عمل خیر کی استطاعت

ایڈمن

مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ اَنْ یَّنْفَعَ اَخَاہُ فَلْیَفْعَلْ۔( مسلم، عن جا بربن عبد اللہؓ)
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کو نفع پہنچاسکے تو ضرور پہنچائے ۔ دوسرے لفظوں میں فائدہ پہنچانے کی استطاعت رکھنے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ فائدہ پہنچا یا جائے۔ انسان صرف اس کام کے لئے ذمہ دار ہے جس کی استطاعت اسے حاصل ہے۔ جس کام کے کرنے کی صلا حیت کسی شخص کو اللہ تبارک و تعالی نے نہیں دی ہے اس سے اس کے بارے میں باز پرس نہیں ہوگی۔ قرآن کریم میں واضح طور پر یہ بات بتادی گئی ہے کہ جس چیز کی وسعت نہیں دی گئی ہے اس کے لئے کوئی مکلف نہیں ہے( لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفساً اِلَّا وُسعَھَا)۔
کسی بھی کار خیر کے لئے کسی شخص کو کتنی صلا حیت، طاقت اور وسائل فراہم ہیں اور ان کی بنا پر وہ کیا کام کر سکتا ہے اور کیا نہیں، اس کا فیصلہ ہر فرد اپنے بارے میں خود کر سکتا ہے۔ البتہ استطاعت نہ ہونے کو بہانہ نہیں بنایا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ معاملہ اس خدا کے ساتھ ہے جو دلوں کے راز تک کو جانتا ہے اور اس سے کچھ مخفی نہیں ہے۔ دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ کے ایسے نیک بندے بھی ہیں جن پر ظاہری طور پر استطاعت ہم سے کم ہوتی ہے لیکن کار خیر میں وہ ہم سے آگے رہتے ہیں، بہت سے لوگوں کے پاس مالی وسائل کی فراوانی ہوتی ہے لیکن انہیں بند گان خدا کی خدمت کی توفیق ان لوگوں سے کم ملتی ہے جو نسبتاً کم وسائل کے حامل ہیں۔اس طرح کم استطاعت رکھنے والے افراد جو خوداپنی ضرورتوں کے باوجود دوسروں کے زیادہ کام آتے ہیں زیادہ استطاعت رکھنے والے افراد کے خلاف اللہ تعالیٰ کے سامنے حجت بن سکتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں آخرالذ کر کا تنگئ داماں کا شکوہ قابل رد قرار دیا جاسکتا ہے۔ استطاعت کے معاملہ میں چند افراد ایک دوسری انتہا پر چلے جاتے ہیں جس کا ذکر حضورصلی اللہ علیہ و سلم کی ایک حدیث میں ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ کسی مومن کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے( لَا یَنبَغِی لِمُومِنِِ أَن یُذِلَّ نَفسَہُ) لوگوں نے سوال کیا کہ آخر مومن اپنے آپ کو ذلیل کس طرح کرتا ہے، تو جواب دیا کہ وہ نا قابل برداشت آزمائش میں اپنے آپ کو ڈال دیتا ہے (یَتَعَرَّضُ مِنَ البَلَاءِ بِمَا لاَ یُطِیقُ۔ (ترمذی، مشکوٰۃ، عن حذیفہؓ) اسی طرح استطاعت سے کم عمل کرنا آخرت میں رسوائی کا سبب بن سکتا ہے اور اس سے زیادہ میں اپنے آپ کو مبتلا کر دینا دنیا و آخرت دونوں میں مصیبت کا سبب بن سکتا ہے۔ دراصل فراستِ مومن اور توفیقِ الٰہی سے ہی کوئی شخص درست رویہ اختیار کر سکتا ہے۔
درج بالا حدیث میں اپنے بھائی( اَخَاہُ) کو نفع پہنچانے کی ترغیب بلکہ حکم دیا گیا ہے۔ احادیث میں لفظ بھائی کا استعمال مختلف معنوں میں کیا گیا ہے جس کا تعین سیاق وسیاق سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ کسی جگہ اس سے مراد عزیز واقارب ہیں تو کہیں تمام مسلمان۔ کسی مقام پر اس کا اطلاق پڑوسی پر ہوتا ہے تو کہیں تمام انسانوں پر۔ بلکہ ایک حدیث میں تو اس سے مراد خود صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔ اُس حدیث کے الفاظ ہیں کہ اپنے رب کی عبادت اور اپنے بھائی (یعنی حضورصلی اللہ علیہ وسلم) کی تعظیم کرو۔(اُعبُدُوا رَبَّکُم وَ أَکرِمُوا أَخَاکُم۔ مسند احمد، عن عائشہؓ)
سیاق وسباق سے یہ بات واضح ہے کہ متذکرہ حدیث میں اخاہ( بھائی) سے مراد تمام بنی نوع انسان ہیں، کیونکہ عزیز واقارب کے حقوق اور مسلمانوں کے مسلمانوں پر حقوق قرآن وسنت میں وضا حت سے بیان کردیئے گئے ہیں۔ اس حدیث میں عمومی انداز اختیار کرتے ہوئے جس عمل خیر کا ذکر ہے اس کا تعلق تمام انسانوں کے ساتھ بلا لحاظ مذہب وملت اچھا برتاؤ کرنے سے ہے۔ کسی ضرورتمند کی مدد کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاسکتا کہ اس کا دین کیا ہے۔
انسانوں کی جس خدمت کاذکر اس حدیث میں کیا گیا ہے اس میں جان ومال اور خیر خواہی سب شامل ہیں۔ اللہ نے اگر ہمیں صحت و تندرستی اور زورِ بازو سے نوازا ہے تو اس کے ذریعہ کسی کمزور شخص کی مدد کرنا بھی اس حکم کے مطابق ہے اور اگر مالی اعانت کی جائے تو وہ بھی مطلوب ہے۔ دراصل ایک مومن بندے سے اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ صرف اپنی ذات میں گم نہ ہو بلکہ آس پاس کے انسانوں کی خبر لیتا رہے اور حتی الوسع ان کی خبر گیری کرتا رہے، اور یہ خبر گیری اور خیر خواہی دامے درمے اور سخنے ہر طرح سے ہوگی؛
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
(ڈاکٹر وقار انور ، مرکز جماعت اسلامی ہند)

جون 2015

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں