ایک سکڑی سمٹی حقیقت لگتا تھا، لیکن آج وہ ایک بڑی حقیقت کے طور پر اپنی حقیقت تسلیم کروا چکا ہے۔ اب کسی کے لیے بھی یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ مدارس، مدارس کی تعلیم اور ان کے فضلاء کو آسانی سے نظرانداز کرسکے۔ بلاشبہ مدارس کی یہ شہرت، یہ ہمہ گیری، عالمی سطح پر ان کا موضوع بحث بننا مثبت تناظر میں نہیں ہے۔ انہیں یہ شہرت منفی حوالوں سے حاصل ہوئی ہے۔ امیج کے خراب ہونے سے ان کے لیے طرح طرح کی پریشانیاں بھی کھڑی ہورہی ہیں۔ اپنے فرائض منصبی کو انجام دینے میں انہیں رکاوٹیں بھی آرہی ہیں۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، روشنی کے مرکز میں آنے اور لوگوں کی توجہ کا محور بننے کی وجہ سے مدارس کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ آسانی کے ساتھ اپنے کام اور پیغام کو دنیا کے سامنے آشکارا کرسکیں۔ اپنے حوالے سے اسلام اور اسلام کی تعلیمات سے دنیا کے لوگوں کو واقف کراسکیں۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں کچھ ایسی ہی صورت حال پیش آئی تھی کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کو زیادہ سے زیادہ بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن رسول اللہ کی حکمت عملی سے یہ ڈس ایڈوانٹج ایڈوانٹج میں تبدیل ہوگیا۔پہلے اپنے مشن اور کام کے بارے میں بتانے کے لیے خود مدارس کو اسٹیج تیار کرنے اور سامعین کو اکٹھا کرنے کی ضرورت تھی۔ آج دوسرے لوگوں نے ان کی باتوں کو سننے کے لیے اسٹیج تیار کردیا ہے۔ اب اس اسٹیج کا مثبت استعمال خود مدارس کے لوگوں کی بصیرت اور حکمت عملی پر منحصر ہے:
ہمہ آہو ان صحرا سر خود نہادہ برکف
بہ امید آں کہ روزے بشکارخواہی آمد
معاصر امکانات سے استفادے کے وسائل: معاصر امکانات سے فائدہ اٹھانے کے لیے مدارس کو مختلف سطحوں پراقدامات کی ضرورت ہے۔ان اقدامات میں سب سے اہم چیز ظاہر ہے مدارس کے نصاب کو جدیددور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ سرفہرست مدارس کوزیادہ سے زیادہ شمولیت پسندانہ(inclusive) نیزانفصالی موقف کے بجائے انضمامی موقف کو اپنانے اور اس پر زور دینے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے مدارس کوزیادہ سے زیادہ دعوتی اسپرٹ کا حامل ہونا چاہیے۔ ہندوستان اور اس جیسے دوسرے ممالک جہاں کا سماج تکثیریت کی بنیاد پر قائم ہے، وہاں کے اپنے تقاضے اورنزاکتیں ہیں جن کی جب تک رعایت نہ کی جائے، وہاں اپنی جڑوں کو مضبوط اوروسیع کرنا آسان نہیں ہوتا۔اسی طرح مدارس یا کوئی بھی اس طرح کا ادارہ جب تک پوری طرح معاشرے کا حصہ بن کر نہ رہے۔ معاشرے کومجموعی طورپراس سے فائدہ پہنچنے کی امیدنہ ہو اس وقت تک وہ ادارہ سوالوں کے گھیرے میں رہتا ہے۔ اگرآپ مجموعی طورپر معاشرے کے تمام طبقات کے لیے نفع بخش ہیں تو آپ پر کوئی آنکھ اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتا، بلکہ آپ کی بڑی سے بڑی کمزوریاں اس آڑ میں چھپ جاتی ہیں۔
مواصلات کے ذرائع کا وسیع استعمال: مدارس کے لیے اطلاعاتی ٹکنالوجی کے میدان میں انقلابی پیش رفت کے نتیجے میں زبر دست امکانات حاصل ہوگئے ہیں۔مواصلات کے جدید ذرائع کے استعمال سے وہ وسیع سطح پر رسول اللہ کی پیش گوئی کے مطابق(۹) اسلام کے کلمہ کو ہر کچے پکے گھروں میں پہنچانے کا اہم فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ مدارس کی تعلیم کی طلب میں اضافے کے پیش نظر اس وقت بعض فضلائے مدارس ہندوستان میں بیٹھ کر مغربی ممالک کے طلبہ کو آن لائن دینی تعلیم دے رہے ہیں۔ ہمارے ایک دوست جنہوں نے دار العلوم دیوبند کی تعلیم کے بعد بعض امریکی یونیورسیٹیوں سے بھی استفادہ کیا ہے،دیوبند میں بیٹھ کر دارالعلوم آن لائن کے نا م سے ایک آن لائن مدرسہ چلا رہے ہیں (۱۰)۔ہندوستان اور پاکستان وغیرہ میں ایسے انٹرنیٹ ٹیوٹرس کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے، جو یورپ اور امریکہ میں مقیم بچوں اور نوجوانوں کو بنیادی دینی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جوعمر کے ایسے مرحلے میں ہیں،یا ایسی پیشہ ورانہ مجبوریوں اور مصروفیتوں کا شکار ہیں جن کی بنا پر ان کا کسی باضابطہ تعلیم گاہ میں داخلہ ممکن نہیں ہے،آن لائن تعلیم کا نظام ان کے لیے نظام رحمت کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے مختلف شہروں میں قائم مدارس نے بھی اس نظام کو اپنا لیا ہے۔
یہ اہم سوال ہے کہ ہمارے ہندوستان کے مدارس اس نظام اور موثر طریقہ تعلیم سے کیوں استفادہ نہیں کرسکتے؟ بڑی تعداد میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کے دلوں میں دینی علوم کے حصول کی تڑپ موجود ہے۔ جن کے لیے کسی بھی طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ مدارس میں باضابطہ داخلہ لے کر اپنے شوق تعلیم کی تکمیل کرسکیں۔ ان کے لیے اس کے ذریعے دینی تعلیم کے حصول کی راہ آسان ہوسکے گی۔ ہمارے علماء اور مذہبی طبقے کو جدید سائنس اور ٹیکنا لوجیکل ترقیات سے خوف نہیں کھانا چاہیے۔ بلکہ ان سے زیادہ سے زیادہ خود کومانوس کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہ دور جدید میں بہتر طور پر اسلامی اکٹوزم میں اپنا گراں قدر حصہ ادا کرسکیں۔ہمار ے علماء اوراربا ب فکرکی گفتگو میں یہ نکتہ ہمیشہ سامنے رہتا ہے کہ خالق کائنات نے اس پوری کائنات کو انسانوں کے لیے مسخر کردیا ہے۔ یہی قرآن کا ارشاد ہے ۔اس لحاظ سے علماء کی فکر کا یہ مرکز ہونا چاہیے کہ ان ’’مسخرات‘‘ سے کس طرح فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے؟آن لائن اورفاصلاتی نظام تعلیم کی بنیاد پر ایسی مسلم خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد کودینی تعلیم سے جوڑا جا سکتا ہے جن کے پاس فارغ اوقات کی بہتات ہے ،لیکن وہ انہیں تعمیری کاموں میں صرف نہیں کرپاتیں۔ایسی خواتین کے لیے آن لائن تعلیم کی سہولت کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ ایک بہت بڑی تعداد ایسے علاقوں میں رہنے کی وجہ سے جہاں مساجداوراسلامی کمیونٹی سینٹرز کا وجود نہیں، آن لائن تعلیم کے ذریعے ان کی دینی وتعلیمی تربیت ممکن ہوسکتی ہے۔
ہند و پاک کے بہت سے مدارس کی بڑی بڑی انٹرنیٹ سائٹس ہیں جو متعلقہ مدارس کی سرگرمیوں کے تعارف کے ساتھ اسلامی تعلیم و تبلیغ کے لیے وقف ہیں۔ ان کا خاطر خواہ فائدہ تعلیم و دعوت کے میدان میں ہورہا ہے۔ اس وقت انٹرنیٹ فتاوی کی دھوم ہے، بعض مغربی مصنّفین کی طرف سے اس پر باضابطہ کتابیں بھی آگئی ہیں۔(۱۱)ان انٹرنیٹ فتاویٰ میں مدارس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ نئے سیاسی، سماجی اور تہذیبی مسائل کے بطن سے پیدا ہونے والے سوالات سے روبرو ہونے سے مدارس نشیں علماء و مفتیان کا ذہنی افق وسیع ہورہا ہے۔ انھوں نے اپنے مطالعات ومشاہدات کا دائرہ بڑھانا شروع کردیا ہے۔ اس وقت مدارس کے فضلاء بعض ممالک میں نہایت اہم مناصب پر فائز ہیں۔اس طرح تعلیم کا عمل آخری حدتک آسان ہوگیا ہے ۔تعلیم حاصل کرنے والے کا اپنا گھرہی اس کا کلاس روم ہوگیا ہے۔ وہ جب چاہے جس وقت چاہے تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔ تعلیم کے باب میں یہ حیرت انگیز پیش رفت انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوئی ہے۔
ہمارے دینی حلقوں، خصوصاً دینی مدارس کے مخصوص طرز فکر نے چیلنجوں کو تو نہایت مبالغہ آمیزانداز میں سمجھا اور سمجھایا، لیکن ان امکانات کو نظر انداز کردیا جو خود اسی عہد کے بطن سے نکل کر سامنے آئے ہیں۔ اسلام آج اپنے اصل معنوں میں عالم گیر مذہب بن چکا ہے اور تیزی کے ساتھ نئے دلوں اور نئی زمینوں کو فتح کررہا ہے، یہ ان ہی مواقع کے شعورواستعمال کا فیض ہے، خطرات اور چیلنجوں سے خوف ووحشت اور اس پر محض شوروواویلا کی اپنی کوئی اہمیت نہیں، جب تک وہ عمل اور اقدام کے سانچوں میں ڈھل کر سامنے نہ آئے۔ خطرات اورچیلنجز اسلام کی دعوت کی راہ میں نئی بات نہیں ہیں۔بلکہ یہ اس کا مقدر ہیں۔اسلام کی شروع سے اب تک کی تاریخ اس حقیقت پرشاہد عدل ہے۔ ان امکانات کے صحیح طور پر استعمال کے لیے ضروری ہے کہ مدارس کا مزاج دعوتی سانچے میں ڈھلا ہوا ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فی زمانہ مدارس کا دعوتی شعور محدود اور ان کا رول محدود ترہوکر رہ گیا ہے۔ ہمارا دعوتی احساس ہمیں خارجی دنیا سے جوڑتا ہے ۔ہمیں دشمنوں کو دوست بنانے کی ترغیب دیتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس احساس ذمہ داری کی جگہ دوسرے منفی احسا س نے لے لی ہے۔ یعنی یہ کہ ہمار ا سب سے اہم دینی فریضہ ان مسلمانوں کومسلمان بنانا ہے جو ہمار ے تصور دین کے مطابق مسلمان یا صحیح مسلمان نہیں ہیں ۔یہ فکر دراصل باہمی کش مکش کا پیش خیمہ ہے۔جس نے موجودہ دورمیں اسلامک اکٹوزم کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا رسول اللہؐ کی حدیث ہے کہ آ نے والے وقتوں میں اسلام کا کلمہ دنیا کے ہر کچے پکے گھر میں داخل ہو جائے گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حدیث میں جس زمانے کی پیش گوئی کی گئی ہے وہ یہی زمانہ ہے۔ اس ذمہ داری سے عہدہ برآہونے کے لیے ضروری ہے کہ خاص طور پر مدارس اور مدارس کے فضلاء صحیح دعوتی شعورسے بہرہ ور ہوں تاکہ وہ موجودہ دور کے امکانات سے استفادے کے ساتھ اس کے چیلنجوں کو بھی امکانات میں تبدیل کرسکیں۔ صحیح دعوتی اسپرٹ کے بغیر ہم اپنے مدارس سے اس کی توقع نہیں کرسکتے۔
حواشی:
۱۔http://www.darululoomny.com/
۲۔http://www.darululoomlondon.co.uk/
۳۔http://en.wikipedia.org/wik
i/Darul_Uloom_Bury
۴۔http://www.ealim.org/
۵۔http://madania.org/
۶۔http://www.ducanada.org/
۷۔دار العلوم زکریا کا عربی کتابچہ جو یہاں کی النادی العربی سے شائع ہوا ہے ۔ہمارے سامنے اس کی فوٹوکاپی ہے جو مدرسے کی طرف سے ای میل کی گئی ہے۔
۸۔تاجکستان کے دار الحکومت دوشنبے میں اس طرح کئی مدارس تھے۔ اکتوبر۲۰۰۸ میں یہاں ایک سیمینار میں شرکت کے لیے سفر کے موقع پر ہمیں اس کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا۔ہمارے بعض ساتھیوں نے اس کا مشاہدہ بھی کیا۔
۹۔مسند احمد حدیث نمبر: ۱۶۵۰۹
۱۰۔https://www.darululoomonline.org
/index.php/administration/director
۱۱۔ اس طرح کی ایک کتاب کا نام ہے: E-Jihad and Online Fatwas and Cyber Islamic Environments اس کے مصنف گیری آر بنٹ( Gary R.Bunt) ہیں۔یہ کتاب2003 میں پلوٹوپریس لندن سے شائع ہوئی ہے۔

مئی 2014

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں