قرآن مجید میں عقل کی نشوونما کا انتظام

1

(امام فراہی کی کتاب حجج القرآن سے خصوصی استفادہ)

عقل اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے، فرد کا ارتقاء ہو یا قوموں کا عروج، عقل کی کارفرمائی ہر دوجگہ ہوتی ہے، عقل کی رہنمائی میں صحیح مزاج بھی بنتا ہے اور صحتمند ماحول بھی، انکشافات بھی ہوتے ہیں اور ایجادات بھی، انسان خود کو بھی دریافت کرتا ہے اور خدا کو بھی۔یہ انسان کو جہاں بانی بھی سکھاتی ہے اور جہاں آرائی بھی، یہی تزکیہ کا بھی راز ہے اور عمران کا بھی، اسی سے زندگی بھی سنورتی ہے اور زمین بھی۔
امت مسلمہ کے ہر محاذ پر زوال کی ایک بڑی وجہ اور اقوام عالم کے سامنے اپنے موقف کی طاقتور ترجمانی نہ کرپانے کا ایک بڑا سبب عقل کے استعمال کے سلسلے میں جھجھک ، تردد ،بدگمانی ، اور بسا اوقات اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک طرح کا معاندانہ رویہ ہے، جس کی وجہ سے امت کے اندر وہ بہت سارے غلط خیالات، نظریات، رویے اور ضابطے رواج پاگئے جنہیں دیکھ کر عقل انگشت بدنداں ہوتی ہے ، اورجوعقل کو حکم بنانے کی صورت میں کبھی بھی قابل قبول نہیں ہوسکتے تھے۔تفکیری عمل سے دوری کا نتیجہ یہ بھی ظاہر ہوا کہ امت مسلمہ جس دین اور پیغام کی علم بردار ہے اس کی کما حقہ پرزور ترجمانی کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔
ابتدائی عہد زریں کے بعد مسلمانوں میں مطلوب سطح پر دینی ترقی نہیں ہوسکی کہ اس کے لئے اجتہاد اور تدبر مطلوب تھا، اور دنیوی ترقی وسربلندی بھی نہیں مل سکی کہ یہاں بھی ہر دریافت اور ہر ایجاد کے لئے عقل کی پشت پناہی لازم تھی۔ عقل جو خالص عطیہ الہی ہے اور جو رہنمائی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، اس سے بسا اوقات ایسی دوری اختیار کی گئی گویا کہ وہ عطیہ الہی نہیں بلکہ شیطان کا عیار ایجنٹ ہے جس سے حتی الامکان الحذر اور دوری اختیار کی جائے، کہ جس نے عقل سے رشتہ استوار کیاوہ گمراہی کا شکار ہوا۔ ایک طرف اہل مذہب عقل کواس کا حقیقی مقام دینے کے سلسلے میں جھجک کا شکار ہوئے، تو دوسری طرف دین بیزار لوگوں میں یہ احساس برتری بھی پروان چڑھنے لگا کہ اہل مذہب کو عقلیت اور معقولیت کے حوالے سے پسپا کیا جاسکتا ہے۔
اس صورت حا ل میں رجوع الی القرآن کی ضرورت بہت بڑھ جاتی ہے، کیونکہ امت کوذہنی پسماندگی سے نکالنے اور تفکیری میدان میں بھر پور پیش قدمی کے لئے آمادہ وتیار کرنے کا بہترین نسخہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں عقل کے مقام ومرتبہ ،عقل کے استعمال کی تاکید اور عقل کی نشوونما کے انتظام کی طرف متوجہ کیا جائے۔
عقل کے مقام ومرتبہ کے سلسلے میں امام فراہی لکھتے ہیں: عقل ’’وہ نور الہی ہے جس کے ذریعہ اللہ انسان کو چوپایوں پر برتری عطا کرتا ہے‘‘، (حجج القرآن: ۱۷۵) عقل ’’وہ میزان ہے جس کا کام حق اور باطل میں فرق بتانا ہے‘‘۔(حجج القرآن: ۱۸۴)
قرآن مجید کے نزول کا منشا تو یہ تھا کہ لوگ ظن وہوی اور تقلید اعمی سے آزاد ہوکر اور غور وفکر کے راستوں پر قابض جابروں کے خلاف اعلان بغاوت کرکے عقل کا بھر پور استعمال کریں اور حالیہ اور پیش آمدہ دونوں زندگیوں کی ترقی کی راہیں عقل کی بصیرت سے تلاش کریں۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔عقل کی غلط نمائندگی کرنے والوں کے بیمار رویّے نے لوگوں کو عقل سے ہی بدظن کردیا ، اور یہ عام انسانیت اور بطور خاص انسانیت کی رہنمائی کی امین امت مسلمہ کے حق میں بہتر نہیں ہوا۔
علامہ فراہی لکھتے ہیں: ’’بہت سارے لوگ جن کی توجہ دینداری اور قرآن وسنت سے لگاؤ پر ہوتی ہے، سمجھتے ہیں کہ عقل کا راستہ الہی تعلیم کے راستے کی ضد ہے۔ ان کا گمان ہے کہ ایمان تو انبیاء کی خبر پر مبنی ہوتا ہے، اور انبیاء کی پہچان بس معجزات ہیں۔ انہوں نے ایمان اور شریعت کے بارے میں جو کچھ تعلیم دی وہ ہم نے ان کے بتانے کی بنیاد پر قبول کرلی۔ اگر عقل کو علوم دین کی راہ بننا ہوتا تو پھر ہم کو وحی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو اللہ نے ایمان بالغیب کی ستائش نہ کی ہوتی۔ یہ گمان اس قدر غالب ہوا کہ وہ یہ بھی ماننے لگے کہ شریعت کے سارے احکام صرف اس پرمبنی ہیں کہ اللہ نے ان کا حکم دیا ہے، اور اسی لئے ہم پر لازم ہے کہ ان میں حکمت کا پہلو تلاش کئے بنا انہیں اختیار کرلیں۔ چونکہ انہوں نے یہ رائے اختیار کرلی اس لئے دین کے تمام امور میں وہ عقل وفکر کے استعمال سے دور کردئے گئے۔ قرآن کے دلائل پر غور وفکر تو اس سے آگے کی بات ہے۔
ان کی عقل کے سلسلے میں یہ رائے اس لئے بنی کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے عقل سے خود کو منسوب کرنے والے فلاسفہ اور متکلمین کی قلابازیوں اور درماندگی کو دیکھا ، چنانچہ وہ عقل کی راہ سے ہی بدگمان ہوگئے۔ لیکن مجھ پر یہ حقیقت واضح ہوئی ہے کہ ان کی گمراہی کی وجہ عقل نہیں تھی، گمراہی کی وجہ یہ تھی کہ فلسفہ بازی کا ان پر غلبہ ہو گیا اور انہوں نے فطرت کا وہ راستہ چھوڑدیا جو انہیں اللہ نے اپنی کتاب اور اپنے رسولوں کی تعلیمات کے ذریعہ دکھایا تھا۔ اس لئے اب ہمارے خیال میں ضروری ہے کہ وہ راستہ بتایا جائے۔ تاکہ قرآن جو محکم دلائل اور روشن حکمتیں لایا ہے، اور جو اس نے غور وفکر کرنے پر ابھارا اور اہل عقل وفکر کو سراہا ہے، لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں۔‘‘(حجج القرآن: ۱۹۔۲۰)
قرآن مجید میں عقل کا مقام
قرآن مجید نے عقل کو اس کا حقیقی مقام عطا کیا، جو درحقیقت ایک مقام بلند ہے، یہ امربہت اہم ہے کہ پورے قرآن مجید میں کہیں بھی عقل کے استعمال کے سلسلے میں کسی احتیاط وحذرکی تلقین یا کسی طرح کے حدود و قیود کا بیان نہیں ملتا، قرآن مجید کا ہر دعوی اور ہر دلیل اس وثوق کے ساتھ ہے کہ گویا عقل کا یہی تقاضا ہے، کسی بھی زعم یا مفروضہ کا ابطال بھی اسی حوالے سے ہے کہ عقل سے اس کا ابطال ہوتا ہے۔ قرآن کے بیانات سے واضح ہوجاتا ہے کہ عقل اوروحی الہی میں مکمل توافق اور ہم آہنگی ہے۔ قرآن مجید کی آیتوں پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسے فرد کی تعمیر اور ایسے ذہن کی تشکیل مقصود ہے جو عقل کو مطمئن کرنے والے دلائل پر انحصار کرتا ہے، جس کے ایمان کا ہر جزء دلائل سے آراستہ ہوتا ہے، اور جو ہر دعوی کی پشت پر موجود دلیل کی قوت کو ناپنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ قرآن مجید معجزات سے متحیر ہوکر ایمان لانے کے بجائے دلائل سے مطمئن ہوکر ایمان لانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
امام فراہی لکھتے ہیں: ’’آسمانی کتابوں میں قرآن وہ کتاب ہے جو سب سے بڑھ کرعقل کو مخاطب کرتی ہے، عقلی دلائل کی طرف عقل کو متوجہ کرتی ہے، عاقلوں کی تعریف اور غافلوں کی مذمت کرتی ہے، یہ ایسی محکم اور واضح قرآنی حقیقت ہے جس کے سلسلے میں کسی کو شک بھی نہیں ہوسکتا‘‘۔ (حجج القرآن: ۲۲۶)
پورے قرآن مجید میں کہیں بھی عقل کی مذمت میں یا عقل کو غوروفکر کی بنیاد بنانے والوں کی مذمت میں کوئی صراحت تو کیا اشارہ بھی نہیں ملتا۔ قرآن مجید میں کہیں بھی گمراہی کے اسباب کے ذیل میں عقل کا کوئی تذکرہ نہیں ملتاہے، اس کے برعکس عقل سے پہلوتہی کی شدید طور سے مذمت کی گئی ہے۔
امام فراہی لکھتے ہیں: ’’عقل کے بارے میں تو اللہ فرماتا ہے،(اور وہ رجس کو ان لوگوں پر ڈال دیتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے)، یہاں اللہ نے صاف بتادیا کہ عقل کو جو چھوڑ دیتے ہیں ان پر رجس چپکادیا جاتا ہے۔ غرض جو عقل کا استعمال نہیں کرتا، وہ حق اور باطل اور خبیث اور پاک میں فرق نہیں کرسکتا، اس لئے اس کا ہر طرح کے شر میں پڑجا نا یقینی ہے‘‘۔ (حجج القرآن: ۱۷۶)
قرآن مجید میں عقل کو کس قدر سراہا گیا ہے ، اس کے بارے میں عقاد لکھتے ہیں: ’’قرآن کریم عقل کا ذکر صرف وہاں کرتا ہے جہاں عقل کی تعظیم مقصود ہوتی ہے،اور جہاں اس کے مطابق عمل کرنے اور اس کی طرف رجوع کرنے کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے۔ اور پھر یہ تذکرہ آیتوں کے سیاق میں ضمنی یا اتفاقی طور سے نہیں ہوتا، بلکہ ہر جگہ لفظ اور دلالت کی تاکید کے ساتھ ہوتا ہے۔ امر اور نہی کے ہر موقعہ پر اس کی تکرار ہوتی ہے، جہاں مومن کو اپنی عقل کو حکم بنانے پر ابھارا جاتا ہے، یا منکر کو عقل کے بارے میں لاپرواہ ہونے اور اس پر پابندی قبول کرلینے پر ملامت کی جاتی ہے۔ مزید برآں جدید علوم کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والے علم نفس کے ماہرین عقل کے جتنے اطلاقات بتاتے ہیں ان میں سے کسی ایک کا نہیں بلکہ عقل کے سارے ہی مختلف کاموں اور مختلف خصوصیات سے متصف پہلووں کا احاطہ کیا گیا ہے۔‘‘ (التفکیر فریضۃ اسلامیۃ، عباس محمود العقاد: صفحہ۱؍)
امام ابن تیمیہ کا بھی ماننا ہے کہ عقل اور شریعت میں تعارض نہیں ہوسکتا ہے، تاہم وہ احتیاط سے کام لیتے ہوئے عقل کے ساتھ صریح کی قید لگانا ضروری سمجھتے ہیں، وہ لکھتے ہیں: ’’عقل صریح سے جو بات معلوم ہو وہ شریعت سے متعارض ہوجائے اس کا تو تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔حق یہ ہے کہ عقل صریح سے ثابت بات نقل صحیح سے ثابت بات سے ہرگز ہرگز نہیں ٹکراسکتی ہے۔میں نے اس پر غور کیا ان بحثوں میں جو لوگوں کے درمیان ہو ا کرتی ہیں، میں نے پایا کہ صحیح اور صریح نصوص کی خلاف وہ فاسد شکوک ہوا کرتے ہیں جن کا باطل ہونا عقل سے ہی معلوم ہوجاتاہے، بلکہ عقل سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ بات جو ان شکوک کے خلاف ہے اور شریعت کے مطابق ہے وہی درست ہے۔اس پر میں نے بڑے اصولی مسائل میں غور کیا ہے جیسے توحید ، صفات ، تقدیر ، نبوت اور آخرت کے مسائل۔ اسی طرح میں نے پایا کہ عقل صریح سے جو معلوم ہوتا ہے اس سے کوئی منقول دلیل کبھی نہیں ٹکراتی ہے، بلکہ وہ منقول دلیل جسے اس کا مخالف سمجھا جاتا ہے، وہ کوئی موضوع حدیث ہوتی ہے یا کوئی ضعیف دلالت ہوتی ہے، وہ اتنی کمزور ہوتی ہے کہ اگر عقل صریح سے نہیں ٹکرائے تو بھی دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے، چہ جائے کہ عقل صریح سے اس کا تعارض ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ رسول ایسی چیزوں کی خبر دیتے ہیں جو عقل کے نزدیک محال تو نہیں ہوتی ہیں پر حیران کن ضرور ہوتی ہیں۔یعنی وہ ایسی چیزوں کی خبر نہیں دیتے ہیں جن کا نہیں ہونا عقل سے معلوم ہوتا ہو، بلکہ ایسی چیزوں کی خبر دیتے ہیں جن کا معلوم کرنا عقل کے بس سے باہر ہوتا ہے۔‘‘ (درء تعارض العقل والنقل لشیخ الاسلام ابن تیمیۃ، الناشر دارالکتب العلمیۃ: ۱؍۱۴۷)
ہمارے دینی لٹریچر میں عقل اور وحی کے درمیان تعارض پر لمبی بحثیں ملتی ہیں ، جبکہ عقل اور وحی کے درمیان تعارض کا تصور قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے، تعارض اگر ہوتا ہے تو وہ اس طرح کہ عقل اور وحی ایک صف میں ہوتے ہیں اور ظن اور ہوی مقابل صف میں ہوتے ہیں۔ قرآن مجید تو عقل صریح کے بجائے مطلق عقل کی ستائش کرتا ہے۔
عقل اور وحی کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور کامل توافق کے سلسلے میں امام فراہی کی کتاب حجج القرآن کے ذیل کے اقتباسات بصیرت افروز اور اعتماد افزاہیں:
’’انبیاء کی تعلیم وہ ہوتی ہے کہ عقل کے سامنے لائی جائے تو عقل قبول کرلے، جیسے کسی کا جگری دوست اسے دور دراز علاقہ سے کوئی پھل بھیجے تو وہ اسے چکھے اور پھر اس سے خوب لطف اٹھانے لگے، گویا کہ وہ پہلے سے اسی کا مشتاق تھا۔‘‘ (حجج القرآن: ۲۲۹)
’’انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ عقل کے ذریعہ رہنمائی حاصل کرتا ہے، اسی کے پاس اطمینان پاتا ہے، اور اپنے مخالف پر اسی کے ذریعہ حجت قائم کرتا ہے، وہیں سے اس کے پاس سارے علوم آتے ہیں ، خواہ بدیہی طور سے یا غور وفکر اور استنباط کے راستے۔ اور وحی تو اس لئے آتی ہے کہ عقل کو بیدار کرے، اس کو صحیح رخ دے، اس کے مقام کو بلند کرے اور اس کی تائید کرے۔ اسی لئے وحی نے تدبر وتفکر پر بہت ابھارا اور اہل فکر ونظر کی ستائش کی۔ دیکھو ہمارے امام ابراہیم علیہ السلام کو کس طرح وہ تو کفار کے سامنے عقل صریح کے دلائل پیش کررہے تھے، اور کفارمحض ظن اور تقلید کا دامن تھامے تھے۔ (اُس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیم کو اُس کی ہوشمندی بخشی تھی اور ہم اْس کو خوب جانتے تھے۔ یاد کرو وہ موقع جبکہ اُس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہو رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیاہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے۔ اس نے کہاتم بھی گمراہ ہو اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے؟ انہوں نے کہا کیا تو ہمارے سامنے صحیح بات پیش کر رہا ہے یا مذاق کرتا ہے؟) یعنی تیرے پاس دلیل ہے یا تو مسخرہ پن کررہاہے۔تو وہ واضح دلیل لے آئے، جیسا کہ اللہ ان کے بارے میں بتاتا ہے : ( اُس نے جواب دیا : نہیں، بلکہ فی الواقع تمہارا رب وہی ہے جو زمین اور آسمانوں کا رب اور اُن کا پیدا کرنے والا ہے اِس پر میں تمہارے سامنے گواہی دیتا ہوں) یعنی میں بصیرت پر ہوں اور صریح حق کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں، اور اسی لئے اس کی تمہارے سامنے گواہی دے رہا ہوں۔‘‘ (حجج القرآن: ۱۷۴)
’’عقلی استدلال ہی وہ کسوٹی ہے جس سے سارے مذاہب کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا ہے، اگر وہ نہ ہو تو حق اور باطل کے درمیان فرق محض من مانی اور زبردستی کی بنیاد پر رہ جائے گا‘‘۔ (حجج القرآن: ۱۹۷)
’’نبوت اور وحی پر ایمان اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے جسے عقل قبول کرتی ہے اورجس پر دل مطمئن ہوجاتا ہے، اسی لئے وحی کی آمد دلائل کے ساتھ ہوتی ہے۔‘‘ (حجج القرآن: ۲۸۸)
’’غرض یہ کہ وحی کا استدلال صرف عقل وفہم کے راستے سے ہوتا ہے، اور اسی لئے قرآن میں تدبر وتفکر کو بہت سراہا گیا ہے، تدبر سے مراد ہے کہ فکر کا صحیح عقلی طریقہ پر استعمال ہو، کیونکہ ہر طاقت کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے۔‘‘ (حجج القرآن: ۲۳۳)
’’عقل اور دین فطرت غایت درجہ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔‘‘ (حجج القرآن: ۱۸۳)
’’جان لو کہ ہماری راہ عقل کی راہ ہے، ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جسے عقل خالص قبول کرلے اور فطرت کی رہنمائی کو اس پر اطمینان ہو۔ وحی اور رسولوں کی آمد تو عقل کے بالکل موافق ہوئی ، جیسے کہ نگاہ کے لئے روشنی۔ اس کی صراحت کتب مقدسہ میں بہت ہے، اور قرآن تو اس بارے میں سب سے زیادہ صریح ہے۔‘‘ (حجج القرآن: ۱۸۵)
علامہ فراہی کے نزدیک عقل نگاہ ہے اور وحی روشنی ہے۔
عقل کی نشوونما کا انتظام
قرآن مجید عقل کی رہنمائی کرتا ہے،تلاش حق کا اس کا راستہ مختصر اور آسان کرتا ہے، یہ بھی ذہن نشین کرتا ہے کہ اس کی تعلیمات عقل سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں،مزید برآں اس مضمون میں جس حقیقت کو پیش کرنا مقصود ہے وہ یہ کہ قرآن مجیدنے عقل کی تربیت اور نشوونما کا بہترین انتظام اپنے اندر سمویا ہوا ہے، کہ جو شخص قرآن مجید کی طرف پورے تجرد اور اخلاص کے ساتھ رجوع کرے ، اس کی عقل کی بہتر نشوونما کے لئے موزوں ترین ماحول اور اسباب مہیا ہوجاتے ہیں۔ یہ موضوع بہت دلچسپ اور بے حد اہم ہے، امام فراہی نے حجج القرآن میں گاہے گاہے اس پرگفتگو کی ہے، گو کہ وہ بہت مختصر ہے لیکن بڑی بصیرت افروز اور چشم کشا ہے اور اس سفر کو جاری رکھنے کے لئے اس میں بڑا سامان ہے۔
پہلا انتظام: عقل کی نشو ونما کو عقل کے استعمال سے جوڑ دیا
اللہ تعالی نے انسان کی تمام تر قوتوں اور زمین کے تمام تر خزانوں کو محنت وعمل سے جوڑا ہے، ضروری سامان واسباب بنا محنت وکوشش کے فراہم کردیئے جاتے ہیں، اور پھر انسان کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ پوشیدہ قوتوں اور خزانوں کو دریافت کرکے انہیں کس قدر روبہ عمل لاسکتا ہے،جس قدر ان کو عمل میں لایا جاتا ہے، ان قوتوں کی بھی نشوونما ہوتی ہے اور ان قوتوں کے استعمال کے نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔
قرآن مجید میں عقل کی نشوونما کا یہی راستہ دکھایا گیا ہے، بجائے اس کے کہ قرآن پر ایمان لانے والوں کو عقل ودانش محض ان کے ایمان کی وجہ سے دے دی جاتی ، یامعلومات کے سارے اسباق ان کوالقاء کردیئے جاتے، ان کو عقل کا استعمال کرنے کی ہدایت دی گئی اور بار بار دی گئی، کہ جو عقل کا جس قدر زیادہ استعمال کرے گا وہ اسی قدر دانائی اور بصیرت کے مدارج طے کرے گا۔
علامہ فراہی کے الفاظ میں:’’قرآن نے توحید اور احکام شریعت کی صورت میں ہدایت کے اولین امور کو تو وضاحت سے بیان کردیا، لیکن عقل کی تربیت اور نشوونما کو عقل کے کاموں سے جوڑ دیا، کہ اس کے لئے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔‘‘(حجج القرآن: ۱۳۱)
دوسرا انتظام: قرآن مجید نے اپنے آپ کو غور وفکر کی جولان گاہ بنایا
عقل کو جس قدر کام میں لایا جائے اس کی نشوونما اسی قدر بہتر ہوگی، قرآن مجید نے عقل کو عمل کی تلقین کی اور عمل کے لئے میدان کار فراہم کیا، عقل کا بہترین میدان کار خود قرآن مجید ہے، قرآن مجید نہ تو صرف اوامر ونواہی کی کتاب ہے، اور نہ صرف ترغیب وترہیب کی، بلکہ سب سے پہلے وہ دلیلوں اور نشانیوں کی کتاب ہے، یہ دلیلیں اور نشانیاں ہر وقت غور وفکر کا تقاضا کرتی ہیں۔ قرآن مجید ازخود عقل کے لئے میدان کار ہے، اور وہ عقل کے لئے وسیع ترین دنیائے عمل کی نشان دہی بھی کرتا ہے۔قرآن مجید کی دلیلوں پر غور کرتے ہوئے انسان کومحسوس بھی نہیں ہوتا کہ اس کا طائر فکر کب قرآن کی آیتوں سے نکل کروسیع کائنات کی نشانیوں کے درمیان پہنچ گیا۔
امام فراہی کے الفاظ میں:’’قرآن نے خود کو جائے تدبر وتفکر بنایا، اور عقل کو اس کام پر ابھارا، جو چیزیں عقل کی جولان گاہ ہوسکتی ہیں ان کی طرف بہت زیادہ متوجہ کیا، جیسے فرمایا: (آیا وہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہیں)۔ یہ بھی فرمایا : ( اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں)، اور پھر خوب خوب نشانیاں بیان کیں، اور یہ سب غور وفکر پر ابھارنے والی تھیں‘‘۔ (حجج القرآن: ۱۳۱۔۱۳۲)
قرآن مجید کے دلائل دراصل عقلی دلائل ہیں، اور ان کا مخاطب انسانی عقل ہوتی ہے، قرآن مجید اپنے قاری کو ہر قدم پر عقلی دلائل سے مطمئن کرتا جاتا ہے، عقلی دلائل پر غوروفکر کرتے کرتے اس کا ذہنی سانچہ اسی طرز کا ہوجاتا ہے، وہ پھر ہر دعوے کو قبول کرنے سے پہلے اپنی عقل کا اطمینان مانگتا ہے، کسی کا احترام یا کسی کا جبر اسے کسی رائے کو بغیر اطمینان کے قبول کرنے پر آمادہ نہیں کرتا۔ وہ ہر بات کی دلیل مانگتا ہے، گمان اس کی منزل نہیں بنتا، عوام الناس میں کسی نظریہ کا قبول عام، بزرگوں کی تقلید یا حکمرانوں کا جبر اس پر اس طرح اثر انداز نہیں ہوتا کہ وہ دلیل وبرہان سے متنفر یا بے نیاز ہوجائے۔
دلیل وبرہان کی روشنی میں رایوں کو قبول کرنے کا رویہ انسان کی شخصیت میں ارتقاء کا سبب بنتا ہے، ایک تابع محض کے بجائے وہ ایک آزاد اور با اختیار شخصیت بن جاتا ہے، جس کی اپنی رائے اور اپنا فیصلہ ہوتا ہے، وہ پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنی دنیا وآخرت کے سلسلے میں فیصلے کرتا ہے اور ان فیصلوں کے انجام کی ذمہ داری قبول کرتا ہے، کیونکہ یہ فیصلے اس کے اوپر تھوپے نہیں جاتے بلکہ اس کے اپنے ہوتے ہیں۔ کسی انسان کو یہ اختیار نہیں ملنا چاہئے کہ وہ دوسرے انسان کی دنیا وآخرت کے بارے میں فیصلے کرے۔
بڑا فرق ہوتا ہے اس شخص میں جو دوسروں کی سننے اور دوسروں کے پیچھے چلنے کا عادی بن گیا ہو، اور اس میں جس کے سامنے اس کی اپنی زندگی کے اہم ترین امور کے سلسلے میں اللہ کی طرف سے دلائل پیش کئے جاتے ہوں جن سے مطمئن ہونے کے بعد ہی اس سے کسی فیصلے کا مطالبہ ہو۔ اللہ کی جانب سے انسان کی یہ بہت زبردست تکریم ہے ، جسے قبول کرنے اور اس کا حق ادا کرنے کی صورت میں انسان کا رتبہ بہت بلند ہوجاتا ہے اور اس کی شخصیت میں زبردست ارتقاء ہوتا ہے۔
