ظلم و بربریت،پروپیگنڈا اورظالم کا دوغلا پن

ایڈمن

باسم یوسف مصر سے تعلق رکھنے والے سیاسی طنز و مزاح کرنے والےنامور فنکار ہیں۔ 7/ اکتوبر کے بعد اسرئیلی استبداد اور ظلم و زیادتی کے خلاف باسم نے مشہور امریکی صحافی پیرس مارگن کے ساتھ بات چیت کی۔ باسم…

باسم یوسف مصر سے تعلق رکھنے والے سیاسی طنز و مزاح کرنے والےنامور فنکار ہیں۔ 7/ اکتوبر کے بعد اسرئیلی استبداد اور ظلم و زیادتی کے خلاف باسم نے مشہور امریکی صحافی پیرس مارگن کے ساتھ بات چیت کی۔ باسم یوسف کے انداز بیان، بلا کی ذہانت اور طنز پر مبنی یہ انٹرویو دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ مارچ 2024ء میں انڈیا ٹو ڈے کانکلیو میں انہیں بطور مہمان مدعو کیا گیا۔ اس موقع پر باسم یوسف نے ایک اہم تقریر کی جسے افادہ عام کی غرض سے اردو زبان میں منتقل کرکے نذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

میں اس پروگرام میں آکر بہت خوش ہوں اور میرے لیے یہ ایک اعزاز کی بات ہے ۔میں نے بہت سوچا کہ اپنی تقریر کا آغاز کیسے کروں؟
غیر روایتی طور پر اپنی تقریر کا آغاز میں ونسٹن چرچل کے ایک قول سے کرتا ہوں: “بھوک سے بلک رہے بنگالی ایک آسودہ یونانی سے کم سنگین ہیں۔” ونسٹن چرچل نے میڈیا میں اپنا یہ بیان دیا تھا جب کہ بنگال قحط میں لاکھوں ہندوستانی مارے گئے۔ چرچل وہ شخص تھا جس نے کہا تھا کہ میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ امریکہ کے ریڈ انڈینز یا آسٹریلیا کے سیاہ فام لوگوں کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوا ہے۔ میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ ان لوگوں کے ساتھ غلط کیا گیا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ مجھے یہاں کچھ خاص توقعات کے ساتھ اور کچھ خاص موضوعات بلکہ میں کہوں گا کہ ایک خاص موضوع پر بولنے کے لیے مدعو کیا گیا ہے، لیکن یہ سارے موضوعات آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ انسانی تاریخ میں، درد، ظلم، جبر، غیر برابری، جدوجہد، سنگین نا انصافی سب ایک دوسرے سے جڑی ہوئی کہانیاں ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کہانیوں کا تعلق دنیا کے مختلف حصہ سے ہو، مختلف ادوار سے ہو لیکن وہ اپنی نوعیت میں کم و بیش ایک ہی جیسی کہانیاں ہوتی ہیں۔ تاریخ میں ان کہانیوں کو پیش کرنے کا طرز، پیش کرنے والے کے منشا پر موقوف ہوتا ہے۔ وہ جو نیریٹیو پر قابض ہے، جو کہانیاں لکھتا ہے اور بولتا ہے اور اکثر سچ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک ونسٹن چرچل برطانوی راج کا ہیرو تھا۔ برطانوی حکومت میں اس کا شمار سب سے مؤثر آدمی کے طور سے ہوتا تھا، لیکن ہندوستان اور دیگر محکوم قوموں کے نزدیک وہ نسلی امتیاز رکھنے والا قابلِ نفرت دشمن تھا۔ بہت سے یورپی اور امریکی سیاست داں، رہنما اور فوجی کمانڈر تاریخ میں کسی کے ہیرو رہے ہیں تو دوسرے کے لیے استعماری ڈراؤنا خواب۔ لیکن ہم وہ کہانی نہیں لکھتے بلکہ وہ لکھتے ہیں جودیکھا جائے تو پرانی اور پوری تاریخ میں دہرائی جانے والی ایک طرح کی کہانی ہے۔ انسانوں نے انسانوں کا قتل کیا، انہیں غلام بنایا، ان پر قبضہ کیا اور استحصال کیا۔
ارتقائی نقظہ نظر سے ہم جانور ہیں لیکن ہمیں جانور جیسا محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ میں صبح اٹھ کر تمہیں قتل نہیں کرتا کیوں کہ میں جانور نہیں ہوں، میں انسان ہوں۔ میرا ارتقاء ہوا ہے۔ میں اسی صورت میں تمہارا قتل کروں گا جب قتل کرنا بہت ضروری ہوگا۔ جس کے لیے مجھے جواز چاہیے۔ تم ایک خطرہ ہو، تم خطرناک ہو اور تم اس طرح اعلیٰ انسان نہیں ہو جیسا میں ہوں۔
جرمنی کے نازی یہودیوں کو چوہا کہتے تھے۔ انسانوں کو گیس چیمبر میں بند کرنا کتنا دہلا دینے والا عمل ہے! یہ تبھی ممکن ہے جب آپ دوسرے انسانوں کو جانور سمجھنے لگیں۔ دس، سو یا لاکھوں چوہوں کو تو بند کیا جاسکتا ہے لیکن انسانوں کو گیس کے چیمبر میں بند کرنے کے لیے “جواز” کی ضرورت تھی اور انہیں اس حیثیت میں دیکھا جائے کہ وہ زندہ رہنے کے قابل نہیں ہیں۔ وہ جواز اس کا رنگ، اس کی قدیم ثقافت یعنی وہ ہر معاملے میں ہم سے نیچے سطح کے لوگ ہیں۔ آپ ایک بڑی آبادی کی نسل کشی نہیں کرسکتے، یہ صرف نسلی برتری کے پاگل پن میں ہی ممکن ہے جب انہیں زندہ رہنے کے قابل نہ سمجھا جائے۔
ہم تاریخ میں لوگوں کو اس لیے مارتے رہے ہیں کیوں کہ وہ غلط مذہب، غلط رنگ اور ادنیٰ ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم انسان کسی دوسرے انسان کو مارنے کا کوئی بھی غیر معقول جواز تلاش کرلیتے ہیں۔ لیکن ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ ہم بہتر انسان بن سکتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا قیام، انسانی حقوق کا عالمی منشور، غلام ملکوں میں تحریک آزادی، شہری حقوق کی تحریکات، برابری اور خوشحالی کے لیے جدوجہد اس لیے ہوئی تاکہ ایک بہتر انسانی معاشرے کا قیام عمل میں آئے۔ ہم نے عہد کیا تھا کہ ماضی میں ظلم کی جو داستان رقم ہوئی وہ کبھی نہیں دہرائی جائے گی، کبھی بھی نہیں۔ ہم اب قدیم اور تاریک دور میں نہیں رہتے۔ ہم نے مغربی استعمار، نسلی امتیاز رکھنے والی تحریکوں اور ظلم و ناانصافی کو مات دی ہے۔ یہ بات کتنی شرمناک ہے کہ ہم نےاس وحشیانہ پن کو برقرار رکھنے میں نئے نئے طریقے ایجاد کرلیے ہیں۔ ہم حقیقت سے زیادہ روبرو ہیں۔
ماضی قریب کی بات ہے۔ قدیم یونان ، اسپین، پرتگال کے شہریوں کو سولہویں صدی میں اور انگلینڈ، فرانس کے شہریوں کو اٹھارویں صدی میں اپنی حکومت کے زیر اثر انسانی حقوق حاصل تھے اور وہ اچھی زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن غلام (مشرقی) قوموں کے لیے یہ زندگی محض خواب تھی جسے وہ کبھی حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان سلطنتوں کے لوگ اس بات سے بےخبر تھے کہ انہیں حاصل ہونے والے ثمرات، سہولیات اور لطف اندوزی کس انسانی استحصال کی قیمت پر حاصل ہورہی ہے۔ سو سال پہلے آپ نے لندن میں کبھی یہ نہیں سنا ہوگا کہ چلو چائے پیتے ہیں، یہ ایک بہترتجارت کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے اور اس عمل میں کسی ہندوستانی کا استحصال نہیں ہوا ہے۔ گرم مسالے ملے اور لوگ اس سے لطف اندوز ہوئے۔ آج بھی یہی معاملہ ہے، میں امریکہ میں رہتا ہوں جو آئے دن کسی پر قابض ہوجاتا ہے۔ وہاں دستیاب سہولیات اور ٹیکنالوجی پر کوئی نہیں سوچتا۔ اب ہمیں پہلے سے بہتر جواز، زیادہ موثر خلفشار اور احمقانہ استدلال کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے بارے میں برا محسوس نہ کریں۔ اب ہمیں ایک خود سے بنائی گئی حقیقت یا دوسری حقیقت کی ضرورت ہے تاکہ ہم “اوکے” محسوس کرسکیں۔ اسے عام آدمی کی اصطلاح میں “پروپیگنڈہ”کہتے ہیں۔ لیکن ہماری ترقی یا بالفاظ دیگر وسیع پیمانے پر پروپگنڈے کے باوجود دوسروں کو قتل کرنے کا جواز ہنوز باقی ہے۔ وہ دہشت گرد ہیں، پچھڑے ہیں، جنگلی ہیں، ان کے پاس بارود ہیں تو انہیں بم سے اڑا دو۔
دہشت گرد تنظیم داعش جس طرح یہ طے کرتا ہے کہ خدا نے انہیں حق دیا ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کو قتل کرے اور عورتوں کو غلام بنائے۔ اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا کے پسندیدہ اور منتخب لوگ ہیں اور ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان لوگوں کو قتل کرے جو “خدا کے تقرر کردہ” نہیں ہیں۔ اب دیکھیں کہ پروپیگنڈا کیا کرتا ہے۔ آپ صرف حقائق اور سچائی کے ساتھ پروپگنڈے کی تردید نہیں کرسکتے ہیں۔ پروپیگنڈے کا مقصد آپ کو جذباتی بنانا ہے، آپ کو ایک کمزور رد عمل دلانے کے لیے جھوٹ کا محض اتنا ہونا ضروری ہے کہ آپ عقل کا استعمال کرنے سے رک جائیں۔ وہ آپ کا دھیان بٹاتے ہیں۔ آپ کو اعتدال سے دور کر دیتے ہیں۔ حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں اور آپ کی توجہ کو اپنی مرضی کے مطابق کسی خاص چیز پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔
اسٹیج پر آنے سے پہلے پیرس مورگن کے ساتھ میرا انٹرویو اسکرین پر چلایا گیا۔ اسرائیل – غزہ جنگ پر یہ کتنی بےہودہ بات ہے کہ میں ان مظلومین کی حمایت اور ان کا دفع کررہا ہوں جن کے بارے میں دنیا کو یہ باور کرایا گیا کہ یہ جان سے مار دیے جانے کے لائق ہیں۔ یہ جھوٹ، حقیقت سے چھیڑ چھاڑ ، پروپگنڈا اور ایموشنل بلیک میل کے ذریعہ ہوا۔ اس صورت حال میں حقیقت کام نہیں آتی ہے۔ آپ کو پروپیگنڈے کا جواب اس طرح دینا ہوگا جو مختلف اور موثر ہو۔ ایسے میں سیاسی طنز و مزاح (satire) اہم رول ادا کرتا ہے۔ پروپیگنڈا صرف جھوٹ نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ ایک تخریب ہے۔ میں ایک مثال دیتا ہوں یہ سمجھنے کے لیے کہ اسرائیل اور اس کے حمایتی کس طرح اصل بات سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے یہ باتیں اکثر سنی ہوں گی کہ “حملوں کا متناسب رد عمل کیا ہوگا؟ کیا اسرائیل کو اپنی دفاع کا حق نہیں ہے؟ کیا آپ نے حماس کی مذمت کی؟ کیا اسرائیل کو اپنا وجود برقرار رکھنے کا حق نہیں ہے؟ اکتوبر 7۔ انہوں نے بچوں!!!کاقتل کیا۔۔۔عورتوں کی عصمت دری ہوئی۔ بچوں کو تندور میں ڈالا گیا۔ وہ بچوں کو قتل کررہے ہیں۔۔۔ اکتوبر 7۔۔۔ اکتوبر 7۔۔۔ عرب فلسطین عوام کے حق کیوں بات کرتے ہیں؟ جب مسلمان مسلمان کا قتل کرتے ہیں تو آپ کو غصہ کیوں نہیں آتا۔ آپ ملک شام، لیبیا، سوڈان اور یمن میں جاریدہشت گردی اور تشدد پر بات کیوں نہیں کرتے؟ اکتوبر 7۔۔۔۔ آپ یہود مخالف ہیں۔۔۔ آپ یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں۔۔۔ آپ دہشت گرد وں کےحمایتی ہیں۔۔۔۔ کیا آپ حماس کی مذمت کرتے ہیں؟ اکتوبر 7۔۔۔ اکتوبر 7۔۔۔۔” یعنی یہ کہ ہم ہر احمقانہ نکتے پر بات کریں گے سوائے غزہ میں مارے جارہے لوگوں کے بارے میں۔
میں آپ کی توجہ اس بات پر مرکوز کرنا چاہتا ہوں کہ اصل مسئلہ سے بات کو موڑنے اور بھٹکانے کا یہ قدیم حربہ ہے۔ اس کوبحث میں “Gish Galloping” کہتے ہیں۔ یعنی ایک گروہ دوسرے گروہ کو الجھانے اور بھٹکانے کے لیے خوب جھوٹ اور کنفیوژن پھیلاتا ہے۔ یہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے۔ کیا اکتوبر 7 ساتھ کو ہی تاریخ کا آغاز ہوا؟ اس سے پہلے کیا ہوا؟ اس پر بات کرنے پر پابندی ہے۔ اگر بات کرنے کی کوشش کی جائے تو آپ کو کہا جائے گا کہ “آپ اسرائیل پر تنقید کرتے ہیں، آپ جنگ بندی چاہتے ہیں۔ آپ یہودیوں کو مارتے ہیں۔ بتائے کہ سرکٹے معصوم بچوں کا کیا ہوگا؟” یہی باتیں میڈیا میں دہرائی جاتی ہیں تاکہ آپ کو خاموش کرادیا جائے۔ اب یہ جذباتی “بلیک میلنگ” کا سہارا لے رہے ہیں۔ لیکن میں ان پر الزامات نہیں لگاتا۔ وہ بھی وہی کرتے ہیں جو دوسرے ممالک کرتے ہیں یعنی جھوٹ پر جھوٹ بولنا اور محض جھوٹ۔ میں مغربی میڈیا کو مجرم سمجھتا ہوں۔ وہی میڈیا جو ہمیںدرس دیتا ہے۔ تاریخ کا سبق سکھاتا ہے۔ ایمانداری، اچھی رپورٹنگ، ذمہ داری کا پاٹھ پڑھاتا ہے۔ وہی میڈیا جو 7/ اکتوبر کی ساری من گھڑت باتیں پیش کرتا ہے۔بچوں کا قتل اور عصمت دری کی من گھڑت کہانیوں کو خود اسرائیلی میڈیا نے جھوٹ قرار دیا۔ کوئی بھی مغربی میڈیا نہیں ہے جس نے ان کہانیوں کو ہٹایا ہو اور معافی مانگی ہو۔ اسرائیلی میڈیا نے بڑے پیمانے پر اس جنگ میں اسرئیلی شہریوں کے مارے جانے پر بات کی۔ بی بی سی، سی این این نے اس پر بات کی؟؟ بالکل نہیں۔۔ وہ مصروف تھے اس طرح کی سرخی لگانے میں “15 افراد غزہ میں مارے گئے”کس نے مارا؟ ہم نہیں جانتے۔۔ وہ کیسے قتل ہوئے؟ ہم نہیں جانتے۔۔۔۔ یہی کام وہ ہمیشہ سے کررہے ہیں۔ میری پسندیدہ سرخی نیو یارک ٹائمز نے 2014ء میں لگائی جب اسرائیل نے غزہ کے ایک کافی شاپ میں میزائیل داغا اور 5 افراد مارے گئے۔ سرخی اس طرح تھی کہ “Missile at beachside Gaza cafe finds patrons” انہیں کیسے ڈھونڈا؟ ہم نہیں جانتے۔۔۔کیا ہوتا اگر وہ انہیں کبھی نہیں ڈھونڈ پاتا؟ ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہے۔۔۔ وال اسٹریٹ جرنل نے چند ہفتے قبل اکتوبر میں یہ سرخی لگائی کہ “Blast goes off at Orthodox Church in Gaza”۔۔۔۔ ہاں یہ غزہ میں معجزانہ طور پر ایک حملہ تھا۔ آپ معجزات پر یقین نہیں رکھتے یہ واقعی چرچ میں ہوا۔ ہاں معجزہ ہوتا ہے۔ وہ مغربی میڈیا جو مذہب اور مذہبی کتاب کو سیاسی کاروائیوں اور جنگوں کے جواز کے طور پر استعمال کرنے کے خطرات کو اجاگر کرتا رہتا ہے، وہی میڈیا “خدا کے منتخب” لوگوں کے تاریخی دعوؤں، مقدس زمین کے متعلق خدا کے وعدہ کی باتیں کرتے نہیں تھکتا۔ واقعی منتخب لوگ؟ کس کے ذریعہ منتخب کردہ؟ مقدس زمین کا وعدہ۔۔ کس نے وعدہ کیا؟؟ خدا نے؟ کس کے خدا نے، آپ کا خدا، میرا خدا، کون خدا؟ ہم نہیں جانتے۔
یہ مضحکہ خیز ہے کہ مغرب کس طرح مذہب کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ وہ مذہب پر تنقید کرتے ہیں۔ گندمی رنگ کے مشرقی لوگوں اور ان کے مذہب کو مضحکہ خیز، وحشی، قدیم کہہ کرہر طرح سے نام رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تم کوئی سیاسی فیصلہ محض اس بنیاد پر نہیں کرسکتے کہ تمہاری مذہبی کتاب ایسا کرنے کو کہتی ہے۔ دوسری جانب یہی مغربی لوگ “خدا کے منتخب کردہ لوگوں” کے متعلق بات کرتے ہیں کہ وہ جو چاہیں کریں۔ اس جگہ میں الجھ جاتا ہوں اگر وہ واقعی “منتخب لوگ” والی بات کو مانتے ہیں تو خود کیوں یہودیت کو قبول نہیں کرلیتے۔ اگر یہود منتخب لوگ ہیں تو کیا آپ خود کو غیر محسوس نہیں کرتے؟ یہ بہت بڑی منافقت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم مغربی ہیں۔۔ سیکولر ہیں۔۔لبرل ہیں۔۔ ہم مذہب کو نہیں مانتے۔ لیکن جب بھی بات اسرائیل کی آتی ہے سب کچھ پلٹ جاتا ہے۔
ویسے جھوٹ، غلط جواز اور دوسروں کو قتل کرنے اور پوری کمیونٹی کو مٹا دینے کا بہانا ہمیشہ سے ری – سائیکل ہوتا رہا ہے۔ 1898ء میں ولیمگٹن قتل عام، 1906ء اٹلانٹا قتل عام، 1912ء فورسیتھ کنٹری قتل عام، 1921ء ٹَلسا قتل عام، 1992ء پیری فلوریڈا قتل عام، 1923ء روز ووڈ فلوریڈا قتل عام، 1931ء بوائز ٹرائیل، الباما وغیرہ۔ یہ تمام امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کا قتل عام تھا۔ یہ قتل عام بھی ایک ہی چیز سے شروع ہوا۔ “افواہ”۔۔۔ یہ جھوٹی خبر کہ کچھ سیاہ فام لوگوں نے سفید امریکی خواتین کی عصمت دری کی اور ان پر حملہ کیا۔ اس طرح کی افواہ نے سفید فام امریکیوں کو قتل کرنے، تشدد کرنے، لِنچ کرنے اور یہاں تک کہ پوری قوم کی نسل کشی کا جواز فراہم کیا۔ ان کو بے گھر کیا، ان کے گھروں، ہسپتالوں اور اسکولوں کو تباہ کیا اور انہیں اجتماعی سزا دی۔۔۔۔ ان سب کی بنیاد صرف ایک افواہ۔۔ وہ اب بھی اس قسم کے الزامات لگاتے ہیں جب لوگ انصاف اور مساوات کے لیے سیاہ فام لوگوں کا ساتھ دینے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں نسلی غدار، خود سے نفرت کرنے والا، سفید فام لوگوں سے نفرت کرنے والا کہتے ہیں۔ جیسا کہ آج ہم دیکھتے ہیں کچھ یہودی جب اسرائیلی جنگی جرائم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو انہیں خود سے نفرت کرنے والا یہودی قرار دیتے ہیں۔ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ یہودی “انسانی حقوق کے عالمی منشور” کی قرار داد کے اہم رکن تھے۔ ‘اسٹیوین ہیسل’ ایک یہودی تھے جو نازیوں کے ذریعہ کی گئی نسل کشی میں بچ نکلے تھے۔ وہ نازیوں کے خلاف فرانسیسی مزاحمت کا حصہ تھے۔ جب وہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے کھڑے ہوئے تو انہیں یہودیوں کا مخالف کہا جانے لگا۔ سیاست دان، کامیڈین، اداکارہ، آئی ڈی ایف کے سپاہی اور یہاں تک کہ راہب بھی جنہوں نے صہیونی جھوٹ کو مسترد کیا، وہ بھی خود سے نفرت کرنے والے یہودی کہلائے۔ بات چیت کو بند کرنے اور کسی کو چپ کرادینے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔
میں نے خود اس کا مزہ چکھا ہے کیوں کہ میرا موقف ان کے خلاف تھا ۔اب وہ مجھے یہودیوں سے نفرت کرنے والا، یہود مخالف، اینٹی سمیٹک اور اخوان المسلمین کا خفیہ رکن سمجھتے ہیں۔ میں اس کا عادی ہوچکا ہوں۔ 13/ سال پہلے مصر میں جب میں ایک Satire (سیاسی طنز و مزاح/ ایک آرٹ فارم) کی میزبانی کی تھی، تو مجھے میرے سیاسی اختلاف کی وجہ سے کافر، غدار، خفیہ یہودی، خفیہ موساد ایجنٹ کہا گیا۔ یعنی جان اسٹورٹ کے ذریعہ بھیجا گیا شخص جو اپنے سیاسی طنز مزاح سے ملک کو تباہ کرنے آیا ہے۔ ہاں سیاسی طنز و مزاح پروپیگنڈے کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے کیوں کہ جو لوگوں کو بانٹتے ہیں، الزام تراشی کرتے ہیں، لوگوں کو جھوٹ اور خوف کے ذریعہ بلیک میل کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ طنز ان کا ‘کرپٹونائٹ’ ہے کیوں کہ جب آپ کسی پر ہنستے ہیں تو اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ ان سے نہیں ڈرتے ہیں۔ جب آپ ان کے جھوٹ کا مذاق اڑاتے ہیں تو انہیں کھڑے ہونے کی ہمت نہیں ہوتی اور جب آپ عقل کا استعمال کچھ ہنسی مذاق کے ساتھ کرتے ہیں تو ان کے پاس بولنے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ وہ نہیں چاہتے کہ آپ انہیں بولیں اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو وہ جو کچھ بھی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں آپ اسے برباد کردیں گے۔ فلسطینیوں کو انسانوں کے بجائے جانور باور کرانا، انہیں دہشت گرد، وحشی گرداننا تاکہ ہر کوئی انہیں مار دیے جانے میں عافیت سمجھے۔ وہ ایک خالص نرگسیت کا شکار ہوتے ہیں کہ جب بھی آپ انہیں بےنقاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں ‘تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ ہم جو کرتے ہیں وہ لوگوں کو بتا کر ہماری شبیہ خراب کردو۔ امریکیوں نے سیاہ فام لوگوں کے ساتھ، برطانیہ نے ہندوستانیوں کے ساتھ، مغرب نے عراق کے ساتھ جھوٹ، غیر انسانی سلوک کیا۔
سچ بات یہ ہے کہ صرف گورے لوگ نہیں ہیں جو ایسا کرتے ہیں، ہم گندمی اور سیاہ فام لوگوں نے بھی تاریخ کے کسی دور میں ظالم اور جابر کا کردار ادا کیا ہے۔ انسانی تاریخ بدسلوکی اور زہریلے تعلقات کی کہانی ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ اس وقت سفید فام لوگ زمین پر حکمرانی کررہے ہیں اور وہ جدید ٹیکنالوجی اور انتہائی خوفناک ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اسی لیے آج تباہی اور بربادی بہت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ آج کسی کو قتل کرنے کے لیے تلوار کی ضرورت نہیں، میں صرف اسکرین کے سامنے بیٹھ کر ایک بٹن دبا سکتا ہوں اور آپ کو اڑا سکتا ہوں۔ آج ہی یہ ممکن ہوپایا ہے کہ کسی آبادی کو تہس نہس کردیا جائے اور خون کا ایک دھبہ بھی دامن کو نہ لگے۔
یہ لوگ اس بات پر شیخی بگھارتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے اپنے دشمنوں کو جانوروں کی طرح مار دیا ہے۔ لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ جب آپ لوگوں کے ساتھ جانوروں رویہ رکھیں گے تو بدلے میں آپ کا سامنا جانوروں سے ہوگا۔
جب کوئی کسی پر چاقو سے حملہ کرتا ہے تو اس عمل کو دہشت گردی کہا جاتا ہے لیکن جب کوئی 69 میلین ڈالر کے F-16 جنگی طیارے میں آرام سے بیٹھ کر ایک بٹن دباتا ہے اور رہائشی علاقوں میں ‘16000 اے 84’ بمب گرا کر 200 لوگوں کو ماردیتا ہے تو یہ دہشت گردی نہیں بلکہ اسے جنگ کہتے ہیں۔۔۔ یہ محض جنگ کے افسوس ناک نتائج ہیں۔ ہم آج بہت آرام سے لوگوں کو اسکرین کے پیچھے سے مارتے ہیں، ان کے ساتھ وحشی جیسا سلوک کرتے ہیں۔ یہ آسان ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب اس اسکرین کو ہٹادیا جاتا ہے تو آپ کا سامنا ان لوگوں سے ہوتا ہے جنہیں آپ نے خود بنایا ہے۔ آپ نے جب وحشیانہ طرز پر انہیں مار اتو اب اسی وحشیانہ انداز میں آپ پر بھی حملہ ہوگا۔
ان سب کے باوجود میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ آج کی دنیا میں سانس لے رہا ہوں۔ اس دور میں جب انسانی تخلیقی صلاحیت، بہتر اور آرام دہ بلکہ پرلطف زندگی کی فراہمی ممکن ہوپائی۔ لیکن میں ہم انسانوں کی نفرت، تعصب، ظلم اور خود کو تباہ کرنے کی طاقت سے بھی خوف زدہ ہوں۔ مجھے امید ہے کہ ہم واقعی یہ سمجھنے کے لیے تیار ہوں گے کہ ہم سب ایک جیسے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ ہم دوسروں کو مارنے، ان پر زیادتی کرنے اور ظلم کرنے کی جتنی بھی طاقت حاصل کرلیں، ہم دراصل خود اپنی انسانیت کو مار رہے ہیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ ہمیں ایسے قائدین میسر آئیں جو تمام انسانوں کے ساتھ یکساں سلوک کریں اور ان کی بہتری کی کوشش کریں۔ اپنی بات کے اختتام پر کہنا چاہتا ہوں کہ ونسٹن چرچل کے منہ میں خاک۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں