طلبائی منشور

ایڈمن

سید احمد مذکر            ہندوستان ایک آزاد، خود مختار، اشتمالی،سیکولر اور جمہوری ملک ہے۔درج ذیل حقوق حاصل ہیں:سماجی،سیاسی اور معاشی انصاف۔عقیدہ،مذہب اور اظہار رائے کی آزادی۔قانون اور موقع میں مساوات۔اخوت اور شہری کے عزوشرف کی پاسداری۔یہ وہ حقوق واقدار ہیں جنہیں…

سید احمد مذکر

            ہندوستان ایک آزاد، خود مختار، اشتمالی،سیکولر اور جمہوری ملک ہے۔درج ذیل حقوق حاصل ہیں:

سماجی،سیاسی اور معاشی انصاف۔عقیدہ،مذہب اور اظہار رائے کی آزادی۔قانون اور موقع میں مساوات۔اخوت اور شہری کے عزوشرف کی پاسداری۔

یہ وہ حقوق واقدار ہیں جنہیں آئین ہند میں محفوظ کردیا گیا ہے۔یہ ہماری قومی شناخت کا جزو لاینفک ہیں۔یہ اقدار ہمارے ملک کو ان ممالک سے ممتاز و ممیز کرتی ہیں جو اپنے شہریوں کو یہ حقوق فراہم نہیں کرتے۔

            ہندوستان کی آبادی تقریبا 132کروڑ ہے۔ہندوستان کا ایک اور امتیاز یہ ہے کہ یہاں کا سماج ایک تکثیری سماج ہے جہاں ثقافتی،لسانی،نسلی اور مذہبی تنوع پایا جاتا ہے۔اتنی کثیر آبادی اور اتنے متنوع سماج کے مسائل بھی بے شمار اور متنوع ہیں۔ایسے حالات میں باہمی اتحاد و اتفاق بنانا اور اسے قائم رکھنا کافی دشوار ہوتا ہے۔اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ملک کا ہرشہری سماج کی رنگارنگی اور تکثیریت کو شعوری طور پر قبول کرے۔ایک صحت مند اور فعال معاشرے کے قیام کے لیے بھی یہ ضروری ہے۔اسی کے نتیجے میں ایک پرامن،متحد اور خوشحال ہندوستان کی تعمیر ہوسکے گی۔

            ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے۔جمہوریت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس طرز حکومت میں عوام اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے اپنے مسائل حل کر وا سکتے ہیں۔جمہوریت کی یہی وہ خصوصیت ہے جو اسے دیگر طریق ہائے حکمرانی سے ممتاز کرتی ہے۔جمہوریت میں حکومت سازی کے لیے انتخابات عوام کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ عوام اپنے نمائندوں کے سامنے اپنے مطالبات پیش کریں اور قانون سازی کے اداروں میں عوامی مسائل کی نمائندگی ہوسکے۔اور اگر ضروری محسوس ہو تو مسائل کے حل کے لیے مناسب قانون سازی ہوسکے۔انتخابی منشور کے ذریعے عوام یا کوئی عوامی گروہ امیدواروں تک اپنی توقعات اور مطالبات پہنچاتا ہے۔

            لوک سبھا انتخابات 2019کے پیش نظر ہندوستان میں اسلام پسند طلبہ کی سب سے فعال تحریک اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (SIO) نے ایک انوکھا قدم اٹھاتے ہوئے ایک طلبائی منشور شائع کیا ہے۔یہ منشور ملک کی موجودہ صورت حال اور ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، اور ملک بھر میں طلبہ اور نوجوانوں سے گفت و شنید کے بعد تیار کی گیا ہے اس لیے اسے بجا طور پر ملک کے طلبہ اور نوجوانوں کی آواز کہا جاسکتا ہے۔ایس آئی او کا تیار کردہ یہ طلبائی منشور دو حصوں اور تین عناوین پر مشتمل ہے۔پہلے حصے میں ملک کی موجودہ صورتحال اور مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے۔دوسرے حصے میں مسائل کے حل اور اس سلسلے میں مطالبات و تجاویز پیش کی گئی ہیں۔

            تعلیمی مسائل: تعلیم انسان اور سماج کی ترقی کا سب اہم ذریعہ ہے۔ملک کی سیاسی،سماجی اور معاشی ترقی کے لیے ملک کے باشندوں کو خواندہ اور تعلیم یافتہ ہونا ناگزیر ہے۔اس لیے طلبائی منشور میں تعلیم سے متعلق مسائل کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔اس ضمن میں تعلیم سے متعلق تین کلیدی مسائل کا ذکر کیا گیا ہے؛

1) تعلیم کا قابل رسائی ہونا (Accessibility):

ٓآئین ہند میں تعلیم کو ہر شہری کابنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔حق تعلیم قانون(Right To Education Act 2009) کے مطابق 6تا 14سال عمر کے ہر بچے کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا نہ صرف والدین بلکہ ریاست کا فرض ہے۔حق تعلیم قانون کو نافذ ہوئے اب دس سال کا وقفہ گزر چکا ہے لیکن اس اسے ابھی تک کلی اور یکساں طور نافذ کرنے میں حکومتیں ناکام رہی ہیں۔اسی طرح تعلیم کے قابل حصول ہونے میں ایک اہم رکاوٹ بے پناہ تعلیمی اخراجات ہیں۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ حکومتیں سالانہ جی ڈی پی (Gross Domestic Production)کا انتہائی معمولی بلکہ برائے نام حصہ صرف کرتی ہیں۔حالاں کہ دنیا کہ ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم پر خرچ کی شرح جی ڈی پی کے 6فیصد سے لے کر 10فیصد بلکہ اس بھی متجاوز ہے۔افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں موجودہ حکومت نے اس کی شرح مزید کم کر کے 2.7فیصد تک کم کردیا ہے۔تعلیم کے قابل حصول ہونے میں ایک اور اہم رکاوٹ سماج کے تمام طبقات کے لیے یکساں مواقع کا فقدان (Lack of Equal Opportunities)ہے۔ہندوستان میں اعلی تعلیم میں درج فہرست ذاتوں (SC)کاتناسب 14.4فیصد، درج فہرست قبائلT) (S کا 5.2اوردیگر پسماندہ طبقات (OBC)کا تناسب 35فیصد ہے۔مسلم طلبہ محض 5فیصد اور دیگر اقلیتی طبقات کے طلبہ کا تناسب بھی محض 2.2فیصد ہے۔اعلی تعلیم میں صنفی تفاوت کا تناسب 47.6فیصد ہے۔اس کے علاوہ تعلیم کے قابل رسائی ہونے میں ایک اہم رکاوٹ آمد و رفت کی سہولت کا فقدان بھی ہے۔تعلیمی اداروں کی جغرافیائی مقام بھی اس سلسلے کی ایک رکاوٹ ہے۔تعلیمی ادارے اگر کہیں موجود بھی ہیں تو وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔کہیں مناسب اور کافی عمارتیں نہیں ہیں۔کہیں کلاس کے لیے کمرے، تختہ سیاہ، کرسی،میز وغیرہ فراہم نہیں ہیں۔ کہیں طلبہ کے لیے پینے کا صاف پانی اور قضا ئے حاجت کے لیے استنجاء خانے موجود نہیں ہیں۔ معذور طلبہ کے لیے تعلیمی اداروں میں حسب ضرورت سہولیات اور ان کی تعلیمی بہتری کے لیے معاون خصوصی نصاب اور تکنیکی آلات بھی دستیاب نہیں ہیں۔نابینا طلبہ اس عدم دستیابی سے خاص طور پر متاثر ہیں۔تعلیم کو قابل حصول بنانے کا ایک اہم مطالبہ محلاتی اسکولوں کا نظم (Neighbourhood School System) بھی ہے۔  لیکن حق تعلیم قانون کے تحت اس نظام کا نفاذ اب تک نہیں ہوسکا ہے۔مرکزی،ریاستی اور مقامی انتظامیہ اس سلسلے میں وافر رقم دستیاب نہ ہونے کا بہانہ بناتی ہے۔

            تعلیمی اداروں اور دیگر تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے باوجود بھی طلبہ کی غربت ان کی تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔غربت تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے اس کے لیے حکومتیں طلبہ کے لیے وظائف کی سہولت بہم پہنچاتی ہیں۔ہندوستان میں بھی طلبہ کے لیے مختلف وظائف اور اسکالرشپ موجود ہیں لیکن یا تو طلبہ کی عدم معلومات کی بنا پر یا پھر سرکاری نوکر شاہی میں بدعنوانی یا وظیفہ حاصل کرنے کے لمبے بوجھل پروسیس کی وجہ سے ان اسکیموں کا کوئی قابل ذکر فائدہ نہیں ہوپاتا۔کئی مرتبہ اگر کسی طالب علم کو کوئی وظیفہ ملتا بھی ہے تو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب وہ طالب علم کی تعلیمی ضروریات پورا کرنے کے لیے بھی ناکافی ہوتا ہے۔یہ وظیفے اس لیے بھی ناکافی ہیں کہ طلبہ کی تعداد میں کافی اظافہ ہوا ہے لیکن وظیفوں کے لیے مختص رقم میں اسی تناسب سے حکومتوں نے اضافہ نہیں کیا ہے۔یہ صورت حال اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ حکومتیں غیر ضروری اخراجات اور تبذیر سے بچتے ہوئے ملک کے روشن مستقبل کے لیے تعلیم پر زیادہ سے زیادہ رقم صرف کریں۔

            ایک اور اہم مسئلہ جس پر توجہ دینا ناگزیر ہے،دینی مدارس سے فارغ طلبہ کا ہے۔بہت سارے معیاری دینی تعلیمی اداروں کی سند کو سرکاری یونیورسٹیاں قبول نہیں کرتیں جس کی وجہ سے ان طلبہ کی اعلی تعلیم کا دروازہ یا تو بند ہوجاتا ہے یا محدود۔اگر ایک مناسب ضابطہ عمل تشکیل دے کر حکومت دینی مدارس کی اسناد کو قبول کرنے لگیں تو ایک تو یہ کہ طلبہ کو ذاتی طور پر فائدہ ہوگا،دوسرے وہ اپنی کمیونٹی کے ارتقاء کا ذریعہ بنیں گے،اور تیسرے یہ کہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کرملک کی تعمیر و ترقی میں وہ بھی اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔

نوجوانوں کے سیاسی،معاشی و سماجی مسائل:

ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ نوجوا ن رکھنے والا ملک ہے۔یہاں ہر سال لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں طلبہ اور نوجوان روزگار کے میدان میں قدم رکھتے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں ترقی کا ماڈل کچھ اس طرح کا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں نہ ملازمتوں میں حسب ضرورت اضافہ ہوا ہے اور نہ ملازمین کے مشاہروں میں۔اس وقت ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح 6.1فیصد ہے۔یہ شرح پچھلے 45سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ہندوستانی حکومتیں تعلیم یافتہ اور نا خواندہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے ان کی صلاحیتوں کو ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کار آمد بنانے میں ناکام رہی ہیں۔بے روزگاری کی وجہ سے تخریبی منصوبے رکھنے والے عناصر نوجوانوں کا غلط استعمال کر رہے ہیں،نتیجے میں سماج میں جرائم بڑھ رہا ہے۔

حقوق انسانی

ہندوستان میں یوں تو حقوق انسانی کے استحصال کی داستان صدیوں پر محیط ہے لیکن گزشتہ چند برسوں میں اس حوالے سے خطرناک حد تک تبدیلی آئی ہے۔ ملک میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ تشدد کی نوعیت میں بھی سنگین تبدیلی آئی ہے۔ملک کے اقلیتی طبقات بالخصوص مسلمانوں کے خلاف تشدد پر مبنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی روک تھام کرنے کے لیے اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے حکومتیں بھی اس کی ذمہ دار اور اس میں ملوث ہیں۔صورت حال یہ ہے کہ ملک بھر میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے۔ لوگ اپنے آپ کو اور اپنے بال بچوں کو محفوظ نہیں سمجھ رہے ہیں۔مختلف طبقات اور مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان تناؤ، منافرت اور نفرت کے ضزبات پنپ رہے ہیں۔یہ صورت حال ملک کے مستقبل کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔اس صورت حال کا منفی اثر براہ راست طلبہ اور نوجوانوں پر پڑا ہے۔

            حقوق انسانی کے حوالے سے ہندوستان میں ایک اور بہت سنگین مسئلہ بے قصور مسلم نوجوانوں کو قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار کرنا ہے۔گزشتہ دو تین دہائیوں سے بڑے تعداد میں طلبہ اور نوجوان دہشت گردی کے فرضی، بے بنیاد اور جعلی مقدمات کا شکار ہورہیہیں۔ایسے کتنے مقدمات ہیں جن میں پولس اور ریاستی و مرکزی خصوصی تفتیشی ایجنسیوں نے تعلیم یافتہ بے قصور نوجوانوں کو غیر قانونی طریقے سے گرفتار کیا، جھوٹے الزامات کی بنیاد پر جھوٹے مقدمات چلائے لیکن بالآخر ان کا جھوٹ بے نقاب ہوا اور عدالت نے نو سال،دس سال جیل میں ناکردہ جرائم کی  سزا بھگتنے کے بعد ’با عزت‘ بری کردیا۔

            انفرادی آزادی اور حفاظت کو لاحق خطروں میں ایک خطرہ خلوت کی آزادی کا استحصال بھی ہے۔آئین ہند تمام شہریوں کو خلوت کی یکساں آزادی فراہم کرتا ہے۔لیکن آج کل سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں شہریوں کی یہ آزادی بھی متاثر ہورہی ہے۔حکومت کی جانب سے حال میں ایک آرڈیننس جاری ہوا جس میں مختلف تفتیشی اور سلامتی اداروں کو خلوت کی نگرانی کا خصوصی اختیار دیا گیا ہے۔جو دستور ہند کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔

            طلبہ و نوجوانوں سے متعلق مذکورہ بالا تمام مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن (SIO)نے ملک کے درخشاں مستقبل اور ہمہ جہت فلاح و بہبود کے لیے ایک طلبائی منشور شائع کیا ہے۔ایس آئی او اس بات کی امید کرتی ہے کہ اس طلبائی منشور میں پیش کردہ تجاویز و مطالبات پر ملک کی تمام ذمہ دار اور ایماندار سیاسی جماعتیں سنجیدگی سے غور کر کے اسے اپنے لوک سبھا الیکشن 2019کے انتخابی منشور میں شامل کریں گی۔اس طلبائی منشور کے ذریعے ایس آئی او اس بات کی توقع بھی کرتی ہے کہ آئندہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں ان غلط اور ملک کے مستقبل کے لیے تباہ کن پالیسیوں کا اعادہ نہیں کریں گی جن کا ذکر اس مضمون میں کیا گیا ہے۔

Syed Ahmed Muzakkir

National Sceretary SIO of Iindia.

Director, CERT, New Delhi.

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں