علامہ قرضاوی : عظیم عالم اور زبردست مفکر

0

احمد سامی الکومی


علامہ قرضاوی ایک زبردست عالم، ایک بڑے مفکر، ایک عظیم داعی،مجاہد، فقیہ اور شاعر مانے جاتے ہیں۔ وہ ایک ایسے مفکر ہیں جن کے یہاں زبردست ہمہ گیریت پائی جاتی ہے اور علم کی وسعت کے اعتبار سے وہ اپنے آپ میں ایک علمی وفکری انسائیکلوپیڈیا مانے جاتے ہیں۔ علامہ قرضاوی کو اللہ نے بے پناہ علم سے نوازا ہے، زبردست فقہی گہرائی سے مالامال کیا ہے، گہرے تجزیے اور آسان وعام فہم انداز تحریر کی نعمت عطا فرمائی ہے، شریعت کے مقاصد پر انہیں خوب عبور ہے اور حق بات کہنے کی اللہ نے انہیں خوب خوب قوت اور جرأت سے نوازا ہے۔


علامہ یوسف القرضاوی موجودہ زمانے میں اعتدال پسند اسلامی مکتب فکر کی نمایاں ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ اس مکتب فکر کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں عقل اور نقل کے درمیان توازن اختیار کیا جاتا ہے، اسلامی شریعت کے مقاصدتک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے، اسلامی ورثے اور تجدیدی فکر کے درمیان اعتدال کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، اورفروعی وجزئی احکام کو کلیات اور اصولوں کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فقہ اسلامی کے باب میں یہ مکتب فکر مشکلات کے بجائے آسانیاں فراہم کرنے کی بات کرتا ہے، اور دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں ان کے ہاں متنفر کرنے کے بجائے خوشخبری دینے اور قریب کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔اس مکتب فکر کے پیش نظر بنیادی طور پر معاشرے کو جمود اور تقلید کے رجحانات سے آزاد کرانا اور فکری پسماندگی کو دور کرنا ہوتا ہے۔


علامہ قرضاوی نے علمی اور دعوتی جدوجہد سے بھرپور اپنی زندگی میں بہت ہی غیرمعمولی کتابیں تصنیف فرمائی ہیں، جن کی تعداد ایک سو ستر (170) سے زائد ہے۔ ان کتابوں کو دنیا بھر میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور بیسیوں زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہ کتابیں اسلامی تہذیب وثقافت کے تعلق سے بہت ہی گہرا علمی سرمایہ ہیں،یہ اسلامی فکر کے تحت تجدیدی قسم کی کتابیںہیں، یہ کتابیں جدید دنیا کے مسائل کے سلسلے میں شرعی رہنمائی اور اسلامی بیداری کے تعلق سے نوجوانوں کو فکری رہنمائی فراہم کرنے کا کام کرتی ہیں۔


علامہ قرضاوی نے ہوش سنبھالتے ہی خود کو دعوت دین کے کام میں لگادیا، انہوں نے امام حسن البنا ؒکی تحریک میں شمولیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو ایک جامع ومتوازن فکری شاہراہ پرلگا دیا۔ امام حسن البناؒ کی تحریک میں شمولیت کے نتیجہ میں آپ کو دین کا ایک جامع تصور حاصل ہو گیا، جس تصور میں عقیدے اور شریعت میں یا دین اور سیاست میں کسی قسم کی تفریق نہیں تھی، جس تصور میں یہ بات صاف طور سے موجود تھی کہ اسلام ہر زمانے اور ہر مقام کے لیے رہنمائی کرنے والا دین ہے۔ علامہ قرضاوی کی شخصیت کویہاں نکھرنے کا خوب موقع ملا، چنانچہ آپ نے فکر اور تحریک یا علم وعمل دونوں میدانوں میں خوب کمال حاصل کیا، اور پھر آپ نے فکری رہنمائی کا کام بھی کیا، اور نفوس کے تزکیہ کا کام بھی کیا، اور بڑھ چڑھ کر اللہ کی راہ میں قربانیاں پیش کیں۔ یقینا علامہ قرضاوی نے بعد میں آنے والوں کے لیے ایک زبردست عملی اور قابل تقلید مثال پیش کی۔


علامہ قرضاوی نے دعوت وتربیت کے سلسلے میں بہت ہی منفرد لٹریچر تیار کیا ہے، ’ثقافۃ الداعیۃ‘ نامی کتاب میں داعی کے اوصاف اور ذمہ داریوں پر شاندار گفتگو کی ہے اور ’التربیۃ الاسلامیۃ ومدرسۃ حسن البنا‘ میں تربیت کے تعلق سے بہت ہی شاندار گفتگو کی ہے۔


فقہی میدان میں وہ وسیع تر معنوں میں ایک فقیہ کے طور پر نظرآتے ہیں، انہوں نے فقہ المقاصد، فقہ الاولویات، فقہ السنن، فقہ المآلات، فقہ الموازنات اورفقہ الاختلاف وغیرہ پر قلم اٹھایا ہے۔ ان کی کتاب ’دراسۃ فقہ المقاصد ‘ مقاصد شریعت کے تعلق سے بہت ہی گہری تحقیق پیش کرتی ہے،جبکہ ’تیسیر الفقہ للمسلم المعاصر‘ میں نئی نسل کے مسلم نوجوانوں کے لیے فقہی مباحث کو بہت ہی آسان اور عام فہم بناکر پیش کردیا۔ آپ کی کتاب ’الفقہ الاسلامی بین الاصالۃ والتجدید‘ فقہ اسلامی کے سلسلہ میں تجدید ی خطوط کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور ’الاجتہاد المعاصربین الانضباط والانفراط‘ میں اجتہاد کے تعلق سے افراط وتفریط پر مبنی رویوں کی نشاندہی کرتے ہوئے صحیح طرز فکر کی جانب رہنمائی کی گئی ہے۔


اسلامی تحریک اور اسلامی بیداری کے تعلق سے بھی علامہ قرضاوی نے کافی لٹریچر تیار کیا ہے، اس لٹریچر میں صاف نظر آتا ہے کہ علامہ قرضاوی اسلامی تحریک کا کس قدر باریکی اور گہرائی سے جائزہ لے رہے ہیں اور اس کی صحیح سمت میں رہنمائی کے لیے کوشاں ہیں، اس ضمن میں جب انہوں نے محسوس کیا کہ امت اور اسلامی بیداری کے تعلق سے لکھنے کی ضرورت ہے تو انہوں نے ’الصحوۃ الاسلامیۃ وھموم الوطن العربی والاسلامی‘ نامی کتاب لکھی، اور جب انہوں نے محسوس کیا کہ اسلامی تحریک کے کچھ افراد ترجیحات کے سلسلہ میں الجھنوں کا شکار ہیں تو انہوں نے آنے والے ایام میں تحریک اسلامی کی ترجیحات پر ’اولویات الحرکۃ الاسلامیۃ فی المرحلۃ القادمۃ‘ تصنیف فرمائی۔ ان کی کتاب ’فقہ الاولویات‘ یعنی دین میں ترجیحات کا مسئلہ بھی اسی سلسلہ کی ایک اہم کڑی ہے۔

انہوں نے جب محسوس کیا کہ انتہاپسندی کا عنصر تحریک اسلامی کے ایک حصے کو اپنا شکار بنا رہا ہے تو انہوں نے ’الصحوۃ الاسلامیۃ بین الجحود والتطرف‘ تصنیف فرمائی، اور جب دیکھاکہ اسلامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان اختلافات ناخوشگوار طور پر آگے بڑھ رہے ہیں اور تحریک اسلامی کو نقصان پہنچارہے ہیں تو انہوں نے ’الصحوۃ الاسلامیۃ بین الاختلاف المشروع والتفرق المذموم‘ نامی کتاب تصنیف فرمائی، اور جب انہوں نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ اسلامی تحریک کو صحیح خطوط کی جانب رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے تو انہوں نے ’الصحوۃ الاسلامیۃ من المراھقۃ الی الرشد‘ اور ’من اجل صحوۃ راشدۃ تجدد الدین وتنھض بالدنیا‘ تصنیف فرمائی۔ علامہ قرضاوی کہتے ہیں کہ اسلامی تحریک کو صحیح خطوط پر اپنا سفر جاری رکھنے کے لیے اُن دس رہنما اصولوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا، جو انہوں نے ’الصحوۃ الاسلامیۃ من المراھقۃ الی الرشد‘ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں، یہ اصول کچھ اس طرح ہیں:
1۔ ظاہری چیزوں کے بجائے اندرونی اور جوہری چیزوں پر دھیان دیں۔
2۔ بحث ومباحثہ کے بجائے کام اور افادیت پر دھیان دیں۔
3۔ جذباتی اور منتشر باتوں کے بجائے عقلی اور عملی باتوں پر دھیان دیں۔
4۔ فرعی اور ذیلی چیزوں میں پڑنے کے بجائے اصولی اور کلیدی چیزوں پر دھیان دیں۔
5۔ مشکل پیدا کرنے اور متنفر کرنے کے بجائے آسانی پیدا کرنے اور خوشخبری دینے والے بنیں۔
6۔ جمود اور تقلید کے بجائے اجتہاد اور تجدید کا راستہ اختیار کریں۔
7۔ تعصب اور تنگ نظری کے بجائے رواداری اور کھلے پن کا مظاہرہ کریں۔
8۔ غلو اور انتہاپسندی کے بجائے وسطیت اور اعتدال کی راہ پر چلیں۔
9۔ شدت اور سختی کے بجائے رحمت اور شفقت اختیار کریں۔
10۔ اختلاف اور دوری کے بجائے اتفاق اور میل جول کے ساتھ رہیں۔


علامہ قرضاوی کو اس بات کا احساس تھا کہ اسلامی تحریک کی کامیابی میں خواتین کا بڑا رول ہے، چنانچہ انہوں نے ’دور المرأۃ المسلمۃ فی الصحوۃ الاسلامیۃ‘ تصنیف فرمائی۔


اسلامی معاشیات اور اس سے متعلق مسائل کو لے کر علامہ قرضاوی نے جو کچھ لکھا وہ ان کا منفرد کارنامہ ہے، انہوں نے اس ضمن میں متعدد اہم کتابیں تصنیف فرمائیں:
۱۔ فقہ الزکوۃ (اس کتاب میںزکوۃ سے متعلق تفصیلی گفتگو ہے۔)
۲۔ مشکلۃالفقر وکیف عالجہا الاسلام(اس کتاب میں غربت کے مسئلہ سے متعلق اسلامی رہنمائی پر تفصیلی بحث ہے۔)
۳۔ بیع المرابحہ للامر بالشراء (اس کتاب میں اسلامی تجارت ومعیشت سے متعلق رہنما بحثیں ہیں۔)
۴۔ فوائد البنوک ھی الرباالحرام (اس کتاب میں بینک سے ملنے والی سود کی رقم سے متعلق اسلامی رہنمائی کو پیش کیا گیا ہے۔)
۵۔ دور القیم والاخلاق فی الاقتصاد الاسلامی (اس کتاب میں اسلامی نظام معیشت میں اخلاق واقدار کے کردار اور اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔)
۶۔ دورالزکاۃ فی علاج المشکلات الاقتصادیۃ (اس کتاب میں معاشی مسائل کے حل کے سلسلہ میں اسلام کے نظام زکوۃ کے رول پر گفتگو کی گئی ہے۔)
۷۔ لکی تنجح موسسۃ الزکوۃ فی التطبیق المعاصر (اس کتاب میں زکوۃ سے متعلق جدید مباحث پر گفتگو ہے۔)
۸۔ القواعد الحاکمۃ لفقہ المعاملات(اس کتاب میں معاملات کے اسلامی اصولوں کو بیان کیا گیا ہے۔)
۹۔ مقاصد الشریعہ المتعلقۃ بالمال(اس کتاب میں مالی معاملات سے متعلق مقاصد شریعت پر بحث کی گئی ہے۔)


سیاسی مسائل کے سلسلہ میں بھی علامہ قرضاوی علمی اور عملی ہر دو پہلو سے ایک ماہر سیاست داں کے طور پر نظر آتے ہیں۔ آپ کی کتاب ’الدین والسیاسۃ‘ (دین اور سیاست) میں دین اور سیاست کے درمیان رشتے پر گفتگو کی گئی ہے، معاصر سیاسی مسائل پر آپ کی کئی نمایاں کتابیں ہیں:
۱۔ قضایا معاصرۃ علی بساط البحث (اس میں مختلف جدید سیاسی مسائل کو زیربحث لایا گیا ہے۔)
۲۔لقاء ات وحوارات حول قضایا الاسلام والعصر (اس کتاب میں علامہ قرضاوی کی افکار کو جدید دنیا کے مسائل کے حوالے سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔)
۳۔ ۲۵ ینایر۔۔۔ ثورۃ شعب (اس کتاب میں عرب بہاریہ پر بہت اچھی گفتگو کی گئی ہے۔)


ان کتابوں کے علاوہ دوسری کتابوں میں بھی علامہ قرضاوی ہمیشہ معاصر دنیاکے مسائل کے سلسلہ میں کھل کر گفتگو کرتے ہیں، مثال کے طور پر ظلم، فساد اور استبداد کے خلاف عوامی جدوجہد اور قضیہ فلسطین کے تعلق سے علامہ قرضاوی نے ہمیشہ تحریری اور تقریری طور پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور اپنی تائید ان کے حق میں پیش کی ہے۔ تیونس، مصر، لیبیا اور شام کے عوامی انقلاب کے موقع پر بھی آپ نے کھل کرعوامی جدوجہد کے حق میں اظہار خیال کیا تھا۔


ادب اور شاعری کے حوالہ سے بھی علامہ قرضاوی اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں، مثال کے طور پر:
۱۔ نفحات ولفحات (آپ کا معروف شعری مجموعہ ہے۔)
۲۔ المسلمون قادمون (مسلم امت میں جوش وجذبہ پیش کرنے والا شعری مجموعہ ہے۔)
۳۔ یوسف الصدیق (یہ آپ کا ایک منظوم ڈرامہ ہے۔)
۴۔ عالم وطاغیۃ (یہ آپ کا تاریخی ڈرامہ ہے۔)


جب ہم علامہ قرضاوی کی تصنیفات کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر ذہین، کس قدر وسیع الفکر، کس قدر ہمہ گیریت کے حامل اور جدید دنیا کی شرعی رہنمائی کے سلسلہ میں وہ کس قدر عظیم کردار کے حامل ہیں، وہ زندگی کے مسائل، اسلامی تحریک کی رہنمائی، اور دینی کام کی صحیح خطوط پر انجام دہی کے سلسلہ میں کس قدر گہری بصیرت رکھتے ہیں۔


علامہ قرضاوی ان عظیم اہل علم ودانش میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے انسانیت کو علم ومعرفت کی وسعتوں اور بڑے اعلی قسم کے تجربات سے روشناس کرایا۔ وہ ایک فکری شخصیت بھی ہیں اور ایک تحریکی شخصیت بھی۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں بہت ہی غیرمعمولی مہارت کے ساتھ فقہ، دعوت، اسلامی تحریک، اسلامی معیشت، سیاست اور جدید دنیا کے مسائل، شعروادب، تہذیب وثقافت اور فکر اسلامی پر ہر پہلو سے گفتگو کی ہے، تاکہ وہ ان کی حقیقی اور جامع تصویر پیش کرسکیں، اور جدید فکری اور عملی مسائل اور چیلنجز کے حوالے سے تفصیلی طور پر وضاحت اور شرعی رہنمائی سامنے آسکے۔


ہم پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ علامہ یوسف القرضاوی علم کے ایک وسیع سمندر ہیں، اور فقہ اور اصول فقہ کے ایک گہرے عالم ہیں، وہ موجودہ دنیا کے ایک نمایاں ترین عالم دین، اعتدال اور وسطیت کے حوالے سے وہ ایک نمایاں شخصیت، اور فکر اسلامی کے ایک عظیم راہی اور تحریک اسلامی اور معاصر اسلامی دنیا کے ایک اہم رہنما ہیں، وہ ایک زبردست مجاہد صفت امام ہیں، اللہ ان کی عمر میں برکت دے اور ہمیں ان کے علم سے استفادہ کی توفیق عنایت فرمائے۔ (عربی سے ترجمہ، معمولی حذف واضافہ کے ساتھ۔ادارہ)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights