لازمی تعلیم کا قانون : ایک مختصر جائزہ

0

ہاشمی سید شعیب قمرالدین،
اودگیر، مہاراشٹر
حصول علم کو ہر ہندوستانی کا بنیادی اورآئینی حق قرار دینا یقیناًایک انقلابی قدم ہے۔گزشتہ کچھ سالوں میںیہ اپنی نوعیت کا دوسرا واقعہ ہے جس کی بدولت ملک کی سماجی اور تعلیمی صورتحال بدلنے کی امید ہے۔پہلا واقعہ حصول معلومات کے حق(رائٹ ٹو انفارمیشن) کے نفاذ کا تھا، جس نے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی کارکردگی میں شفافیت لانے کا کام انتہائی تیزی سے کیا۔ رائٹ ٹو انفارمیشن کے قانون کی کامیابی کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی سماجی، معاشی، تعلیمی اور اقتصادی تصویر کو بدلنے میں رائٹ ٹو انفارمیشن کا قانون بھی ٹھیک اسی طرح کامیاب ہوگا۔
۶؍ سے ۱۴؍ سال تک کے بچوں کے لئے مفت اور لازمی تعلیم کے حق (آر ٹی ای) سے متعلق قانون کا نفاذ ہندوستانی بچوں کے حق میں ایک اہم اقدام ہے۔ اس قانون کے ذریعے ملک کے تمام امیر اور غریب بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کی ضمانت دی گئی ہے۔
ابتدائی تعلیم کی سہولیات مہیا کرائے جانے کے موضوع پر ملک میں مختلف سطحوں پر گزشتہ کئی برسوں سے لگاتار مباحثے ہوتے رہے۔ بالآخر آئین کی دفعہ (۸۶؍ ویں ترمیم) ۲۰۰۲ ؁ء کے ایکٹ جس کے تحت ابتدائی تعلیم کو بنیادی حق قراد دیا گیاتھا۲۰۰۹ ؁ء میں روبہ عمل آیا۔ رائٹ ٹو ایجوکیشن کا مطلب محض مفت اور لازمی تعلیم ہی نہیں ہے ، درحقیقت سبھی کے لئے معیاری تعلیم کا پہلو بھی اس میں شامل ہے۔اس ایکٹ کے تحت بچو ں کے اسکول میں مفت اور لازمی داخلے، حاضری، اور ابتدائی تعلیم کی تکمیل کی مکمل گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس قانون میں اس بات کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے کہ نصاب تعلیم ایسا ہوجس میں بچوں کو سرگرمیوں ، گہرے مطالعے اور دریافت و انکشافات کا موقع مل سکے۔ ممکنہ حد تک اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ بچوں کو ڈر اور خوف سے محفوظ رکھنے کے لئے فکر سے آزاد کلاس روم اور جسمانی سزا پر پابندی لگا کر نیز مادری زبان کی تعلیم فراہم کرکے مساوات کے ساتھ معیار ی تعلیم دی جائے۔
قانون کی عمل آوری
اورحکومت کی ذمہ داریاں
n ۶؍ تا ۱۴؍ سال کے ہر بچے کی لازمی تعلیم، حاضری اور پرائمری تعلیم مکمل ہونے کی تصدیق کرے گی۔
n پسماندہ طبقات کے کسی بھی طلبہ و طالبات کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کیا جائگا۔
n بنیادی سہولیات جیسے اسکولی عمارت، اساتذہ، ملازمین اور درس و تدریس کے تمام وسائل مہیا کرائے جائیں گے۔
n دفعہ ۴؍ کے مطابق بہترین کو الٹی کی پرائمری تعلیم کے لئے نصاب اور مشقی مواد کی فراہمی کی جائے گی اور اساتذہ کے لئے تربیتی کیمپ منعقد کیے جائیں گے۔
n نقل مکانی کرنے والے بچوں کے داخلوں کی تصدیق کرنا۔
n اپنے حدود کے اسکولوں کی نگرانی کرنا۔
n اسکول کا تعلیمی کیلنڈر طے کرنا۔
n حکومت یا مقامی اکائیاں اپنے ما تحت اسکولوں میں خالی اسامیوں کی تعداد ۱۰؍ فیصد سے زیادہ نہ رکھے۔
اساتذہ کی ذمہ داریاں
n دفعہ ۲۳؍ کے مطابق جس معلم کا تقرر کیا گیا، وہ اسکول میں مستقل اور وقت پر حاضر رہے گا۔
n سیکشن ۲۹؍ کے سب سیکشن ۲؍ کے پرویژن کے مطابق نصاب کو مقررہ مدت میں مکمل کرے۔
n درسی صلاحیتوں کی قدر پیمائی کرے اور ضرورت پڑنے پر زائد تدریس کرے۔
n سرپرستوں کی میٹنگ لینا، سرپرستوں سے ملاقات کرکے بچوں کی حاضری،درسی ترقی اور دیگر معلومات دیتے رہنا۔
n اساتذہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں لاپرواہی کرنے پرملازمت کے قوانین کے تحت تادیبی کارروائی کے مستحق سمجھے جائیں گے۔
n اساتذہ کی کوئی بھی شکایت ملنے پر انہیں Redressed کیا جائے گا۔
n کوئی بھی معلم پرائیو یٹ ٹیوشن یا پرائیویٹ تدریس کے کاموں میں خود حصہ نہیں لے سکتا۔
والدین اور سرپرستوں
کے فرائض
اس تعلیمی قانون میں جہاں اساتذہ اور حکومت کو مختلف ذمہ داریاں دی گئی ہیں وہیں والدین اور سرپرستوں کو بھی اس قانون کوکامیاب بنانے کے لئے مختلف ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔
n دفعہ ۱۰؍ کے مطابق ہر ماں باپ اپنے بچوں کو نزدیکی اسکول میں داخل کریں۔
n تین سال سے زائد عمر کے بچے کو پرائمری تعلیم کے لئے تیار کرنے کے نقطۂ نظر سے ان کی ۶؍ سال مکمل ہونے تک نگہداشت کرنا، اور انہیں تعلیم کے مقصد سے مناسب انتظام کرنا ہوگا۔
تعلیمی حق قانون میں طلبہ و طالبات کے لئے سہولیات
n تعلیمی قانون کی دفعہ ۲؍ کے تحت ہر بچے کو پہلی تا آٹھویں جماعت تک قریبی اسکول میں مفت تعلیم کا حق حاصل ہے۔
n کسی بھی بچے کو جسمانی سزا یا ذہنی اذیت نہیں دی جاسکتی۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والا قانون کے مطابق تادیبی کارروائی کا مستحق ہوگا۔
n برتھ سرٹیفکیٹ نہ ہونے کے باوجود بھی کسی بھی بچے کو اسکول میں داخلہ دیا جاسکتا ہے۔
n اسکول میں تعلیم حاصل کررہے کسی بھی طالب علم کو کسی بھی جماعت میں پیچھے نہیں رکھا جاسکتا،یا پرائمری تعلیم کے مکمل ہونے تک اس کو اسکول سے نہیں نکالا جا سکتا۔
ایک تجزیہ
اعداد و شمار پر اگر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ۹۸؍ فیصد بستیوں میں ایک کلو میٹر کے اندر اندر پرائمری اسکول کی تعلیمی سہولتیں مہیا کرائی جاچکی ہیں اور ۹۲؍ فیصد بستیاں ایسی ہیں جہاں ۳؍ کلو میٹر کے اندر اندرUpperپرائمری اسکول موجودہیں۔ پرائمری تا Upperپرائمری سطحوں کی عبوری شرح میں بھی کافی بہتری واقع ہوئی ہے۔تاہم اس کے باوجود بھی کچھ بچے ایسے ہیں جو ابھی تک اسکولی تعلیم سے محروم ہیں۔ اور یہ بچے مختلف فیکٹریوں اور کارخانوں میں بندھوا مزدوروں کے طور پر کام کرتے ہیں،ساتھ ہی کچھ بچے ایسے بھی ہیں جو مویشیو ں کو چراتے ہیںیا ڈھابوں پر کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ بچیاں ایسی بھی ہیں جو کھیتوں اور گھروں میں رہ کر یا توگھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہیں یا پھراپنے چھوٹے بھائی بہنوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، کچھ بچیاں ایسی بھی ہیں جنہیں بچپن ہی میں شادی کے بندھنوں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ ان میں کافی بڑی تعداد ایسے بچوں کی بھی ہوتی ہے جن کا اسکولوں میں باقاعدہ اندراج ہوچکا ہوتا ہے تاہم یا تو وہ بیچ میں ہی پڑھائی چھوڑ بیٹھتے ہیںیا ایک بار اندراج ہونے کے بعد دوبارہ اسکول کا رخ ہی نہیں کرتے ۔اس کے علاوہ بہت سے ایسے بچے بھی ہیں مثلا نقل مکانی کرنے والے یا اسٹریٹ چلڈرن، جو بے حد غیر محفوظ اور انتہائی غربت کے حالات کا شکار ہیں۔ ایسے بچوں کو تعلیم کی سہولتوں سے محروم کیا جانا انسانی حقوق کی ہمہ گیر نوعیت کی نفی کرنے کے مترادف ہے، اور ہمارے لیے اب یہ ناکافی ہے کہ ہم ان بچوں کے لئے تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کا محض ذکر ہی کرتے رہیں، جبکہ انہیں تعلیم سے آراستہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔محض سہولیات کی فراہمی انہیں کافی نہیں ہے، کیونکہ ضروری نہیں کہ یہ بچے وہاں جاکر تعلیمی سہولتوں کا فائدہ بھی اٹھا سکیں۔اسکول اور سماجی جائزے کے ذریعے ہمیں ان سبھی سماجی، ثقافتی، معاشی، لسانی وجوہات کا پتہ لگانا ہوگا۔جن کی وجہ سے پچھڑے اور کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے یہ بچے اور بچیاں کبھی باقاعدگی کے ساتھ اسکول میں حاضر نہیں ہو پاتے اور اپنی ابتدائی تعلیم بھی مکمل نہیں کر پاتے۔اس سلسلے میں تمام تر توجہ غریب ترین اور سب سے زیادہ پچھڑے ہوئے طبقات پر ہی دینی ہوگی،کیونکہ یہی وہ گروپ ہے جو سب سے زیادہ وسائل کی کمی کا شکار رہتا ہے، اور جس کو تعلیم کے حق سے محروم کیے جانے کے امکانات عام طور پر زیادہ رہتے ہیں۔
گذشتہ کچھ دہائیوں میں ہندوستان کے تعلیمی نظام کے زبردست فوائد سامنے آئے ہیں۔ سب کے لئے تعلیم (سرو شکشا ابھیان) کے سلسلے میں ہندوستان کے وسط دہے کے جائزے کے مطابق سال ۲۰۰۰ ؁ء تا ۲۰۰۵ ؁ء کے درمیان محض ۵؍ برسوں میں ملک کے پرائمری اسکولوں کے داخلوں میں مجموعی طور سے ۷۔۱۳ ؍فیصد لڑکوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ۸۔۱۹؍فیصد لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہو ہے،لیکن ان قابل ستائش کوششوں کے باوجود بھی چار بچوں میں سے ایک بچے نے پانچویں میں پہنچنے سے پہلے اور نصف تعداد نے آٹھویں میں پہنچنے سے پہلے ہی اسکولی تعلیم کو ترک کردیا ہے۔
ملی تنظیموں کے رد عمل
کا مثبت نتیجہ
مرکزی حکومت نے لازمی اور مفت تعلیم کا قانون صرف حکومت سے منظور شدہ مدارس کے لئے مختص کیا تھا جس کی وجہ سے دینی مدارس کے خطرے میں پڑنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہاتھا ۔کیونکہ لازمی تعلیم کے قانون کے نفاذ کے بعد ۶؍ سے ۱۴؍ سال کے بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے جائیں گے تو دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے بچے کہاں سے آئیں گے۔ دینی مدارس میں بھی حفظ اور ناظرہ نیز ابتدائی تعلیم کی عمر بھی ۶؍ سے ۱۴؍ سال کی ہی ہے۔ اسی مقصدکے تحت ملک کی ملی تنظیموں آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ، جمیعۃ العلماء ہند، جماعت اسلامی ہنداور دیگر ملی تنظیموں نے دینی مدارس کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار دینے کے لیے ملک بھر میں ’آئینی حقوق بچاؤ مہم ‘ کے ذریعہ اس قانون میں ترمیم کا مطالبہ کیا۔اس ضمن میں ملی تنظیموں کی مسلسل جدوجہد اور نئے قانون میں ترمیم کی کوشش گرچہ کامیاب نہیں ہوسکی، البتہ اس قانون کے متعلق ایک نوٹ کے اضافے میں یہ واضح کردیاگیا کہ اس قانون کا اطلاق مدرسوں، ویدک پاٹھ شالاؤں اور ان تعلیمی اداروں پر نہیں ہوگا جہاں مذہبی تعلیم کا نظم کیا جاتا ہے۔ ۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights