طلبائی منشور: سفارشات

ایڈمن

تعلیم

) تعلیم کے قابل حصول بنانے کے سلسلے میں:

٭جسٹس رنگناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کے مطابق تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کو10%اور دیگر اقلیتوں کو 05%،بشمول طلبہ اور اساتذہ، رزرویزیشن دیا جانا چاہیے۔رزرویشن IITs،IIMsاور مرکزی جامعات جیسے اعلی معیار کے تعلیمی اداروں میں بھی دیا جانا چاہیے۔

٭تعلیم کے قابل حصول ہونے کے سلسلے میں SIOیہ مطالبہ کرتی ہے کہ اعلی معیار کے تعلیمی اداروں مثلا IITs،IIMs،اور مرکزی جامعات وغیرہ کے سلسلے میں ملک کے مختلف خطوں میں جو تفاوت پایا جاتاہے،اسے ختم کیا جائے اور ان تعلیمی اداروں کا قیام جغرافیائی بنیادوں پر ملک کے ہرخطے میں عمل میں لایا جائے تاکہ ملک کے تمام خطوں میں رہنے والے افراد کے لیے حصول تعلیم کے مواقع یکساں ہوں۔اس سلسلے میں تین میں سے کوئی ایک کام کیا جاسکتا ہے؛ یا تو نئے علاقوں میں نئے مرکزی جامعات قائم کیے جائیں، یا اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ریاستی جامعات کو مرکزی جامعات میں تبدیل کردیا جائے، یا اس منصوبہ کے ساتھ مرکزی جامعات کی شاخیں قائم کی جائیں کہ آئندہ انہیں مرکزی جامعات میں تبدیل کردیا جائے گا۔

٭اقلیتی اکثریتی اضلاع (Minority Concentrated DIstricts)کو خصوصی درجہ دیا جا نا چاہیے۔اقلیتی درجہ رکھنے والے مرکزی جامعات مثلا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، کی شاخیں ایسے اضلاع میں قائم کی جائیں۔ تاکہ طلبہ کے لیے اعلی تعلیم کے دروازے کھلیں۔

٭ حق تعلیم قانون 2009-کے سیکشن تین میں مذکور مشترک اسکول نظام (Common School System)پر مبنی محلاتی اسکول نظام(Neighbourhood School System) نافذ کیا جائے۔

٭ طلبہ کی تعداد میں اضافہ کرنے اور ڈراپ آؤٹس کی تعداد میں کمی لانے کے لیے تعلیمی طریق عمل میں سرپرستوں کو شامل کرنا ناگزیر ہے۔اس سلسلے میں اسکول انتظامیہ کمیٹی (School Management Committees) کے لئے حق تعلیم قانون 2009-کے سیکشن 21میں ایک خصوصی رہنمائی موجود ہے۔سرپرستوں کی شمولیت یا تو انہیں اسکول انتظامیہ کمیٹی میں شامل کرکے، یا سرپرست -اساتذہ اسوسی ایشن(PTA)قائم کرکے یقینی بنائی جا سکتی ہے۔متعلق شعبہ کی مقامی اتھاریٹیز کے بیداری مہمات منعقد کرنی چاہیے تاکہ یہ ٰیقینی بنایا جاسکے کہ سرپرستوں میں تعلیم کی اہمیت کے تئیں حساسیت پیدا ہوئی ہے۔

٭ تعلیمی اداروں تک رسائی کے لیے مفت ٹرین/بس پاس کی شکل میں ہر سطح کے طلبہ کو مفت آمدورفت کی سہولت فراہم کی جانی چاہیے۔

٭ طلبہ کی تعلیم کے لیے مفت یا سرکاری خرچ پر میڈیکل انشورنس کوہرسطح کے طلبہ کے لیے لازما دستیاب کیاجانا چاہیے، اس منصوبہ کے ساتھ کہ طالب علم کے انشورنس کو تعلیم مکمل ہونے کے بعد عام انشورنس میں تبدیل کردیا جائے گا۔

٭تعلیم انسان کی بنیادی اور لازمی ضروریات میں سے ایک ہے۔بطور فلاحی ریاست، حکومت ہند ہندوستانی دستور کی رو سے اس بنیادی ضرورت کو فراہم کرنے کی پابند ہے۔جس طرح حکومت تعلیم کے لیے مختلف سہولیات فراہم کرتی ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت مالی تعاون بھی کرے تاکہ تعلیم، بالخصوص اعلی تعلیم کو یقینی بنایا جاسکے۔اس ضمن میں حکومتیں خیال رکھیں کہ بھاری منافع خوری کے سبب یہ مالی تعاون نئے اور ابھرتے ہوئے گریجویٹس کے لیے بوجھ ثابت نہ ہو،ان کے کریئر اور زندگی کی ترقی میں مذاحم نہ ہو۔لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ موجودہ تمام تعلیمی قرضوں کو معاف کردے اور مستقبل میں تمام تعلیمی قرض کو تعلیمی عطیہ یا اسکالرشپ میں تبدیل کردے۔

٭ خصوصی توجہ کے مستحق بچوں (Children with Special Needs)پر حکومت خصوصی توجہ دے۔اس سلسلے میں ان کے لیے خصوصی انفراسٹرکچر اور تعلیمی ضروریات جیسے نصاب، کتابوں اور تربیت یافتہ اساتذہ اور معاون عملہ کی فراہمی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔

٭مختلف اسکیموں کے تحت مرکزی اور ریاستی حکومت کے ذریعے دی جانے والی اسکالر شپ کئی مسائل کا شکار ہے مثلاناکافی رقم،اسکالرشپ حاصل کرنے کی شرائط،جمع کرنے کے لیے مختلف دستاویز اور اسکالرشپ اسکیم کے بارے میں طلبہ کی عام ناواقفیت۔ان تمام مسائل کو حل کیا جانا چاہیے۔آسمان کو چھوتی اس عہد کی مہنگائی میں مختلف اسکالرشپ،فیلوشپ، عطیات اور اسکیموں کی رقم کو حکومت کم از کم دوگنی کرے۔اسکالرشپ کو قابل حصول بنانے کے لیے چاہیے کہ کئی مطلوب دستاویز کی فہرست سے بعض کو حذف کیا جائے۔اس کے طریق کار کو آسان اور مفت بنایا جانا چاہیے۔

٭ درج فہرست ذاتوں (SCs)اور درج فہرست قبائل (STs) کے طلبہ کومولانا آزاد نیشنل فیلوشپ (MANF)  اور راجیو گاندھی نیشنل فیلوشپ(RJNF)حاصل کرنے کے لیے CBSE-UGC NETکی ضرورت کا نیا ضابطہ اعلی تعلیم کے لیے فائدہ  طلبہ کی رسائی کو کم کررہا ہے۔اس ضابطے کو فوری طور پر منسوخ کیا جانا چاہیے۔اور اس فیلوشپ سے فائدہ اٹھانے والے طلبہ کی تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔

٭ قومی کمیشن برائے اقلیتی ادارے(National Commission for Minority Institutions) کو اختیارات عطا کرکے اور اس کی اعانت میں اضافہ کرکے مضبوط بنایا جانا چاہیے۔

٭ عربی اور اسلامیات کے مراکز تمام مرکزی جامعات میں کھلنے چاہئیں۔تما م جامعات کو چاہیے کہ وہ بی اے عربی اور بی اے اسلامیات کا کورس شروع کریں۔دینی مدارس کی ڈگری کو متعلقہ شعبہ میں اعلی تعلیم کے لیے منظور کیا جانا چاہیے۔ان کورسس کے بعد ان شعبوں میں ایم اے کورس بھی شروع کیا جانا چاہیے۔

٭ اعلی تعلیمی اداروں میں درگ فہرست ذاتوں (SCs)اور درج فہرست قبائل(STs)کی نمائندگی میں اضافہ کی غرض سے حکومتیں مناسب ضابطو ں کو رو بہ عمل لائیں۔

٭یو جی سی (UJC) تما م جامعات میں پی ایچ ڈی اور ایم فِل کے لیے فراہم کی گئی نشستوں میں اضافہ کرے۔

٭ یکساں مواقع سیل (Equal Oppurtunity Cells) تمام تعلیمی اداروں میں لازم کیا جانا چاہیے۔مذہبی اقلیات کو شامل کرنے کے لیے اس ادارے کو اختیارات میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔

)معیارتعلیم کے سلسلے میں

٭ہندوستان بھر کے مختلف مرکزی اور ریاستی اسکول بورڈ میں ریاضی اور سائنس کے نصاب میں یکسانیت پیدا کی جانی چاہیے تاکہ قومی سطح پر تمام طلبہ کے ایک معیار کو یقینی بنایا جاسکے۔

٭ متعلقہ حکومتیں اس امر کو یقینی بنائیں کہ نصاب کو علاقائی زبانوں میں تیار اور دستیاب کرایا گیا ہے تاکہ تمام طلبہ کی تعلیم ان کی اپنی مادری زبان میں ہوسکے۔

٭ مذہبی اور ثقافتی اہمیت رکھنے والی زبانوں کو خصوصی درجہ فراہم کیا جانا چاہیے۔

٭ قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارے (NCMEI) اس طور پر با اختیار بنایا جانا چاہیے کہ وہ اختیارات قابل عمل ہوں اور پورے ملک میں اس کمیشن کو یکساں منظوری حاصل ہو۔

٭ ایک ایسا قانونی ادارہ بنایا جانا چاہیے جس کا کام تعلیم وتربیت کے مختلف نئے ذرائع اور طریقوں پر مستقل نظر رکھنا ہو۔اس ادارے کے ذمہ میعادی اصلاح، نئے ذرائع اور طریقوں کا نفاذ،اور مدرسین کی تربیت کا کام بھی ہو۔

٭ اس بات کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں کہ مدرسین کا استعمال ان کی ڈیوٹی کے علاوہ دوسرے کاموں کے لیے نہ ہو،جیسا کہ حق تعلیم قانون 2009-کے سیکشن 24میں کہا گیا ہے۔

٭ متعلقہ حکومتیں یقینی بنائیں کہ بچہ- مدرس تناسب (Pupil-Teacher Ratio) کا لحاظ کیا گیا ہے،جیسا کہ حق تعلیم قانون 2009-کے سیکشن 25میں کہا گیا ہے۔

٭مختلف اسکول بورڈ کے نصابوں میں اقدار پر مبنی تعلیم کو شامل کیا جانا چاہیے اور اسے لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔اقدار پر مبنی تعلیم مختلف طلبہ کے مذہب پر منحصر ہو سکتی ہے۔

٭پارلیمنٹ کے ذریعے اس بات کے اقدامات کیے جانے چاہئیں کہ نصابوں میں نفرت انگیز اور تعصب پر مبنی مواد موجود نہ ہو۔مناسب ضابطہ بندی کی جانی چایے تاکہ نصابوں کو بہ آسانی مسخ نہ کیا جاسکے۔

٭ مختلف اسکول بورڈ کے نصابوں میں ماحولیاتی تعلیم کو شامل کیا جانا چاہیے اور اسے لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔

٭ سرکاری اور غیر سرکاری تمام تعلیمی اداروں کو ماحول- دوست بنانے کے لیے حق تعلیم قانون 2009- میں ضروری ترمیم کی جانی چاہیے۔اس پر سختی سے عمل آوری کے لیے متعلقہ حکومتیں مناسب قانون سازی کریں۔

٭ تمباکو نوشی اور نشہ مخالف سخت قوانین بنائے جانے چاہئیں۔قانون کی خلاف ورزی کرنے والے پر سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔

)ضابطوں کی پابندی کے سلسلے میں ٭اجازت نامہ (لائسنس) کی فراہمی اور بے تحاشہ فیس/ ڈونیشن کو قابو میں کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کو ضابطوں کا پابند بنایا جانا چاہیے تا کہ طلبہ کے استحصال کو ختم کیا جا سکے۔مستقل نگرانی کی جانی چاہیے اور جعلی تعلیمی اداروں اور طلبہ کا استحصال کرنے والے تعلیمی اداروں کے خلاف سخت کارروائی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔

٭(مدرسین کے)عارضی تقرر کو ختم کیا جانا چاہیے اور مستقل تقرر کی اسامیوں کو پُر کیا جانا چاہیے تاآں کہ مستقل تقرر کی کوئی آسائی ایک تعلیمی سال سے عرصہ تک خالی نہ رہ سکے۔

٭ علاقہ وار تعلیم سے متعلق قضیوں کے لیے خصوصی ٹریبونل قائم کیے جانے چاہئیں تاکہ تنازعات اور مقدمات کوبہتر اور فوری حل کیا جاسکے۔

٭ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) کا درجہ ’قابو میں رکھنے والا قانونی ادارہ‘ کو باقی رکھنا چاہئے۔اسے مزید با اختیار بنایا جانا چاہئے۔اس کے فیصلوں قابل عمل بنایا جانا چاہیے۔

٭ حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ (JMI) اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(AMU) کے اقلیتی کردار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔

٭نصابی کتب کی اشاعت کے لیے نجی معاہدوں کو فورا ختم کیا جائے تاکہ نجی پبلشرز مہنگی کتابیں نہ فروخت کرسکیں۔

٭تعلیمی میدان میں بدعنوانی اور استحصال کی واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔جعلی تعلیمی اداروں سے لے کر بے تحاشہ فیس / ڈونیشن،نجی پبلشرز کی جانب سے کتابوں کی مہنگی فروخت،داخلہ،تقرر،امتحان، نتائج،معاہدے،فنڈ کے استعمال وغیرہ کے معاملات میں بدعنوانی وغیرہ تک کو رواج حاصل ہو رہا ہے۔بدعنوانی کے مسئلہ کو ایڈریس کرنا اور اس کی جڑ کاٹنا ایک فوری ضرورت ہے۔تعلیمی میدان میں بدعنوانیوں اور ضابطوں کی خؒاف ورزیوں پر نظر رکھنے کے لیے اور عوام کے سامنے جوابدہی اور شفافیت کی یقینی بنانے کے لیے ایک مستقل نگرانی کا ادارہ قائم کیا جانا چاہیے۔

٭تعلیمی اداروں میں اقلیتی طبقات اور دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے خلاف ایذا رسانی اور ادارہ جاتی امتیاز و تعصب کو ختم کرنے کے لیے پارلیمنٹ روہت (ویمولا) ایکٹ لاگو کرے۔اقلیتی طبقات اور SCsاور STsکے خلاف تشدد کو جرم قرار دیا نا چاہیے۔

٭ سیشنس، امتحانات اور نتائج کے اعلات کو ضابطہ بند کرنا انتہائی ضروری ہے۔اسے یقینی بنانے کے لیے حکومت فوری اقدامات کرے۔

٭مختلف مسائل کو حل کرنے کے لیے پارلیمنٹ ایک اسٹینڈنگ جوائنٹ پارٹی کمیٹی(JPC) قائم کرے،حق تعلیم قانون 2009- کے صحیح نفاذ،بشمول اس کے فنڈ اور مالی تعاون کی جوابدہی، پر نظر رکھنے اور نگرانی کرنے کے لیے۔

نوجوان (روزگار اور مواقع)

٭سرکاری اور غیر سرکاری سیکٹر ملازمت میں تمام اسامیاں فوری طور پر پُر کی جائیں۔

٭ رنگناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کے مطابق پبلک سروس کے شعبہ میں رزویشن فراہم کیا جائے۔

٭ان شعبوں میں حکومت زیادہ سے زیادہ روزگار پیدا کرے جن میں فی الحال روزگار کی قلت پائی جاتی ہے،مثلاتدریس، پولس، سلامتی ایجنسیاں،مسلح افواج، زیریں سطح کی عدلیہ،ہیلتھ کیئر خدمات اور آنگن واڑی ملازم وغیرہ۔

٭سرکاری اور پبلک سیکٹر ملازمتوں میں انتخاب کا طریق عمل شفاف، بہتر اور کارگربنایا جانا چاہیے۔بھرتی کا پروسیس، اسامی کے اعلان سے لے کر کسی کا تقرر کرلینے اور اس کے کام شروع کردینے تک کا کام ایک طے شدہ مدت میں مکمل کیا جانا چاہیے۔

٭ صلاحیتوں کاارتقا(Skill Development)اور جزوقتی تربیتی مراکز(Vocational Training Centres)کا قیام مؤثر،شفاف اور قابل استفادہ طریقے سے عوامی سطح پر کیا جانا چاہیے۔تاکہ ان سے وہ فائدہ اٹھا سکیں جو سب سے زیادہ مستحق ہیں۔

٭حکومت کوچاہیے کہ وہ ضروری سرمایہ کی فراہمی (Financing)کو آسان بناکرآنترپرینیورشپ(Entrepreneurship)کی حوصلہ افزائی کرے۔اسکیموں اور پالیسیوں سے تمام طبقات کے افراد فائدہ اٹھا سکیں اس امر کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جانے چاہئیں۔

حقوق انسانی

٭حقوق انسانی کے تحفظ کے لئے قائم کیے گئے ادارے (NHRC,SC/ST COMMISSION, NCW, NCM) وغیرہ کو مناصب پر قابل اعتماد افراد کی تقرری اور انہیں ضروری فنڈ اور انفراسٹرکچر کی فراہمی کے ذریعے مضبوط کیا جانا چاہیے۔قومی کمیشن برائے حقوق انسانی(NHRC)کے احکام کو قابل نفاذ بنانے کے لیے حقوق انسانی ایکٹ 1993 میں ترمیم کی جانی چاہیے۔

٭روزگار، تعلیم،رہائش اور عوامی منفعت کے دیگر مراکز میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک سے تحفظ کے لیے،مذہبی شناخت کی بنیاد پرتمام طرح کی ایذا رسانی اور تشددسے تحفظ اورمجرم کو سزا دینے کے لیے جامع قانون سازی کی جانی چاہیے۔

٭ان معصوم افراد کی بازآبادکاری کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی جانی چاہیے جنہیں جعلی مقدمات میں ملزم بناکر پھنسایا گیا،لیکن بعد میں انہیں عدالت نے بے قصور قرار دے کر بری کردیا۔نیز، ان افراد نے جتنی مدت تک قید کی صعوبت برداشت کی اسی کے بقدر انہیں معاوضہ فراہم کیا جانا چاہیے۔

٭کریمنل پینل کورٹ کے سیکشن 197کو منسوخ کیا جانے چاہیے تاکہ ان پولس افسران پر بھی مقدمہ دائر کیا جاسکے جنہوں نے تشدد سے کام لیا، معصوم شہریوں پر بے بنیاد جھوٹے الزامات لگائے اور اس ضمن میں دیگر قوانین کی دھجیاں اڑائیں۔

٭ آسام میں قومی رجسٹر برائے شہریان (NRC)کی تجدید کا کام صحیح اور شفاف انداز میں کیا جانا چاہیے۔ہر شخص کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے کافی وقت دیاجاناچاہیے،اور محض ضابطہ کی چوک یا دفتر شاہی کے نظر انداز کردینے کی بنیاد پر کسی فرد کو شہریوں کی فہرست سے خارج نہیں کیا جانا چاہیے۔حکومت ان افراد کے حق میں بھی ایک واضح لائحہ عمل تیار کرے جنہیں بالآخر NRCکی فہرست سے نکال دیا گیا ہو۔اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ کسی فرد کو بے ریاست(Stateless) اور ان حقوق کے بغیر نہیں چھوڑدیاجائے گا جن کی ضمانت آئین ہند میں اور عالمی قوانین میں فراہم کی گئی ہے۔

٭ افراد کی نجی زندگی(Privacy)خواہ ڈیجیٹل ہو یا کسی اور صورت میں،کا لازما تحفظ کیا جانا چاہیے۔جائز قانونی سبب اور صحیح طریق عمل کے بغیر کسی سرکاری ادارے کو کسی فرد کی ذاتی معلومات کی نگرانی کرنے، جمع کرنے اور کسی اور کے ساتھ بانٹنے کا اختیار نہیں دیا جانا چاہیے۔

اپریل 2019

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں