محمد ﷺ مرد ربانی

0

قسط: 03

مصنف: سید حسین نصر
مترجم: اسامہ حمید

نزولِ وحی کی ابتدا

چالیس سال کی عمر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے نبوت عطا کی۔ ایک موقع پر جب آپؐ پہاڑوں میں غور و فکر کرنے کے لئے شہر مکہ مکرمہ سے رخصت ہوئے تو آپؐ پر وحی نازل ہوئی۔ آپؐ اس وقت جبل النور یعنی ”نور کا پہاڑ” پر غار حرا میں تھے جب آپؐ کے دل پر وحی نازل ہوئی۔ آپؐ نے فرشتہ جبرئیلؑ کو بھی دیکھا جو افق کی وسعت کو گھیرے ہوئے تھے۔ وحی کا تجربہ بصری اور سمعی تھا۔ فرشتہ نے نبی مبارکؐ کو اقراء کا حکم دیا ۔اور اسی لئے بنی نوع انسان پر قرآن مجیدکی پہلی سورہ نازل ہوئی:
شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
پڑھو (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ۔جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔ انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔
انسان کے لئے نازل کردہ خدا کے پہلے الفاظ علم سے متعلق ہیں، کیونکہ اسلام بنیادی طور پر ایک ایسا مذہب ہے جو خدا(جو خود الحق ہے)کے علم پر مبنی ہے۔ حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے۔
وحی کا یہ پہلا تجربہ اتنا زبردست تھا کہ اس نے نفسیاتی اور جسمانی طور پر رسول اللہ ؐ کو مکمل طور پر مغلوب کر لیا۔ یہ حقیقت بھی واضح تھی کہ وحی کا ذریعہ آسمانی فرشتہ تھا نہ کہ کوئی نفسیاتی قوت یا جن جو اکثر عرب شاعروں اور نجومیوں کو متاثر کرتے تھے۔ یہ وحی تمام کائنات اور آسمان میں گونج گئی اور اس نے نبی پاکؐ کے ارد گرد کے پورے ماحول کو بدل کر رکھ دیا۔ اس نے آپؐ کو ایسا دھچکا دیا گویا زوردار ضرب لگائی گئی ہو، اور آپؐ کو تیز آوازیں اور گھنٹیوں جیسی آواز سنائی دی۔ آپؐ کی وفات سے پہلے تئیس برسوں تک جب بھی آپؐ پر وحی آتی،نبی مبارکؐ ایسا ہی دباؤ محسوس کرتے۔ آپؐ کو پسینہ آتا اور اگر آپ اونٹ یا گھوڑے کی پیٹھ پر ہوتے تو جانور کی ٹانگیں نازل ہوتے کلام کے دباؤ میں جھک جاتیں۔ بعدازاں نبی پاکؐ، نے ارشادبھی فرمایا، ”جب بھی وحی کا نزول ہوتا تو مجھے ایسا محسوس ہوتا گویا میری روح نکالی جارہی ہو۔”
یہاںاس بنیادی اسلامی تعلیم کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ رسول اکرمؐ اُمی تھے۔ کوئی آدمی جو پڑھا لکھا نہ ہو وہ عربی زبان کا سب سے زیادہ فصیح و بلیغ کلام کیسے کہہ سکتا ہے؟ اس بنیادی عقیدہ کو سمجھنے کے لئے، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ وحی نبی کریمؐکے ذہن کی پیداوار نہیں تھی بلکہ یہ آسمان سے آپ کی جانب اتری ہے۔ قرآن مجید نبی مبارکؐکے نہیں بلکہ خدا کے الفاظ ہیں، وہ الفاظ جن کے لئے آپؐ صرف ایک ذریعہ تھے۔ نبی پاکؐ کے اُمی ہونے کی اہمیت یہ تھی کہ الٰہی پیغام ملنے سے پہلے انسان کا خانہ دل پاک اور صاف ہونا چاہئے۔ خدا بس کسی بھی تختی پر نہیں لکھ دیتا ۔ اس کے لئے انسان کی سکھائی باتوں سے، نبی کریمؐ کے دل، روح اور دماغ کی پاکیزگی کی ضرورت تھی۔ جس کو اس تختی کی حیثیت سے پیش کیا جا سکتا جس پر کلام الہی لکھا جانا تھا۔ اگر وحی الٰہی کے معنی اور الوہیت کا تمام انسانی چیزوں سے اعلیٰ ہونا اور اس کے ساتھ خدائی عمل اور انسانی یابندگی کا آپس میں تکمیلی ہونا سمجھ لیا جائے تو یہ بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ نبی کریمؐ کا امی ہونا ضروری کیوں تھا۔ اس مسئلے کے بارے میں جدید مغربی اسکالروں کی جانب سے تنقید کی قطعا کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ وحی کی حقیقت، کلام الہی اور اس کی انسانی قبولیت کے درمیان وجود کی سطح پر فرق کو کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
نبی کریمؐ انتہائی خوف کی حالت میں پہلی وحی کے نزول کے بعد پہاڑ سے اترے ۔ یہ صرف خدیجہؓ کی حوصلہ افزائی ہی تھی جس نے انہیں تسلی دی اور یقین دلایا۔پہلی اور دوسری وحی کے درمیان کا دور سخت آزمائش کا وہ دور تھا جب رسول با برکتؐکو اس تجربے کی نوعیت کے بارے میں کچھ شک و شبہات کا سامنا کرنا پڑا ۔ لیکن جبریل امین کے دوسرے ظہور کے ساتھ آپؐ کو مکمل یقین ہو گیا کہ آپؐ کو واقعتا خدا کے نبی کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔
پہلی شخصیت جس نے اسلام کی دعوت قبول کی خدیجہؓ تھیں۔ ان کے بعد علیؓ، جو اس وقت ایک کمسن لڑکے تھے، پھر ابوبکرؓ، زیدؓ( آپؐ کا گود لیا ہوا بچہ)پھر عثمانؓ، طلحہؓ اور زبیرؓ ایمان لے آئے۔ رسولؐ اللہ سے جبریل کی پہلی ہی ملاقات کے نتیجے میں اسلامی معاشرے کا پہلا مرکز قائم ہو گیا، ایک ایسا مرکز جو تھا تو بہت چھوٹا ہی لیکن جو جلد ہی ایک نئی دینی جماعت میں تبدیل ہوکر دنیا پر بجلی کی رفتار سے معجزانہ طور پر پھیل جانے والا تھا۔
مکہ مکرمہ کا زمانہ اسلامی معاشرے کا دور بہادری تھا۔اس پر مستقل ظلم و ستم ہوتے رہے اور اسے ہر طرح کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے نبی پاک کے پیروکاروں کا بائیکاٹ کیا گیا لیکن بعد میں ان کے خلاف لگائی گئی بندشوں کو ختم کردیا گیا۔ اس کے باوجود اس مسلم برادری کو اس حد تک ستایا گیا کہ کچھ مسلمان خاندانوں کو حبشہ ہجرت کرنی پڑی۔ جہاں انہیں عیسائی بادشاہ نے پناہ دی۔اسی دوران پچاس سال کی عمر میں نبی پاکؐ پر آپ کی زندگی کا سب سے مشکل ترین دور گزرا۔ آپؐ کی اہلیہ خدیجہؓ کا، آپؐ کے ساتھ شادی کے پچیس سال بعد انتقال ہوگیا۔ شروع میں یہ نقصان تقریبا ناقابل برداشت تھا اور عملی طور پر کوئی چیز آپؐ کو تسلی دینے والی نہیں تھی۔ کچھ ہفتوں کے بعد آپؐ کے چچا ابوطالب بھی، جو آپؐ کے سب سے طاقت ور محافظ تھے، رسول مبارکؐ کو تنہا چھوڑ کر چل بسے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپؐ کا صودہؓ سے نکاح اور ابوبکرؓ کی بیٹی عائشہؓ سے رشتہ طے ہوا، جو اس وقت صرف سات سال کی تھیں اور جن کے عمر کو پہنچ جانے پر رسول اللہ سے شادی ہوئی۔
اس مشکل ترین دور میں جب مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکا جا رہا تھا اور ان کو کھل کر ستایا جا رہا تھا اس وقت نبی مبارکؐ کوکم از کم اپنے ہاشمی خاندان کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن ابو لہب اور اس کی اہلیہ جیسی کچھ طاقتور شخصیات آپؐ کی مخالف تھیں جنہوں نے آپؐ سے کھلی دشمنی کا اظہار کیا ۔ اگرچہ ہاشمی آپؐ کی جان کی حفاظت کرنے میں کامیاب رہے، لیکن مکی برادری کی مخالفت اور متعدد طریقوں سے اس کے اظہار کو روکنے کے لئے صرف کنبہ کی حمایت کافی نہیں تھی ۔ جب آپؐنے طائف میں تعلیم دینے اور تبلیغ کرنے کی کوشش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں بھی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور آپؐ کے خلاف پُرتشدد ردعمل کی وجہ سے آپ ؐ شہر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
بقیہ قریش کی مخالفت بھی بڑھتی چلی گئی اور وہ رسول بابرکتؐ کے خلاف حدسے زیادہ ناراض ہو تے گئے کہ آپؐاپنے عقیدہ پر قائم تھے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے مقصد کی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہورہے تھے ۔ ظاہر ہے کہ قریش کے منصب کے لئے اس سے زیادہ خطرناک کوئی چیز نہیں ہوسکتی تھی کہ خانہ کعبہ میں موجود پتھر کے بتوں کے بجائے ایک ماورائی خدا پر مبنی نئے مذہب کو پھلنے پھولنے دیا جائے۔ قریش کا مقام و مرتبہ خانہ کعبہ پر قابض ہونے کی وجہ سے تھا جس میں عرب کے تمام قبائل کے بت رکھے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بت پرستی کی شدید مخالفت پر مبنی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغ میں نہ صرف ایک مذہبی بلکہ سیاسی اور سماجی خطرہ بھی دیکھا۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر آپؐ کامیاب ہوتے ہیں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسا مذہبی اور معاشرتی نظم قائم کریں گے جس میں قریش موجودہ مکی معاشرے میں حاصل معاشی اور معاشرتی مراعات سے لطف اندوز نہیں ہو سکیں گے۔ لہذا انہوں نے ہر ممکن طریقے سے رسولؐ اللہ کو تبلیغ دین سے روکنے کی کوشش کی۔ جس میں نہ صرف آپؐ اور آپؐ کے پیروکاروں کو ستایا جانا شامل تھابلکہ آپؐ کو یہ پیش کش بھی تھی کہ مکہ مکرمہ کی حکمرانی آپؐ قبول کرلیںبشرط یہ کہ وہ آبائی مذہب کا محافظ بن جائیں۔ لیکن نہ کوئی خطرہ اور نہ ہی فتنہ رسول کریمؐ کو اس مشن سے روک سکا جس کے لئے خدا نے آپؐ کو منتخب کیا تھا۔ آپؐ دھمکیوں کی ہر ممکن شکل کے سامنے جمے رہے جو آخر کار آپؐ کی جان کاخطرہ اور آپؐ کی ہجرت کا باعث بنا جس نے جلد ہی اسلامی معاشرہ کی اوردنیا کی تاریخ کو بدل دیا۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights