یقین و عمل کی اہمیت سے سب واقف ہیں‘ یہی دو اجزاء تکمیلِ ایمان کے لازمی تقاضے ہیں، اور ان ہی کے ذریعہ رب کی رضا اور آخرت کی فلاح ممکن ہے۔چنانچہ تحریک سے وابستگی پرافراد سے نہ صرف عمل کا تقاضا کیا جاتا ہے بلکہ یہ عین مطلوب ہے کہ افراد تحریک اپنے مستقل عمل سے نصب العین کے گہرے یقین اور اس کے ساتھ والہانہ وابستگی کا اظہار کرتے رہیں۔ تحریک میں موجود متحرک اور غیر متحرک افراد میں بڑانمایاں فرق ہوتا ہے۔بالکل یوں سمجھ لیجئے کہ گھر میں کمانے اور نہ کمانے والے بیٹوں کے رہن سہن میں جو فرق ہوتا ہے ویسے ہی تحریکی گھر میں ان افراد کا معاملہ ہوتاہے۔ کمانے والے بیٹے کے ٹھاٹ باٹ کچھ اورہی ہوتے ہیں جبکہ نہ کمانے والا بیٹے کو اپنے گھر میں اپنوں کے بیچ، ہمیشہ اجنبیت کا احساس دامن گیر رہتا ہے۔ گھر کے معاملات میں راست تعاون نہ دینے کامعاملہ اس کی بول چال اور رویے پر کافی اثر ڈالتا ہے۔چنانچہ اس کے رویے سے تصنع اور بناوٹی پن کا احساس ابھرنے لگتا ہے۔ جس کے سبب اس کو خود اپنے کسی قول و عمل سے دلی اطمینا ن میسر نہیں آتا۔ بس ایک قسم کی گھٹن اور دلی کڑھن سے گزر بسر ہونے لگتی ہے، اور جب یہ کیفیت کچھ زیادہ ہی دل میں کروٹیں لینے لگے تو وہ اپنے ہر عمل کو مخصوص انداز سے دیکھنے اور سمجھنے لگتا ہے۔ کسی کام سے وہ خود خوش ہوتا ہے اورکسی کام سے ناراض۔ اگر ایسے نہ کمانے والے بیٹے کو غیر متحرک فرد سے اور گھر کو تحریکی ماحول سے بدل دیں تو ایسے فرد کی حالت زار کچھ اس طرح ظاہر ہوگی:
وابستگی پر عدم اطمینان: تحریک اپنے نصب العین کی جانب واضح پیش قدمی کے لئے ایک واضح لائحہ عمل رکھتی ہے، جس میں رنگ بھرنے کی غرض سے ہر فرد تحریک سے وابستہ ہوجاتا ہے، اور جب کسی فرد کی وابستگی وقتی عمل یا ہنگامی کاموں تک ہی محدودر ہے تو اس کے اندر وابستگی پر عدم اطمینان کی کیفیت میں روزافزوں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔جس کا اظہار اجتماعات میں غیر حاضری یا تاخیر سے حاضری، برائے نام کاموں کی انجام دہی، کام کرنے والوں کے طرز پر عدم اطمینان کا اظہار،غیر ضروری تنقید، تحریکی پیش رفت سے عدم واقفیت، تو کبھی اس پر مایوسی سے ہونے لگتا ہے۔
تعلقات میں مٹھاس کی کمی: پھرتعلقات میں وہ کشش بھی نظر نہیں آتی جو ایک اعلیٰ مقصد سے وابستہ افراد کی شان ہوا کرتی ہے۔ وقتی ملاقات ہو یا باضابطہ، باہم تبادلۂ خیال میں مٹھاس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ بناوٹی باتوں کا سا احساس ابھرنے لگتا ہے۔ایسے افراد کے درمیان کسی ایک موضوع پر گفتگو نہیں رہتی بلکہ پے درپے موضوعات بدلتے رہتے ہیں نتیجتاً وہ دل ہی دل میں ایک دوسرے کی گفتگو کو غیر مفید سمجھنے لگتے ہیں اور جدا اس طرح ہوتے ہیں کہ پھر کبھی کسی باضابطہ ملاقات کا دل میں خیال تک پیدا نہیں ہوتا، بلکہ ان کے درمیان شعوری طور پر’’دوری میں عافیت‘‘کی فکر فروغ پاجاتی ہے۔
تعلقات کی سطحیت: تحریکی افراد کا آپسی تعلق، دیگر انسانی تعلقات کی بہ نسبت بڑا ہمہ جہت ہوا کرتا ہے۔ افراد تحریک کے درمیان کے تبادلہ خیالات، مل جل کر جدوجہد کرنے کا جذبہ، ایک دوسرسے کے رازوں کی حفاظت، مسائل کے حل کی کوشش، باہمی امداد وبازپرسی جیسے کئی عوامل ہوتے ہیں جو افراد تحریک کو بڑی مضبوطی سے باندھے رکھتے ہیں، لیکن اس مضبوط رشتے کی کڑی میں وہ لوگ فٹ نہیں ہوپاتے جو اپنے قول و عمل سے تحریکی وابستگی کا ثبوت نہیں دیتے۔ غیر متحرک افراد کا تعلق دیگر افراد جماعت سے ہمہ گیر نہیں ہوتاجس کے سبب وہ اس کمزور تعلق کے لیے اپنی کمزوری کے بجائے بیرون کی خرابیوں کو موجب الزام ٹھہراتے ہیں۔آپ نے بارہا محسوس کیاہوگا کہ غیر متحرک فرد سے جب راہ خدا میں سرگرمی دکھانے کا مطالبہ کیا جائے تو وہ فوری خارجی مسائل کاذکر چھیڑدیتا ہے کہ فلاں ایسے ہیں،فلاں ویسے ہیں، فلاں کام ایسے ہوا،ایسے ہونا چاہئے تھا….اور گفتگو اس نکتے پر رُک جاتی ہے کہ وہ خودصحیح ہے اور دوسرے سب غلط۔
اس کا ایک اور پہلوبناوٹی تعلقات ہے۔ جو فرد راہ خدا میں سرگرم عمل نہ ہو وہ اپنی اس خامی کو دوسروں کی خوبیوں سے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے فرد کے سامنے کسی متحرک فرد کی کارکردگی یا کسی ذمہ دار کا ذکر کیجئے، وہ فوری ان سے اپنی گہری نسبت کا ذکر کردے گا۔اس کی گفتگوسے ایسا محسوس ہوگا کہ جو کچھ اچھا ہورہا ہے اس کے لئے یہ خود ترغیب بناہوا ہے۔ اور انداز گفتگو ایسی ہوگی کہ سننے والے پر تأثر قائم ہو گاکہ ارے بھئی یہ شخص تو بڑا متحرک اوربڑی واقفیت رکھنے والا ہے۔
غیر ضروری مداخلت: اپنی عدم تعاون کی کیفیت کو چھپانے کے لئے ایسا شخص شعوری اور غیر شعوری طور پر کوشش کرتا رہے گا کہ اطراف و اکناف میں کیا کچھ ہورہا ہے اس سے متعلق معلومات حاصل کرلی جائیں۔گویا اس کے نزدیک اپنی کمزوری پر قابو پانے کابس ایک طریقہ ہے کہ بعض مخصوص حالات سے باخبر رہا جائے تاکہ جب ضرورت پیش آئے ان کے ذکر سے اپنی کمزوری کو چھپا یا جاسکے۔ تمام ہی غیر متحرک افراد کے سلسلے میں تویہ کہنا مشکل ہے لیکن ایسے افراد کسی بھی مقام پر بڑی تعداد میں ہوں گے جو مقامی حالات اور افراد جماعت کے سلسلے میں بہ نسبت دوسروں کے زیادہ غیر ضروری معلومات رکھتے ہیں۔ اور جب بھی کبھی موقع ملے، وہ اپنی ان ہی معلومات کے ذریعہ دیگر افراد جماعت کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ کسی ذمہ دار جماعت کی آمد کی اطلاع، کسی فرد کی کارکردگی کا تذکرہ، کسی فردجماعت کے خانگی مسائل کا ذکریا کسی مقام پر منعقدہ کسی پروگرام کی تفصیلات، محلے اور شہر کی غیر ضروری معلومات۔۔۔۔ غرض ایسا طرز عمل اس فرد کے اندر ایک طرح کے مصنوعی اطمینان کو فروغ دیتا ہے اور نتیجتاًبس اسی طرح کی سرگرمیوں میں مصروف رہنے کو وہ وجہ تسکین سمجھنے لگتا ہے اور کبھی حقیقی معنو ں میں سرگرم رہنے کی جانب اس کی توجہ نہیں جاتی۔
خود نمائی: جب اخلاص کے ساتھ اعمال صالحہ کا سلسلہ بند ہو تو خود نمائی اپنے لئے جگہ بنالیتی ہے اوردھیرے دھیرے اس میں کشادگی بھی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔غیر صحت مند،ناقص اورناقابل ذکر اعمال کی انجام دہی پر کسی کا مطمئن رہنا اسی وجہ سے ہے۔گویا ان کے اعمال ان کے لئے بڑے خوشنما بنادئیے گئے ہیں۔پھر اس کا دوسرا پہلو یہ ہوگا کہ انجا م پانے والے دیگر اعمال سے رشتہ جوڑنے کی کوشش ہوگی اور موقع مل جائے تو انہیں اپنے کھاتے میں بھی شمار کرانے میں ذرا برابر تأمل نہیں کیا جائے گا۔
مادہ پرستی کاغلبہ: راہ خدا میں سرگرمیوں میں کمی، دیگر راہوں پر مصروف عمل رہنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جب تحریکی کاموں کے لئے کچھ بچا ہی نہ ہو، نہ وقت اور نہ ہی کام کی آمادگی ودلچسپی، تب فرد کی تحریکی میدانوں میں حرکت و عمل کی کمی کا شدت سے احساس ابھرنے لگتا ہے۔اگر موازنہ کیا جائے تو ایسے فرد کی مادی ترقی بہ نسبت تحریکی ترقی کے زیادہ معلوم ہوگی۔ لیکن بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ غیر متحرک افراد دونوں میدانوں میں مات کھا جاتے ہیں۔ ان کی تگ ودو بس ضروریات کی تکمیل کے لئے ہواکرتی ہے، اور دیکھنے والوں کو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ بس یہ دنیا کے ہوکر رہ گئے ہیں،لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ ہرروز ان کی جدوجہد بس دو وقت کی روٹی کے لئے ہوا کرتی ہے۔
سرد مہری کے اسباب: اور جب ان ہی کیفیات کے ساتھ کسی تحریکی فرد کا وقت گزرنے لگے تواس کے اندر سوائے سرد مہری کے کسی اور چیز کا اضافہ نہیں ہوتا،اور فرد غیر متحرک نظر آنے لگتا ہے۔ کسی فرد کی حرکت و عمل کی کمی اپنے پس منظر میں یہ عوامل لئے ہوئے ہے۔
جمود کا قرآنی حل: سردمہری اور جمود کا علاج،ایک قرآنی نسخہ ہے، جس کی جانب ہر تحریکی فردکی توجہ مبذول کرانی چاہئے، چاہے وہ کسی بھی درجہ میں سرگرم عمل ہو یا کسی بھی درجہ میں غیرمتحرک :
یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ….(الحشر)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو،ہر فرد دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا سامان کیا ہے‘‘۔
یہ الہی اعلان ہرفرد پر واضح کرتا ہے کہ ہر دن طلوع ہونے والا سورج منصوبہ بند انداز سے عمل پیرا ہونے کا پیغام لاتا ہے۔اس کے طلوع ہونے سے جہاں اندھیرے چھٹ جاتے ہیں وہیں مایوسی، پس ہمتی اور عدم تعاون کی تمام کیفیات، بلند عزائم، جواں حوصلوں اوربے مثال امیدوں کی روشنی سے بدل جانے چاہئیں۔ ہر دن، ایک نیا دن ہو۔ متحرک افراد کے لئے سابقہ ایام کی سرگرمیاں مزیدسرگرمیوں کے لئے راہیں ہموار کریں،اورغیر متحرک افراد کے لئے ایک نئی امید، کہ ’’تمہاری زندگی میں سورج کا نکلنا اور تمہارا صبح بیدار ہوجانا ‘ اللہ رب العزت کی تم سے وابستہ امیدوں کو ظاہرکرتا ہے، بس راہ راست پر اپنا سب کچھ لٹا تے ہوئے تیز گامی سے چلتے رہو۔
اس قرآنی نسخے کی جانب پیش قدمی بغیر کسی تاخیر و تردد کے ہونی چاہئے، کیونکہ مہلت عمل، میقات کی طرح متعین نہیں ہوتی۔کسی فرد کی راہ خدا میں سرگرمی کسی اور کے لئے نہیں خوداسی کے لئے باعث خیر ہے، اس کا متحرک رہنااسے اللہ سے اور جنت سے قریب کرے گا اور جہنم سے دور۔ورنہ اس سے بڑا المیہ شاید ہی کوئی اور ہوگا کہ اللہ کے لئے تحریک سے وابستگی اختیار کی جائے اور غیرمتحرک ہوکر اس سے کمزور تعلق کا ثبوت دیا جائے؟جنت کا حصول توپیش نظر رہے اور تحریکی سفر ہر دن جنت سے دور کرنے والا بن جائے؟
سرگرم ہوجائیے، اپنی ذات کو حرکت و عمل کا پیکر بنادیجئے۔ ہر دن کا آغاز ایک نئے حوصلے اور امید سے کیجئے،اور یقین رکھیے کہ رب کریم کی بے پایاں عنایات سایہ فگن ہوں گی۔افراد تحریک کا یہی حوصلہ، تحریک کے روشن حال اور تابناک مستقبل کا ضامن ہے۔ تحریک کی ناکامی یہ نہیں کہ لاینحل مسائل کی بہتات اور باطل طاقتوں کا زور ہے بلکہ اس کے افراد اس کی ناکامی کا سبب بن جاتے ہیں جب ان کی فکر مفلوج‘ عمل ناقص اور اپروچ سے بے ہمتی محسوس ہونے لگے۔
کامل یقین کہ ساتھ تحریکی سفر میں جٹ جائیے اور رسول اکرم ؐ کی جیسی افراد او رمعاشرہ سے متعلق آرزوؤں اور تمناؤں سے اپنے دلوں کو سجا لیجئے۔یہ نیک خواہشات بذات خوداپنے اندر بے پناہ برکتیں لئے ہوئے ہیں،اور جب ان کے مطابق عمل ہوتو اثرات ونتائج اور رب کریم کی رحمتوں کے جلوؤں کے کیا کہنے:
لَےَنْظُرَنَّ اَحَدُکُمْ مَّاالَّذِیْ ےَتَمَنّٰی فَاِنَّہٗ لَا ےَدْرِیْ مَا ےُکْتَبُ لَہٗ مِنْ اُمْنِیَّتہٖ (حضرت ابوسلمۃ ؓ – ترمذی) تم میں سے ہرشخص دیکھے کہ وہ کیا آرزوکررہا ہے‘وہ نہیں جانتا کہ اس کی آرزوؤں (کے بدلے)میں کیا (اجر)لکھا جاتا ہے
محمد عبد اللّٰہ جاوید، [email protected]