مستجاب خاطر
نئے انتخابات آنے والے ہیں۔ 1 سال سے کم کا عرصہ باقی ہے۔ امت مسلمہ اس کے لئے کیا تیاری کر رہی ہے؟
امت مسلمہ کے مسائل کا حل کسی مستقبل قریب میں حاصل ہونے والے ہدف میں یقیناپوشیدہ نہیں ہے۔ لیکن اقامت دین کے نصب العین کے حصول کی سنجیدہ کوشش کرنے والے یہ جانتے ہیں کہ یہ سنگ میل بڑے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان حالات میں ہمارے اجتماعی فیصلے آئندہ آنے والے ہمارے لائحہ عمل کو ترتیب دیتے ہیں۔ اگر یہ لائحہ عمل صرف رد عمل کی نفسیات پر مشتمل ہو تو ہم ہمارے نصب العین کی جانب حقیقی پیش رفت کبھی نہ کر سکیں گے۔ اور اگر گذشتہ ساڑھے تین سال کا عرصہ دیکھیں تو سوائے مختلف مسائل کا جواب دینے، وضاحتیں دینے، صبر اور حکمت کی تلقین کرنے اور کسی 146واقعہ145 کے رونما ہونے کا انتظار کرنے کے علاوہ امت مسلمہ نے کوئی خاص کام انجام نہیں دیا۔
سوال یہ ہے کہ ہم کر کیا سکتے تھے، اور کیا کر سکتے ہیں؟
ایمان کی بنیاد پر ہی ایک مضبوط شخصیت کی تعمیر ممکن ہے۔ جس شخص کے دل میں یہ بات راسخ ہوجائے کہ نفع و نقصان کا پہنچانے والے صرف اور صرف اللہ ہے، وہ وسائل ، حالات اور ذرائع کے گھن چکر میں نہیں پھنستا ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ اس کی ذمہ داری حق گوئی اور عمل صالح کی ہے۔ وہ قرآن و سنتِ رسول کی کسوٹی پر اپنے ہر عمل کو پرکھتا ہے اور دنیا کی پیچیدہ اور مشکل راہوں پرپورے صبر و ثبات کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس راہ کو پہنچاننا اور اس کا انتخاب کرنا ہی دراصل اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس راہ کے چلتے کوئی مصیبت، نقصان، تکلیف اور غم اس کو لاحق ہو تو اپنے معاملے کو خدا کے سپرد کرنے اور راہ ِ ایمان و ہدایت پر چلتے رہنے کو ہی اپنی نجات اور خوشی گردانتا ہے۔ اس ایمان کی دولت و قوت کے بغیر اس دنیا کو سمجھنا اور اس میں اپنے مقام و منصب کی آگہی رکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ اس کے برعکس وہ شخص جو کہ راہ کی ہر رکاوٹ اور تکلیف کی ذمہ داری ایمان پر ڈال دے اور نئی راہیں تلاش کرنے کے تیار ہوجائے وہ کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ اس لئے اس دور میں ہر مسلمان کو اس کی مسلمانی کا مطلب سمجھانے کی ضرورت ہے۔ایمان، عمل صالح دنیاوی ترقی اور اُخروی نجات کے مکمل تصور کو پورے آب و تاب کے ساتھ ہر مسلمان کے شعور و ایمان کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا اور مسلمان قومیت اور تہذیب کی چھوٹی اور کمزور بنیادوں پر اپنے انفرادی اور اجتماعی عمل کی بنیادیں رکھنے لگیں تو چاہے کوئی بھی تبدیلی آجائے اسے 146مسلمان تبدیلی145 کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ ان چھوٹی بنیادوں پر مسلم مہیلا آندولن سے لے کر پاکستان کے وجود تک کے سارے کام ہو سکتے ہیں، لیکن اسلامی بیداری اور نظام کی تبدیلی کا کام نہیں ہوسکتا۔ یہ بات ذہن نشین کرانا ضروری ہے غیر معذرت خواہانہ انداز میںاسلام کا تعارف اور اس پر عمل ہی وہ چیز ہے جو باقی رہنے والی ہے۔یہی ہماری نجات ہے۔ یہی ہمارا دفاع ہے۔ یہی ہماری دعوت ہے۔
ایک نظر وسائل پر بھی ہوجائے! دیکھیے ان تعلیمی اداروں کو جہاں سے ہم امت کی قیادت کو تلاش کرتے ہیں۔ ان میں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں۔ قدامت پسند، آزاد خیال، مشرقی ہند کے اور مغربی ہند کے تعلیمی ادارے۔ یہ تمام تعلیمی ادارے سوائے مذہبی موشگافیوں کے، کسی اور کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہر کسی کو اپنی مخصوص مذہبی تعبیر و تشریح پر ناز ہے اور وہ اپنے اسی تفاخر میںمست ہیں۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے کو امت مسلمہ کی زبوں حالی کی وجہ سمجھتا ہے۔ لیکن کیا ان میں سے کوئی ہے جو کہ فلسفیانہ اور سائنسی بنیادوں پر الحاد کا مدلل ردّ کر سکے؟ اسلامی معاشیات کے مکمل ماڈل کو اس کی جزئیات کے ساتھ پیش کرسکے؟ تاریخ سے لے کر جینیات تک، کائنات سے لے کر سیاست تک، کوئی ایک بھی ایسا تصور نہیں ہے جو مغربی افکار اور پالیسیوں کا قابل فہم جواب ہو۔ دوسری طرف امت کے معاشی ادارے اسی بات کا مظہر ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں کی نجی دولت میں اضافہ ہوتا جائے تاکہ وہ اپنی بنیادی ضرورتوں سے اوپر اُٹھ کر سکون و اطمینان والی آسائشوں کے حصہ دار بن سکیں۔ کسی ادارے کے یہاں اسلام کے تقسیم زر کے اصولوں پر مبنی تجربے کرنے کی کوئی خواہش موجود نہیں ہے۔ اسی لئے مسلمانوں میں معاشی عدم مساوات کا زبردست رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ گویا خود مسلمان تعلیم و معاش کے میدان میں مغربی ایجنڈے پر پورے اطمینان اور مذہبی سَندوں کے ساتھ عمل کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں محسوس کرتے ہیں۔
اس سماج کو بھی دیکھئے جسے ہم مسلمان بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی آنکھوں پر مسلمانوں سے نفرت کے حجابات پڑ ے ہوئے ہیں۔اقتدار و املاک کے حصول کی اس جنگ نے انہیں ہمارا دشمن بنا دیا ہے۔ ہمارا وجود انہیں نا گوار ہے۔ وہ آپس میں بٹے ہوئے اگرچہ کیوں نہ ہوں، مسلمانوں کو خطرہ تسلیم کرنے میں وہ کم و بیش متحد ہیں۔ اس نفرت کو کیسے ختم کیا جائے؟ کیا یہ موجودہ سماجی ڈھانچہ کے رہتے ممکن ہے؟ کیا مسلمانوں کو اپنے رویہ اور ایجنڈہ میں واضح تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے؟ ان باتوں پر غور کرنا ناگزیر ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس نفرت اور جنگ کے ماحول کے رہتے دعوت ِ اسلامی کا کچھ بھلا نہیں ہو سکتا۔ کیا یہ ممکن نہ تھا کہ ہماری قیادتیں اپنے عافیت کدوں سے باہر نکلتیں اور سماج میں محبت کے پیغام پر مبنی مہمات چلاتیں۔ شاید اس سے یہ ممکن تھا کہ درست بات کرنے اور اس پر قائم رہنے کا داعیہ مسلمانوں میں پیدا ہوتا۔ غیر مسلم قوم کے سامنے امن و محبت کے پیامبر کی حیثیت سے مسلمانوں کا تعارف ہوتا!
لائحہ عمل سادہ بھی ہے اور قابل عمل بھی! دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے اجتماعی اداروں کے اس خاکستر میں کوئی شرار آرزو ہے کہ نہیں؟!