دلائل پر مبنی رویہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں جبر اور زبردستی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ جبکہ جو لوگ دلائل کے بغیر بات پیش کرتے ہیں انہیں جبر اور زبردستی ، لالچ یا دوسرے غیر اخلاقی حیلوں کی ضرورت پڑتی ہے، کہ اس کے بغیر ان کا مقصد پورا نہیں ہوسکتا ہے۔
امام فراہی کے الفاظ میں’’حق کے راستے کی رہنمائی غور وفکر کے دروازے سے ملتی ہے، جب انسان فکر و نظر کے استعمال کا ارادہ کرلیتا ہے اور محنت وکوشش کرتا ہے، تو اللہ ہدایت دیتا ہے۔ اس میں نبی اور مرشد کی طرف سے کوئی جبر نہیں ہوتا، کیونکہ وہ تو اسے صرف دلائل سناتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی طرف سے بھی کوئی جبر نہیں ہوتا، کیونکہ وہ تو اسے ہدایت دیتا ہے جو ہدایت کا طالب اور اس کے لئے کوشاں ہو۔ اور اسی لئے اللہ تعالی کہتا ہے: (بلاشبہ اللہ لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں) اسی طرح فرمایا: (دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے، صحیح بات غلط بات کے مقابلے میں واضح ہوچکی ہے) ‘‘۔ (حجج القرآن: ۲۲۱)
تیسرا انتظام: غور و فکر کی ترغیب
تفکیری عمل انسان کا وجہ امتیاز ہے، توتن آسانی انسان کی سرشت میں ہے، غوروفکر کے سلسلے میں تو وہ خاص طور سے بہت زیادہ تن آساں واقع ہوا ہے، اسی لئے قرآن کریم غور وفکر پر بہت زیادہ اور بار بار ابھارتا ہے، عقل سے کام لینے والوں کو سراہتا ہے، اور عقل پر تالے لگانے والوں کی مذمت کرتا ہے۔ قرآن مجید کا قاری اس کا بخوبی مشاہدہ کرتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ کثرت سے ہے مختلف مقامات پر اور مختلف انداز سے ہے۔
عقاد کے الفاظ میں: ’’ہمیں یہ بات بار بار تازہ کرنا چاہئے، کہ قرآن مجید میں عقل کی ستائش یونہی نہیں آئی ہے، اور اس کی بار بار تکرار بلا وجہ نہیں ہے۔ بلکہ عقل کی یہ سراہنا ایک متوقع امر تھا، دین کا مغز اور اس کا جوہر اسی کا تقاضا کرتا ہے، جو اس دین کی حقیقت سے واقف ہوگا اور اس انسان کی حقیقت سے واقف ہوگاجو اس دین کا مخاطب ہے اسے اسی کی توقع ہوگی۔‘‘ (التفکیر فریضۃ اسلامیۃ: ۱۲)
حسی معجزات کے بجائے دلائل اور نشانیوں پر زور
اسی سیاق میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید حسی اور ظاہری معجزات کے بجائے جہاں غور وفکر کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی ہے، کائنات اور انفس کی نشانیوں اور دلائل پر غور وفکر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح اور نمایاں ہوجاتی ہے کہ اس کی نظر میں ان ظاہری معجزات کی چنداں وقعت نہیں، وہ لوگوں کو ہمیشہ اصل روح نبوت کی طرف متوجہ کرتا ہے ‘‘۔ (سیرۃ النبی: ۳؍۱۸۱)
’’اسلام نے نبوت کی تصدیق کے باب میں ظاہری اور مادی معجزات کو وہ اہمیت نہیں دی ہے، جو خصوصیت کے ساتھ عیسائی مذہب اور اس کے مقدس صحیفہ میں نظر آتی ہے، بلکہ وہ انسانوں کو زیادہ تر غور وفکر ، فہم و تدبر ، سوچ اور سمجھ کی دعوت دیتا ہے اور نبوت کی اندرونی خصوصیات اور روحانی دلائل کو ایمان وتصدیق کی بنیاد قرار دیتا ہے‘‘۔ (سیرۃ النبی: ۳؍۳۴۲)
عقاد لکھتے ہیں: ’’ اسلام ان معجزات کا دین ہے کہ عقل جدھر دیکھے اسے نظر آجائیں، ان معجزات کا دین نہیں ہے جو عقل کی نگاہ پر پردہ بن جائیں ، اور زبردستی لاجواب کرکے سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کریں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ معجزے دو طرح کے ہوتے ہیں ، اور یہ جاننااس لئے ضروری ہے تاکہ ہم وہ معجزہ طلب کریں جسے طلب کرنا درست ہو، اور اس معجزہ کی طلب سے پرہیز کریں جو کسی عاقل کے لئے مفید نہیں ہوتا۔ وہ معجزہ جس کا روئے خطاب عقل کی طرف ہوتا ہے وہ تو ہر طرف موجود ہے جو اس کا طالب ہوگا وہ جدھر نظر ڈالے گا اسے پا لے گا۔ لیکن یہ وہ معجزہ نہیں ہے جو غور وفکر سے مطمئن نہیں ہونے والے کو منوانے کے لئے ہوتا ہے،دراصل جو اپنے غور وفکر سے مطمئن نہیں ہوپاتا اسے معجزہ بھی کبھی گمراہی سے نہیں نکالتا ہے۔ اسلام ایک متوازن دین ہے وہ فہم کے تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے، اور تمام امور میں ایک توازن رکھتا ہے۔ وہ تو ہر پہلو سے معجزات کا دین ہے۔ لیکن وہ اس معجزہ کا دین نہیں ہے جو عقل کو لاجواب توکردے لیکن مطمئن نہیں کرے، کیونکہ وہ عقل کا دین ہے، اور اس دین میں غور وفکر کرنا ایک فریضہ ہے۔ (التفکیر فریضۃ اسلامیۃ: ۸۰)
چوتھا انتظام: غوروفکر اور استدلال کے بہترین اصولوں کی جانب رہنمائی
امام فراہی نے یہ بات بھرپور اعتماد اور وثوق کے ساتھ کہی ہے کہ قرآن مجید میں نہ صرف عقلی دلائل بہت کثیر تعداد میں ہیں، بلکہ غور وفکر اور استدلال کے اصول بھی ہیں جو فکرو استدلال کے معروف اصولوں سے مختلف ہیں۔
’’ میں قرآن میں غوروفکر اور استدلال کے وہ اصول پاتا تھا ، جو یونانیوں کی منطق کے اصولوں کے مقابلے میں عقل سے قریب تر ہیں اور دل میں زیادہ جاگزیں ہوجانے والے ہیں، اور وہ دلائل پاتا تھا جو فلاسفہ اور متکلمین کے دلائل سے زیادہ صحیح اور پختہ ہیں، اور تعجب کرتا تھا ان پر جو انہیں دیکھ نہیں پاتے‘‘۔ (حجج القرآن: ۲۱)
گو کہ حجج القرآن کے عنوان سے ان اصولوں کی تدوین کا عظیم منصوبہ تشنہ تکمیل رہ گیا۔ لیکن کچھ زریں اصولوں تک رسائی کا سامان ضرور ہوسکا۔ قرآن مجید پر گہرا غوروفکر کرنے والوں کے لئے یہ ایک بڑا میدان ہے۔
جن اصولوں کی جانب امام فراہی نے رہنمائی کی ہے ان میں سب سے نمایاں اصول یہ ہے کہ دلیل کی بنا اس یقین پر رکھی جائے جو انسان کی فطرت کے اندر موجود ہوتا ہے اور جس کے ثبوت کے لئے یہی کافی ہوتا ہے کہ وہ فطرت میں موجود ہے۔
امام فراہی لکھتے ہیں: ’’قرآن مجید نے دلیل کی بنیاد اس ضروری فطری یقین پر رکھی ہے جس کا انکار عقل کر نہیں سکتی ہے، یہی یقین عقل کے تمام علوم اعمال فکر اور استدلال کا سرچشمہ ہے۔ یہ نفس انسانی کی فطرت کی گہرائی میں رکھا گیا ہے، اور اسی طرح پوشیدہ ہوتا ہے جیسے چھلکوں کے پیچھے مغز اور پردوں کے پیچھے روح ہوتی ہے، لیکن نہریں اسی سے نکلتی ہیں‘‘۔ (حجج القرآن: ۹۳)
’’ ایک الہ پر ایمان جو رحیم ہے خلق، علم، قدرت، تصرف، رحمت اور حکمت سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے، محض آثار سے استدلال کے راستے بے حد مشکل ہے، لیکن وہ بہت محکم اور واضح ہوتا ہے اگرنفس انسانی کی فطرت میں غور کیا جائے، اس پہلو سے کہ اس کی فطرت میں وہ علم ہے جو ایک رحیم قادر اور حکیم الہ واحد پر یقین کرنے پر مرتکز ہے ‘‘۔ (حجج القرآن: ۱۱۴)
’’ہمارا اللہ پر ایمان محض استدلال کے راستے سے نہیں ہے، بلکہ اس لئے ہے کہ یہی ایمان ہر علم اور دلیل کی صحت کی بنیادہے‘‘۔ (حجج القرآن: ۱۲۰)
پانچواں انتظام: لطیف عقلی دلائل کا کثرت سے ذکر
قرآن مجید دلیل وبرہان کی کتاب ہے، اس میں دلائل بہت زیادہ ہیں، یہ دلائل عقل اور دل دونوں کو ساتھ مخاطب کرتے ہیں، دلائل کی بنا اس یقین پر ہوتی ہے جو نفس انسانی میں پوشیدہ وموجود ہے، تاہم یہ دلائل اس تفصیل اور وضاحت سے نہیں ہوتے جس کا مشاہدہ ہم دوسرے کلاموں میں کرتے ہیں، یہ اس ترتیب اور ہیئت میں بھی نہیں ہوتے جس کے ہم عادی ہیں، بلکہ یہ بہت ہی لطیف پیرائے میں ہوتے ہیں، خواب غفلت میں پڑے ہوئے یا غوروفکر کے معاملے میں تن آسانی میں گرفتار ان کا ادراک نہیں کرسکتے ، ان کا ادراک کرنے کے لئے عقل کو فعال بنانا ضروری ہوتا ہے، یہ معمہ بھی نہیں ہوتے کہ عقل کو حیرانی اور بے بسی کا شکار کردیں، بلکہ یہ ایسے ہوتے ہیں کہ انسان ان پر جس قدر غور کرے محکم دلائل اور روشن حکمتوں کی قطار نظر آتی جائے۔ اس طرح ہر دلیل کی قوت چونکہ غور وفکر کے بعد سمجھ میں آتی ہے اس لئے وہ متاع مستعار کے بجائے اپنی دریافت محسوس ہوتی ہے، اور ہر دلیل کے پانے پر ایسی خوشی ہو تی ہے کہ گویا وہ دلیل اس کی اپنی متاع گم شدہ تھی۔
امام فراہی کے الفاظ میں: ’’قرآن کے عظیم تر اہداف میں عقلوں کی نشوونما اور حکمت کی تعلیم بھی ہے، جیسا کہ بہت سارے مقامات پر اس کی صراحت ہے، اور خاص اسی وجہ سے لطیف دلائل کو کثرت سے بیان کیا ہے تاکہ لوگ غور وفکر کرنا اور استنباط کرنا سیکھیں۔ اور اسی لئے قرآن بہت دفعہ صرف دلائل کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ان کا استنباط کرنے پر ابھارتاہے، بلکہ کبھی تو وہ صرف ان فطری اصولوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جن پر استدلال کی بنا رکھی جاتی ہے… قرآن کی اس گہرائی اور لطافت بیانی کی وجہ سے اس کے بہت سارے دلائل ان سے مخفی رہے جو قرآن کو ایک عام خطاب کی نظر سے دیکھتے تھے‘‘۔ (حجج القرآن: ۲۷)
’’ اگر قرآن ہر دلیل کو حد درجہ تفصیل کے ساتھ بیان کردیتا تو دماغوں کی تربیت نہیں ہوتی، بلکہ فہم وفکر انفعال زدہ ہوجاتے، جیسا کہ بعض طالبعلموں کو دیکھتے ہو کہ انہیں جو بتایا جاتا ہے وہ یاد کرلیتے ہیں، ان کی ساری تگ وتاز یاد کرلینے تک محدود رہتی ہے‘‘۔ (حجج القرآن: ۱۳۱۔۱۳۲)
’’اللہ نے اپنے رسول کو حکمت کا بہترین معلم بناکر بھیجا، اور وہ اس طرح کہ تعلیم کو تربیت کا جزء بنادیا… اس نے محدود علم دینے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ عقل کی بصیرت کو جلا بخشی، اور اسے اس کے اعلی مدارج تک پہنچنے کے لئے تیار کیا، اور اس کے لئے ضروری تھا کہ عقل کو بیدار کیا جائے تاکہ وہ فکر ونظر کے اصولوں سے آگاہ ہو، اور علم کے باب میں حق یقین اوراخلاق کے باب میں طہارت کامل حاصل کرے۔ اور یہ سب تعلیم حکمت میں شامل ہے‘‘۔ (حجج القرآن: ۱۳۱۔۱۳۲)
’’خلاصہ یہ کہ قرآن کے بیشتر دلائل نگاہ کو متوجہ کردینے والی چمک اور فکر کو بیدار کردینے والی گرج کی طرح ہیں‘‘۔ (حجج القرآن: ۱۹۵)
’’قرآن کا طریقہ استدلال کلام کی بلاغت اور فطرت کی راہ سے قریب تر ہے، قرآن عقل اور دل کو ایک ساتھ مخاطب کرتا ہے، دلائل انی کو دلائل لمی کے ساتھ جوڑ دیتا ہے، دلائل میں ترغیب وترہیب کی آمیزش کرتا ہے، اس طرح ایک طرف عقل کو نیند سے بیدار کرتا ہے تو دوسری طرف دل کو غفلت سے ہوشیار کرتا ہے‘‘۔(حجج القرآن: ۱۳۸)
عقل کے استعمال کی راہ میں رکاوٹیں اور ان کا علاج
جس طرح حواس کا استعمال انسان کی فطرت میں ہے ، اسی طرح عقل کا استعمال بھی انسانی فطرت کا تقاضا ہے، اس کے باوجود یہ امر واقعہ یہ ہے کہ انسان عقل کے استعمال میں بہت کوتاہ ثابت ہوا ہے۔وسیع وعظیم کائنات کے مقابلے میں اس چھوٹی سی دنیا میں تو وہ بزعم خود بڑی بڑی فتوحات کرتا ہے، لیکن اس سے آگے بڑھ کر وہ صرف بھٹکتا اور گمراہ ہوتا ہے۔
امام فراہی لکھتے ہیں: ’’لوگ ریاضیات اور ہندسہ اور بہت سارے طبعی علوم میں کامیاب کوشش کرتے ہیں، تاہم الہیات میں وہ گمراہ ہوجاتے ہیں ، بھٹکتے ہیں، اور بے بنیاد گمانوں پر تکیہ کرتے ہیں، یہ صورتحال اس پر دلیل ہے کہ نبوت ضروری ہے۔ (اللہ جسے روشنی نہیں دے اس کے پاس روشنی نہیں رہتی)۔ اگر ذہین ترین لوگ کسی ایک امر میں حماقت کا ارتکاب کریں تو یہ ماناچاہئے کہ اس امر کے سلسلے میں عقلیں خود کفیل نہ ہوکر تابع ہوتی ہوں گی۔ دیکھو نگاہ کی اپنی روشنی نہیں ہوتی، وہ تو اس نور سے دیکھتی ہے کہ جو اس کے پاس آتا ہے تو وہ خوش ہو اٹھتی ہے اور اسے گلے لگاتی ہے۔ اور جس نے آنے والے نور سے چشم پوشی کی اس نے اپنے اوپر ظلم کیا اور خود کو تاریکی میں ڈال دیا۔ تو یہی عقل کا معاملہ ہے،نور کو قبول کرنا اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے ، وہ جب اسے پاتی ہے تو اطمینان محسوس کرتی ہے اور اس کی جستجو میں رہتی ہے،لیکن حق کو قبول کرنے سے جب وہ انکار کرتی ہے تو اس سے اس کا نور چھین لیا جاتا ہے‘‘۔ (حجج القرآن: ۱۲۷)
عقل کے سلسلے میں انسان کی کوتاہی کے مختلف درجات اور مختلف اسباب ہیں ،قرآن مجید ان اسباب کا تذکرہ کرتا ہے اور ان کا علاج بھی تجویز کرتا ہے۔
ظاہر و محسوس میں انہماک
عقل کا کام ظاہر و محسوس مظاہر زندگی سے آگے بڑھ کر انفس وآفاق کی عظیم ترین نشانیوں پر غور کرنا ہے، لیکن جو ظاہر ومحسوس کو سب کچھ سمجھ کر اسی میں منہمک ہوجاتے ہیں اور اس انہماک سے باہر نکل کر غور وفکر کی مشقت برداشت نہیں کرتے، ان کو وہی ملتا ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ قرآن مجید بار بار انسان کو جھنجھوڑتا ہے کہ وہ غفلت کی قید سے آزاد ہوکر غور و فکر کا کام انجام دے۔
امام فراہی لکھتے ہیں: ’’اس دنیا کی زندگی کے آگے کیا ہے اس سے غفلت زیادہ تر دماغوں پر طاری رہتی ہے ، کیونکہ وہ اس ظاہر ومحسوس زندگی اور اس کے علوم میں منہمک ہوتے ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے، (آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن سے وہ اعراض کرتے ہوئے گذر جاتے ہیں)‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن کے دلائل فطرت سے قریب ہوتے ہیں، بلکہ غوروفکر اور اس کے اصولوں پر ترغیب دینے والے ہوتے ہیں، تب بھی تم ایسے لوگوں کو دیکھو گے کہ وہ غور وفکر نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ قرآن نے غور وفکر اور تدبر پر بہت ابھارا ہے، اللہ کا ارشاد ہے،(کیا وہ قرآن پر تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں)۔ اس طرح کا تذکرہ بہت جگہ ہے۔
غفلت کہتے غور وفکر نہیں کرنے کو، اس طرح یہ عدمی سبب ہے، لیکن یہ پروان چڑھتی ہے ظاہر وحاضر میں انہماک کی وجہ سے، اور یوں یہ عقل کی قوتوں کو بے کار کردیتی ہے ، اور ادراک کے کمروں کو اس طرح بند کرتی ہے، کہ انفس اور آفاق میں جو جلال و جمال اور حکمت و رحمت کے مظاہر ہیں ، ان کے ادراک سے دماغ قاصر ہوجاتے ہیں، اور پھر انہیں صرف ظاہر ومحسوس نظر آتا ہے بالکل چوپایوں کی طرح، اللہ نے ارشاد فرمایا: (ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں ہیں، اور ان کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں ہیں، اور ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں ہیں، وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ زیادہ گمراہ ہیں، یہی لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں) ان لوگوں کے بارے مزید فرمایا (یہ دنیا کی زندگی کے ظاہر کو تو جانتے ہیں اور یہ آخرت کے سلسلے میں میں غفلت میں پڑے ہوئے ہیں) اور فرمایا : (اس سے تم اعراض کروایسے جو ہمارے ذکر سے منھ موڑیاور صرف دنیا کی زندگی کو مقصود بنائے،، ان کے علم کی پہنچ بس اسی قدر ہے) اس طرح کے بیانات بھی بہت جگہ ہیں‘‘۔ (حجج القرآن: ۲۵۔۲۶)
پستی پر قناعت اور خوب تر کی جستجو سے پہلوتہی
جب انسان پستیوں کا دلدادہ اور حقیر منافع کا غلام ہوجاتا ہے تو اس کی عقل بھی پستیوں سے اوپر اٹھ کر دیکھنا اور دکھانا بند کردیتی ہے۔ پستیوں میں رہنے والے وحی الہی کی روشنی سے بھی محروم ہوتے ہیں، اور ان کی عقل بھی ان کی رہنمائی سے قاصر ہوتی ہے۔ کیونکہ عقل بلندیوں کی دلدادہ ہوتی ہے، پستیوں میں رہنا اسے راس نہیں آتا ہے،بلکہ پستی کے ماحول میں وہ بیمار ہوجاتی ہے۔ قرآن مجید عقل کو بیماری سے بچانے کی تلقین کرتا ہے۔
امام فراہی لکھتے ہیں: ’’عقل کی بیماری بدن کی بیماری سے زیادہ حیران کن نہیں ہے، دیکھتے نہیں کہ حواس بیمار پڑتے ہیں بلکہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یکسر ختم ہوجاتے ہیں، اگر یہ بات ہے تو کیا تعجب کہ عقل یا دل کو کوئی بیماری لگ جائے تو وہ بے ہوش ہوجائے یا بے نور ہوجائے۔ انسان کی فطرت میں جو علم ودیعت کیا گیا ہے ضروری نہیں کہ سارے انسانوں پر واضح اور روشن ہو، بلکہ اس کے اونچے مقام کا تقاضا ہے کہ ان لوگوں کا ہاتھ اس تک نہیں پہنچے جو پستی میں جاکر حقیر چیزوں میں مصروف ہیں، اور سیکھنے کی انکساری اور فکر کی مشقت کو قبول کرنے سے ان کا تکبر مانع ہے۔ بلاشبہہ پستی میں مصروف ہوجاتا بلندی کی راہ کی رکاوٹ ہے، اور مشقت کرنے پر راضی نہ ہونے سے عظیم کارناموں کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں سارے لوگوں پر طاری ہوجاتی ہیں، سوائے اہل بصیرت کے اور وہ تو بہت کم ہوتے ہیں۔ اسی لئے قرآن نفس کی بیماریوں کی طرف بہت زیادہ نشان دہی کرتا ہے خاص طور سے جن دو کا ہم نے ذکر کیا‘‘۔ (حجج القرآن: ۱۰۱۔۱۰۲)
’’دل ودماغ کی صحت مندی صورت استدلال کی صحت اور اشکال کی شرطوں کی رعایت سے زیادہ اہم ہے، جس طرح بینائی کی صحت آلہ بینائی کی صحت سے زیادہ اہم ہے۔ منطق صرف دلائل کی صورت اور ان کے اجزاء سے بحث کرتی ہے، لیکن ساری اہمیت تو دراصل سوچنے والے نفس کی ، اس کی فکر کی اور اس کے علم و ایقان کی بنا کی ہے‘‘۔ (حجج القرآن: ۱۰۱۔۱۰۲)
ہوی پرستی اور اتباع ظن
وحی الہی کا تعارض عقل سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ عقل اور وحی دونوں کا ٹکراؤ ہوی اور ظن سے ہوتا ہے۔ اس لئے قرآن مجید جگہ جگہ ہوی اور ظن کی پیروی کے سلسلے میں خبر دار کرتا ہے، کہ جو ان کی پیروی کرتا ہے وہ عقل کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔
امام فراہی لکھتے ہیں: ’’مومن ہر معاملے میں عقل کی بات مانتا ہے، جبکہ کافر عقل کی بات صرف وہاں مانتا ہے جہاں وہ بات اس کی ہوی اور ظن کے مطابق ہو۔ اللہ کا ارشاد ہے : وہ تو صرف ظن کی اتباع کرتے ہیں اور خواہش نفس کی بات مانتے ہیں، حالانکہ ان کے رب کے پاس سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے‘‘۔
’’اس دنیا تک محدود خواہش نفس انسان کو خیر کی بلندیوں کی طرف بڑھنے کے ارادوں سے باز رکھتی ہے، اس کے باطل گمان اس کے سامنے حجاب بن کر اسے خالص حق پر غور کرنے سے روک دیتے ہیں، میں نے حق اور تقوی کا ہوی اور ظن جیسا دشمن نہیں دیکھا، ظن باطل کو سنوار کر حق کی صورت میں پیش کرتا ہے، تو ہوی شر کو خیر کی شیرینی میں لپیٹ دیتی ہے۔ یہ دونوں علم اور عمل کی راہ کی رکاوٹیں ہیں‘‘۔ (حجج القرآن: ۱۸۵)
خاتمہ
قرآن مجید کی آیتیں ایسا مومن تیار کرتی ہیں، جو پورے وثوق اور اعتماد کے ساتھ سارے انسانوں سے اپنے موقف کے درست ہونے پر گفتگو کرسکے، بین المذاہب ڈائیلاگ میں بے خطر شریک ہو اور دلائل کی معرکہ آرائی میں ہمیشہ فاتح وکامران رہے۔اس کے کسی رویہ سے یہ محسوس نہ ہو کہ وہ دلائل کی جنگ سے فرار اختیار کرنا چاہتا ہے،اور اپنی بات کسی لالچ اورترغیب یا زبردستی اور ترہیب کے راستے منوانا چاہتا ہے، مومن کی اصل قوت اس کے دلائل ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں ترغیب وترہیب بھی ہے، لیکن اس کا مقصد عقل کی آواز کو دبانا نہیں بلکہ عقل پر پڑے ہوئے غفلت کے پردے کو چاک کرنا ، اور دلائل سے بے خبر سوتے ہوئے انسان کو جھنجھوڑ کر جگادینا ہے، کہ غور وفکر کے لئے بیداری شرط اولین ہے۔
قرآن مجید کا مومن کوئی ایسا رویہ اختیار نہیں کرتا جس سے ظاہر ہو کہ اسے معرکہ استدلال میں اپنے موقف کے شکست کھاجانے کا اندیشہ ہے،وہ اپنے موقف کی حفاظت کے لئے مرتد کی سزا کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اور نہ دوسروں کی تبلیغی کوششوں پر پابندی کی ضرورت۔وہ مذہب کی تبدیلی اور مذہب کی تبلیغ کے سلسلے میں آزادی کا سب سے آگے بڑھ کر مطالبہ کرتا ہے، کیونکہ مکمل آزادی کے ماحول میں اسے اپنے موقف کی برتری اور دلائل کی قوت دکھانے کا پورا موقعہ ملتا ہے، اس یقین کے ساتھ کہ تبلیغ کی اس آزادی اور اس گفتگو کے اس موقعہ سے اس سے زیادہ فائدہ کوئی اور نہیں اٹھا سکتا۔لالچ اور خوف کے راستے مذہب کی تبلیغ اور تبدیلی پر پابندی کی تجویز کا سب سے بڑا حامی اور مویّد وہ ہوتا ہے کیونکہ اپنے موقف کے دلائل کی قوت پر سب سے زیادہ اعتماد اور یقین اسی کو ہوتا ہے۔
بلا شبہہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید کی طرف صحیح معنی میں رجوع ہوگا تو عقل و دانش میں اضافہ ہوگا، بصیرت و دانائی پروان چڑھے گی اور ہر دو زندگیوں میں ترقی اور کامیابی کی راہیں دریافت کرنا آسان ہوجائے گا۔
امام فراہی کے نزدیک کامیابی کی تین شرطیں ہیں، عقل، علم اور عمل صالح۔
’’بلا شبہہ نجات ممکن نہیں مگر عقل سے کہ وہ تو رفیق اعلی ہے، علم سے کہ وہ تو عروۃ الوثقی ہے، اور عمل صالح سے کہ وہ تو عظیم تر سعادت کا بہترین راستہ ہے‘‘۔ (حجج القرآن: ۱۷۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی،ہیڈ آف ریسرچ، دار الشریعہ، متحدہ عرب امارات

1 تبصرہ
  1. […] مزید مطالعہ کے لئے: قرآن مجید میں عقل کی نشوونما کا انتظام […]

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights