غوروفکر ایک اسلامی فریضہ ہے۔ علم کا سفر غوروفکر سے شروع ہوتا ہے اور اس سفر کا مسافر Knowledge seeking nature کا متحمل ہو جائے تو اس کے لیے ہر چیز میں علم کی ایک دنیا ہے، جس سے وہ کچھ نہ کچھ ضرور سیکھ سکتا ہے ۔
قرآن مجید غوروفکر پر ابھارتا ہے اور انسان کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے دل کے تالے کو توڑ دے اور کائنات کا مطالعہ کرے، آفاق و انفس میں پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیاں یقیناً اسے غوروفکر پر مجبور کریں گی اگر وہ سوچنے والا دل اور دماغ رکھتا ہو۔
علم کی جستجو انسانی فطرت کا حصہ ہے اور اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے محنت، لگن، اور مطالعہ کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں، جن کے مقاصد اعلیٰ ہوتے اور جو ان کے حصول کے لیے اخلاص اور عاجزی کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔
علم کی جستجو کا مزاج بنانے اور رخ طے کرنے میں یقیناً بڑا کردار تعلیمی نظام اور سماجی ماحول کا ہوتا ہے۔ آج ہم جس سماج کا حصہ ہیں وہاں علم کا سفر کئی طرح کے چیلنجز سے گھرا ہوا ہے ۔شعوری اور غیر شعوری طور پر ہر چیز علم کا حصہ بن چکی ہے ۔علم کے حصول کی ایک دوڑ ہے، اس دوڑ میں علم اپنی علمیاتی بنیادوں پر تخلیق ہورہا ہے۔اس علمیاتی بنیاد میں وحی کا کوئی مقام نہیں ہے، انسان کی زندگی کا کوئی اعلیٰ مقصد نہیں ہے، علمی دوڑ بھی انفرادی مقام و مرتبہ کے حصول تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔آج اس علم کو حاصل کرنے والے علم کے حقیقی شعور، علمی مزاج اور اس کے لیے درکار جرأت مندی سے محروم ہیں۔
ہم ایک ایسے علم کے حصول کی بات کریں گے جو ہمارے اندر تنقیدی فکر، پختہ شعور اور بے باکی پیدا کرسکے!
علم کی جستجو کے اس سفر میں سوال کی بے پناہ اہمیت ہے، السؤال نصف العلم (سوال نصف علم ہے)، سوال علم میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے، سوال غوروفکر کی لامحدود منزل کا ساتھی ہے، سوال رائج علم سے آگے نئے علم کی تخلیق کے لیے ضروری ہے۔ سوال علم کے سفر کو جاری رکھتا ہے اور شعور کی پختگی کے لیے بے پناہ اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارا شعور جن بنیادوں پر قائم ہوتا ہے سوال ان کی بنیادوں کو مضبوطی عطا کرتا ہے اور کمزور بنیاد کو نئے پہلو سے مزین کرتا ہے۔ سوال شعور کے تزکیہ اور پختگی کا سامان فراہم کرتا ہے۔
علم کی تلاش اور جستجو کے سفر میں جرأت اور بے باکی کے حصول کے لیے شعور کی پختگی مطلوب ہے ۔آج ہمارا بیانیہ ہر پہلو سے مضبوط ہونے کے باوجود بہت کمزور نظر آتا ہے، اسے جس بے باکی اور جرأت مندی کی ضرورت ہے وہ ہمارے قلم و آواز میں موجود نہیں ہے۔ ہم جب اپنے سماجی شعور کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں بھی پختگی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ شاید ہم سب سوال کرنے سے اور سوال کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں، نہ ہم سوال کرنا چاہتے ہیں اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم سے کوئی سوال کرے۔ ہم بہت مضبوط بیانیہ کے مالک ہیں لیکن شعور کی پختگی اور جرأت کی کمی ہماری بڑی کمزوری بن گئی ہے۔
علم جب سوال کے ساتھ آتا ہے تو وہ شعور کی سطح پر پہنچ کر ہر قسم کے توہمات کو توڑ دیتا ہے اور وہ بے باکی اور جرأت مندی کا سبب بنتا ہے ۔قرآن مجید کے نزدیک علماء یعنی اہل علم اللہ سے ڈرتے ہیں، خوف خدا سے ان کے اندر بے باکی اور جرأت پیدا ہوتی ہے، جس کا ذریعہ علم ہے۔ یہی وہ علم ہے جو قرن اول میں ایک نئے سماج کی تشکیل کا ذریعہ بنا۔ ایک ایسے علم کے لیے ضروری ہے کہ غوروفکر کی بنیاد اسلامی اصولوں پر ہو اور اس طویل سفر کا مرکز ومحور قرآن مجید ہو۔ ہم اپنے علم کو قرآن مجید کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں، ہماری کوئی بھی تحقیق قرآنی مزاج کے خلاف نہ ہو۔ ہم اپنے اندر علمی مزاج پیدا کریں، علمی محفلوں اور علمی مذاکرات میں شرکت کی کوشش کریں۔ علمی و فکری لوگوں کو پڑھیں، ان سے ملاقات کرنے اور ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کی کوشش کریں۔
علم کی تلاش وجستجو کے اس سفر میں غوروفکر کے نتائج کو حتمی نہ سمجھ کر ایک علمی پراسس کے طور پر دیکھنے کی کوشش کریں، حتمی نتیجہ سمجھنے کے باعث آپ غوروفکر سے محرومی کا راستہ اختیار کریں گے،اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر غوروفکر ایک پراسس ہی بن جائے۔ ایک علمی شخصیت کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ مطالعہ میں وسعت اور گہرائی ہو ۔کسی بھی علم کو حقیر نہ سمجھیں، ہرعلم سے سیکھنے کی کوشش کریں، آج Multidisciplinary, Interdisciplinary اپروچ کا زمانہ ہے۔ آج کوئی بھی اچھی تحقیق مختلف علوم کے مشترکہ کنٹریبیوشن سے وجود میں آتی ہے ۔ مختلف علوم کے حصول کے لیے اخلاص، عاجزی اورانکساری بہت ضروری ہے۔ جن کے ذریعے ایک انسان بآسانی بہت کچھ سیکھ سکتاہے۔ اپنے علمی سفر کا تنقیدی جائزہ بھی ضروری ہے تاکہ ہم مزید علم حاصل کرسکیں اور ہمارا علم تمام انسانوں کے لیے نافع ہو، ایسا ہرگز نہ ہو کہ اپنے علم سے صرف ہم مستفید ہوں۔
علم کے اس طویل سفر میں عدم تحفظ کا شکار نہ ہوں، علم کے اس سفر میں بے باکی کے ساتھ ہر علم سے مستفید ہوں، ہر فکر کو انگیز کریں، ہر تھیوری کا مطالعہ کریں، علم کے تعلق سے علمی رویہ اختیار کریں، عموماً ہمارے یہاں فکر اور تھیوری کو سمجھا کم جاتا ہے اور اس پر تنقید زیادہ پیش کی جاتی ہے، یہ ایک غیر علمی رویہ ہے۔
علم کے سفر میں علمی اختلافات کو نفرت کا سبب نہ بننے دیں، ممکن ہے جسے آج آپ غلط سمجھ رہے ہیں کل وہ آپ کے نزدیک صحیح بن جائے۔ علمی اختلافات میں عدل کا رویہ مطلوب ومستحسن ہے۔
علمی سفر کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر روز آپ کچھ سیکھنے والے بن جائیں۔
ایک بڑے علمی کنٹریبیوشن کے لیے خود کو تیار کریں، منصوبہ بند پلاننگ کریں، مطالعہ کی رفتار بڑھائیں، علمی ڈسکشن میں شرکت کریں، سوال کریں، شعور کو پختگی عطا کریں، اور جرأت و بے باکی س
ے متصف ہوں۔