فکر اسلامی کا بحران

ایڈمن

(صورتحال کے تجزیے اور مطلوبہ لائحہ عمل پر ایک بہت ہی جامع اور مفید تحریر۔ادارہ)
اللہ کے نزدیک دین، صرف اسلام ہے، اور اس کے بینات میں پہلا بینۃ عقل وعلم ہے، دوسرا بینۃ نازل شدہ کتاب، تیسرا بینۃ رسالت اور چوتھا بینۃ معرفت نفس اور مشاہدہ آیات ہے۔
اسلام ایک جانب عقل و علم، تدبر وتفکر، تفقہ واقرأ سے عبارت ہے تو دوسری طرف عدم شرک و کفر، عدم اتباع ہویٰ، عدم اتباع خطوات الشیطان، اور اجتناب طاغوت سے عبارت ہے۔
اسلام نیک شگونی اور امید وتوقع کا دین ہے نہ کہ مایوسی کا دین، وہ محبت کا دین ہے نہ کہ نفرت کا دین، تعارف کا دین ہے نہ کہ ایک دوسرے سے دوری کا دین، گفتگو و مذاکرات کا دین ہے نہ کہ ٹکراؤ کا دین، نرمی کا دین ہے نہ کہ سختی و غلو کا دین، رحمت کا دین ہے نہ کہ قساوت کا دین، امن کا دین ہے نہ کہ جنگ کا دین، تعمیر کا دین ہے نہ کہ تخریب کا دین، وہ تقریب و وحدت کا دین ہے، نہ کہ تفریق کا دین۔
اسلام خیر و صلاح اور یُسر و آسانی کا دین ہے، وہ اجتہاد و تجدید اور تبدیلی کا دین ہے جو تغییر و انقلاب کے ذریعہ انسان کو نفع پہنچانا چاہتا ہے، دین خود مصلح ہے، وہ اپنی حرکی و ترکیبی قوت سے انسان کی اصلاح اور تزکیہ کرتا ہے یعنی انسان کے قلب ونظر اور عقل کو درست اور حالت صحت میں رکھتا ہے، سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ وہ انسان کو یقینی علم (وحی الٰہی) سے روشنی و رہنمائی حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
اسلام اپنے جامع اصولوں اور واضح ہدایات کی بنیاد پر کامل دین ہے، مگر یہ دین فرد اور سماج دونوں میں اسی وقت برگ و بار لاتا ہے جب دل ودماغ کی زمین تیار اور اس میں قبول وا خذ کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہو، کیونکہ چشمہ اسی وقت پھوٹ سکتا ہے جب توفیق الٰہی اور قدرت وقوت دونوں کا بیک وقت اجتماع و اتصال ہو۔ رنگ ونور کا ظہور اسی وقت ہوتا ہے جب ہرچیز متوازن ومتناسب ہو۔
اسلام کی تشریح و تعبیر اور بیان وتفسیر میں مفہوم و معنی کے اندر پائی جانے والی یکسانیت، تاثیر و توازن کی اصل وجہ خود اس کی اپنی نوری قوت، روح اور ترکیب وبناوٹ ہے۔ البتہ شارحین کی آراء میں پائے جانے والے اختلافات کا تعلق ان کی اپنی عقلی صلاحیت، سماجی ماحول اور مخصوص پس منظر سے ہے۔ حق و صداقت اور نور یقین تک کبھی رسائی ہوتی ہے اور کبھی نہیں بھی ہوتی کیونکہ عقل کوتاہ ہے، اس لئے اس کا قصور و عجز رکاوٹ بن جاتا ہے۔
ہدایت الٰہی ایک ایسی عظیم نعمت ہے جو اپنی تابانی و جمال میں سب سے بلند ہے، یہ نعمت نصیب والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ مگر اس کے ملنے کے باوجود کوتاہیوں اور غلطیوں کی وجہ سے حبط اعمال بھی ہوجاتا ہے، اور توفیق سلب ہوجاتی ہے، قلبِ انسان، رحمان کی دو انگلیوں کے درمیان ہے، وہ اسے تقاضائے عدل کے تحت پلٹ دیتا ہے، ویسے ابتلاء و آزمائش کے لئے شر نفس، شر شیطان اور پُرکشش دنیا اپنی جگہ قائم ہے۔
تناسب و سطح اور معیار بھی اپنے آپ میں اثر انداز ہونے والا ایک اہم عنصر ہے مثلاً ایمان ویقین کی سطح، تقوی کی سطح، تقرب الی اللہ کی سطح، طہارت قلب کی سطح، معیار علم و معرفت کی سطح وغیرہ اسی اعتبار سے درجات کی تعیین ہوتی ہے۔ انبیاء، صدیقین، صالحین، شہدا کا مرتبۂ علم وعمل سب سے بلند تر ہوتا ہے۔
تشریح دین کا سلسلہ مسلسل جاری رہا ہے، اور تجدید کا بھی، اسلام اپنے محکم اصولوں، اور ’’قطعیات و مسلمات‘‘ کی بناء پر غالب و ظاہر ہے۔ یہ تمام ادیان کا ناسخ ہے، کیونکہ آخری آسمانی دین ہے جو آخری نبیؐ کے ذریعہ بھیجا گیا جسے روئے زمین پر برت کر اور عمل کرکے دکھایا گیا۔ یہ مجموعہ ہے عقل و علم اور تفکر وتدبر کا، تعمیر و تجدید اور امن وامان کا، عدل و حقوق اور آزادی کا۔
اسلام کی عقلی تشریحات میں فلاسفہ نے بڑی محنت کی اور مختلف تعبیرات و اصطلاحات کے ذریعہ اسے معقولی انداز سے پیش کیا۔ اس طرح ایک اہم فکری سرمایہ وجود میں آیا، چنانچہ مختلف اقوام وملل اور اصحاب عقل و دانش کے اسلام میں داخل ہونے اور تہذیبی و تمدنی و ثقافتی تبادلوں کے نتیجہ میں ابھرنے والے عقلی سوالات کو علم کلام کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اسلام کو عقلی بنیادوں پر سمجھنے کی جستجو ہوتی رہی، اور فکری ارتقاء کا عمل جاری رہا۔ مفکرین فکری موضوعات پر مباحثات میں حصہ لیتے رہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ تہذیبوں اور قوموں کا عروج و زوال بہت کچھ ان کی فکری صلاحیتوں پر مبنی ہوتا ہے، جیسا کہ علوم و فنون کی ترقی کا راز فکر کی مخفی قوت میں پوشیدہ ہے۔
اسلامی تاریخ میں اسلامی تہذیب و تمدن کو جو عروج حاصل ہوا، وہ اصل فکری جدت وندرت، فکری قوت و انقلاب کے ذریعہ ممکن ہوسکا، لیکن وأنتم الأعلون کو سیاسی واقتصادی زوال کیوں ہوا؟ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ میں یہ اسی وقت ہوا کرتا ہے جب فکری انحطاط پیدا ہوجاتا ہے۔
(۱) فکری انحطاط و جمود کے اسباب:
تعقل پسندی کا عالم سکرات میں داخل ہونا
اللہ نے ہمیں عقل عطا کی تاکہ ہم اس کے ذریعہ بہتر سے بہتر انداز سے سوچ سکیں اور ہر سمت میں غور کرسکیں، چیزوں کو پرکھ سکیں، جائزہ لے سکیں، چھانٹ پھٹک کرسکیں تو جب اہل اسلام نے عقل کا استعمال کیا تو اللہ نے اسے اس کے ذریعہ غلبہ عطا کیا کیونکہ وہ وسائل اور ذرائع امت کے سامنے آئے جن کا اس نے بہتر سے بہتر استعمال کیا ، اس نے علوم وفنون میں ترقی کے زینے طے کئے ، نظریات کو تجربات کے دائرہ سے گزارا، نئے سانچے بنائے، نئے آلات تیار کئے، دنیا میں بکھرے ہوئے علوم کا ترجمہ کیا تاکہ دیگر تہذیبوں کی فکری وعقلی خدمات سامنے آسکیں، ان کی خوبیاں وخامیاں واضح ہوسکیں، تو جس قدر اور جس سطح سے امت نے عقل کا استعمال کیا اسی قدر وہ آگے کی طرف بڑھی، لیکن جب اس نے عقلیت پسندی سے کنارہ کشی اختیار کی تو پھر فکری اعتبار سے اس پر اضمحلال کی کیفیت طاری ہوگئی اور طویل مدت میں دیگر قومیں اس سے آگے بڑھتی چلی گئیں کیونکہ دیگر اقوام نے سوچنے، سمجھنے اور غورکرنے کا کام عقلی بنیادوں پر زیادہ تیزی سے جاری رکھا، اختلافات وہاں ان کے درمیان بھی ہوئے لیکن امت میں عقلی بنیاد پر پیدا ہونے والے اختلاف کو طاقت وقوت سے دبانے کی کوشش کی گئی، چنانچہ امت کے فکری انحطاط میں سب سے پہلا رول عقلیت پسندی سے دوری اور فرار کی راہ کا اختیار کرنا ہوا۔
آباء پرستی اور پیچھے چلنے کی عادت
فکری جمود کو جنم دینے میں آباء پرستی کا بڑا کردار ہوا کرتا ہے ، کیونکہ انسان ایک بندھے ٹکے طریقے پر سوچنے کا عادی ہوچکا ہوتا ہے وہ اپنی عقلی قوت کا استعمال یا تو کرنا ہی نہیں چاہتا یا کرنے کو برا سمجھتا ہے ، وہ یہ سوچتا ہے کہ ہم سے بڑے اور ہمارے سابقین اور ہمارے آباء واجداد جس فکر پر گامزن رہے اور جس راہ پر چلتے رہے بس اسی پر چلنا چاہئے، وہ ان رجحانات اور طریقوں کے بارے میں غور نہیں کرتا جس پر غور کرنا ضروری ہوتا ہے ، آباء پرستی ایسی بیماری ہے جو انسانی عقل کو دھیرے دھیرے بے انتہا کمزور اور نحیف بنادیتی ہے، یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے اگر کسی شیرخوار بچے کو صرف دودھ ہی پلایا جائے اورکوئی اور چیز کھانے اور پینے کے لئے نہ دی جائے جو اس کی نشو ونما کے لئے ضروری ہے، یہ عادت جب قوموں کو لگ جاتی ہے تو وہ ان کو ترقی کی شاہراہ پر نہیں آنے دیتی اور برابر یہ بیماری ان کو پیچھے دھکیلتی رہتی ہے۔
طرز کہن پر قائم رہنے کی خصلت
ملتوں کی یہ سوچ کہ جس طرز پر وہ پہلے سے قائم اور گامزن ہیں وہی اصل حقیقت ہے اور وہی ان کی حیات واساس ہے تو پھر یہ طرز کہن ان کو نئی چیز اور نئی فکر کی جانب کبھی متوجہ نہیں ہونے دیتا، بلکہ یہ قدیم طریقہ ان کو ایک خاص مدار پر محبوس ومقید کرکے رکھتا ہے ، جب قومیں طرز کہن پر اڑی رہتی ہیں تو شکست وزوال کا شکار ہونے لگتی ہیں ۔
علم محدود کو علم کل سمجھ کر اکتفاء کرنا
امت کی (مذہبی ہو یا سیاسی، علمی ہو یا سماجی) قیادت نے جب اپنے محدود علم کو علم کل اور عقل کل سمجھنا شروع کیا اور اس طرح وہ ان تمام علوم وفنون سے بے نیاز ہوگئی جو اس کو زیادہ بہتر طریقہ پر قیادت کرنے اور رہنمائی کرنے کی قوت دے سکتی تھی، یہ فکر جب قیادت پر طاری ہوئی تو وہ بتدریج محدود سے محدود طریقوں پر اکتفا کرنے لگی، اس نے سیکھنے سکھانے، پڑھنے پڑھانے، تعلیم وتعلم کے ایسے پیمانے اختیار کرلیے کہ وہ سمٹتی چلی گئی۔اس نے پھر علوم کی تقسیم در تقسیم کی جس کے نتیجہ میں وسیع حصے اس کی نظروں سے اوجھل ہونے لگے، وہ اپنے محدود ذخیرہ کو سب کچھ سمجھنے لگی، اور اسی پر اکتفا کرکے اس نے دیگر تمام چیزوں کو دیکھنا شروع کیا ، جو فکری انحطاط کا باعث بنا۔
فکری اثاثہ سے استفادہ نہ کرنا
امت کا فکری اثاثہ مشرق ومغرب کے کتب خانوں میں مطبوعات ومخطوطات کی صورت میں بکھرا پڑا ہے لیکن اس سے استفادہ نہ کرنے او راس سے واقف وآگاہ نہ ہونے اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرنے کا رجحان، امت کے فکری انحطاط میں اضافہ کا باعث بنا، کیونکہ صدیوں پر محیط عظیم فکری اثاثہ یکساں حالت میں بند پڑا رہا اور علم وتحقیق کا دعوی کرنے والوں کی نگاہوں سے مخفی رہا۔فکریات پر مبنی سرمایہ سے بے توجہی نے فکری جمود کو دوچند کردیا۔
کلیت پسندی سے جزئیت پسندی کی طرف سفر
امت اور افراد امت کی فکر تو آفاقی ہونی چاہئے لیکن اس آفاقیت کو نقصان اس وجہ سے پہنچا کہ اس کے اصحاب علم جزئیت پسندی کی طرف مائل ہوگئے، کلیت پسندی سے اجتناب نے ان کو بتدریج جزئیت پسندی کے اس مرغولہ میں داخل کردیا جس میں وہ الجھے رہے ، ان کا یہ سفرِ معکوس ان کو فکری انحطاط سے قریب کرتا چلا گیا ۔
تحقیق و ریسرچ سے مکمل لاپرواہی
تحقیق وریسرچ کی جانب سے غفلت ولاپرواہی نے جمود کی تاریکی میں مزید اضافہ کیا ، کیونکہ جب تحقیق وبحث کا سلسلہ کمزور یا بند ہوگیا یا ا س کے معیار میں پستی وگراوٹ آئی تو پھر وہ کھڑکیاں نہیں کھل سکیں جن سے نئی ہوا آتی اور عقل کی روشنی میں اضافہ کرتی، فکر کو تازگی بخشتی، علوم وفنون کے تمام اصناف میں تحقیق کے فقدان نے امت کو قوت حاصل کرنے سے روکا یہاں تک کہ وہ فکری انحطاط کی وجہ سے مغلوبیت کا شکار ہوتی چلی گئی۔
تقلید میں شدت اور اجتہاد سے اجتناب
غلو وشدت پسندی کے رجحان نے ایک نئی مصیبت کھڑی کی، جب آراء کے اختلاف کی بنا پر اصحاب علم ایک دوسرے سے ٹکرانے اور دعوت دین کے بجائے مسلکی توضیح وتشریح میں زیادہ قوت صرف کرنے لگے، انہوں نے تمام مسائل کا حل اپنے اسی موقف میں تصور کیا جسے انہو ں نے اختیار کیا، امت میں اس متشددانہ سوچ نے کھلے پن اور فکری کشادگی کا راستہ بند کردیا، اسی کے ساتھ ایک دوسرا پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ اجتہاد سے اجتناب کیا جانے لگا، بلکہ اسے ممنوع بھی قرار دے دیا گیا، اور اس کے لئے مختلف انداز کی تاویلیں بھی کی گئیں ، اجتہاد کا مطالبہ کرنے والوں کو مطعون کیا گیا اور ان کو متجددین کا خطاب دے دیاگیا، اس رویہ نے بھی فکری انحطاط کی راہ ہموار کی۔
نظریاتی دہشت گردی
تشریحِ نصوص کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے علمی اختلافات بالخصوص فقہی اجتہادات کے اختلافات نے اس وقت نئی شکل اختیار کی جب اختلاف رائے کے نتیجہ میں مسلکی شدت پیدا ہوئی، دوسرے مسلک کو کمزور، بے بنیاد، غیرافضل ثابت کرنے کی کوشش کی جانے لگی پھر اس سے آگے بڑھ کر مسلک کی بنیاد پر جنگ وقتال کی نوبت آگئی۔ رد وقدح میں کتابیں لکھی جانے لگیں۔مسلک کی بنیاد پر مساجد ومدارس وجود میں آگئے، مسلک کی بنیاد پر تعلیمی نصاب تیار ہونے لگا۔ اسی طرز پر مفتی وقاضی فروغِ مسلک کے لیے تیار کیے جانے لگے۔ قیام مدارس کا مسابقہ شروع ہوگیا۔ مسلکی تشدد کے ذریعہ فکر کی آزادی سلب کرلی گئی، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور مغلوب کرنے کی کوشش کی گئی۔
تربیتی و تعلیمی نظام کا خلل
فکری انحطاط وجمود کے قضیہ میں اصل بنیادی حصہ اس تربیتی وتعلیمی نظام کا ہے جس سے خلل واقع ہوا ہے، تہذیبی وتمدنی ارتقا کا تقاضا اور عصری ضروریات ومسائل کا مطالبہ تو یہ تھا کہ تعلیمی نظام ونصاب کا جائزہ لیا جاتا اور اس میں حاصل ہونے والے نتائج اور پائی جانے والی کمزوریوں اور نقائص کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری تبدیلیاں کی جاتیں لیکن نہ صرف برصغیر ہندوپاک میں بلکہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے دینی مدارس نے اپنے تعلیمی نظام کا معروضی جائزہ نہیں لیا اور نظام تربیت کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے وہ ایک ایسا سانچہ بن گیا جس سے ڈھلنے والی عقلیں اور تیار ہونے والے ذہن ’’فکر محدود‘‘ کے حامل رہے۔ ہندوستان میں یہ مسئلہ زیادہ اہم ہے۔ یہاں کے مدارس میں پائے جانے والے مختلف نصاب تعلیم، مختلف درسی کتابیں، مختلف طریقۂ امتحان، غیرتربیت یافتہ اساتذہ کی کثرت اور ایک خاص رنگ پر ڈھالنے کی جد وجہد جیسے مقاصد نے فکری انحطاط میں اضافہ کیا۔
علماء کا پاپائیت کے رنگ میں رنگنا
روشن ضمیر علماء کی فکر اور ان کا تقویٰ ان سے دین کی خدمت لیتا ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیادار علماء، درباری علماء، سرکاری علماء سے فکری جمود میں اضافہ ہوتا ہے۔ ضرورتوں نے ان کو خاص انداز، خاص وضع قطع اختیار کرنے پر مجبور کررکھا ہے۔ کبھی وہ چاہتے ہوئے بھی کلمۂ حق نہیں کہہ پاتے اور نہ لکھ پاتے ہیں۔ مصالح کی مجبوریاں حائل ہوتی ہیں۔ کبھی یہ جذبہ ہوتا ہے کہ ہرمحاذ اور ہرسطح پر ان کی نمائندگی ہو۔
(۲) فکری عروج کے راستے:
غور و فکر میں آزادی
آیات قرآنی میں جس تفکر کی دعوت دی گئی ہے وہ ایسا خالص عقلی عمل ہے، جس میں قوت عقلیہ کا استعمال ہوتا ہو، اور اسباب و مسببات کی کنہ و کیفیت کی تلاش ہوتی ہو، عقل اگر آزاد نہ ہو تو پھر اس کی روشنی میں حقائق منکشف نہیں ہوسکتے۔ غور و فکر کے اندر گہرائی وگیرائی جتنی زیادہ ہوگی اسی قدر پردے اٹھتے جائیں گے، جانبدارانہ غور وفکر، یا نشان زد دائرہ میں غور وفکر سے صحیح نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
مطالعات و مشاہدات کی کشادگی
مطالعہ اگر کسی خاص سوچ اور ذہن کے ساتھ کیا جائے تو پھر عقل ان پہلوؤں کا ادراک نہیں کرسکتی جس کا اسے ادراک کرنا چاہئے، مطالعہ کا رُخاپن، اس کی تنگی ومحدودیت، اس میں معروضیت کا فقدان، علم کی اس وسعت وکشادگی میں داخل ہونے سے روکتا ہے جو مطالعہ کے نتیجہ میں انسان کو حاصل ہوتی ہے، مطالعہ ومشاہدہ کی جتنی بھی قسمیں ہیں وہ سب انسانی فکر کو کشادگی عطا کرتی ہیں اور خود بخود اس کی فکر ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہوتی چلی جاتی ہے، علم کے گہرے سمندر میں پنہاں قیمتی موتیوں کو نکالنے کے لئے ایسے ہمہ جہت مطالعہ ومشاہدہ کی ضرورت ہے جس سے عقلی قوت روشن ہوسکے۔
عقلی قوت کے استعمال کی آزادی
اللہ تعالی نے انسان کو جو عقل عطا کی اس میں بے شمار اسرار پوشیدہ ہیں تو جب انسان اپنی عقل کا استعمال آزادی کے ساتھ کرتا ہے تو عقلی قوت کو جلا ملتی ہے اور وہ نئے خطوط پر تیزی سے سوچنے لگتی ہے ، عقلی قوت اگر آزادی کے ساتھ غور وفکر نہ کرے تو وہ انحطاط کے عالم میں آکر روبہ زوال ہونے لگتی ہے ، عقل جب آزاد ہو اور اس کی قوت کا صحیح سمت میں استعمال ہو اور وہ بلندی کی طرف مائل ہو تو پھر حیرت انگیز نتائج سامنے آتے ہیں اور علوم ومعارف اور افکار کے ذخیرہ میں اضافہ ہوتا ہے، مگر عقل پر بندش اور اس کو زنگ آلود بنانے کی کوشش اسے گہری نیند سلا دیتی ہے۔
انفس و آفاق میں غور کی آزادی
آفاق وانفس میں غور کرکے ان چیزوں کو تلاش کرنا جو انسان کے لئے مفید ہیں جس سے تمدنی ترقی میں تیز رفتاری آئے ایک مثبت جدوجہد ہے ، آفاق وانفس میں غور کرنے سے وہ چیزیں بھی سامنے آتی ہیں جو قدرت الٰہیہ کی صناعی کا حیرت انگیز نمونہ ہیں اور اس کے نتیجہ میں انسان حق وصداقت سے قریب تر ہوتا ہے، لیکن یہ بھی اسی وقت ممکن ہے جب آزادی کے ساتھ ایک بہتر طریقہ کار اختیار کرکے آفاق وانفس میں پنہاں نشانیوں پر غور کیا جائے ، فکری انہماک اور نتائج اخذ کرنے کی خوبی انسان کو بہت سے حقائق بیان کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
محدودیت وروایت پسندی سے دوری
اگر قصداً کسی متعین راہ پر اور متعین حد تک چلنے اور دیکھنے کی عادت ڈال لی جائے تو اس سے یقیناًبقیہ چیزیں اوجھل رہیں گی ، یہ انسانی فطرت اور اس کو عطا کردہ صلاحیت کے خلاف ہے، ایسی محدودیت یا ایسی روایت پسندی جو انسان کو غوروفکر کرنے سے روک دے اور تلاش وجستجو کی راہ میں رکاوٹ بنے وہ یقیناًمضر اور مذموم ہے، اس لیے پست ذہنی اور تنگ نظری علم کے افلاک میں سیر کرنے سے روکتی ہے۔
قرأت و حی اور قرأت کون پر عمل
نصوص کو اس طرح پڑھنا کہ اس کی روشنی میں کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیاں نظروں کے سامنے آجائیں جس طرح اسکرین پر تصویریں سامنے آجاتی ہیں، اسی طرح انسانی عقل کے سامنے رب کی تخلیق کردہ عظیم کائنات میں بکھری وہ تمام نعمتیں ہویدا ہوجائیں جو انسان کے لئے مسخر کی گئی ہیں۔ان چیزوں کی تلاش اور ان کو نظریاتی وتجرباتی عمل سے گزارنے کی سعی انسان کو ایک نیا جوش ، ولولہ اور ہمت اور ایک نئی فکری جہت عطا کرے گی۔
تنقید و احتساب کی آزادی
افکار وآراء کا علمی نقد ومحاکمہ اسے ترقی بخشتا ہے، اگر قومیں اور تہذیبیں اپنی تاریخ کا تنقیدی جائزہ نہیں لیتیں اور اپنے سرمایہ کو تنقید کے عمل سے نہیں گزارتیں تو وہ نئی راہیں تلاش نہیں کرپاتیں اس لئے تنقید واحتساب کی آزادی کے ذریعہ ہی فکر کی نئی تعمیر ممکن ہے۔
تلاش و جستجو اور ابتکار و ابداع کا رجحان
اگر انسان کے اندر نئی چیزوں کی تلاش کا داعیہ اور رجحان نہ ہو تو پھر وہ اپنے علم وفکر میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتا، دنیا کی تہذیبیں اسی وقت ترقی کرسکیں جب انہوں نے اپنے گرد وپیش پر نظر ڈالی اور اپنے جستجو کے عمل کو تیز کیا اور تلاش کے مسلسل عمل نے ان کو ترقی کے کسی نہ کسی درجہ تک پہنچایا، دنیا کی تہذیبیں جو ختم ہوچکیں، اور جو تہذیبیں باقی ہیں ان کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انہوں نے شب وروز ان چیزوں کی تلاش جاری رکھی جس سے وہ آگے بڑھ سکیں، پھیل سکیں اور عروج وترقی حاصل کرسکیں، یہی نہیں بلکہ ہر انسان اور انسانوں کے گروہوں میں ایک خوبی اور پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کسی نئی چیز کو بنانا اور نئی چیز کو پیش کرنا، ایسی چیز جس میں انوکھا پن اور ندرت ہو ، اس رجحان کے تحت تہذیبوں اور اقوام نے ایسی ایسی حیرت انگیز چیزیں تیار کیں جن کو دیکھنے والا عش عش کراٹھتا ہے ۔
(۳) موجودہ فکری حالت کی تبدیلی کے طریقے:
فلسفۂ تغییر کی روشنی میں سب سے پہلے فکر کی تبدیلی کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے اور حسب ذیل طریقوں کے ذریعہ صورتحال تبدیل کرنی ہوگی:
فکر کا اسلامائزیشن
آزاد انسانی فکر کو اسلامی قالب میں ڈھالنا ایک محنت طلب کام ہے، لیکن فکر کو اسلامی بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے کچھ خاص خطوط پر چلایا جائے، ایسے خطوط جن کی تعیین قرآن و سنت سے ہوتی ہے۔
فکری منہج کی اصلاح
غور وفکر کے جو طریقے اور انداز مختلف سطح پر رائج ہیں ان کی درستگی ضروری ہے تاکہ وہ تعمیری رخ اختیار کرسکیں اور ان کے اندر امتیازی وصف پیدا ہوسکے، غلو، فکری انحراف، فکری تشدد، سطحیت اور یک رُخا پن سے فکر کو پاک و صاف کرنے کی طرف پیش قدمی ایک اصلاحی کوشش مانی جائے گی۔
قرآن اور قرآنی علوم سے شغف و تعلق میں اضافہ
جب تک کہ قرآن سے امت کا وہ تعلق قائم نہ ہوگا جو مطلوب ہے اور جس کی دعوت دی گئی ہے، اس وقت تک امت کے درمیان وہ فکری ترقی ظاہر نہ ہوگی جس کے نتیجہ میں اسلامی تہذیب وتمدن ایک بار پھر پورے جلال وجمال کے ساتھ ظاہر ہوسکے۔ قرآنی علوم اور سنتی علوم اور دیگر علوم اسلامیہ کی تشریح وتوضیح نیز تفہیم وتبیین کا استحقاق اصلاً ان لوگوں کو ہوگا جو ان علوم سے گہرا تعلق رکھتے ہوں اور ان کی فکر سلیم ہواور قلب بھی سلیم ہو، کیونکہ اگر قلب میں کجی ہے یا وہ بیمار ہے یا ہویٰ و ہوس کا شکار ہے تو پھر بیمار ذہن علوم اسلامیہ کی صحیح تشریح نہیں کرسکتے۔
امتی فکر کی ترویج
امت کے درمیان ایک وسیع امت کا تصور اس طرح پیش کرنا جس سے کہ امت میں وحدت پیدا ہوسکے اور مجموعی طور پر مختلف اختلافات کے باوجود ایک امت کا ایسا تصور سامنے آسکے جو وسیع ترین بنیادوں پر قائم ہو، توحید، رسالت، آخرت کا تصور یا بنیادی ارکان کا تصور یا ایسی اساسیات کی ترکیب جس کی بنیاد پر امت ایک دوسرے کے ساتھ مل کر متحدہ امت بن سکے۔ امت کو خانوں میں بانٹنے، مسالک میں تقسیم کرنے کی کوشش کے علی الرغم وحدت امت کی فکر زیادہ اچھی اور قابل قبول فکر ہے۔
اقدار پر مبنی انسانیت دوستی اوروحدت
اعلیٰ اقدار پر مبنی انسانیت دوستی کا منہج موجودہ دور میں ہی نہیں بلکہ ہر دور میں مفید اور صالح نقطۂ نظر ہے جو نافعیت پر مبنی ہے، اگر سماجی انصاف اور حق شناسی نیک کاموں میں تعاون ، ظلم کے خلاف جدوجہد جیسے اصولوں کو اختیار کیا جائے اور پھر تمام انسانوں کے ساتھ بہتر انسانی بنیادوں پر معاملہ کیا جائے تو یہ طرز زیادہ بہتر ہوگا، اور ہر خطہ میں ایک نئی روشنی پیدا کرے گا۔
تعلیمی اصلاحات (اصلاح نظام و نصاب)
فکر کی تبدیلی کے لیے اور اس کی ترقی کے لئے تعلیمی اور تربیتی نظام میں اصلاح ضروری ہے، اسی طرح امت کی ترقی اور اس کی فکری تبدیلی کے لیے بھی رائج نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں جوہری اور بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
علمی کاموں میں ترجیحات کی از سر نو تعیین
تمام علمی کاموں میں ترجیحات کی تعیین ضروری ہے، یہ کام اہل علم کے لیے مشکل تو نہیں ہے بشرطیکہ فکر روشن ہو اور دل میں کشادگی ہو، نیز تحقیق وجستجو کا جذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا ہو،جب تک بحث وتحقیق میں نئی ترجیحات طے نہیں کی جائیں گی اس وقت تک بحث وتحقیق سے وہ نتیجے یقینابرآمد نہیں ہو پائیں گے جس سے فکر اسلامی بلندی کی طر ف جاسکے۔
ذہین ترین عبقری اہل علم کی قوت و صف بندی
ہر خطے اور ملک میں عبقری صلاحیتوں کے حامل، فکری اعتبار سے ممتاز ذہین افراد کی تلاش اور ان کو مجتمع کرنے کی کوشش ایک اہم قدم ہو سکتا ہے جس سے فکری مسائل پر زیادہ بہتر انداز سے تبادلہ خیال اور گفتگو ہوسکے، مگر یہ کام مفید اسی وقت ہوگا جب اس میں تسلسل ہو اور ذہانت وفطانت کے ساتھ یہ کام انجام دیا جائے۔
تہذیبی و تمدنی ارتقائی منصوبوں میں شرکت ووسعت
دنیا کے ہر ملک میں جو ترقیاتی منصوبے زیر عمل اور زیر تنفیذ ہیں ان میں شرکت اور اس کو وسعت دینے کی کوشش ایک ایسا قدم ہوسکتا ہے جس سے مختلف اقوام وملل اور انسانی طبقات کے درمیان فکری ہم آہنگی پیدا ہوسکے بشرطیکہ یہ ترقیاتی منصوبے تمدن کے فروغ کا باعث بن رہے ہوں۔
نئے مسائل کے حل کے لیے اجتہاد
ڈاکٹر طٰہٰ جابر علوانی نے لکھا ہے کہ اس دور کی فقہ اکیڈمیاں بھی اجتہاد نہیں کر رہی ہیں بلکہ وہ قدیم اقوال ہی کو نئے الفاظ ولباس میں پیش کر رہی ہیں اور وہ اجتہاد سے گریز کر رہی ہیں،جبکہ عصر حاضر کے نئے مسائل اجتہاد کے متقاضی ہیں۔
ضرورت ہے؛
* سیاسی انقلاب و تبدیلی کے بجائے خدمت ودعوت الی الخیرکی۔
* تفکیر وتفسیق کے بجائے ادب اختلاف کی رعایت اور تعاون باہمی کی۔
* سائنسی علوم سے دلچسپی کی۔
* ہندوستان جیسے ممالک میں میثاق وحدت پر عمل اور اکثریت کے ساتھ بہتر روابط کے لئے مذاکرات کی۔

مولانا امین عثمانی، سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی، نئی دہلی

جون 2015

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں