عصبیت زدہ معاشرہ اور میڈیا کا مطلوبہ کردار

ایڈمن

عمیر کوٹی ندوی

عصبیت کی حقیقت اور بنیادی اسباب

اپنی فہم ، سوچ وسمجھ کو متاع کل سمجھنے ،اسی سمجھ کے ترازو میں دنیا کے تمام معاملات کو تولنے ، اسی پہلو سے ان کا جائزہ لینے اور پھر صحیح وغلط اور حق وناحق کے مابین تمیز کئے بغیر اس سے حاصل شدہ نتیجہ پر پوری شدت، اشتعال انگیزی اور جذباتیت کے ساتھ جم جانے کا نام عصبیت وتعصب ہے۔اس کا مارا ہوا آدمی آنکھوں پر پٹی باندھ لیتا ہے۔ وہ حق وصداقت کا پیروکار نہیں ہوتا بلکہ من وتو کے اصول پر عمل پیرا ہوکر بے جاحمایت وطرفداری کرنے کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ اس کی انا اسے خودسری، نام ونمود اورسربراہی کی خوگری کے لئے ابھارتی ہے۔ لہذا وہ اس سے مغلوب ہوکر اپنی سوچ وسمجھ، نظریہ وافکار،طرز حیات سے عدم اتفاق کرنے والے کو برداشت نہیں کرپاتا ہے۔ اس کو رد کرنے اور مقابلہ آرائی کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اس کام میں وہ پوری شدت کے ساتھ لگتا ہے اور تمام ممکنہ وسائل وذرائع کو بھی استعمال کرتا ہے۔ اس کے لئے اگر اسے گروہ بندی اور دھڑے بندی کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ اس سے بھی گریز نہیں کرتا ہے اورجذبہ عصبیت سے مغلوب ہوکر ظلم کا ساتھ دینے والے ہم خیال لوگوں کو اپنے ارد گرد جمع کرلیتا ہے۔ پھر یہ سب جماعت، پارٹی، تنظیم اور ادارے کی شکل میں اپنی فکر پر جمود، اس کی ترویج اور اس سے اختلاف کرنے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کے کام پر لگ جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ انسانوں کو ان کے خالق کی طرف سے عطا کی گئی عقل سلیم،فطرت، شعور عام اور ضمیر کو نہ کام پر لاتے ہیں اور نہ حقیقی روحانی کیفیات کو ہی حاصل کرپاتے ہیں۔جب حق ان پر دلائل کے ساتھ ظاہر اور واضح ہوجاتا ہے توبھی وہ اسے قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ فطرت کے خلاف عمل پیرا ہوکر کھلی ہوئی حیوانیت پر اتر آتے ہیں۔

عصبیت کا ہدف

عدل وقسط اورحق کو قبول نہ کرنے کی حد تک بڑھی ہوئی انانیت، اشتعال انگیزی اور جذباتیت کو احادیث مبارکہ میں “عصبیہ” کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔عصبیت کا عقل، درست فیصلے اور شعور کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں ہے۔ عصبیت کے نتیجہ میں ایک ایسا ذہن تیار ہوتا ہے جودوسروں کا لحاظ کئے اور ان کی بات سنے بغیر منفی باتوں پر بضد رہنے،ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے اور ہر معاملے میں صرف اپنی ذات اور رائے کو سب سے برتر سمجھنے، دوسروں کو اپنی رائے کو تسلیم کرنے کے لئے مجبور کرنے، نہ ماننے کی صورت میں انہیں برا بھلا کہنے،ان کے خلاف ماحول تیار کرنے،ان پر ظلم کرنے اور ان کو ایذائیں پہنچانے کا کام کرتا ہے۔ یہ کام آغاز انسانیت سے لے کر اس وقت تک ہر دور اور ہر زمانہ میں ہوا ہے۔ عہد رسالت میں مشرکین، منافقین اور اہل کتاب نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عصبیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ عصبیت نے اسلام کے چشمہ صافی کو بغض کے خار و خس سے مکدر کرنے کی ہر کوشش کو انجام دیا ہے۔اس نےہر نفس کو گمراہ کرنے، حق سے لوگوں کو دور رکھنے اورہر سوآگ کوبھڑکانے کی انتھک کوشش کی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اہل حق نے انسانی عقل وشعور کی اس کج فہمی کو ٹھکرایا ہے اور ان سے کوئی لاگ لپیٹ نہیں رکھی اس لئے کہ خالق کائنات نے ان سے ایسے لوگوں کو دوست نہ بنانے، ان پر بھروسہ نہ کرنے اور ان سے فکری ونظریاتی ہم آہنگی پیدا نہ کرنے کی تاکید کی ہے۔

عصبیت کے مظاہر

اہل حق کا یہ طرزعمل آج بھی اہل تعصب کو پھوٹی آنکھ نہیں بھارہا ہے۔اس وقت سماج کا ایک طبقہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر تعصبات، اشتعال انگیزی ، جذباتیت، بے جاحمایت وطرفداری،ضد، ہٹ دھرمی اور امتیاز من وتو کا شکار ہوکر ایک مخصوص سوچ وسمجھ، نظریہ وافکار اورطرز حیات سے عدم اتفاق کرنے والے کو برداشت نہ کرپانے کی روش پر گامزن ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ زندگی کے تمام شعبے اور انسانوں کے تمام طبقات اس کی فکرونظریہ اور اس کو پسند طرز حیات کے طابع ومطیع بن جائیں۔ تب ہی وسائل حیات اور آرائش زندگی میں ان کا حق تسلیم کیا جائے گا۔ اورجولوگ اس کے لئے آمادہ نہ ہوں وہ چاہتا ہے کہ ان کا وجود ہی اس دنیا سے ختم ہوجائے سوائے ان کے جو محض دودن کی زندگی اور دنیا وی عیش وآرام کی خاطر ذلت وخواری کو اپنا مقدر ماننے کے لئے تیار ہوں۔ عصبیت کی بنیاد پر تشکیل دیے جانے والے یا اس طرح کی کوششوں کا سامنا کرنے والے اس سماج میں عصبیت کے متعدد مظاہر ملتے ہیں۔ خود اس قسم کی عصبیت کےداعی طبقہ کے درمیان بھی بالادست اور زیردست کی واضح تصویر نظر آتی ہے۔ اس کی داخلی دنیا ظلم وجور، بہیمیت وحیوانیت سے عبارت ہے۔ وہاں ایک بڑی آبادی کو محقور ومجبور بنادیا گیا ہے۔ عصبیت کا دل آج بھی انہیں آسانی سے انسان تک تصورکرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ذلت وخواری اور ظلم وبربریت کے مناظرآئے دن گاؤں دیہاتوں اورقصبات وشہروں کی سڑکوں ، گلی، کوچوں میں نظر آتے رہتے ہیں اور دل کو دہلا دینے والی داستانیں سنائی دیتی رہتی ہیں۔گاہے گاہے اس تعلق سے کبھی کبھار کچھ باتیں پرنٹ میڈیا،الیکٹرانک میڈیا اورسوشل میڈیا میں بھی آجاتی ہیں۔ وہ بھی اس وقت جب واقعہ منظرعام پر آچکا ہو، لوگ اس کی طرف متوجہ ہورہے ہوں اور اس کا دبانا ممکن نہ ہو بصورت دیگر اس سے اسے ٹی آرپی مل رہی ہو۔

سماج میں میڈیا کا کردار

عام حالات میں ہمارے سماج میں میڈیا کا کیا کردار ہے یا اس نے اپنے لئے جان بوجھ کر کس کردار کو چن لیا ہے، اسے کون نہیں جانتا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ہمارے سماج کا میڈیا عموماً عصبیت زدہ، مفادپرست اور موقع شناس ہے۔ مین اسٹریم میڈیا ہو کہ لوکل میڈیا اس کے بڑے طبقہ کی فکری وابستگی عرصہ دراز سے عصبیت کے ساتھ ہی رہی ہے۔ چونکہ میڈیا کے لئے دولت بھی درکار ہوتی ہے اس لئے اس نے اپنی سیاسی وابستگی دوسروں سے قائم کررکھی تھی، لیکن کمال ہوشیاری سے ایک عرصہ سے یہ اپنی ان تینوں صفات میں توازن بھی برقرار رکھے ہوئے تھا اس لئے اس کا کردار بے نقاب نہیں ہوا تھا۔ اسی توازن اور سیاسی وابستگی کی وجہ سے اس کے سیکولر ہونے کا بھرم بھی قائم تھا۔ لیکن جیسے ہی اس کی موقع شناس صفت و فطرت نے یہ دیکھا کہ اب عصبیت دولت کی فراہمی پر قادر ہوچکی ہے اور عملاً اس نے اس کی ضرورتوں کو پورا کرنا شروع بھی کردیا ہے تو اس نے اس سے اپنی سیاسی وابستگی بھی قائم کرنے میں لمحہ بھر کی بھی تاخیر نہیں کی۔ اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ کل خود کو سیکولر کہنے والا میڈیا عصبیت کا دست وبازو بن گیاہے۔ جس نے ایساکرنے سے انکار کیا اسے مجبور کیا گیا اور جو اس پر بھی آمادہ نہ ہوا اسے سرعام رسوا وپریشان کیا گیا۔یہ سلسلہ بدستور جاری ہے اس لئے کہ یہی عصبیت کا طریقہ ہے۔ اس کے شواہد ونظائر کو ڈھونڈھنے اورسمجھنے کے لئے بہت غووفکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ عصبیت کے خوگروں اور عصبیت زدہ کے علاوہ پورے سماج کو یہ سب کچھ کھلی آنکھوں نظر آرہا ہے۔

میڈیا سے توقعات کی حقیقت

اس کردار کاحامل میڈیا افراد کی ذہن سازی میں اپنا کردار ادا کررہا ہے اور بہت ہی مؤثر انداز سے کررہا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس نے انتہائی کم وقت میں سماج کی ترجیحات، موضوعات، مزاج، کردار اور اخلاقیات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔اس مدت کے دوران اس نے منفی بنیادوں اور خطوط پر منفی انداز سے افراد کی ذہن سازی کا کام کیا ہے۔ اس میں اسے یک گونہ کامیابی بھی ملی ہے اور اس کا اسے پھل بھی ملا ہے۔ ایسی صورت میں اس سے کسی مثبت کردار کی توقع کرنا اور وہ بھی اس قیمت پر جو مادی، سیاسی بنیادوں پر بے قیمت ہو خلاف واقعہ بات ہوگی۔ یہ سراب میں پانی، جھاگ میں زندگی اور تانبہ وپیتل میں سونا تلاش کرنے سے بھی زیادہ بے حقیقت اور بے سود بات ہوگی۔ ایک ایسا میڈیا جس کا عصبیت ایمان ویقین ہو، جس کے قیام،انتظام وانصرام میں کلی طور پر ان لوگوں کا ہاتھ ہو جو مفادپرستی اور موقع شناسی پر ایمان رکھتے ہوں اور دولت ہی ان کی زندگی کا کل حاصل ہو، وہ کیسے مثبت خطوط پر افراد کی ذہن سازی اور اعلیٰ کردار کے لئے خود کو دار پر چڑھانے کے لئے تیار ہوجائے گا۔ ہمارے سماج کی ایک تصویر یہ بھی ہے کہ یہاں ظلم وجور کے خوگروں، ناانصافیوں کے دلدادوں، دادعیش دینے والوں سے جود وسخا کی توقع ہی نہیں پائی جاتی ہے بلکہ ان سے فریاد بھی کی جاتی ہے۔بقول اختر شیرانی:
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر!
یوں ظلم نہ کر، بیدار نہ کر!اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

اس فریاد اور آہ وفغاں سے حاصل تو کچھ نہیں ہوتا ہاں عصبیت کو توانائی ضرور ملتی ہے اور وہ نئے جوش اور حوصلے سے اپنی فکر پر جمود، اس کی ترویج اور اس سے اختلاف کرنے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کے کام کی سمت ایک قدم اور آگے بڑھا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جود وسخا کی توقع نے عصبیت زدہ، مفادپرست اور موقع شناس میڈیا کے اشتراک سے اہل حق کی ایک بڑی تعداد کو بھی اس حد تک متاثر کردیا ہے کہ اس نے دودن کی زندگی اور دنیاوی عیش وآرام کو پیش نظر رکھتے ہوئے عصبیت کے داعیوں، ظلم وجور کے خوگروں کو اپنا دوست بنالیا ہے، ان پر بھروسہ کربیٹھی ہے اور ان سے فکری ونظریاتی ہم آہنگی پیدا کرچکی ہے۔ اس کے باوجود عصبیت اپنے عمل وکردار پر بہ دستور قائم ہے۔ اس نے خودسری اورسربراہی کی خوگری کے نشہ میں چور ہوکر اشتعال انگیزی اور جذباتیت کا سہارا لے کرنہ صرف ملک کے شہریوں کی جان ومال، عزت وآبرو کو پامال کیابلکہ یہاں کے اقدار، افکار، نظریات اور تہذیب وثقافت پر فرقہ پرستی کے تیر ونشتر چلائے اور انسانیت پر مبنی ملک کے سماجی تانے بانے کو تار تار کردیا۔ اس نے ملک کے دیگر وسائل وذرائع کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی اسی کام پر لگادیا۔ اس وقت سے آج تک عصبیت زدہ، مفادپرست اور موقع شناس میڈیا اسی کام پر لگا ہوا ہے۔ عصبیت کے اشارے پر اشتعال انگیزی، جذباتیت، من وتو کے اصول پر عمل پیرا ہوکر جانب داری،بے جاحمایت وطرفداری کرنے کی راہ پر نہ صرف چل رہا ہے بلکہ وہ حقائق کوتوڑنے مروڑنے،ناپسندیدہ طبقات پر الزام تراشیاں کرنے، ان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور ظلم وجور کا ماحول تیار کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اس کے نتیجہ میں اس مدت میں منفی بنیادوں اور خطوط پر منفی انداز سے افراد کی ذہن سازی کا جوکام اس نے انجام دیا ہے اور اس کے نتیجہ میں جو ذہن تیار ہوا اس نے وہ کارنامے انجام دئے ہیں جنہیں دیکھ کر انسانیت انگشت بہ دنداں ہے۔ اس کے یہ کارنامے ڈھکے چھپے نہیں بلکہ سب کے سامنے ہیں۔

میڈیا کا مثبت، مؤثر اور مطلوبہ کردار

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ میڈیا کے مثبت، مؤثر اور مطلوبہ کردار کے خاتمہ اور اس کے موجودہ کردار کی تشکیل میں جس نے نمایاں اور اہم کردار ادا کیا ہے وہ ہے عصبیت۔ اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے سماج میں عصبیت زدہ، مفادپرست اور موقع شناس میڈیا کے ساتھ ساتھ عصبیت سے کم درجہ متاثر میڈیا کا ایک طبقہ بھی موجود ہے۔ اس کی طرف سے کچھ باتیں کبھی کبھی سامنے آجاتی ہیں یا وہ مصلحتاً توازن قائم رکھنے کے لئے کچھ چیزیں پیش کردیتا ہے۔اسی طرح اس ذہنیت کے خلاف بھی میڈیا کا ایک طبقہ موجود ہے لیکن ایک دو کو چھوڑ کر زیادہ ترصحافت کے میدان میں حاشیہ پر ہیں۔جہاں تک طبقاتی، فرقہ واری، گروہی، علاقائی، لسانی اقلیتی میڈیا کا تعلق ہے تو اس کی آواز “کون سنتا ہے نقار خانہ میں طوطی کی آواز” کے مصداق صدابہ صحرا سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ اس لئے اس میں اٹھنے والی آواز سے فوری اور بڑے پیمانے پر اثرات کے مرتب ہونے یا نتائج کے برآمد ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ میڈیا کے اس طبقہ میں وہ فکر مل جاتی ہے جو مثبت بھی ہوتی ہے اورتعمیری بھی۔ یہاں افراد کی ذہن سازی کی وہ فکر بھی مل جاتی ہے جس نے ماضی میں ذہن سازی کا بڑے پیمانے پر کام کیا ہے ، وہ ملک وعوام اور قوم وملت کی آرزؤوں ، تمناؤں اور توقعات پر صد فیصد کھری اتری ہے اور بیڑے کو بھی پار لگاتی رہی ہے۔ہمارے ملک کی آزادی میں اس کا بڑا اور مؤثر حصہ رہا ہے۔ لیکن حصول آزادی کے فوراً بعد ہی دھماکہ خیز حالات کے نتیجہ میں ملک کے اسٹریم میڈیا پر منفی کردار غالب آگیا۔ اس کے باوجود مین اسٹریم میڈیا کا ایک محدود طبقہ ہو کہ مذکورہ طبقاتی، فرقہ واری، گروہی، علاقائی، لسانی اقلیتی میڈیا، میڈیا سے وابستہ افراد ہوں کہ سوشل میڈیا میں دلچسپی رکھنے والے سرگرم افراد، میڈیاسے مثبت کردار کلی طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔ اگر ان کی باتوں کو تسلسل کے ساتھ سنا اور تحریروں کو پڑھا جائے، ان تک رسائی حاصل کی جائے، انہیں منظم کرنے ، ان کے افکاروخیالات کی ترویج وترسیل اور ضروری وسائل وذرائع کو بروئے کار لانے اور بہم پہونچانے کی کوشش کی جائے اور یہ عمل مین اسٹریم میڈیا میں مؤثر اور بااختیار جگہ بنانے کے ساتھ ساتھ ہوتو نہ صرف عصبیت وتعصب کی روک تھام میں میڈیا کے کردار کو مثبت اور مؤثر بنایا جاکتا ہے بلکہ اس کی آواز کو بلند سے بلند تر کیا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعہ سے ایک انسان دوست، صحت مند معاشرہ بھی تشکیل دیا جاسکتا ہے۔

مارچ 2018

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں