ابورملہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نئی دہلی
طلبۂ مدارس فراغت کے بعد کیا کریں؟ ایک سوال ہے، جو ان مدارس سے وابستہ ہر فرد کے لیے توجہ کا باعث رہتا ہے۔ سوچنے کے انداز مختلف ہوسکتے ہیں، زاویۂ فکرونگاہ جدا جداہوسکتے ہیں، لیکن سوچنے کا باعث ایک ہوتا ہے اور وہ یہی سوال کہ طلبۂ مدارس فراغت کے بعد کیا کریں؟
طلبہ خواہ مدارس سے فراغت حاصل کررہے ہوں، یا عصری درس گاہوں سے، فراغت کے بعد کا مرحلہ ہر کسی کے لیے الجھنوں اور پریشانیوں کا مرحلہ ہواکرتاہے، ہرایک کے ذہن ودماغ پر یہ فکر حاوی رہتی ہے کہ’’ جاب مل جائے گی اچھی سی تو آئے گا قرار‘‘۔
فراغت کے بعد طلبۂ مدارس کا ایک بڑا حصہ مختلف یونیورسٹیوں کا رخ کرلیتا ہے، خیرخواہوں کا مشورہ بھی یہی ہوتا ہے کہ مدارس میں عربی کی تعلیم کے بعد ان یونیورسٹیو ں میں داخلہ لے لیا جائے جہاں عربی سے گریجویشن کے امکانات پائے جاتے ہوں۔ عربی سے گریجویشن کا مطلب عربی انگلش ترجمہ کا ایک تین سالہ کورس تاکہ تین سال کے بعد طالب علم کسی بھی کمپنی یا ادارے میں مترجم(translater) کی حیثیت سے کام کرسکے اور اس طرح معاش کا مسئلہ حل ہوجائے ۔ طلب�ۂ مدارس اگر عربی زبان میں اچھی دسترس حاصل کرلیتے ہیں اورانگریزی زبان بھی سیکھ لیتے ہیں تو اس سے ان کے سامنے مواقع کی دنیا کافی وسیع ہوجاتی ہے۔
بعض طلبہ دوسرے کورسیز میں داخلہ لیتے ہیں ، مثال کے طور پر اسلامیات سے گریجویشن کرنے لگ جاتے ہیں، اردو سے گریجویشن کرنے والے طلبہ کی بھی ایک بڑی تعداد دینی مدارس سے فارغین کی ہوتی ہے،اس کے علاوہ مختلف یونیورسٹیوں میں سوشل سائنس کے دوسرے کورسیز میں بھی یہ طلبہ داخلہ لیتے ہیں، ان میں سے ایک تعداد طب کے میدان سے دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہے اور وہ مختلف اداروں سے ، مرکزی اور ریاستی یونیورسٹیوں سے’’ بی۔ یو۔ ایم۔ ایس‘‘ وغیرہ کورسیز میں داخلہ لے لیتی ہے۔
طلبہ مدارس کے لیے اِن یونیورسٹیوں میں امکانات کی دنیا کافی وسیع ہوتی ہے، بعض طلبہ اس وسیع دنیا میں کافی دور تک نکل جاتے ہیں اور بعض راہ پیمائی میں ہی رہ جاتے ہیں، ان طلبہ کے لیے یونیورسٹی کیمپسز میں دین کی خدمت کے مواقع بھی خوب ہوتے ہیں،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دوسرے کیمپسزکی مساجد میں جانے کے بعد اس کا صحیح اندازہ ہوتا ہے، لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ ان طلبہ کو دنیا سے بیزار کرنے کے بجائے انہیں بتانے کی ضرورت ہے کہ دین اور دنیا کے درمیان کیا رشتہ ہے، یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ لازم وملزوم ہیں، دین کشتی ہے اور دنیاپانی ہے، دین کی کشتی اسی پانی میں لے کر آگے بڑھنا ہے، اگر کشتی پانی سے بیزاری کا مظاہرہ کرے تو تادیر اس کا آگے بڑھنا مشکل بلکہ اپنی جگہ سے ہلنا محال ہوجاتاہے، اس کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں ایک یہ کہ پانی سے وفا کا سامان کرے اور اس کو خود سے ہم آہنگ کرتے ہوئے آگے بڑھے یا بصورت دیگر وہ اس سے دشمنی مول لے اور اپنی بربادی کا سامان کرے۔
فارغین مدارس کی ایک بہت بڑی تعداد مساجد، مکاتب اور مدارس کا رخ کرلیتی ہے، ممکن ہے فراغت کے بعد فوراََہی اس جانب رخ کرنے کے پس پشت کچھ مجبوریاں ہوں، یہ مجبوریاں گھرسے متعلق بھی ہو سکتی ہیں اور افراد کی ذاتی بھی۔مساجد سے وابستگی یا پھر مکاتب اور مدارس میں تدریسی خدمات ایک اہم ضرورت ہے، لیکن ایک اس سے زیادہ ضروری فارغین مدارس کے اندر پختگی کا ہونا ہے۔ بد قسمتی سے ہندوستان بھر میں ائمہ کی تربیت اور تعلیم کے سلسلے میں کوئی بھی منظم اور مربوط ادارہ یا نظم موجود نہیں ہے، سماج کے مسائل اور روز بروزپیدا ہونے والے اختلافات کا ایک سبب وہ ائمہ اور خطباء بھی ہیں جن کی واقفیت محدود، سوچ کا دائرہ تنگ اور مسلک کا رنگ گہراہوتا ہے اور پھر سماج میں مقبول ہونے کی خواہش اور تمنا جو دل میں رہ رہ کر انگڑائی لیتی رہتی ہے،یہ تمنا ہر سوال کا جواب دینے اور ہر مسئلہ کا ایک خود ساختہ حل پیش کرنے کا سبب بنتی ہے، جس کے نتیجے میں مسائل کا حل نکلنا تو دور کی بات ہے روز بروز نئے نئے مسائل سر اٹھانے لگتے ہیں۔وقت کی ایک اہم ضرورت ان ائمہ کے لیے ایک ایسا نظم قائم کرناہے جو انہیں امامت جیسے ذمہ دارانہ منصب کا اہل بناسکے۔
طلبہ مدارس کی ایک تعداد ایسی بھی ہوتی ہے جو اس تعلیمی سلسلہ کو آگے بڑھانا چاہتی ہے، جس میں اس نے اپنی اب تک کی زندگی کا ایک معتد بہ حصہ گزارا ہے، یہ وہ طلبہ ہوتے ہیں جن کو آئندہ دنوں مختلف اشوزاور مسائل سے متعلق شرعی رہنمائی کے فرائض انجام دینے ہیں، یہی طلبہ ہیں جو فی الواقع میدان میں نکل کر کام کرسکتے ہیں اورآئندہ ملت کی قیادت کے لیے بھی ان سے امیدیں وابستہ رکھی جاتی ہیں،لہذا ان طلبہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اپنی دلچسپی کے میدان میں خوب خوب گہرائی وگیرائی پیدا کرنے کی کوشش کریں ،ان طلبہ کی دلچسپی کے مطابق ہندوستان بھر میں کافی مواقع موجود ہیں۔ ذیل میں اس نوعیت کے چند اہم اداروں کا تعارف کرایا جارہا ہے:
الجامعہ الاسلامیہ شانتاپرم کیرالا:
پہاڑوں کی گود میں ، ناریل کے باغات کی اوٹ میں، امن وسکون اور قدرتی مناظر کے درمیان قائم کیرلا کی اسلامی یونیورسٹی ’’الجامعہ الاسلامیہ‘‘ اس لحاظ سے ہندوستان کے دیگر اداروں میں ممتاز حیثیت کی حامل ہے کہ اس میں قرآن ، حدیث، دعوت، اسلامی معاشیات اور عربی زبان وادب میں اختصاص کے لیے الگ الگ شعبے قائم کیے گئے ہیں، اور تدریس کے لیے ملک وبیرون ملک کے بہترین اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں اور الحمدللہ مسلسل پیش رفت جاری ہے، طلبہ کے لیے کمپیوٹر لائبریری اور دیگر سہولیات بھی فراہم ہیں۔
شانتاپرم کی اس اسلامی یونیورسٹی میں قرآن اورعلوم قرآن میں اختصاص کے لیے کلیۃ القرآن کا قیام عمل میں آیا ، جہاں قرآن، اسالیب قرآن، نظم قرآن نیز تفسیر کے جدید وقدیم اسالیب کا تجزیاتی مطالعہ اور پھر قدیم وجدید تفسیر اور ان کے مفسرین پر لکچرس دئیے جاتے ہیں، دوسالہ کورس ہے،تدریس کی زبان خالص عربی ، دوسال کی تکمیل پر ایک مفصل اور تحقیقی مقالہ جمع کرنا ہوتا ہے، جس کی تیاری ماہراساتذہ کی نگرانی میں ہوتی ہے۔کلیۃ القرآن میں داخلہ کے لیے بی ۔اے۔ یا اس کے مساوی سند کا ہونا ضروری ہے، مثال کے طور پر ندوۃ العلماء کی عالمیت، دارالعلوم دیوبند کا دورہ حدیث اور جامعۃ الفلاح کی فضیلت۔ اس کے علاوہ عربی زبان وادب سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ کے لیے کلیۃ اللغۃ، جس کا ذریعہ تعلیم عربی اور مدت تعلیم ایک سال ہے اوراسلامی معاشیات نیز اسلامی بینکنگ سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ کے لیے کلیۃ الاقتصادہے، ذریعہ تعلیم انگریزی اور مدت تعلیم ایک سال ہے، بی ۔اے۔ یا اس کے مساوی سند رکھنے والے طلبہ داخلہ لے سکتے ہیں۔
المعہد العالی للتدریب
فی القضاء والافتاء :
امارت شرعیہ بہار ، اڑیسہ وجھارکھنڈ کے زیرنگرانی قاضی نگر ،پھلواری شریف، پٹنہ میں قائم اس معہد میں فقہ،اصول فقہ،قواعد فقہیہ، مقاصد شریعت ،مذاہب فقہیہکا مطالعہ ،آیات احکام اور احادیث نبویہ پر خصوصی نظر اور آداب قضاء وافتاء کی عملی مشق کرائی جاتی ہے ۔اس کے علاوہ انگریزی اور کمپیوٹر کی بھی بقدر ضرورت تعلیم دی جاتی ہے ۔نوجوان علماء میں فقہی ذوق پیدا کرنے کے لئے فقہی سمینار منعقد کئے جاتے ہیں ۔جس میں نوجوان علماء مقالات لکھ کر پیش کرتے ہیں اور اس پر مناقشہ کے بعد تجاویز مرتب کرتے ہیں۔مختلف نوعیت کے علمی وفقہی موضوعات پر سال دوم کے نوجوان علماء سے مقالات لکھائے جاتے ہیں اور مقالات جمع کرنے کے بعد ہی افتاء اور قضاء کی سند دی جاتی ہے ۔ المعہد العالی میں داخلہ کے لئے ایسے نوجوان علما ء درخواست دے سکتے ہیں جو ہندوستان کے مستند اداروں اور مدارس سے ممتاز نمبرات سے فارغ ہوئے ہوں۔
المعہد العالی للدراسات الاسلامیہ:
لکھنؤ میں مولانا زکریا سنبھلی صاحب دامت برکاتہم کے صاحبزادے مولانا یحیی نعمانی جو خود علم وتحقیق کا کافی اچھا ذوق رکھتے ہیں، انہوں نے علمی وتحقیقی محاذ پر طلبہ کو تیار کرنے کی غرض سے ایک اہم ادارہ ’’ المعہد العالی للدراسات الاسلامیہ‘‘ کے نام سے قائم کیا ہے، جہاں ایک سال کی تعلیم دی جاتی ہے، اس ادارے کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہاں قدیم وجدید موضوعات پر لکچرس کا اہتمام کیا جاتا ہے، قرآنیات کے سلسلہ میں بھی اچھا خاصا مواد فراہم کردیا جاتا ہے،’’ موجودہ حالات کے تناظر میں قرآن کی رہنمائی‘‘کے سلسلے میں بھی لکچرس وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
المعہد العالی ۔۔۔ حیدرآباد
حیدرآباد میں معروف فقہی اسکالر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، جنرل سکریٹری اسلامی فقہ اکیڈمی کی نگرانی میں بھی المعہدالعالی نام کا ایک ادارہ چل رہا ہے، اس ادارے میں قرآن، حدیث، فقہ میں تخصص اور تدریب الدعاۃ کے لیے الگ الگ کورسیز موجود ہیں، چونکہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی فقہ اسلامی سے کافی دلچسپی اور لگاؤ رکھتے ہیں، لہذااس میں تقابلی فقہ، قواعد فقہیہ ، قرآن کے فقہی احکام کی تعلیم وغیرہ پر کافی خاصا زور دیا جاتا ہے، مزید برآں کمپیوٹر، انگریزی زبان وغیرہ کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ قضاء کی عملی مشقیں نیز کورس کے اختتام پر ایک مقالہ بھی تیار کرنا ہوتا ہے۔ قرآن، حدیث اور فقہ میں اختصاص کے خواہش مند طلبہ کے لیے مواقع کی یہاں ایک وسیع دنیا موجود ہے، کورس کی میعاد دوسالہ ہے، المعہد کی ویب سائٹ سے مزید تفصیلات حاصل کی جاسکتی ہیں۔شاندار لائبریری کی بھی سہولت میسر ہے۔
دارالامور میسور:
کرناٹک کے مشہور شہرمیسور میں شہید ٹیپو سلطان کے مقبرے کے قریب واقع یہ ادارہ مدارس اسلامیہ کے ممتاز فارغین جن کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ اور دعوت دین ہے، ان کو دعوتی تربیت اور دیگر جدید علوم کی تعلیم دے کر ایسا بااختیار بنانے کی کوشش ہے جس سے ان کو دعوتی امور میں جلا مل سکے اور وہ ملکی، سماجی اور معاشی پیش آمدہ نت نئے مسائل کو اسلامی نقطہ نظر سے حل کرنے کی قابلیت واہلیت حاصل کرلیں اور بہتر طور پر امت کی قیادت وسیادت کرسکیں۔ یہ ایک سالہ کورس ہے جس میں داخلہ کے لیے رمضان سے قبل درخواست ارسال کی جاتی ہے۔ کمپیوٹر اور انگریزی کی تعلیم پر خاصا زور دیا جاتا ہے۔
ایک اہم بات:
دینی مدارس کے طلبہ کے لیے ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ وہ دیگر مدارس کا رخ کریں، عموماََ جن مدارس کے بارے میں شکایت ہے کہ وہ عربی کی تعلیم میں کمزور ہیں،وہاں کے طلبہ کے لیے بہتر اورآسان ہے کہ دوسال کے لیے دارالعلوم ندوۃ العلماء کا رخ کریں ، وہاں رہ کرعربی زبان میں اچھی ادبی صلاحیت پروان چڑھا سکتے ہیں، جامعۃ الفلاح ، دارالعلوم دیوبند وغیرہ کے طلبہ عربی ادب کی تعلیم کے سلسلہ میں وہاں کا رخ کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح حدیث کی تعلیم کے خواہش مند طلبہ ایک سال کے لیے دارالعلوم دیوبند کا رخ کرسکتے ہیں، جہاں ماہر اساتذہ سے حدیث شریف کے سلسلہ میں استفادے کے مواقع موجود ہیں۔اس کا ایک اہم فائدہ یہ بھی حاصل ہوگا کہ مدارس اور ان کے فارغین کے درمیان قربت بڑھے گی، جو فی نفسہ ضرورت بھی ہے اور وقت کی آواز بھی۔
مذکورہ بالا سطروں میں طلبہ مدارس کی اعلی تعلیم سے متعلق چند باتیں عرض کی گئی ہیں نیز کچھ اداروں کا تعارف پیش کیا گیا ہے، لیکن صحیح بات تو یہ ہے کہ اس وقت طلبہ مدارس کے لیے مواقع کی دنیا کافی وسعت اختیار کرچکی ہے،ا علی تعلیم کے لیے ملک وبیرون ملک اداروں میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ دنوں میں سعودی عرب کی وزارت تعلیم نے تمام ہی جامعات کو اس بات کی پابندی کا اعلامیہ جاری کیا ہے کہ وہ طلبہ کی جملہ تعداد میں 5% تعداد بیرونی ممالک کے طلبہ کے لئے لازمی طور پر مخصوص کریں۔ ضرورت ہے کہ طلبہ میدان میں آئیں، تمام ہی علوم اسلامیہ اس وقت تجدید کے طالب ہیں، اس سلسلہ میں بار بار آوازیں اٹھائی جارہی ہیں کہ وقت اور حالات کے مطابق تمام ہی علوم وفنون کی تدوین وترتیب نو کی ضرورت ہے، فقہ اسلامی کو جدید انداز میں ترتیب دینے کی ضرورت ہے، قرآن وحدیث کی عصری معنویت کو ثابت کرنے اور جدید اسلوب میں اس کی تفہیم وتشریح کی ضرورت ہے، طلبہ مدارس کو اس سلسلہ میں بیدار ہونا چاہئے۔ اس کے لیے محنت ، عزم وحوصلہ اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے۔