شمشاد حسین فلاحی
ہندوستان اپنی آبادی کے اعتبار سے ایک جواں سال ملک ہے، یہاں کل آبادی کا نصف سے بھی کچھ زیادہ حصہ 25سال سے کم عمر ہے اور 65%آبادی 35سال یا اس سے کم عمر ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ہر سیکنڈ ایک بچہ پیدا ہوتا ہے اور ہر تین سکینڈ پر ایک موت ہوتی ہے۔ اس بات کو اگر سامنے رکھا جائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ 14-35سال کے افراد پر مشتمل ہے جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں۔
سماجی اور معاشرتی حالات اور تہذیبی و لسانی اعتبار سے بھی ہندوستان منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی ملک کی حیثیت سے ہندوستان کی دنیا بھر میں الگ شناخت ہے اور یہ ”کثرت میں وحدت“ کے لیے معروف ہے۔مگر ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ بہ حیثیت ملک ہمارے کچھ خاص مسائل بھی ہیں۔جن میں سماجی درجہ بندی اہم ہے کہ یہاں کچھ لوگ ”اعلیٰ ذات“سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ بڑی تعداد دلت، پسماندہ اور معاشی و سماجی اعتبار سے کمزور طبقات میں منقسم ہے۔ غربت اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ تعلیم کی کمی نے ”سماجی شعور“ یا سوک سینس (Civic Sense) میں آبادی کو کمزور بنارکھا ہے۔ پھر مذہبی اکائیاں بھی کافی تعداد میں ہیں اور ان کے مذہبی مسائل بھی حساس نوعیت کے ہیں۔
غربت، پسماندگی اور معاشی کمزوری کی بنیاد پر بچھڑے افراد کو اوپر اٹھائے بغیربہ حیثیت قوم ترقی یافتہ ہونے کا تصور محال ہے اور یہی وہ اہم نقطہ ہے جس نے وقت کے ساتھ ساتھ سماج میں کشمکش کی ابتدائی صورت اختیار کی۔ دبے کچلے افراد اور پسماندہ لوگوں کو اوپر اٹھانے کی بات ہوئی تو ترقی یافتہ طبقہ نے اسے اپنے مفاد پر ضرب کی صورت میں دیکھا اور ان کوششوں کی مخالفت کو جو سماجی، معاشی اور معاشرتی پسماندگی سے محروم طبقہ کو نکالنے کے لیے سیاسی سطح پر انجام دینے کی منصوبہ بندی ہوئی۔ اس میں منڈل کمیشن کی سفارشات کا رِزرویشن کی صورت میں نفاذ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے جب وی۔پی۔ سنگھ کی حکومت میں انہیں نافذ کیا گیا تو اعلیٰ طبقہ سڑکوں پر اتر آیا۔
اس کے بعد پھر مذہب کی بنیاد پر بھی اس رزرویشن کا مطالبہ آگے بڑھا تو اس میں ”مذہب کا فلیور“ بھی شامل ہوگیا جس نے ایک نئی بحث اور نئی کشمکش کو جنم دیا۔ اس پورے عرصے میں جو تقریباً گزشتہ تین دہائیوں پر محیط ہے مذہب پر مبنی سیاست نے کیا کیا گل کھلائے یہ ہر باشعور انسان کے علم میں ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہندوستانی سماج کی طبقاتی کشمکش جو سماجی اور معاشی اسباب سے شروع ہوئی تھی کتنی خاموشی کے ساتھ مذہبی کشمکش میں تبدیل ہوگئی اور اس نے ملک کے نوجوانوں کو بڑی ”دانش مندی“ کے ساتھ اپنی گرفت میں لے لیا۔
ہونا کیا چاہیے تھا اور ……
دبے کچلے اور محروم طبقات اور گروہوں کو اوپر اٹھانا، ان کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنا اور معاشی ابتری سے نکالنا ہی اصل ترقی ہے اور جس سماج میں لوگ سماجی، معاشی اور معاشرتی سطح پر برابر ہوں وہی سماج اور ملک حقیقت میں ترقی یافتہ معاشرہ اور ملک کہلانے کا حق دار ہے۔ اس ترقی کا حصول کشمکش سے نہیں بلکہ باہمی تعاون اور ہمدردانہ جذبہ کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ اگر اس ترقی کے تصور کے ساتھ کشمکش کی صورتحال پیدا ہو تو یہ سماج کی ایک اور تقسیم کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔جس میں طبقات ایک دوسرے کو اپنا رفیق اور ملک کا شہری بھائی تصور کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو حریف اور مدمقابل تصور کرکے باہمی منافرت کا شکار بن جاتے ہیں اور ملک و سماج نئے مسائل سے دور چار ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ترقی کا سفر اسی کشمکش سے شروع ہوا اور اب بھی اسی کشمکش کے ساتھ بلکہ اور زیادہ شدید ہوتی کشمکش کے ساتھ جاری ہے۔ ہم ایک دوسرے کا معاون و مددگار بننے کے بجائے حریف بنے ہوئے ہیں۔ محروم اپنی محرومی کا ذمہ دار دوسرے طبقے کو تصور کررہا ہے اور مفادات کی کشمکش کے سبب اس سے جنگ پر آمادہ ہے۔ جب کہ با اختیار اور خوش حال طبقہ ان کی ترقی میں اپنی خوش حالی اور ترقی کو ”چھنتا ہوا“ محسوس کررہا ہے۔ جب کہ حقیقت میں پسماندہ فرد کی ترقی کا مطلب خوش حال کی تنزلی نہیں۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ ملک کے سیاست داں سماجی ترقی اور مساوات پر سیاست کرتے آئے ہیں اور ان کی دلچسپی پسماندہ طبقات کو حقیقت میں اوپر اٹھانے سے زیادہ ان کے سیاسی استحصال میں رہی ہے۔
نوجوانوں کی بنیادی ضرورت معیاری تعلیم کے ساتھ روز گار اور اس کے بہتر مواقع ہیں۔ یہ چیزیں اگر انہیں فراہم ہوجائیں تو ملک بھی ترقی کرتا ہے اور سماج کے وہ طبقات بھی جو کسی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ جب کہ عملاً ہم نے دیکھا ہے اور دیکھ رہے ہیں کہ نوجوانوں کی ان دو بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے راستے دن بہ دن تنگ ہورہے ہیں۔ کیوں کہ ضرورت تو ضرورت ہے ہی، اس لیے انہیں سیاسی نعروں سے بہلانے کے ساتھ ساتھ طبقاتی کشمکش میں جو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ ”مذہبی کشمکش کے فلیور“ کے ساتھ پروسی جارہی ہے، الجھا کر انہیں اپنے اصل مسائل کے حل کے مطالبہ سے غافل کیا جارہا ہے۔ منڈل کمیشن کی سفارشات کے وقت یہ کشمکش اعلیٰ طبقے اور پسماندہ طبقے کے درمیان تھی اور اب مذہب کے رنگ میں ہندو اور مسلم کے درمیان بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔
ہماری سوچ
ہماری سوچ یہ ہے اور ہونی چاہیے کہ ترقی کی بنیاد کشمکش نہیں بلکہ انسانی ہمدردی اور یہ فکر ہے کہ سماج کا ہر انسان آگے بڑھنے کا حق رکھتا ہے اور اسے آگے بڑھنے کے لیے مہمیز دینا، اس کا تعاون کرنا اور اس کے راستے کی رکاوٹوں کو دور کرنا ہماراا خلاقی، سماجی اور قومی فریضہ ہے۔ اگر اس راہ میں کہیں کسی کشمکش کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو اسے باہمی افہام و تفہیم اور اخلاقی و قانونی طریقے سے ختم کرنا ہی ملک اور تمام طبقات کے حق میں بہتر ہوگا۔ اس کے علاوہ اگر کوئی اور راستہ اختیار کیا جاتا ہے تو وہ نہ تو کسی طبقے کے مفاد میں ہوگا اور نہ ملک کے مفاد میں۔ اس سوچ اور فکر کے ساتھ ہم اور ہمارا سماج جس قدر آگے بڑھیں گے ترقی کی منزل اس سے قریب ہوتی جائے گی۔ اگر باہمی کشمکش اور تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے گا تو منزل دور ہوتی جائے گی اور سماجی و معاشی سطح پر ہونے والے نقصانات ملک اور اس میں بسنے والے تمام طبقات کو جھیلنے ہوں گے۔
طبقاتی کشمکش جو اب تیزی سے مذہبی کشمکش میں تبدیل ہورہی ہے یا تبدیل کی جارہی ہے، ایسے میں تو اس سوچ کی ضرورت اور اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ایسے میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ سماج کو طبقاتی یا مذہبی ہر دو قسم کی کشمکش سے بچانے اور نکالنے کی فکر کی جائے۔
مسلم نوجوانوں کا رول
یہ خیال اور فکر صرف ہماری نہیں بلکہ اصولی طور پر ہر تعمیر پسند شہری کی سوچ ہے مگر ہم نے اس سوچ کے ساتھ اپنی قوم کے نوجوانوں تک اپروچ نہیں کیا ہے۔ اس فکر میں اتنا دم ہے اور یہ اس قدر مؤثر ہے کہ جب ہم اس کے ساتھ اپنے ہم عمر نوجوانوں کے ذہنوں پر دستک دیں گے تو وہ یقینا اس کو قبول کریں گے۔ یہ سوچ ان بہت ساری غلط فہمیوں کا بھی ازالہ کرنے والی ہے جو نفرت کی سیاست کرنے والے نئی نسل کے ذہنوں میں بھرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس لیے مسلم نوجوانوں کو چاہیے کہ پہلے اپنے ذہنوں کو منفی رجحانات سے پاک کریں اور ”خیرامت“ کے اس تصور کو اپنے ذہنوں میں پختہ کریں جو قرآن ہمیں دیتا ہے۔ ہم انسانوں کو خیر سے ہم کنار کرنے والا گروہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے اس بات کے لیے پناہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ذریعہ انسانوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچے۔ کسی فرد یا گروہ کو نقصان پہنچا کر فائدہ حاصل کرنا ہمارے دین، وقار اور فرض منصبی کے خلاف ہے۔
اگر ہمارے ذہنوں میں یہ تصور پختہ ہوجائے اور اسے لے کر ہم میدانِ کار میں اتریں تو کتنے ہی نوجوانوں کے گروہ ہمارے ساتھ ہوں گے اور ہم مل کر سماج کو اس کشمکش سے نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس میں الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک اور بات قابلِ ذکر ہے کہ ’نفرت کا جواب نفرت‘ کبھی بھی کامیاب اسٹریٹجی نہیں ہوسکتی اور یہ اصول ’کبھی بھی کہیں بھی‘ کا اصول ہے۔ نفرت کا بہترین جواب ’محبت‘ ہے۔ یہ بات ہمارا دین ہمارے ذہن میں پختہ کرتا ہے اور انسانی زندگی کا عملی تجربہ اس کی شہادت دیتا ہے۔ اس کے لیے سورہ محمد کی آیت35کافی ہے، جس میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
فَلَا تَہِنُوا وَتَدعُوا اِلَی السَلمِ وَاَنتُم الَاَعلَونَ وَاللّٰہُ مَعَکُم۔
ترجمہ:”تم کمزور مت پڑجاؤ اور لوگوں کو امن کی دعوت دیتے رہو اور تم ہی سربلند رہوگے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے۔“
مگر…… اس کے لیے جذبہئ خیرخواہی مطلوب ہے جو براہِ راست انسانوں کے دل پر دستک دیتا ہے اور ذہنوں کو آپ کی بات کے لیے کھول دیتا ہے۔
شمشاد حسین
مدیر: ماہنامہ حجاب اسلامی،دہلی