مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے

0

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’ صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم۔ کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب ‘ ‘ ہمیں خود احتسابی سے کام لینا چاہئے ہم نے قومی اور ملی تاریخ میں کئی بھیانک غلطیاں کی ہیں اور ٹھوکریں کھائی ہیں ، اگر علت ومعلول کے درمیان تعلق درست ہے تو ہم کہ سکتے ہیں کہ آج مسلمانوں کی زار وزبوں حالت ان ہی غلطیوںکی وجہ سے ہوئی ہے جو ہم نے ماضی میںکی تھیں ،غلطیوںکا تذکرہ اگر چہ خوشگوار نہیں لیکن یہ آتش خانہ دل کی گرمی ہے جو فکر کو پگھلاکر روشنائی بنادیتی ہے اور پھریہ روشنائی کاغذ پر پھیل جاتی ہے ،خون دل کی روشنائی سے مضامین نقطہ نظر کو بدلنے کے لئے یا ان میں اصلاح کے لئے لکھے جاتے ہیں۔ کیونکہ فکر جب تک درست نہیں ہوگی ہماری کوششوں کا رخ صحیح نہیں ہوگا۔ اچھے کردار کے سوتے ہمیشہ صحیح نقطہ نظرسے پھوٹتے ہیں، اس لئے اجتماعی معاملات میں اپنیٍ نقطہ نظر کو درست رکھنا بہت ضروری ہے۔اگر ہم صرف ایک صدی کی غلطیوں کی بے حد مختصر فہرست بندی کریں گے تو ہمیں چار مہلک غلطیاں نظر آئیں گی ، پہلے نمبر پرپاکستان کی تشکیل کو رکھنا پڑے گا۔ اگر چہ اس غلطی میں برادران وطن کی غلطیوں اور ناروا سلوک کا بھی ہاتھ ہے لیکن مطالبہ مسلمانوں کی طرف سے آیا تھا اور وہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’ شامل ہے مرا خون جگر تیری حنا میں ‘‘جنہوں نے پاکستان بنایا تھا وہ پاکستان جاچکے ، اب یہ قصہ ماضی ہے۔ لیکن برادران وطن کے دلوں میں میں اس کا زخم تازہ ہے اور دونوں ملکوںکے درمیان نفرت کی دیوار اب بھی حائل ہے۔اور اس دیوار کے اذیت ناک سایے آج بھی مسلمانوں پر پڑتے ہیں اور اذیت پہونچاتے ہیں۔

دوسری مہلک غلطی جو مسلمانوں نے کی وہ بابری مسجد کی بازیابی سے متعلق تھی۔ بابری مسجد کا مسئلہ ۱۹۹۰ کے آس پاس کوہ آتش فشان بن گیا تھا اور اب بھی ہم کوہ آتش فشاں کے دہانہ پر ہیں ، اس کے سلسہ میں مولانا علی میاں اور مولانا عبد الکریم پاریکھ اور یونس سلیم صاحب سابق گورنربہار غیر مسلموں اور برادران وطن کے مذہبی قائدین سے مل کر مسئلہ کے حل تک پہونچ گئے تھے مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے مسٹر چندر شیکھر کے کہنے پرمولانا علی میاں کا نام تجویز ہوا تھاجنہوں نے پورے ملک میں پیام انسانیت کی تحریک چلائی تھی، ہندو اکثریت کی نمائندگی کے لئے کانچی پورم کے شنکر آچاریہ کا نام تجویز کیا گیا تھا وی پی سنگھ نے زمین کے سلسلہ میں آرڈننس پاس کردیا تھا جسے بعد میں واپس لے لیا گیا ، آندھرا پردیِش کے گورنر کرشن کانت صاحب جو بعد میں نائب صدرجمہوریہ ہوئے اور جینی مذہب کے سوشیل منی اور ہندووں کے سب سے بڑے گرو شنکر آچاریہ آنند سرسوتی نے حل کو منظور ی دے دی تھی اور حل یہ تھا کہ بابری مسجد اپنی جگہ پر رہے گی ، کچھ عرصہ کے بعد مورتیاں ہٹائی جائیں گی، اسے نماز کیلئے کھول دیا جائے گا مسجد کے چاروں طرف تیس فٹ کا تالاب رہے گا اور اس کے بعد ریلنگ ہو گی اور ضرورت پڑنے پر اس پر کرنٹ دوڑایا جائے گا ۔ اس کے بعد جو بابری مسجد وقف کی زمین ہو گی اس پر رام مندر تعمیر کرلیا جائے گا اور مسلمان اس پر کوئی اعتراض نہیں کریں گے۔ لیکن لکیر کے فقیر علماء نے اور بابری مسجد ایکشن کیمیٹی نے اس حل پر اعتراض ہی نہیں کیا بلکہ آسمان سر پر اٹھا لیا۔ مجبورا مولانا علی میاں اور مولانا پاریکھ صاحب کو صلح کے فارمولے سے دستبردار ہوجانا پڑا،شور و غوغا کرنے والوں میں وہ جامد الفکر اور بے شعور متصلب علماء تھے جن کا کہنا تھا کہ ہم وقف کی ایک انچ زمین رام مندر کے حوالہ نہیں کرسکتے ہیں اوروہ اصول فقہ کے حوالے دے رہے تھے جیسے کہ ہم بنی امیہ اور بنی عباس کے عہد میں جی رہے ہوں،اور کسی دار الاسلام میں رہتے ہوں، حالانکہ دعوتی نقطہ نظر سے باہمی احترام واعتماد کی فضا پیدا کرنا ضروری تھا اس کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک کے علماء فقہ الاقلیات سے متعلق اپنی رائے میں لچک رکھتے ہیں اور جو ملک دار الاسلام نہ ہو وہاں کے بعض فقہی مسائل میں دفع مضرت کے تحت نرمی اختیار کرنے کے قائل ہیں۔آج بابری مسجد کا وجود ختم ہوچکا ہے اور آئندہ اس کی تعمیر کا بھی کوئی امکان نہیں ہے ، اور اس کے لئے ہزاروں مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔کوئی بتائے کہ آخر یہ خون دوعالم کس کی گردن پر ہے؟

مسلم قیادت کی تیسری غلطی تین طلاق سے متعلق ہے۔ماضی بعید اور ماضی قریب کی غلطیوں کے ذکر کے بعد اب حال کی غلطی پرسنجیدگی اور غیر جانب داری کے ساتھ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ تین طلاق کے سلسلہ میں بورڈ کے اسٹینڈکے خلاف آیاہے۔ بورڈ سے یہاں بھی غلطی سرزد ہوئی ہے۔بورڈ کے صدر عالی مقام اپنی متانت اور شرافت اور مرنجان مرنج طبیعت کی وجہ سے بورڈ کے عہدہ داران کی غلطیوںکو نظر ندازکرتے ہیں وہ ملک کے صدر جمہوریہ کے مانند ہیں جو عام طور پر حکومت کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ہے صدرکی نرم مزاجی اور تحمل کی وجہ سے بورڈاکثر وہ فیصلے کرلیتا ہے جس سے صدر کو اتفاق نہیں ہوتا ہے۔ بورڈ کے عہدہ داروں اور ذمہ داروں سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ جب بورڈ کے دامن اجتماعیت میں مختلف مسلک ومشرب کے لوگ ہیں تو آخر بورڈ کو کورٹ میں حنفی مسلک کے وکیل اور ترجمان بننے کی کیا ضرورت تھی اگر بورڈ جواب میں یہ کہتا ہے کہ ملک میں غالب اکثریت اہل سنت والجماعت کی ہے اور حنفی مسلک والوں کی ہے تو یہی دلیل تو بی جے پی کے پاس ہے کہ چونکہ ہندووں کی اکثریت ہے اس لئے یہ ملک ہندووں کا ہے اور ہندو مذہب اور ہندو تہذیب کو مسلط کرنا درست ہے۔ بورڈ کا موقف اس بارہ خاص میں قرین عقل بھی نہیں ہے اور قرین انصاف بھی نہیں ہے آخر یہ کیسا انصاف ہے جس میں ظالم کوکوڑے نہیں مارے جاتے جیسا کہ حضرت عمر مارتے تھے اور نہ اس میں مظلوم کی جراحت دل کے لئے کوئی پرسش غم ہے اور اس پر تین طلاق کا یہ فیصلہ سامان صد ہزار نمک داں سے کم نہیں۔ اسی لئے ہندوستان کا جدید تعلیم یافتہ مسلم طبقہ بورڈ کے موقف سے بہت زیادہ غیر مطمئن ہے ان میں بہت سے لوگوں کے ہاتھ میں سنگ ملامت ہے اوربہت سے حلقوں میں طعنوں کا شور ہے ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہواتھا۔اس کا بھی اندیشہ ہے کہ آگے چل کر ہاتھ اور گریباں کا فاصلہ بھی کم ہوجائے یا ختم ہوجائے ، اس لئے بورڈ کو اپنے احتساب کی ضرورت ہے شاہ بانو کیس میں جس طرح تمام مسلمان بورڈ کی تائید میں تھے اس بار ایسا نہیں ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ بورڈ کو حنفیت کا نمائندہ نہیں بننا چاہئے تھا اور اس کا موقف یہ ہونا چاہئے تھا کہ اس بارے میں مسلمانوں میں چونکہ مسلک کا اختلاف ہے اسلئے بورڈ اپنا کوئی موقف نہیں رکھتا ہے ا ور اگر بورڈ کو لازماََکوئی موقف اختیار کرنا ہی تھا تو شر سے بچنے کے لئے اور پرسنل لا میں مداخلت کے خطرہ کا سد باب کرنے کے لئے تین طلاق کو ایک طلاق ماننے کا موقف اختیار کرنا چاہئے تھا یہ فیصلہ زیادہ دانشمندانہ اورمجتہدانہ ہوتا اب پارلیامنٹ کو قانون سازی کا حق مل گیا ہے اب جو طلاق کا قانون بنے گا اس میں تا زندگی نفقہ مطلقہ کو شامل کرنے کا امکان موجود ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے ’’ دستور کا آرٹیکل ۵ ۲ مذہبی آزادی ضرور دیتا ہے لیکن وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ مذہبی آزادی پبلک آرڈر صحت اخلاقیات مساوات اور دیگر مساوی حقوق سے متصادم نہ ہو ‘‘ یہ الفاظ مسلم پرسنل لا میں تبدیل کے اشارے دیتے ہیں کل حکومت میراث کے بارے میں بھی یہ کہہ سکتی ہے کہ اسلامی قانون صنفی مساوات کے خلاف ہے۔ اگر بورڈ نے حنفیت کے موقف میں شدت نہ اختیار نہ کی ہوتی تو پرسنل لا میں مداخلت کے خطرہ سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن ملت کے قائدین نے پاسبان عقل کو بہت دور چھوڑ دیا تھا۔ اصول یہ ہے کہ اس موقف کو اختیار کرناچاہئے جس میں خطرہ سب سے کم ہو ۔ تین طلاق کو ایک طلاق قرار دینے کی گنجائش موجو ہے، اگر یہ موقف اختیار کیا جاتا تو حکومت کومداخلت کا موقع نہیں ملتا ۔ مولانا سید سلیمان ندوی بہت بڑے عالم دین تھے۔ ان کے پاس ایک نومسلم آیا اور اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھے۔ سید صاحب نے کہا کہ اس نے تو ابھی اسلام قبول کیا ہے وہ نہ حنفی ہے نہ شافعی نہ مالکی انہوں نے اس کیلئے تین طلاق کو ایک طلاق قرار دیا اور اسے رجوع کرنے کا حق دیا۔ اگر سرے سے گنجاش نہیں ہوتی اور یہ حرامکاری ہوتی توسید صاحب جیسا عالم دین یہ فیصلہ نہیں کرتا ۔ ائمہ اربعہ کاقول نہ سہی امام ابن تیمیہ اور ابن قیم کا یہی مسلک ہے اور اس سے پہلے صحابہ کرام میں حضرت عبد اللہ بن عباس زبیر بن عوام اور عبد الرحمن بن عوف اور دیگر کئی صحابہ کا یہی موقف رہا ہے تابعین کی جماعت میں بہت سے اہل علم اسی موقف کے قائل رہے ہیں اس دور میں فاضل دیوبند مولانا سعید احمد اکبرابادی ( ہند وستان) سید رشید رضا ( مصر)ڈاکٹر وہبہ زحیلی ( شام) علامہ یوسف القرضاوی ( قطر) شیخ الازہر شیخ محمد شلتوت ( جامع ازہر مصر) اور کئی علماء کا یہ مسلک رہا ہے اور انہوں نے حنفی ہونے کے باوجود علماء کی بند گلیوں سے باہر نکلنا ضروری سمجھا ہے اور پھر مصر سوڈان اردن شام مراکش عراق اور پاکستان میں کچھ علماء کے اختلاف کے باوجود یہی قانون یعنی ایک مجلس میں تین طلاق کو ایک ماننے کا قانون نافذ ہے۔

مسلم قیادت کی چوتھی غلطی بھی علماء دین کی قیادت کی غلطی ہے جو فکر کے جمود سے عبارت ہے آزادی سے پہلے جو غلطی ہوئی اس کا تعلق علماء سے نہیں تھا وہ سیاسی غلطی تھی اور اس میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ آگے تھا۔ ہجرت کے مقدس نام پر پاکستان جانے کے بعد ہندوستان میں مسلمان کمزور اور بے یار ومددگار رہ گئے اور ان کی قیادت علماء دین کے حصہ میں آئی جو بوجوہ باہمی تعصب، تنگ نظری ،گروہ ہ بندی ، کا شکار رہے ان میں وسعت نظری اور سیر چشمی کی کمی رہی اور تخلیقی ذہن کی آبیاری کے سوتے خشک ہوگئے تھے ۔لیکن اس کے باوجود آزادی کے بعد کے دور میں علماء کی حیثیت یہ رہی کہ کسی کوشش کو معتبریت اس وقت ملتی جب علماء بھی اس کی ہم سفر اور ہم صفیر ہوں۔ علماء کی تمام کوششوں کا محور مسلمان تھے اور صرف مسلمان ۔ برادران وطن ان کے دائرہ کار سے باہر رہے۔ یہ سیرت طیبہ کا جزوی اور ناقص اتباع تھا۔ البتہ بعض جماعتوں نے غیر مسلموں کے لئے اسلامی لٹریچر بھی تیار کیا اور بعض افراد نے برادران وطن کو خطاب کرنے کے لئے پیام انسانیت کی تحریک بھی چلائی۔ لیکن تبلیغی جماعت اور تحریک مدارس کے عالی مقام ذمہ داروں کے ذہن میں دور دورتک غیر مسلم نہیں تھے۔ اس ملک میں سیکڑوں دینی مدارس قائم ہوئے اور ان مدارس سے ہزاروں کی تعداد میں علماء نکلے لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی لسان قوم میں بات کرنے والا عالم دین نہیں تھا اور لسان قوم وہ کہلاتی ہے جسے ۸۰ فی صدی آبادی بولتی ہے اور لسان قوم میں ہی رسول، پیغمبر اور نبی بات کرتے ہیں، لیکن ان مدارس کے علماء اور نائبین رسول لسان قوم میں بات کرنے کے اہل نہیں تھے۔ جب کہ اس ملک کو ایسے علماء کی شدید ضرورت تھی جو ہندووں کے مذہب سے واقف ہوں اور ان سے ڈائلاگ کرسکتے ہوں اور اعتراضات کا جواب دے سکتے ہوں اور انہیں دین اسلام سمجھا سکتے ہوں مدرسوں سے جو بھی فارغ ہو کر نکلتا وہ صرف مسلمانوںکے سامنے خطابت کا جوہر دکھانے کے لائق ہوتا ۔

مستقبل میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے علماء دین کی بھی ضرورت ہے جو ہندو مذہب وتہذیب سے پورے طور پر واقف ہوں اور ان کی زبان میں ،ہندی اور انگریزی میں ان کے ساتھ ڈائیلاگ کرسکتے ہوں اور ’’لسان قوم‘‘ میں بات کرسکتے ہوں۔ ان کے مجمع کو خطاب کرسکتے ہوں ان کے دل میںاتر سکتے ہوں ، اور یہ کام دینی مدارس کے نصاب میں انقلابی تبدیلی کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ اسپین میں جہاں سے مسلمانوںکو نکالا گیا مسلمانوں اورمفتوح غیر مسلموں کے درمیان رابطہ اور تعلقات اور زبان کی خلیج حائل تھی جو غلطی مسلمانوں نے اسپین میں کی تھی وہی ہندوستان میں دہرائی گئی ہے، مدارس کے ذمہ اروں کواور علماء کی قیادت کو اب بھی اپنی غلطی کا احساس نہیں ہے ، ہر عالم دین جومدرسہ سے پڑھ کر نکلتاہے وہ نہ تو ہندی سے واقف ہوتا ہے نہ ہندو سے واقف ہوتا ہے نہ برادران وطن کے درمیان دین وشریعت کی ترجمانی کا اہل ہوتا ہے۔ وہ پہلے سے موجود اس خلیج میں اضافہ کا سبب بنتا ہے جو مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان میں ہے جس کے نقصانات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ موجودہ ہندوستان پر علماء کسی فوج کشی کے بغیر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کا واحد طریقہ دلوں پر قبضہ کرنا ہے ’ جو دلوںکو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ ‘‘ اور دلوںکو فتح کر نے کے لئے خلیج کو پاٹنا ضروری ہے اور خلیج کو پاٹنے کے لئے یہاں کی زبان کا ماہر بننا ضروری ہے اور ان کی مذہبی نفسیات کا جاننا ضروری ہے ۔

آئندہ ہندوستان کے اسٹیج پر اسلام اپنا رول ادا کرسکے کا یا نہیں اس کا تعلق علماء دین کے صحیح کردار سے ہے۔ علماء دین اور علماء دیوبند کی قیادت کو نہ صرف یہ کہ اپنی غلطی کا احساس نہیں ہے بلکہ وہ ابھی تک باہمی نفرت اور تعصب اور تنگ نظری اور متشدد ذہنیت کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اتحاد پارہ پارہ ہے ۱۸ کروڑ مسلمانوںکی دینی قیادت کے پاس عصری آگہی نہیں ء غیر مسلموں سے خطاب کرنے والی زبان نہیں ہے اور پھر وہ آپٍس میں متحد بھی نہیں ہیں۔ وہ بڑے اخلاص کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ زمانہ کی گمراہیوں سے بچنے کے لئے ماضی کے بزرگوں کی تقلید صحیح راہ ہے اور جس طرح بزرگوں کے پاس عصری آکہی کم تھی یہی فقدان بصیرت موجودہ علماء میں بھی پایا جاتا ہے انہیں نہیں معلوم کہ عصر حاضر میں مسلمانوں کے امپاورمنٹ کا طریقہ کیا ہے۔ وہ بزرگوں کے بنائے ہوے راستہ سے ذرہ برابر ہٹنے کے لئے تیار نہیں وہ بزرگوں کی بنائی ہوئی ہر لکیر کو پتھر کی لکیر سمجھتے ہیں اور اس طرح وہ لکیر کے فقیر کے بجائے لکیر کے امیر بن گئے ہیں۔ ہندوستان کے سب سے بڑے دار العلوم کے ویبسائٹس پر جا کر نئے فتوے دیکھ لیجئے آپ کو آج بھی ۲۰۱۷ میں اس طرح کے فتوے مل جائیں گے کہ غیر مقلدوںکا شمار فرقہ ضالہ میں ہے اور جماعت اسلامی سے وابستہ کسی شخص کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔ اور ان لوگوں سے شادی بیاہ کا رشتہ قائم نہیں کرنا چاہئے۔ ان علماء کے اندر تعصب بقول مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اس لئے پایا جاتا ہے کہ وہ دوسرے مسلک یا جماعت کی کتابیں پڑھتے ہی نہیں اگر وہ ان کے لٹریچر کا مطالعہ کرتے تو علمی اختلاف تو کرتے لیکن ان کی خدمات کا اعتراف بھی کرتے اور معتدل رویہ اختیار کرتے۔ یہی ہندوستانی علماء ہیں جن کے اندر کشادہ دلی نہیں ہے دینی تقاضوں کا فہم نہیں ہے ، دور بینی نہیں ہے اورجنہیں مستقبل کے خطرات کا احساس نہیں ہے جو منجمدبھی ہیں متصلب بھی ہیں متعصب بھی ہیں اور طرز کہن پر اڑے ہوئے ہیں اور جن کے بارے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
نہ جانے کتنے سفینے ڈبو چکی اب تک
فقیہ و صوفی وملا کی نا خوش اندیشی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights