فرضی انکاؤنٹرس کا مسئلہ

ایڈمن

سابق چیف جسٹس آف انڈیا آرایم لوڈھا کی عدالتی بنچ نے اپنے حالیہ فیصلے میں جبکہ وہ پولیس کے ذریعے کئے جانے والے فرضی انکاؤنٹرس کے خلاف پیوپلس یونین فار سول لیبرٹیس کی درخواست پرآخری فیصلہ سنارہے تھے ملک کے عوام اور ان کو حاصل شدہ دستوری حقوق کے تحفظ کی تاریخ میں ایک سنہری باب کا اضافہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ فروری ۱۹۹۹کی تین قانونی درخواستوں پر پندرہ برسوں کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد ملک کی سب سے اعلی عدالت کی معزز بنچ اس امر کو تسلیم کرتے ہوئے کہ مسئلہ نہایت اہم اور تشویشناک ہے، بہرحال کسی فیصلے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ پی یو سی ایل کی یہ پیٹیشن ۱۹۹۵ سے ۱۹۹۷ کے درمیان مہاراشٹر میں ۹۹؍ پولیس انکاؤنٹرس میں مارے گئے تقریبا ۱۳۵؍ افراد کی اموات سے متعلق تھی۔
۲۳؍ستمبر ۲۰۱۴ کو عدالت عالیہ نے چیف جسٹس آف انڈیا کی صدارت میں۳۲؍ صفحات پر مبنی اپنا فیصلہ ملک کی عوام کو پیش کیا، فیصلے میں بعض نہایت اہم امور پر کچھ بنیادی اصول و ضوابط قلم بند کئے گئے ہیں، جو یک گونہ اہمیت کے حامل ہیں، حالانکہ یہی اصول وضوابط نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے چیئرمین کی حیثیت سے جناب جی بی ماتھر سابق جج سپریم کورٹ آف انڈیا نے ۱۲؍ مئی ۲۰۱۰ ؁ء کو وزرائے اعلی کو بھیجے گئے سرکلر میں تفصیل سے تحریر کیے تھے،ضروری ہے کہ ان کو یہاں پیش کردیا جائے:
۱) پولیس کو جب بھی کسی کرمنل (Criminal) کی آمدورفت یا سرگرمیوں کی کوئی خفیہ اطلاع ملے وہ اس کوکسی بھی عملی پیش قدمی سے قبل تحریری یا الیکٹرانک شکل میں (کیس ڈائری یا جہاں ممکن ہو) تحریر کرے، مکمل تفصیلات تحریر کرناضروری نہیں ہیں۔
۲)اس خفیہ اطلاع پر پیش رفت کے نتیجے میں اگر انکاؤنٹر واقع ہوتا ہے جس میں پولیس کی جانب سے ہتھیار کا استعمال ہوتا ہے، جس کے بعدکسی کی بھی موت واقع ہوتی ہے تو حادثہ کی ایف آئی آر درج کی جائے گی، نیز ایف آئی آر کی کاپی سی آر پی سی کی دفعہ ۱۵۷؍ کے تحت متعلقہ عدالت کو بھیجی جائے گی، جس کے بعد دفعہ ۱۵۸؍ کے تحت کارروائی آگے بڑھائی جائے گی۔
۳) انکاؤنٹر/حادثہ کی جانچ سی آئی ڈی یا کسی دیگر تھانے کی پولیس کے ذریعے کسی سینئر آفیسر کی رہنمائی میں ہوگی، حادثہ سے متعلق تمام ہی ثبوتوں کو احتیاط سے یکجا کیا جائے گا، مثلا مقتول و جائے حادثہ کی رنگین تصویریں، خون ، بال اور فنگرپرنٹس وغیرہ کے نشانات، گواہوں کے مکمل نام ،پتے اور فون نمبر وغیرہ کے ساتھ دفعہ۱۶۱؍میں پولیس کے سامنے دئیے گئے عوامی و پولیس گواہوں کے بیانات،مکمل تفصیلات۔ پوسٹ مارٹم ضلع اسپتال میں ہوگا جوکم از کم دو ڈاکٹر، جن میں ایک ضلع اسپتال کا ہیڈ/انچارج ڈاکٹر ہونا چاہئے، پوسٹ مارٹم کی ویڈیو گرافی کی جائے گی، اس میں موت کی وجہ درج کرنی ہوگی۔
۴) کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ ۱۷۶؍ کے تحت ہر انکاؤنٹر کی جس میں پولیس کے ذریعے موت واقع ہوئی ہو، مجسٹریٹ جانچ کی جائے گی، جس کی رپورٹ متعلقہ جوڈیشیل مجسٹریٹ کو مذکورہ کوڈ(سی آر پی سی) کی دفعہ ۱۹۰؍ کے تحت ارسال کی جائے گی۔
۵) نیشنل کمیشن برائے حقوق انسانی (این ایچ آرسی) کی مداخلت ضروری نہیں جب تک کہ انکوائری کے آزادانہ و منصفانہ کردار پر تشویشناک شبہات موجود نہ ہوں، تاہم حادثہ کی فوری معلومات نیشنل یا صوبائی کمیشن برائے حقوق انسانی کو ارسال کرنا ضروری ہوں گی۔
۶) زخمی کرمنل/وکٹم (Victim)کو فوری طبی امداد فراہم کی جائے گی، اس کا بیان مجسٹریٹ یا میڈیکل آفیسر درج کرے گا، جس کے ساتھ متعلقہ وکٹم کا فٹنس (Fitness)سرٹیفکیٹ کہ وہ بیان دینے کی حالت میں تھا، منسلک کیا جائے گا۔
۷) حادثہ سے متعلق ایف آئی آر، ڈائری اندراج، پنچ نامے، اسکیچ وغیرہ کو بغیرکسی تاخیرکے متعلقہ عدالت تک پہنچانا یقینی بنایا جائے گا۔
۸) حادثہ کی مکمل جانچ کے بعد سی آر پی سی کی دفعہ ۱۷۳ کے تحت مکمل رپورٹ متعلقہ بااختیار عدالت میں پیش کی جائے گی،جس کے بعد مناسب مدت کے درمیان ٹرائل مکمل کیا جائے گا۔
۹) موت واقع ہونے کی صورت میں کرمنل/وکٹم کے قریبی رشتہ دار کو جلد از جلد باخبر کیا جائے گا۔
۱۰) ایسے تمام ہی انکاؤنٹرس جن میں موت واقع ہوئی ہو، کی رپورٹ تمام ڈی جی پی ہر چھ ماہ پراین ایچ آر سی کو ارسال کریں گے، جو جنوری و جولائی کی ۱۵؍ تاریخ تک ارسال کی جائیں گی، جس میں ہر موت کی تفصیلات(فراہم شدہ فارمیٹ میں)، نیز پوسٹ مارٹم وغیرہ کے کاغذات ساتھ بھیجے جائیں گے۔
۱۱)اگر جانچ رپورٹ، مواد و ثبوتوں کی بنیاد پر یہ ثابت ہوگا کہ پولیس کے ذریعے ہتھیار کا استعمال انڈین پینل کوڈ کی دفعات کے تحت کسی بھی جرم کے دائرے میں شمار ہوتا ہے تو متعلقہ پولیس والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی نیزاس دوران ان کو معطل(سسپینڈ) کردیا جائے گا۔
۱۲) پولیس انکاؤنٹر میں مارے گئے شخص پر منحصر(Depend)افراد کو معاوضہ فراہم کیا جائے گا، جو کہ سی آر پی سی کی دفعہ ۳۵۷ (اے) کے تحت مجوزہ اسکیم کی روشنی میں ہوگا۔
۱۳) متعلقہ پولیس آفیسرس کو اپنے ہتھیار فورنسک و بیلسٹک جانچ کے لئے تفتیشی ٹیم کو پیش کرنے ہوں گے، جس کا نفاذ دستور ہند کے آرٹیکل ۲۰؍ کے تحت ہوگا۔
۱۴) مذکورہ واقعہ کی اطلاع پولیس آفیسروں کی فیملی کو بھی دی جائے گی تاکہ اگر فیملی کسی وکیل کی خدمات / کونسلنگ حاصل کرنا چاہے تو ان کو موقع دیا جائے گا۔
۱۵) واقعہ کے فوراََ بعد ہی متعلقہ پولیس افسران کو کسی بھی قسم کی غیر رسمی ترقی یا بہادری کا ایوارڈ/ انعام نہیں دیا جائے گا۔ہر قیمت پر اس امر کو پہلے یقینی بنایا جائے گا کہ بہادری کے لئے جو انعام واکرام دیا جارہا ہے یا جس کی سفارش کی جارہی ہے وہ ہر طرح کے شکوک و شبہات سے پرے ہے۔
۱۶) اگر وکٹم کے گھر والوں کو لگتا ہے کہ مذکورہ کاروائیوں(Procedures)پر عمل نہیں کیا گیا، یا ان کے ساتھ ایماندارانہ رویہ نہیں برتا گیا، یا تفتیش مبنی بر حق نہیں ہے تو وہ بااختیار سیشن جج کے سامنے شکایت درج کرسکتے ہیں، سیشن جج شکایت کی بنیادوں پر غور کرکے ان پرپیش رفت کرے گا۔
درج بالا رہنما اصولوں کا اطلاق حتی المقدور ان زخمیوں پر بھی ہوگا جو پولیس انکاؤنٹر میں شدید زخمی ہوئے ہوں۔
یہ رہنما اصول وضوابط دستور ہند کے آرٹیکل ۱۴۱ کے تحت قانون کا درجہ رکھتے ہیں، ان کا نفاذ، نیز ان اصول وضوابط پر عمل پولیس انکاؤنٹر میں موت واقع ہونے اور شدید زخمی ہونے کی صورت میں لازم وضروری ہوگا۔
حکومت اور اسلوب حکمرانی کی بنیادنیز بنیادی اہمیت کے حامل اصولوں میں قانون کی حکمرانی، عوام کی سلامتی و تحفظ،ان کے شہری ، سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی حقوق نیز انسانی وقار کا تحفظ ہی اہم ہوتا ہے۔ ان مقاصد کی حصولیابی کے لئے حکومت کی دستوری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کی محفوظ زندگی، محفوظ معیشت، نیز انسانی اقدار کے تحفظ کے لئے باضابطہ پیشہ وارانہ، غیر جانبدارانہ اور موثر پولیس نظام اپنے شہریوں کو فراہم کرے۔
ہمارا دستورہم کو ایک آزاد عوامی جمہوری نظام حکومت فراہم کرتا ہے جو کہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا پاسبان ہو، دستور ہند کا آرٹیکل ۲۱ صاف الفاظ میں ہر شہری کو آزادی و جان کا تحفظ فراہم کرتا ہے، البتہ آزادی یا زندگی کی ضمانت مشروط ہوسکتی ہے، تاہم قوانین کی روشنی میں، یعنی اگر نظام عدلیہ ، مروجہ قوانین و ضوابط کی روشنی میں فیصلہ دے گا تو ہی کسی بھی شہری کی آزادی پر بندش لگائی جاسکتی ہے۔
انسانی آزادی کو تحفظ بخشنے کے فراق میں ہمارا دستور یہاں کے شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے، ان حقوق کی پاسبانی و تحفظ کی ذمہ داری عدالت عالیہ کی سرپرستی میں محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، پولیس نظام کو منضبط و پابند بنانے کے لئے کرمنل پروسیجر کوڈ تفصیلی اصول وقواعد پیش کرتا ہے، نظام عدلیہ اس کو مزید واضح و مفصل بنانے کی راہ میں اپنے فیصلے و رہنما اصول پیش کرتا ہے، حتی کی کسی بھی جرم کا ارتکاب کرنے والے ملزم /مجرم کی گرفتاری کے دوران اس کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے نیز پولیس کو ظلم وزیادتی سے باز رکھنے کے لئے دستور ہند کا آرٹیکل ۲۲، کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعات ۴۱ سے ۶۰ تک گرفتاری کے ضابطے تفصیل سے بیان کرتے ہیں، ان دستوری و قانونی شقات کے علاوہ ۱۹۹۷ میں سپریم کورٹ آف انڈیا اپنے مشہور فیصلے ڈی کے باسو بنام اسٹیٹ آف ویسٹ بنگال میں گرفتاری کے رہنما اصول مزید تفصیل سے بیان کرتا ہے، جن کو ہر پولیس اسٹیشن میں واضح طور پر تحریر کرانے کا بھی حکم ہے، تاکہ ملک کا ہر خاص و عام شہری اپنے حقوق نیز پولیس کی ذمہ داریوں و فرائض سے بخوبی واقف ہو۔
جس ملک میں انسان کی آزادی یعنی صرف گرفتاری کو لے کر قوانین و ضوابط اس قدر سنجیدہ ہوں وہاں انسانی جان کی یقیناًاہمیت ہونی چاہئے، پولیس انکاؤنٹر کو سپریم کورٹ آف انڈیا اپنے ۲۰۱۲ کے ایک اہم فیصلے اوم پرکاش بنام اسٹیٹ آف جھارکھنڈ میں صاف الفاظ میں تحریر کرتا ہے کہ ’’ پولیس افسران کی ڈیوٹی کسی بھی ملزم کو قتل کرنا نہیں ہے، چاہے وہ کتنا ہی خطرناک کرمنل کیوں نہ ہو، نہ ہی ہمارا کرمنل جسٹس سسٹم اس کو تسلیم کرتا ہے، اس کو حکومتی دہشت گردی تسلیم کیا جائے گا‘‘۔ یقیناًملک کے حالات اتنی تشویشناک صورت حال اختیار کرچکے ہیں کہ یہ حکومتی دہشت گردی کے زمرے میں شمار کئے جانے چاہئے ہیں، کیونکہ جب ہم حکومتی ادارے نیشنل کمیشن برائے حقوق انسانی کے ریکارڈ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ۲۰۰۲ سے ۲۰۰۸ کے درمیان ملک میں کل ۴۴۰؍ فرضی انکاؤنٹر ہوئے، ۲۰۰۹ سے ۲۰۱۳ کے درمیان ۵۵۵؍ فرضی انکاؤنٹر ہوئے، جبکہ صرف منی پور میں ۱۵۰۰؍ فرضی انکاؤنٹر کی شکایت پر سپریم کورٹ نے جسٹس سنتوش ہیگڑے کی قیادت میں کمیشن بنایاتھا جس کی رپورٹ کے مطابق تمام ہی انکاؤنٹر فرضی تھے، نہ ان مقتولین میں سے کسی کا بھی تعلق کسی طرح کی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے تھا، نہ ہی کسی کا کوئی واحد کرمنل ماضی (کرمنل ریکارڈ ) تھا۔
ہمارے ملک میں مروجہ قوانین کی روشنی میں پولیس صرف اور صرف دو صورتوں میں کسی بھی شخص کی جان لے سکتی ہے، پہلی شکل ہے انڈین پینل کوڈ کی دفعہ ۱۰۰ کے تحت اپنی جان کے دفاع کا حق حاصل ہونے کی صورت میں، جبکہ دوسری شکل میں کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ ۴۶ (۳) کے تحت جب کسی مجرم نے ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہو جس میں مروجہ قوانین سزائے موت تجویز کرتے ہوں اور اس کو گرفتار کرنے کے لئے گولی چلانا ہی ایک واحد شکل ہو سکتی ہو۔
پولیس انکاؤنٹر کے واقعات میں ملزم یا تو پہلے سے پولیس کی غیر قانونی حراست میں ہوتا ہے یا وہ غیر مسلح، اس حقیقت کو ہمارا نظام عدلیہ بارہا تسلیم و ثابت کرچکا ہے، جبکہ پولیس کا طریقۂ کار انکاؤنٹر میں ملزم کو قتل کرنے کے بعد مقتول کے خلاف انڈین پینل کوڈ کی دفعہ ۳۰۷ کے تحت قتل کی کوشش کا مقدمہ درج کرناہوتا ہے، چونکہ ملزم مرچکا ہوتا ہے، تفتیش کے بعد پولیس انکاؤنٹر کیس کی فائل بند کردیتی ہے اور معاملہ عدالت تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم کردیا جاتا ہے، عزت و شہرت کے شور میں حکومت پولیس افسران کو انعامات و ترقی سے سرفراز کرتی ہے، اس لیے اگر بعد میں انکاؤنٹر فرضی یا دوران پولیس حراست ثابت ہوتا ہے تو ملحقین کو نیشنل کمیشن برائے حقوق انسانی کی جانب سے کچھ معاوضہ دینے پر ہی اکتفا کردیا جاتا ہے۔
یہاں سب سے بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’کیا کوئی بھی شخص اپنے کیس میں فیصلہ کرسکتا ہے‘‘ جو کہ قدیم ترین عالمی قوانین کی روح کے خلاف ہے، مروجہ قوانین کی روشنی میں جب کوئی جرم سرزد ہوتا ہے تو پہلے اس جرم کی انڈین پینل کوڈیا دیگر متعلقہ قوانین کی متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوتا ہے، پولیس یا کوئی اور ایجنسی اس کی تفتیش کرتی ہے، تفتیش میں بنیادی اصول ہے کہ پولیس کیس میں پولیس تفتیش نہیں کرے گی، عدالتی مجسٹریٹ دفعہ ۱۷۶ کے تحت انکوائری کرے گا یا سپریم کورٹ کے بے شمار فیصلوں کی روشنی میں سی بی آئی انکوائری ہوگی۔
۱۹۶۸ سے ۲۰۰۰ کے دوران آندھراپردیش میں تقریبا ۴۰۰۰؍ پولیس انکاؤنٹر ہوئے، جس کے خلاف آندھراپردیش سول لیبرٹیس کمیٹی(اے پی سی ایل سی) نے آندھرا پردیش ہائی کورٹ میں پیٹیشن دائر کی، ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ انکاؤنٹر کرنے والے پولیس افسران کے خلاف سی آرپی سی کی دفعہ ۱۵۴ کے تحت انڈین پینل کوڈ کی دفعات مثلا ۳۰۲(قتل) کے تحت ایف آئی آر درج کرکے جانچ ہوگی، نیز ایک عام شہری کی حیثیت سے اس پر مقدمہ چلایا جائے گا، پولیس افسران کا جرم عدالت طے کرے گی نہ کہ پولیس افسران بذات خود، حکومت نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کی ، جو کہ گزشتہ پانچ برسوں سے زیرالتواء ہے ،جس کی وجہ سے آندھرا ہائی کورٹ کے ٖفیصلے کی روشنی میں کسی بھی انکاؤنٹر کیس کے بعد مجرم پولیس افسران کے خلاف ایف آئی آر درج نہ ہوسکی، یعنی پولیس افسران اور عام شہریوں کے درمیان یکساں قانون کے یکساں نفاذ کے دستوری نظریے کی کھلی خلاف ورزی کی گئی۔
سپریم کورٹ نے حالیہ فیصلے میں دیگر پولیس اسٹیشن کے پولیس افسر یا سی آئی ڈی کے ذریعے انکاؤنٹر میں جانچ کا حکم دے کر اپنے گزشتہ متعدد فیصلوں میں ایسے معاملات کی سی بی آئی جانچ کی ضرورت و اہمیت کو کمزور کردیا ، جبکہ پولیس انکاؤنٹر میں پولیس افسران چاہے وہ کسی دیگر پولیس اسٹیشن کے کیوں نہ ہوں یا سی آئی ڈی کی جانچ اب تک شکوک و شبہات کے گھیروں میں رہی ہیں، اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ اند دونوں ہی اداروں کی سربراہی ان ہی افراد کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جہاں انکاؤنٹر کے تار جڑتے ہوئے دیکھے گئے ہیں، گجرات اس کی ایک واضح مثال ہے۔
پولیس افسران کے خلاف عدالتی کارروائی کی راہ میں حائل سب سے اہم مشکل آئی پی سی کی دفعہ ۱۹۷ کا نفاذ ہے جس کے تحت کسی بھی پولیس افسر کے خلاف قانونی کارروائی سے قبل حکومت سے اجازت لینی ضروری ہوتی ہے، حالیہ فیصلے نے آندھراہائی کورٹ کے فیصلے کے برعکس اس کو برقرار رکھ کر پولیس افسران کو حاصل سب سے مضبوط ڈھال کو جوں کا توں چھوڑ دیا ہے۔
شہریو ں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے ہماری پارلیمنٹ نے ۱۹۹۳ میں’’ قانون برائے حقوق انسانی‘‘ کو پاس کیا، اس قانون کے تحت ایک’’ نیشنل کمیشن برائے حقوق انسانی‘‘ نیز ہر صوبے میں ’’اسٹیٹ کمیشن برائے حقوق انسانی‘‘ کی تشکیل ضروری قرار دی گئی، جس کے بعد این ایچ آر سی نیز متعدد ایس ایچ آر سی کا قیام عمل میں آیا، جو حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے واقعات کی جانچ کرنے کی قانونی ذمہ داری کے بھی حامل ہیں، تاہم ان کی کارگزاریاں اکثر و بیشتر حادثات میں نہ صرف تشویشناک ہیں بلکہ یہ حکومتی اداروں کے جرائم پر پردہ پوشی و مثبت تاویلات میں مصروف نظرآئے ہیں، جس کی بنیادی وجہ یہاں بھی پولیس افسران کی تعیناتی، نیزپولیس افسران پر مشتمل جانچ کمیٹیوں کو فرضی پولیس انکاؤنٹروں میں انکوائری کی ذمہ داری سونپا جانا ہے۔
نیشنل کمیشن برائے حقوق انسانی فرضی انکاؤنٹر کے کیسوں میں مظلومین کو معاوضہ کی رقم فراہم کرتا ہے، یہ معاوضہ حکومت کی جانب سے ہوتا ہے جس کا منبع عوامی ٹیکس و امداد ہوتی ہیں، یقیناًمجرم پولیس افسران کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے بغیر عوام سے حاصل شدہ رقومات کے ذریعہ معاوضے کا نظام عوامی جذبات کا مذاق نیز مجرمین کی حوصلہ افزائی ہی ہوسکتی ہے، قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لئے قانون کا نفاذ بنیادی شرط ہے۔
کسی بھی سوسائٹی یا ملک میں جہاں دستور و قوانین کا نفاذ ایک آزادنظام عدلیہ کے زیرسرپرستی قائم ہو، ملک میں جمہوری نظام حکومت کا قیام ہو، ایک ایسا دستور جہاں شہریوں کو تحریری شکل میں ان کے بنیادی حقوق فراہم کئے گئے ہوں ، نیز عدالت عالیہ کو ان حقوق کے تحفظ کی سرپرستی عطا کی گئی ہو، عدالت میں انصاف عوام کو حاصل ہو اس غرض سے ملزمین کو دفاعی وکیل کے علاوہ عدالت کو سرکاری وکیل جس کو قانونی اصطلاح میں’’ عوامی وکیل‘‘ کا نام دیتے ہیں عطا کیا گیا ہو، (واضح ہوکہ عوامی وکیل (Public prosecutors)کا کام عدالت کی مدد کرنا ہوتا ہے نہ کہ پولیس کو بچانا )اس کے باوجود ملک میں حقوق انسانی کی بدترین خلاف ورزی، اور حکومتی اداروں کے ذریعے انتہائی درجے کی سفاکی یقیناًعدالتی نظام کو سوالوں کے گھیرے میں کھڑا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ایک مثالی و تہذیبی معاشرے کا درجہ حاصل کرنے کے لئے عدالتی نظام کو اپنے طریقۂ کار و انداز فکر میں مثبت تبدیلی لانی ہوگی جس میں ملک کی عوام کو بھی سنجیدگی سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

ایڈوکیٹ ابوبکر سباق سبحانی،
اے پی سی آر۔ نئی دہلی

نومبر 2014

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں