عورت۔ قرآن کریم اور بائبل کی روشنی میں

ایڈمن

تعارف و تبصرہ: اسعد مظہر فلاحی ایک صالح انسانی معاشرہ کا وجودمرد اور عورت کے باہمی تعلقات، اشتراک اور تعاون پر منحصر ہوتا ہے۔ ان دونوں میں سے اگر کسی ایک کا بھی کردار مجروح ہوجائے تو معاشرہ عدم توازن…

تعارف و تبصرہ: اسعد مظہر فلاحی
ایک صالح انسانی معاشرہ کا وجودمرد اور عورت کے باہمی تعلقات، اشتراک اور تعاون پر منحصر ہوتا ہے۔ ان دونوں میں سے اگر کسی ایک کا بھی کردار مجروح ہوجائے تو معاشرہ عدم توازن کا شکار ہوجائے گا۔ اس لیے فطری طور سے دونوں یکساں ہیں، بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ یہ دونوں ایک ایسی اکائیاں ہیں جن کی اپنی اپنی جگہ بڑی اہمیت ہے۔ بلاشبہ بعض حیثیتوں میں مرد عورت سے ممتاز ہے تو بعض چیزوں میں عورت بھی مرد سے آگے ہے۔ عورتوں کے ساتھ زیادتی کی داستان وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے الہامی تعلیمات میں انسانی خیالات کی آمیزش شروع ہوئی ہے۔ قدیم آسمانی مذاہب کے علم برداروں نے اپنی جھوٹی عزت اور سستی شہرت کی آڑ میں الہامی تعلیمات میں تحریف و تبدیلی کا آغاز کردیا۔ (مقدمہ کتاب)
محمدؐ کی آمد سے پہلے عورت ہزاروں سال سے صرف ایک کھلونہ سمجھی جاتی تھی، لیکن جب اسلام کامل صورت میں اس دنیا میں آیا تو اس نے مردوں اور عورتوں دونوں کے اصل مرتبہ ومقام کو واضح کیا۔ اور معاشرہ میں دونوں کی واقعی حیثیت کے تعین کے لیے شاندار عملی نمونہ بھی پیش کیا، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ دیگر اقوام میں بھی اس کی قدر منزلت کے اعتراف کا شعور بیدار ہوا اور ایک بار پھر عورت اپنے اصلی مقام پر آگئی، لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چلا کہ دنیا نے پھر عورتوں کی عزت و وقار پر شب خون مارنا شروع کردیا اور صورت حال ایک بار پھر ویسی ہی ہوگئی جیسی کہ پہلے تھی۔
مصر کی قدیم تاریخ میں عورتوں سے متعلق احوال مصنفہ یوں بیان کرتی ہیں: ’’مصری معاشرہ میں عورتوں کو عزت حاصل تھی اور وہ گھر کے نظم و نسق کو دیکھا کرتی تھیں، اس وقت عورتوں کو ’’بنت پر‘‘ یعنی گھر کی ملکہ کا لقب حاصل تھا۔ البتہ شادی بہت کم عمری ہی میں کردی جاتی تھی۔ مصر کے لوگ زیادہ اولاد والا ہونا خوش قسمتی کا باعث سمجھا کرتے تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ بدکاری و بے حیائی عام تھی، البتہ شاہی خاندان کی عورتیں بہت با اثر ہوا کرتی تھیں، اور اسی کے ساتھ مندروں میں بھی ان کا ایک خاص مقام تھا۔ دیوتاؤں کے خدمت گاروں میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ (صفحہ 59تا 62)
بعثت محمدیؐ سے قبل کا وقت دور جاہلیت کہلاتا تھا۔ یہ وہ دور ہے جس میں لاعلمی، بداخلاقی، تکبر، فحاشی و عریانیت کا دور دورہ تھا۔ اس دور میں لوگ اپنے مذہبی پیشواؤں کی دی گئی تعلیمات کو فراموش کرکے مختلف قسم کی برائیوں میں ملوث تھے۔ خدائے واحد کی بندگی کے بجائے انھوں نے ہزاروں بت بنالیے تھے۔ قتل و غارت گری، لوٹ مار، اور چوری وغیرہ جیسی برائیاں عام تھیں۔ عورتوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جاتے تھے۔ اگرچہ بعض اقوام بہت مہذب سمجھی جاتی تھیں، لیکن وہ بھی عورتوں کے معاملہ میں حیوان بن گئی تھیں۔ اس وقت کے رائج مذاہب نے بھی عورتوں کے سلسلے میں سخت احکامات متعین کئے تھے۔ (صفحہ70)
ہندوستان جوکہ زمانہ قدیم سے ہی تہذیب کا گہوارہ سمجھا جاتا رہا ہے اور یہاں کے لوگ اپنی مذہبی تعلیمات اور مقدس کتابوں پر بہت فخر کرتے رہے ہیں، عورتوں کے سلسلے میں ان کا رویہ بالکل جاہلانہ تھا۔ وہ معاشرہ کا ایک جزو بھی نہیں سمجھی جاتی تھیں۔ ہندوؤں کے ماہر قانون داں ’’منو‘‘ کا خیال تھا کہ عورتیں، مردوں کو گمراہ کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ عورتیں چونکہ متلون مزاج ہوتی ہیں اس لیے انھیں گواہ کی حیثیت سے پیش نہیں کیا جاسکتا تھا۔ منو کا خیال تھا کہ عورت کبھی آزاد اور خود مختار نہیں رہ سکتی، اس کو ہر دور میں کسی نہ کسی کے ماتحت ہونا ضروری ہے۔ بچپن میں ماں باپ کے، جوانی میں شوہر کے اور بڑھاپے میں بیٹے کے زیر نگرانی رہنا چاہیے۔
قدیم ہندوستان میں شادی کو ایک مقدس فریضہ سمجھا جاتا تھا۔ عام طور پر شادی بیاہ کے معاملے میں اصول و ضوابط کی بھی بڑی پابندی کی جاتی تھی، اسی کے ساتھ اس زمانہ میں ذات پات میں انتہائی شدت برتی جاتی تھی، اس کے باوجود لوگ ذات سے باہر بھی شادیاں کرتے تھے، ماں کی حیثیت سے عورتوں کا درجہ سب سے بلند تھا۔ گھر کے اندر دیگر افراد خاندان کے مقابلہ میں ماں کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ لیکن ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو وراثت سے محروم کردیا جاتا تھا، اور لڑکیوں کی تعلیم غیر ضروری سمجھی جاتی تھی۔
قدیم ہندوستانی سماج میں بیسواؤں کا طبقہ ایک خاص مقام رکھتا تھا، ویشالی کے ایک رئیس مہا فام کی لڑکی مہا پالی ایک حسین و جمیل دوشیزہ تھی۔ جب اس سے شادی کرنے والے امیدواروں کی تعداد حد سے زیادہ بڑھ گئی اور اس کے باپ کو فیصلہ کرنے میں دشواری پیش آئی تو اس نے معاملہ پنچایت کے سامنے رکھ دیا، لیکن پنچایت کے اراکین نے مہا پالی کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا کہ مہا پالی چونکہ ’’ہیرا‘‘ ہے، اس لیے اس کا بیاہ کسی سے نہ کیا جائے بلکہ اسے پنچایت کی ملکیت قرار دے دیا جائے، تاکہ اس کے حسن و جمال سے پوری پنچایت فیض یاب ہو، مہا پالی اس کے لیے راضی ہوگئی اور ساری عمر اسی طرح گزار دی۔
معاشرہ میں بیوہ عورتوں کو کوئی مقام حاصل نہ تھا۔ ان کے ساتھ نوکروں اور جانوروں جیسا برتاؤ کیا جاتا تھا۔ ان کے بال کاٹ دیے جاتے تھے، زیورات اتار لیے جاتے تھے، سخت چیز پر اس کو سونا ہوتا تھا، دن میں صرف ایک بار کھانے کو دیا جاتا تھا، اور اکثر پورا دن اس کو روزہ رکھنا ہوتا تھا، کسی بھی دعوت یا شادی وغیرہ میں اس کو جانے کی اجازت نہ تھی اور دوسری شادی کا تو کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ ان کے مذہبی تہوار سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ساری اہمیت اور عزت مردوں کو حاصل تھی۔ (صفحہ 75 تا 80)
مصنفہ نے اس کتاب کو سات ابواب میں منقسم کیا ہے پہلے باب میں بائبل اور قرآن کا مختصر تعارف کرایا گیا ہے، بائبل و قرآن کے معنی اور ان کے جمع و تدوین کی تاریخ بیان کی گئی ہے نیز بائبل اور قرآن سے متعلق بعض اشخاص کی آراء کو بھی نقل کیا ہے۔
دوسرے باب میں بعثت موسیٰ سے قبل کے عہد میں عورت کے مقام کو بتایا ہے اور تاریخی واقعات سے حضرت موسیؑ ٰ سے قبل کے عہد میں عورت کے مقام کو واضح کیا ہے، اس کے علاوہ عرب، ہندوستان، روم، یونان اورچین میں عورتوں کے مقام کو واضح کیا ہے اس میں ہندو مت اور بدھ مت کی بھی ہلکی سی جھلک ملتی ہے۔
تیسرا اور چوتھا باب بائبل اور قرآن میں عورتوں کے مقام و مرتبے سے متعلق ہے۔ عورت کی تخلیق سے متعلق بائبل کے نظریات کو تیسرے باب میں اور قرآن کے نظریات کو چوتھے باب میں بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ بائبل اور قرآن میں ماں باپ، بیوی، اور بیٹی کی حیثیت اور مقام و مرتبہ کو واضح کیا ہے۔
پانچویں باب میں بائبل میں عورت سے متعلق احکام کو بیان کیا ہے۔ اور بائبل کی آیات کو بطور دلیل پیش کیا ہے اور یہودی اور عیسائی علماء کے اقوال بھی ذکر کیے ہیں۔
چھٹے باب میں قرآن میں عورت سے متعلق احکام کا ذکر کیا ہے، قرآن کی آیا ت کے ساتھ ساتھ احادیث کو بھی بیان کیا ہے۔ اور ساتویں باب میں عہد جدید کی عورتوں کے تعلق سے احکام ذکر کیے ہیں۔
بہر حال حنا باری کی یہ کتاب اعلیٰ درجہ کی ادبی زبان میں لکھی گئی ہے، یہ ان کی شاندار پیش کش ہے۔ انھوں نے اپنی اس کتاب میں قدیم و جدید تعلیمات کا مطالعہ بھی پیش کیا ہے، اس کتاب کے مطالعہ کے بعد بہت ساری غلط فہمیاں دور ہوتی نظر آتی ہیں۔ اور خواتین کو سماج میں اپنا کردار ادا کرنے کا حوصلہ ملتا ہے اور مردوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ترغیب بھی ملتی ہے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں