اسامہ حمید
اے ایم یو، علی گڑھ
بات شروع ہوئی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آر ایس ایس کی شاکھا کھولنے کی درخواست سے، جسے کسی بھی حال میں قبول نہیں کیا جاسکتا تھا. آر ایس ایس خود تو ایک ثقافتی تنظیم بنتی ہے لیکن اس کی حقیقت کیا ہے کسے نہیں معلوم.
بات یہاں سے اچانک جناح کی تصویر تک پہنچ گئی. یاد رہے کہ یہ تصویر ایک تاریخی نشان کی طرح گزشتہ 80 سال سے یونین حال میں لگی ہوئی ہے. ہوا یوں کہ 1938 میں یونین نے جناح کو اسٹوڈنٹس یونین کی لائف ٹائم ممبر شپ کے اعزاز سے نوازا تھا، اس میں کوئی ایسا اعتراض اس وقت نہیں کیا گیا کیوں کہ باقی رہنماؤں کی طرح اس وقت جناح بھی ایک ‘ہندوستانی رہنما’ مانے جاتے تھے. جناح کی طرح، نہرو ، آزاد اور گاندھی جی کی بھی تصاویر یونین ہال میں موجود ہیں. البتہ ساورکر اور گوڈسے کی تصویر نہیں ہے، جس سے آر ایس ایس کو بے پناہ محبت ہے.
جناح کی اس تصویر کا کوئی ذکر آج تک نہیں ہوا اور نہ جناح کے بارے میں کبھی کوئی بات ہوئی، نہ ہی گوڈسے کے مجسموں کی طرح کبھی کسی کی گلپوشی ہوئی البتہ یہ ہے کہ کسی نے تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جیسا کہ آج ہندوتوادیوں کا روزانہ کا کام بن گیا ہے. دھیان رہے کہ تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ صرف خود کو دھوکہ دینا ہوتا ہے.
گزشتہ دنوں 2/مئی کو سابق نائب صدر جمہوریہ ہند حامد انصاری صاحب کو بھی لائف ٹائم ممبر شپ ایوارڈ دینے کا پروگرام تھا. حامد انصاری ہمیشہ سنگھ کی آنکھوں میں کھٹتے رہے. حامد انصاری صاحب کو بھلے ہی اپنی مسلم شناخت دوئم لگتی ہو، لیکن سنگھ کے لئے وہ صرف ملک مخالف مسلمان ہی ہیں، جیسا کہ سنگھ ایک عام مسلمان کے بارے میں سمجھتا ہے. سنگھ کے لئے یہ پیغام دینا لازمی تھا کہ کسی مسلم کو وہ کسی اعلی عہدہ پر دیکھنے کے لئے وہ تیار نہیں ہے.
ان سب باتوں کے ساتھ ہی علی گڑھ کے ممبر آف پارلیمنٹ، ستیش گوتم کے حمایت یافتہ نوجوانوں اور یوگی آدتیہ ناتھ کی ہندو یوا واہنی نے اے ایم یو پر دہشت گردانہ حملہ کیا، جس کا مقصد کیپپس کا ماحول خراب کرنے کے ساتھ ہی سابق نائب صدر جمہوریہ ہند حامد انصاری کو نقصان پہنچانا بھی تھا.
دھیان رہے کہ ہندو یوا واہنی کے غنڈے پستول اور دھاردار ہتھیاروں سے لیس تھے، اور ان کا ساتھ دینے کے لیے علی گڑھ پولیس بھی ان کے ساتھ تھی. آگے جو ہوا وہ صرف حیرت انگیز ہی نہیں بہت دردناک بھی ہے. ان گنڈوں نے کچھ طلبہ سے مار پیٹ کی، یونیورسٹی کے سیکورٹی گارڈ کی وردی پھاڑ دی اور حامد انصاری کی گاڑی تک پہنچ گئے. پھر جب اے ایم یو کے طلبہ نے ان میں سے 6 گنڈوں کو پکڑ کر پولیس کو سونپا تو پولیس نے کارروائی کرنے کے بجائے انہیں جانے دیا اور جب طلبہ نے ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا تو الٹا طلبہ پر ہی لاٹھی چارج کردیا جس سے تقریباً چالیس طلبہ شدید زخمی ہو گئے. طلبہ کے خلاف یکطرفہ کارروائی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ سب ایک منصوبہ بند سازش کے تحت انجام دیا جارہا ہے.