مدارس اسلامیہ اور ہندوستانی زبانوں کی تدریس

ایڈمن

ضمیر الحسن خان فلاحی
اللہ تعا لیٰ نے اپنے دین حنیف کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور اس وعدہ کا پوراہونا بالکل یقینی ہے، لیکن اس کے یقینی ہونے کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ اس کے لئے ظاہری تدابیر اختیار نہ کی جائیں، اللہ تعالی خود اس کی تدبیر فرماتا ہے اس طور پر کہ ہر زمانہ میں کچھ ایسے اشخاص پیدا فرماتا ہے جو اس ضرورت کو پورا کرکے دین الہی کی حفاظت کاکام انجام دیتے ہیں۔
مدارس اسلامیہ بھی اسی تدبیر کا ایک مظہر ہیں ، یہ دین کے قلعے ہیں جو ہمارے دین وایمان ، ہماری تہذیب وثقافت اور اخلاق ومعاشرت کی حفاظت ونگہداشت کرتے ہیں،جہاں ہماری نسلیں اپنے مقصد زندگی سے آگاہ ہوتی ہیں اور جہاں صحیح خطوط پر ان کی علمی وعملی تربیت ہوتی ہے ۔ان مدارس کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ یہ فرد کے فکر ونظر کو درست کریں اور ملک وملت کی تعمیر میں نمایاں اور مثبت رول ادا کریں، ہمیشہ سے ان مدارس کے قیام کا یہی نصب العین رہا ہے ۔
کامیاب نصاب تعلیم کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ فرد کے شخصی ارتقاء ،اس کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور زندگی کے جملہ انفرادی واجتماعی مراحل میں اس کی رہنمائی کرنے والا ہو۔ مدارس اسلامیہ کے موجودہ نصاب تعلیم میں انقلابات زمانہ واضح تبدیلی پیدا کرچکے ہیں، اور الحمدللہ اصلاحات اور تغیر وتبدیلی کی آواز یں بھی اٹھنے لگی ہیں، اس وقت ہمیں ایسے نصاب تعلیم کی ضرروت ہے جو فرد ومعاشرہ دونوں کی ضروریات وتقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔
قرآن مجید چونکہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس لئے اس میں ایرانی وہندوستانی نبیوں کا تذکرہ تو نہیں ہے، تاہم یہ ضرور ہے کہ ’’ولکل قوم ھاد ‘‘ہر قوم کے لئے ایک ہادی اور رہنما ہوتا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا :’’وماارسلنا من رسول الابلسان قومہ ‘‘ہم نے جس قوم میں بھی نبی بھیجا اس کا ہم زبان و ہم قوم بھیجا ۔
یہ بات بلاشبہہ بار بار دہرائے جانے کے قابل ہے کہ ہندوستان میں ،خصوصا آزادی کے بعد ،مدارس نے دین کے تحفظ کے لئے بڑا کام کیا ہے لیکن اس اعتراف میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ اگر ارباب مدارس اپنے نصاب میں تقلید کی ریت کے بجائے اجتہاد اور غور وفکر کی روش پر چلتے تو وہ اس سے بڑی خدمت انجام دے سکتے تھے ۔
ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پھیلی مسلم آبادی کے تہذیبی ، لسانی اور تاریخی ورثہ اور مختلف سطح پر تنوع کے پیش نظر ایک جامع نصاب کی اشد ضرورت ہے ۔ وطن عزیز میں طریقہ تعلیم ونصاب تعلیم کے جو ارتقائی منازل ہیں ان میں انتہائی اہم دور وہ ہے جو ملا نظام الدین سے شروع ہوتا ہے اور جسے ان کے نام سے موسوم کرتے ہوئے درس نظامی کہا جاتا ہے ، اپنے زمانے کے اعتبار سے یہ ایک انقلابی اقدام تھا ، اس میں ریاضی ، الجبرا ، علم نجوم وغیرہ جیسے سائنسی علوم شامل تھے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ گذشہ تقریبا تین صدیوں سے وہی درس نظامی بغیر کسی تبدیلی کے عمومی طور سے ہمارے یہاں رائج ہے جو بحیثیت مجموعی قابل تر ک ہوچکا ہے ۔بقول مولانا شبلی نعمانی نہ تو جدید انگریز ی تعلیم اور نہ ہی ہمارے مدارس کاقدیم روایتی نصاب تعلیم ہماری ضروریات ومقتضیات کے مطابق ہے، ہماری ضروریات کی تکمیل کے لئے دونوں نصاب ہائے تعلیم میں بہترین امتزاج کی ضرورت ہے ۔
افسوس کی بات ہے کہ علوم وفنون کی دنیا میں ترقی ہورہی ہے مگر مسلمان ان علوم وفنون کی طرف صرف اس لئے مائل نہیں ہیں کہ یہ غیروں کے علوم اور غیروں کے فنون ہیں،حالانکہ اسلام کے پاس جس قدر لٹریچر موجود ہے ، وہ تمام دنیا کے علوم وفنون کا مجموعہ ہے اور کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں ہے جس کے علم کو کمال بے تعصبی سے مسلمانوں نے حاصل نہ کیا ہو، ابو ریحان البیرونی نے چودہ برس اسی ہندوستان میں بیٹھ کر سنسکرت پڑھی اور ہندوستان کے حالات پر ایک کتاب’’ تاریخ الہند ‘‘ لکھی جو خود ہندوستانیوں کے لئے مرجع کی حیثیت رکھتی ہے اور جن کے بارے میں غیروں کا خیال ہے کہ سنسکرت کا اس سے بڑا عالم نہیں گزرا ۔
یہ امر بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں رہتے ہیں ، ہمارا یہاں کے باشندوں سے ہر وقت کا ساتھ ہے ۔ اس حیثیت سے اللہ کے پیغام کو ان تک پہنچانا ہمارا دینی واخلاقی فریضہ ہے ، اپنے اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے ہم اس بات کے شدید محتاج ہیں کہ اپنے نصاب میں یہاں کی اکثریت کی زبانوں کو داخل کریں اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ہم ان تک اللہ کا پیغام پہنچا سکیں یا اپنے فرض سے عہدہ برآ ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو فرمایا کہ :ہم نے رسولوں کو قوموں کی زبانوں میں مبعوث کیا ،اس کی حکمت یہی ہے کہ مدعو قوم کی زبان سے واقفیت بلکہ اس میں مہارت کے بغیر دعوت الی اللہ کا حق ادا نہیں ہوسکتا ۔ نبی پاک ؐ کی حیات مبارکہ میں ایسے نقوش موجود ہیں جن سے اس امر کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے، مثال کے طور پر حضرت زیدؓ فرماتے ہیں کہ ایک موقع پر داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا : کیا سریانی زبان جانتے ہو ؟ میں نے عرض کیا نہیں ۔آپ ؐ نے فرمایا : اسے سیکھ لو ، چنانچہ میں نے سترہ دن میں سریانی زبان سیکھ لی۔
دوسری روایت میں یہ صراحت بھی ملتی ہے کہ حضرت زید کو سریانی کے علاوہ فارسی ، حبشی ، عبرانی اور یونانی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا ۔ (العقد الفرید)محمد بن کعب القرظی سے مروی ہے کہ موسی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا ! تیری مخلوقا ت میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے ؟ اللہ تعالی ٰ نے فرمایا : جو اپنے علم کے ساتھ دوسروں کاعلم بھی حاصل کرے ۔(الوابل الصیب من الکلم الطیب لابن القیم )
مذکورہ بالا دونوں روایتوں کا صریح مفہوم ہے کہ ہمارے مدارس میں ملک کی زبانوں کا رواج وقت کی شدید ضرورت اور حالات کا عین تقاضا ہے اور اس ضرورت وتقاضے سے غفلت ولاپروائی کا مطلب اپنے نصب العین سے غفلت برتنا ہے ۔ جس طرح ابتدائے اسلام سے آج تک ہر زمانہ کے موافق مذہبی تعلیم کا نصاب بدلتا آیا ہے، آج بھی ضرورت ہے کہ نصاب تعلیم موجودہ زمانے کی ضروریات کے موافق بنایا جائے اور یہی چیز ہے جس کے نہ ہونے کے نتیجہ میں آج ہندوستان میں ہزاروں مدارس ہونے کے باوجود قوم کی مذہبی ضروریات کی تکمیل نہیں ہوپارہی ہے ۔
قوم کو مذہبی طور پر ضرورت ہے :
۱۔ معاصر فلسفہ سے دین اسلام پر جو اعتراضات وارد ہوتے ہیں،ان کا اطمینان بخش جواب دیا جائے۔
۲۔ ہندومذہب کی بنیادی کتابوں کی روشنی میں انہیں ایک خدا کی طرف بلا یا جائے ۔
۳۔ نبی پاک صلی علیہ وسلم اور عالم اسلامی کی صحیح ومفصل تاریخ سے واقفیت حاصل کرکے ان سے ان کے لب ولہجہ میں گفتگو کی جائے۔
۴۔ ویدوں ، اپنشدوں ، گیتا ورامائن کا مطالعہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے وغیرہ، یہ کام رائج الوقت نصاب تعلیم سے انجام نہیں پاسکتا ۔
اس کے لئے ایک انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ملکی زبانوں کی تدریس کے ضمن میں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ بعض زبانیں تو وہ ہیں جنہیں عالمگیریت حاصل ہے مثال کے طور پر انگریزی ، فرنچ وغیرہ ، اس وقت انگریزی زبانوں میں جس قدر سرمایہ جمع ہے اور ہو رہا ہے اس لحاظ سے لگتا ہے کہ اس سے کامل واقفیت ضروری ہی نہیں بلکہ ناگزیر ہے ۔
ہندی زبان ہمارے ملک کی سرکاری زبان ہے ، یہاں کی اکثریت اسی سے مانوس ہے ۔ اب یہ کیونکر ممکن ہے کہ اس اہم زبان کو شامل نصاب کئے بغیر ہمارے مدارس حفاظت دین کاکام کرسکیں اور دین کا قلعہ ثابت ہوسکیں ۔اسی طرح پالی ، ملیالی ، بنگلہ ، تلگو ، مراٹھی و دیگر علاقائی زبانوں کی تدریس بھی وقت کا شدید ترین تقاضاہے ۔
ملک کی زبانوں سے عدم واقفیت اور اس سے بڑھ کر اس محرومی پر حیرت انگیز اطمینان کے نتیجہ میں ملت اسلامیہ ہند کو جو نقصانات برداشت کرنا پڑے ہیں ، اور آئندہ برداشت کرنا پڑسکتے ہیں ، اس کا اندازہ ہر وہ شخص باآسانی لگاسکتا ہے جو اس ملک میں بحیثیت مسلمان رہتا ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں ہندوستانی زبانوں کی تدریس وقت کی ضرورت ، حالات کاتقاضا اور فطرت کی پکار ہے، اس کے بغیر مدارس سماج میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کرنے کے لائق نہیں ہو سکیں گے ۔

مئی 2014

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں