فروغِ وادیٗ سینا سے پھر غبارراہ ہوئے کیونکر

ایڈمن

(جویریہ اِرم ، نظام آباد)

تہذیب اپنی اصل کے اعتبار سے عربی لفظ ہے اور وضع کے لحاظ سے اس کا استعمال اندارائن ( ایک قسم کا کڑوا چاول) سے رس نکال کر اس کی تلخی دور کرنے اور کھانے کے قابل بنانے کے لئے ہوتا ہے۔ عربی زبان سے ہی مستعار لے کر اردو میں استعمال شروع ہوا۔ اصلاح ،پاک کرنا ، صفائی، آراستگی ، ذہنی ترقی جو زندگی کے چلن میں کارفرما ہو، شائستگی ، ادب و تمیز ، طرز معاشرت رہنے سہنے کا انداز وغیرہ تہذیب کہلاتی ہے ۔ شخصیت سازی یا شخصیت کی تعمیر جسمانی ساخت، ذہنی صلاحیتوں ، علمی سطح ، انسانی فکر، شکل و صورت وغیرہ ان سب کو مناسب حد تک ترقی دینے کا نام ہے۔قوت برداشت ، ذہانت ، ذہنی پختگی ، احساس ذمہ داری ، قانون کی پاسداری ، قوت ارادی ، خود اعتمادی اور تخلیقی و قائدانہ صلاحیتیں یہ سب بھی شخصیت کی تعمیر و ترقی کے لئے ضروری صفات ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں انسانی سماجوں میں پائے جانے والی اچھائیاں برائیاں ، رسوم و رواج ، روایات اس خطہ کی تہذیب کو بتاتی ہے بلکہ افراد کی شخصیت پر جس معاشرہ و سماج کا وہ حصہ ہوتا ہے وہاں کی روایات ، تہذیب ا ن افراد کی شخصیت پر گہرا اثر رکھتی ہے۔ اسلام کے عقیدہ لا الہ اللہ و عقیدہ آخرت نے بھی ہماری شخصیتوں پر اثر ڈالا ہے۔ مسلمانوں کے سونچنے ، سمجھنے ، تگ ودو، دلچسپیاں ان عقائد کا گہرا اثر اپنے اندر رکھتیں ہیں۔
نبی کریمؐ نے صحابہ اکرام کو لے کر جو تہذیب اور معاشرہ کی بنیاد ڈالی وہ بے نظیر ہے ان لوگوں کی شخصیتوں کی ایسی تعمیر کی کہ کایا ہی پلٹ گئی جس کو علامہ اقبالؒ نے بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ’’غبار راہ کو بخشا فروغ وادیٔ سینا ؎‘‘۔ قبائلی معاشرے میں جمہوری اور شورائی نظام کا قیام ، حکومت کے ہر شعبہ میں مشاورت کی روح پھونک دینا بڑا کارنامہ تھا، تمام شہریوں کے بنیادی حقوق بلا لحاظ مذہب ، نسل حفاظت کی جاتی تھی ان کی شخصی اور سیاسی آزادی کا تحفظ کیا۔ ایک فلاحی ریاست کا تصور دیا ، ایک معیاری خادم خلق ریاست جس کا مقصد عوام کی حقیقی فلاح و بہبود اور ان کے لئے آسانیوں کی فراہمی تھا، ریاست کی جانب سے یتیموں ، بیوائوں ، لاوارث ، مستحقوں ، ناداروں اور محتاجوں کو گھر بیٹھے ان کے مقررہ وظائف پہچائے جاتے، اس دور کی خوبیوں اور برکتوں کا سرچسمہ رعایااوحکمرانوں کے بے داغ اور مثالی کردار تھا۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ میںذمہ داری کا احسا س اتنا تھا کہ گھنٹوں رویا کرتے تھے اورکہا کرتے تھے کہ کاش میں پتھر ہوتا مگر امارت کے بارسے آزاد ہوتا، خلیفہ بننے کے بعد بھی مدینہ کی بیوائوں کا سودا لا دیتے تھے ، وفات کے وقت اپنا مکان بیچ کر ساری رقم بیت المال میں جمع کروادی ۔

حضرت عمر جب خلیفہ بنے ، آٹے کی بوری خود پیٹھ پر اٹھا کر محتاجوں تک پہچاکے آتے۔ آپ کا مقولہ تھا کہ عمدہ اخلاق کی تعلیم باتوں سے نہ دی جاتی بلکہ عمل سے ۔ حضرت عثمانؓ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی ذاتی دولت بھی بے دریغ خرچ کرتے تھے، جب باغیوں نے آپ کے مکان کا محاصرہ کرلیا تو آپ کے ساتھیوں نے باغیوں سے جنگ کی اجازت چاہی لیکن حضرت عثمانؓ نے صاف انکار کردیا کہ اس سے مسلمانوں میں خونریزی ہوگی اور اسی خونریزی کو بچاتے بچاتے خود شہید ہوگئے نا صرف امرأ بلکہ عام لوگوں کا بھی یہ عالم کے ڈھونڈنے پر کوئی نکما، بے غیرت ، اوباش نظر نہ آئے۔ لوگ اپنی غلطیوں پر خود آکر اعتراف جرم کر کے سزائیں حاصل کرتے، سیاسی ، ملکی اور شرعی معاملات میں مرد و خواتین کو امرأ سے سوال کرنے کی آزادی حاصل تھی نہ انھیں کوئی troll کرسکتا تھا نہ ہر آساں، اپنی ریاست تو کیا دنیا کے کسی کونے سے کوئی مظلوم پکارے تو مدد کی جاتی۔ آج دنیا ایک مظلوم قوم روہنگیا پر ہورہی بربریت کا تماشہ بڑے آرام سے دیکھ رہی ہے ، آپؐ کی وفات کے بعد بھی دنیا نے دیکھا کہ صحابہ اکرام رضوان اللہ جہاں بینی ، جہاں داری اور جہاں گیری کے فن کو تقویت دیتے رہے۔

کھویا نہ جا صنم جدۂ کائنات میں محفل گذار گرمیٔ محفل نہ کر قبول ؎

علامہ اقبالؒ کا یہ شعر اس دور کی اچھی عکاسی کرتا ہے بعد کے ادوار کے مسلمانوں کا المیہ یہ رہا کہ انھوں نے دنیا میں کھو کر اپنے فرض منصبی کو بھلا دیا ور جہاں ان کا کام لوگوں کو متاثر کرنا تھا اپنی سیرت و کردار ، تہذیب روایات سے وہاں الٹا انھوں نے محفل کی گرمی قبول لی اور خود دوسری تہذیبوں روایات کو اسلامی تہذیب و تمدن کے ساتھ خلط ملط کردیا۔ جواہر لعل نہرو لکھتے ہیں کہ جب پہلے مسلمان یہاں آئے تو ان کے کردار، طریق زندگی سے ہندوستانی عوام متاثر ہوئے ، یہاں ذات پات ، حسب نسب ، نسل ذات پات ، طبقاتی کشمکس نہ تھی جو کہ ہندوستان کا بڑا مسئلہ تھا جس سے یہاں کی عوام بہت متاثر ہوئیں اور ان میں اصلاح کی تحریکیں چلنے لگیں ، کپڑے پہننے اوڑھنے ، کھانے پینے کے طریقے اور عادات سے بھی بڑے متاثر ہوئے۔دوسری طرف مسلمانوں نے یہاں کے رسوم و رواج کو اپنانا شروع کردیا۔ شادی بیاہ کی چھوٹی بڑی تقریبات کو ہی دیکھ لیں توہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ اسلامی روایات کا حصہ کبھی نہ تھی۔

آج ہمارے لئے یہ سوال اہم ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی آبادی ہونے کے باوجود صحابہ اکرام کی طرح عائلی معاملات سے لے کر سیاسی ، مملکتی معاملات ، معاشرتی ، معاشی ، اقتصادی معاملات میں ان کی سمجھ بوجھ بصیرت ، ہوش مندی ، دیانت داری کی نظیر ہم آج نہیں پیش کرسکتے ہیں ۔ اتنی بڑی تعداد میں کمال درجہ کے صاحب بصیرت ، بلند کردار شخصیات قرآن حکیم اور رسولؐ کی تعلیمات اور صحابہ اکرام کا اسوہ ہمارے سامنے ہونے کے باوجود کیا آپ دنیا کو دے پائے ہیں یا مستقبل قریب میں دے سکتے ہیں ؟ جواب مایوس کن اور وجوہات معیوب ترین۔

جس طرح اس دور کی خواتین کی نبیؐ نے تربیت فرمائی تھی اور جس طرح کی اعلیٰ باکمال خوواتین نتیجتاً سامنے آئیں تھیں اس کا تصور بھی ہمارے مشرق زدہ اسلامی معاشرے میں ممکن ہے ؟ حضرت عائشہؓ کو نبیؐ کی محض 9 سال کی رفاقت ملی اور آپؓ نے اپنے آپ کو با کمال شخصیت میں تبدیل کرلیا کہ علم حدیث ، عربی لٹریچر ، عرب تاریخ ، طب ، ریاضی ، شاعری ، دینی و شرعی معاملات ، تحقیق ، قانون ، جائیداد وراثت کی تقسیم غرض و علم کا مینارہ بن گئیں۔ اپنے دور کی احادیث کی بہت ہی Reliable sourceمانی جاتی تھیں۔ نبیؐ کے وفات کے بعد آپؐ نے 50 سال زندگی پائی اور ساری عمر آپ نے اسلام اور خواتین کی تعلیم و اٹھان کا کام کیاخود اپنے گھر کو درس گاہ میں تبدیل کردیا۔جہاں عورتوںکے ساتھ مردوں کو بھی ایک پردہ کی آڑ میں تعلیم دیتی تھیں۔ آپ نے صرف نبیؐ کے کہے لفظ لفظ کو یاد رکھ کر ہی اپنی ذہانت کا نمونہ نہیں پیش کیا بلکہ آپ کی سیاسی بصیرت بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپؓ عوامی مقامات پر تقاریر کیں ، خلفاء راشدین کے زمانے میں آپ نے سیاسی معاملات میں ان کو اپنی رائے دی ، جنگوں میں حصہ لیا، لوگوں کے اندر سماجی و سیاسی ،معاشرتی شعور بیدار کرنے میں آپؓ کا بڑا رول رہا، حضرت ام سلمہ نے نبیؐ کو صلح حدیبیہ جیسے اہم موقع پر سیاسی مشیر کی حیثیت سے معاونت کی ، نہ صرف یہ بلکہ کاروبار ، مارکیٹ، معیشت کی سمجھ بوجھ رکھنے والی بھی بے شمار خواتین ہوا کرتیں تھیں بلکہ عمرؓ کے زمانے میں انھیں حکومتی عہدوں پر بھی فائز کیا گیا جہاں وہ مارکیٹ میں آنے والی اشیاء کی quality کو جانچنے کا کام وغیرہ کرتیں تھیں۔

اُم سلیم نے اپنے بیٹے کو شوہر کی غیر موجودگی میں بڑا جید عالم دین بنایا یہ بات ہم سب جانتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں سونچتے ہیں کہ رشتہ داروں اور سسرال والوں کی غیر موجودگی میں ایک تنہا عورت نے اپنے اور بچے کی کفالت کس طرح کی۔ اس واقعہ سے اُس دور کی خواتین کی Political angency کا پتہ بھی چلتا ہے۔
کیا آج مردوں اور عورتوں کی اس نہج پر تربیت کا عام طور پر کوئی قابلِ ذکر واقعہ ہمیں ملتا ہے بلکہ ہمارے گھروں ، مدرسوں ، اسکولوں ، کالجوں اور تنظیموں میں اس طرح کی خصوصی طور پر خواتین کی ایسی شخصیت سازی کی کوشش ہورہی ہے؟ ہمارے یہاں ایک جامد تصور ہے نمازوں کی پابندی ، حجاب ، پردہ ، روزہ کے ساتھ میں جھوٹ ، خود غرضی ، انانیت ، تعصب ، عصبیت ، تنگ نظری ، حق تلفی سبھی کچھ جائز ۔بلکہ میںنے کیٗ لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ حضرت عائشہ کا امتیازہے کہ آپ نبی صعلم کے نکاح میں آنیوالی بانکارہ و سب سے کم عمر تھی،جبکہ ٓاپ کا دنیا میں اسلامی نظام زندگی کے نفاذ میں بہت بڑا رول ادا کرنااور اپنی پوری زندگی لگا دیناسب سے امتیازی وصف ہے۔

ہمارا معاشرہ تو لوگوں کے لئے اسوہ ہونا چاہئے تھا جہاں مرد و خواتین کے رول ان کے حقوق فرائض متعین کردہ حدوں کے مطابق ہوتے ، امن سکون و اطمینان کی آماجگاہ ہوتے گھر کے درو دیوار مگر حال یہ کہ مشقت سے جو پرسنل لاء ہم نے حکومت سے منوایا تھا آج اتنے عشرے گزر گئے اور ہمارے معاشرہ میں اس کی برکات خال خال نظر آتیں ہیں ، گو کہ ہمارا معاشرہ اب بھی نسبتاً بہتر ہے لیکن قابل تقلید نمونہ نہیں ہے نہ مطلوبہ صفات کا حامل ہے جو اللہ ہم سے چاہتے ہیں۔

ہمارے پاس بہترین نظام زندگی، اصول و ضوابط ضرورہیں مگرمسئلہ آمادگی کا ہے، نفس کی آسودگی کا ہے، ہمارے دلوں کے منیب و سلیم ہونے کا ہے۔اس مسئلہ کا حل یہی ہے کہ دوبارہ شخصیت سازی اور تعمیر سیرت کا کام شروع کرنا ہوگا۔ شخصیت کی ارتقاء کے سارے آزمودہ نسخے ہمیں سیرت رسولؐ سے ملتے ہیں ، بچوں اور نوجوان لڑکے لڑکیوں کی تربیت اسی نہج پر کرنی ہوگی۔بہ ضابطہ نظام قائم کرنا ہوگا ۔ Personalit Development کے مغرب و مشرق میں رائج ادارے ہمارے لئے سود مند نہیں ہے ، مسلمانوں کے اندر کام کرنے والے انتہائی کم خاب کمیاب ہیں ، خواتین کے لئے تو ندارد ہی ہیں ۔ سیرت سے ہمیں نفس کی پاکیزگی سے لے کر نفسیاتی مسائل تنائو، دل کی بے سکونی کے حل ملتے ہیں تو ساتھ ہی اخلاقیات کو سنوارنے کردار کی بلندی ، شخصیت کے ارتقاء کے لئے نیکی سے وابستگی، حقیقت پسندی ، شکر گزاری ، توکل ، نرم دلی ، دیانت داری ، وسعت نظری تعمیری طرز فکر ، حریت فکر ، اعتدال پسندی اور علم وامن جیسے اعلیٰ صفات کو پروان چڑھانے کی تربیت دیتا ہے اور بُری صفات جیسے تکبر ، حسد ، تعصب ، ریا کاری ، دنیا پرستی ، فرقہ واریت ، فکری جمود ، منافقت ، ظاہر پرستی ، کرپشن ، بدگمانی ، غیبت ، اذیت رسانی ، انتہا پسندی ، فحاشی اور حسد وغیرہ کی سختی سے حوصلہ شکنی کرتاہے۔ خصوصاً آج کے دور میں نفسیاتی مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں ایسے میں قرآنی تعلیمات میں اور احادیث میں غصہ تنائو وغیرہ کے حل موجود ہیں۔ سائنس نے بھی اس میدان میں قابل قدر ترقی کی ہے۔ ان سب چیزوں کے امتزاج کے ساتھ ہم ایک بہترین شخصیت سازی کے جزوقتی یا ہمہ وقتی ادارے قائم کرسکتے ہیں اور نہ صرف مسلمانوں کے مسائل حل کرسکتے ہیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی عملی نمونہ بن کر دنیا کو اس کے مسائل سے نکال سکتے ہیں۔

مارچ 2018

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں