ایس آئی او آف انڈیا کی ۲۰۱۳ ء تا ۲۰۱۴ ء کی میقات کے اختتام پر رفیق منزل کے مدیر ابوالاعلی سید سبحانی نے محترم صدر تنظیم برادر اشفاق احمد شریف سے ملاقات کی، جس میں موصوف کی شخصیت کے علاوہ تنظیم کی موجودہ صورتحال، درپیش چیلنجز اور کرنے کے کام پر اچھی گفتگو کی گئی ہے۔ افادۂ عام کے لیے گفتگو کے اھم گوشے نذرقارئین ہیں ۔۔۔۔۔ ادارہ
سب سے پہلے میں آپ کے اب تک کے تنظیمی سفر کی تفصیلات جاننا چاہتا ہوں؟
میرے تنظیمی سفر کا آغاز بچپن سے ہی ہوگیا تھا، چونکہ میرا پورا گھرانہ تحریکی تھا، میرے والد صاحب اور چچا جان جماعت کے بہت پرانے اور متحرک رکن اور خادم ہیں، اس کے علاوہ میرے بھائی بہن بھی پوری طرح تحریک میں لگے ہوئے ہیں، اس طرح گھر کے ماحول کے نتیجے میں فطری طور سے میں بچپن سے ہی تنظیم سے وابستہ ہوگیا۔ بچپن میں چلڈرن سرکل کے پروگرامس میں شریک ہوتا تھا، اور وہاں کافی ایکٹیو رہنے کا موقع ملا۔ ۲۰۰۳ ء میں باقاعدہ میں ایس آئی او کا ممبر بنا، اُس دوران میں ایس آئی او کرناٹک زون میں آفس سکریٹری تھا۔ ۲۰۰۲ ء ہی سے میں ہمہ وقتی طور پر ایس آئی او زونل آفس پر آگیا تھا، جبکہ ابھی اسوسی ایٹ ہی تھا۔ اس طرح دیکھا جائے تو ممبر کی حیثیت سے ۱۲؍سال کا میرا تنظیمی سفر رہا، اور تقریبا دس سال اس میں ہمہ وقتی طور پر میں نے تنظیم میں لگائے، زون پر آفس سکریٹری، پبلک ریلیشن سکریٹری، ریجنل صدر، زونل صدر اور پھر صدرتنظیم کی ذمہ داری آئی۔
اس دوران آپ کی تعلیمی سرگرمیاں کیا رہیں؟
ایس آئی او کی ذمہ داریوں کے درمیان میرا تعلیمی سفر بھی جاری رہا، میں ایس آئی او سے کچھ عجیب وغریب قسم کے حالات میں وابستہ ہوا تھا، حقیقت یہ ہے کہ میں نے تعلیم سے بیزار ہوکرکالج جانا چھوڑ دیا تھا، جس کی وجہ سے ایک دو سال میرے ضائع بھی ہوئے، لیکن جب میں ایس آئی او میں آیا، اور یہاں لوگوں کو دیکھا، تو میرے اندر بھی پڑھائی سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ اس وقت کرناٹک میں جناب مرغوب احمد صاحب صدرحلقہ تھے، میں نے ان سے گزارش کی کہ مجھے پڑھنے کے لیے موقع دیجئے، انہوں نے الحمدللہ کافی تعاون کیا۔ بنگلور شہر میں ایوننگ کلاسیز کا اچھا سسٹم ہے، میں نے اس کو جوائن کیا، اور وہاں سے انٹرمیڈیٹ تک کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد تین سال تک تنظیمی ذمہ داریوں کو سنبھالتے ہوئے ایوننگ کلاسیز ہی کے ذریعہ جرنلزم میں گریجویشن بھی مکمل کیا۔ اس دوران میں شام میں کلاس جاتا تھا، اور دن بھر ایس آئی او کی سرگرمیوں میں مصروف رہا کرتا تھا۔
اس میقات کے اختتام پر آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟
ایک ذمہ دار کو جب اس کی میقات ختم ہوتی ہے، اس وقت کافی اطمینان اور سکون نصیب ہوتا ہے۔ فطری طور پر مجھے بھی اس وقت کافی اطمینان کا احساس ہورہا ہے۔ اس میقات کے آغاز میں ہم نے بہت سارے فیصلے لیے تھے، اور میقات کے اختتام پر ہمیں اس پر کافی حد تک اطمینان بھی ہے، اس پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ جس کام میں بھی ہمیں کامیابی نصیب ہوتی ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا لازمی ہے، مومنین کی یہ ایک اہم صفت ہے۔ ہاں بہت ساری کوتاہیاں بھی ہوئی ہیں، اس کا بھی ہمیں اعتراف کرنا ہوگا۔ البتہ مجھے لگتا ہے کہ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی سعادت ہے، جبکہ دوسری طرف یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے کہ ایک ملک گیر طلبہ تنظیم کی قیادت کا مجھے موقع ملا۔ یہ میری اب تک کی زندگی کا سب سے اہم مرحلہ تھا۔ اس دوران مجھے کافی کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ مومن کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ ہردن کچھ سیکھے، مجھے بھی ا س دوران سفر میں، پروگرامس میں، ملاقاتوں اور میٹنگوں میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ میں جب دس سال قبل کی زندگی دیکھتا ہوں اور اب کی زندگی دیکھتا ہوں تو مجھے کافی تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک طرف اطمینان اور سعادت کا مقام ہے اور دوسری طرف ذمہ داری کا احساس ہے، ذمہ داری کے دوران بہت سی کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں، اس پر میں بارگاہ الہی میں توبہ واستغفار کرتاہوں، کہ جو کچھ بھی اس دوران مجھ سے کوتاہیاں ہوئی ہیں، اللہ تعالی انہیں معاف فرمائے۔
آپ نے اِن دوسالوں میں تنظیم کو پورے ملک میں بہت قریب سے دیکھا، اس سے پہلے بھی آپ تنظیم کو دیکھتے رہے ہیں،
اِس میقات میں آپ نے کیا پیش رفت یا تبدیلی محسوس کی ؟ کن کن میدانوں میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں؟
میرا ماننا یہ ہے کہ ایک میقات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے، جو تبدیلی ہمیں کسی میقات میں نظر آتی ہے وہ دراصل پچھلی میقاتوں کا ایک تسلسل ہوتا ہے۔ تنظیم میں بہت ساری پالیسیاں اور بہت سارے پروگرام اسی طرح آگے بڑھتے ہیں، اور جب کسی میقات میں اس کے رزلٹ نظر آتے ہیں تو آپ محسوس کرتے ہیں کہ یہ اسی میقات کی کامیابی ہے، حالانکہ وہ پرانی جدوجہد کا ایک تسلسل ہوتا ہے۔ اس میقات میں جب ہم پالیسی اور پروگرام طے کررہے تھے، اس وقت دو تین بہت اہم نکتے ہمارے سامنے تھے، جبکہ بہت ساری ایکٹیوٹیز کو ہم نے آگے بڑھایا، جیسے ۲۰۰۷ ء بشرالدین شرقی صاحب نے اپنے دور صدارت میں تعلیم کی تعریف نو کا نعرہ لگایا، ہم نے اس میقات میں اس کو آگے بڑھایا۔ میرے خیال سے کسی بھی مہم کے تین مراحل ہوتے ہیں، پہلا مرحلہ بیداری لانے کا ہوتا ہے اور دوسرا مرحلہ عوامی رائے کو اس کے حق میں ہموار کرنے کا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اس وقت ہم دوسرے مرحلے میں ہیں اور اس میقات میں ہم نے بہت ساری یونیورسٹیز اور کالجز میں جیسے کلکتہ، حیدرآبار، بنگلور اور میسور وغیرہ میں تعلیم پر اپنے خیالات کو مختلف اہم فورمس اور یونیورسٹیز وکیمپسس تک لے جانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس میقات میں دوسرا اہم کام نارتھ انڈیا میں ایجوکیشن موومنٹ کا آغاز ہے، اس میں ہمارے پیش نظر خاص طور سے یوپی، بہار اور جھارکھنڈ ہیں۔ نارتھ انڈیا میں تنظیم کی صورتحال اور اس کے پھیلاؤ کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ تنظیم کے لیے یہ ہمیشہ سے ایک اہم اشو رہا ہے۔ ۱۹۹۶ ء میں اسی تناظر میں شمالی ہند کانفرنس پٹنہ کا فیصلہ کیا گیا تھا، اس دوران تنظیم میں کافی نمایاں گروتھ محسوس کی گئی تھی۔ لیکن بہر حال نارتھ انڈیا کے تعلق سے تنظیم کے جوخواب تھے، وہ ابھی بھی تشنہ تعبیر نظر آتے ہیں، چنانچہ اس میقات میں ہم نے کافی گہرے تجزیے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اس خطے میں ملت کی صورتحال کا تبدیل ہونا بھی ضروری ہے اور ہمارے تنظیمی حلقے میں جہد مسلسل کا مزاج ڈیولپ کرنا بھی ضروری ہے، اس کے پیش نظر نارتھ انڈیا ایجوکیشن موومنٹ کا آغاز کیا گیا۔ اس میقات میں الحمدللہ اس کے کافی اچھے نتائج سامنے آئے، ہم امید کرتے ہیں کہ اس کو آئندہ میقاتوں میں بھی آگے بڑھایا جائے گا۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس میقات میں ایک اہم کام مشترک جدوجہد کے سلسلے میں بھی ہوا ہے، اس میقات میں کئی ایک پروگرامس یونیورسٹیز اور ایس آئی او کے اشتراک کے ساتھ ہوئے، یہ ایک بڑی تبدیلی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایس آئی او کا اب یونیورسٹیز کی جانب سے استقبال بھی کیا جارہا ہے اور اعتراف بھی۔ کرناٹک اور ویسٹ بنگال میں ایس آئی او اور میسور و کلکتہ یونیورسٹی کے اشتراک سے تعلیم پر پروگرامس ہوئے۔ اس میقات میں قومی تعلیمی ایجنڈہ اور ریاستی تعلیمی ایجنڈے پر بھی اثرانداز ہونے والے ٹھوس کام کرنے کی کوشش کی ہے، یہ بھی اس میقات کی ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس کے علاوہ اس میقات میں ہم نے وابستگان کی سوچ اور مزاج کو بھی ایک رُخ دینے کی کوشش کی ہے۔ اجتماعیت میں مختلف الخیال لوگ ہوتے ہیں، ان کی سوچ کو مثبت رخ دینے اور اُنہیں تنظیم کے حق میں ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے لیے کچھ خاص پروگرامس بھی ہوئے، تنظیم میں ڈسکشن اور غوروفکر کے ماحول کو پروان چڑھانے کے لیے آل انڈیا زیڈ اے سی کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا، صدرتنظیم کے انتخاب کے علاوہ آل انڈیا زیڈ اے سی اجلاس شائد پہلی بار میقات کے درمیان میں رکھا گیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے پروگرامس کئے گئے تاکہ وابستگان کی سوچ کو پروان چڑھایا جاسکے، پچھلی میقات کی طرح اس بار بھی منتخب صدوریونٹ کا پروگرام رکھا گیا، قیادت کی سطح پر درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے بھی کئی پروگرامس کیے گئے کالی کٹ میں اسپیشل سی اے سی کااجلاس اس ضمن میں ایک اہم کوشش تھی، جس میں ملک بھر سے سوچنے سمجھنے والے ممبران تنظیم کو بلایا گیا تھا، اور ڈسکشن کا بھرپور موقع فراہم کیا گیا تھا، دو تین حلقوں میں اسی طرح خصوصی زیڈاے سی اجلاس بلائے گئے۔ اس میقات کی قابل ذکر چیزوں میں وابستگان کے درمیان سیاسی اور سماجی حساسیت عام کرنا بھی ایک اہم کام ہے، اس میقات کے پروگرامس بالخصوص اسمبلی الیکشن کے موقع پر ایس آئی او کی سرگرمیوں کو دیکھیں، تو معلوم ہوگا کہ اب تک ہم جس انداز سے اشوز پر ایڈریس کرتے تھے، اس میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔
بحیثیت صدرتنظیم آپ نے اپنی میقات مکمل کرلی ہے، آپ نے اور مرکزی مشاورتی کونسل نے جن خوابوں کے ساتھ میقات کا آغاز کیا تھا، اس میں کیا کچھ پیش رفت محسوس کرتے ہیں؟
دیکھئے ابھی نارتھ انڈیا موومنٹ کی بات آئی تھی، اس موومنٹ سے ہمارا ایک خواب یہ تھا کہ نارتھ انڈیا میں تنظیم اپنی بنیادوں کو بہت ہی مضبوط کرے، الحمدللہ اس کے لیے کافی محنت اور جدوجہد کی گئی ہے، اور ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ ہمارا خواب پورا ہوگا، اور نارتھ انڈیا کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں ایس آئی او ایک مضبوط آواز بن کر ابھرے گی۔ تاہم ابھی اس خواب کی شروعات ہے، اس کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے ابھی کافی محنت اور لگن کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہمارا یہ خواب تھا تنظیم میں موجود مختلف صلاحیتوں کو کسی طرح تنظیم اور اس کے مقصد کے حق میں استعمال کیا جائے۔ اس ضمن میں بھی کافی کوششیں ہوئی ہیں، اور تنظیم کے ماحول کو تمام ہی صلاحیت مند افراد کے لیے کھلا اورکشادہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے، اس کے لیے ریسرچ فورم، اسٹڈی گروپ وغیرہ کو قائم کیا گیا، اس ضمن میں بہت زیادہ کام تو نہیں ہوسکا، البتہ ایک اچھی شروعات ضرور ہوئی ہے۔ ایک اہم خواب ہمارا یہ تھا کہ ہم تنظیم کے ماحول اور مزاج کو دعوتی نقطہ نظر سے پروان چڑھائیں گے، برداران وطن کے لیے ہمارے دل کھلے ہوئے ہوں، ان سے اچھے تعلقات ہوں، اور ہم اپنے ایڈریسیس کے انداز میں دعوتی اپروچ اختیار کریں، ہمارے یہاں شائع ہونے والی تحریروں میں بھی ہندوستانی سماج اور اس کے مزاج کی رعایت ہو، اس کے بغیر یہاں کے سماج پر اثرانداز ہونا مشکل ہے۔ زونس کی سرگرمیوں کو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اب ہم نہ صرف تکثیری سماج کو سمجھنے لگے ہیں، بلکہ اس میں کس طرح اسلام کی نمائندگی کرنا ہے، اس کی بھی اچھی جھلک ہمارے پروگرامس میں نظر آتی ہے۔
کیمپس ایکٹوزم یا اسٹوڈنٹس ایکٹوزم کے محاذ پر کئی زونس نے اچھی پیش رفت کی ہے۔ آپ کا اس سے متعلق کیا احساس ہے، بالخصوص علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تناظر میں؟
سب سے پہلے میں زونس کو مبارکباد دوں گا کہ اسٹوڈنٹس ایکٹوزم کے میدان میں انہوں نے اچھی پیش رفت کی ہے۔ اس وقت بڑی حد تک تنظیم کی سرگرمیوں کا مرکز کالجز اور یونیورسٹیز بن گئی ہیں، جبکہ دس سال قبل کی صورتحال ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے سرگرمیوں کا مرکز محلہ اور عوامی مقامات ہوتے تھے۔ اس صورتحال سے نکل کر کالجز اور یونیورسٹیز میں جاکر اپنے قدم جمانے کا کام ایک مثبت کوشش ہے، جس پر تمام ہی زونس کو مبارکباد دینا چاہوں گا۔ بالخصوص علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایس آئی او آف انڈیا کی تاریخی کامیابی پر میں عبداللہ عزام اور ایس آئی او کے تمام ہی ساتھیوں کو مبارکباد دیتا ہوں، ساتھ ہی یونیورسٹی کے تمام طلبہ کو بھی مبارکباد دینا چاہوں گا کہ انہوں نے کیمپس کی سیاست کو ایک نیا رخ دینا میں ہمارا بھرپور تعاون کیا۔ اس موقع پر میں اپنے ان سابق ذمہ داران کو بھی یاد کرنا چاہوں گا، اور ان کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے مرکزی یونیورسٹیز کے تعلق سے جو خواب دیکھا تھا، ان کا جو وژن تھا، وہ آج شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر آرہا ہے۔ علی گڑھ کی کامیابی ہمارے لیے مرکزی یونیورسٹیز میں کام کے لیے ایک نقطہ آغاز ہونا چاہئے، ا س کو سامنے رکھ کر ہمیں دیگر مرکزی یونیورسٹیز میں بھی اپنی سرگرمیوں کو تیز کرنا ہوگا۔ اس میقات میں ملک کی کئی اہم یونیورسٹیز کے یونین الیکشن میں ایس آئی او نے اچھی کامیابی درج کرائی ہے، اس کے علاوہ ایک اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایس آئی او نے اس میقات میں جے این یو، دہلی یونیورسٹی، جامعہ ملیہ وغیرہ میں اچھے پروگرام کئے ہیں، البتہ اس سلسلے کو منصوبہ بند طریقے سے مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
دو میقات قبل علی گڑھ اور جامعہ ملیہ کو زون بنانے کا تجربہ ہوا تھا، یہ تجربہ آپ کو کیسا معلوم ہوتا ہے؟
میرے خیال سے یہ ایک کامیاب تجربہ رہا، چار سال میں اس پر کوئی بڑا تجزیہ ہم نہیں کرسکتے، اے ایم یو کی حد تک دیکھا جائے تو وہاں اسٹوڈنٹس ایکٹویٹیز کے علاوہ وہاں کی یونین میں اپنا قدم جمانا، اور انتخابات میں نمایاں کامیابی درج کرانا ایک اچھی پیش رفت ہے، البتہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہم اس انداز سے کام نہیں کرپائے۔ اس کی الگ وجوہات ہیں، جن پر گفتگو ہونی چاہئے، میرے خیال سے جامعہ میں کوشش ہونی چاہئے کہ یہاں اسٹوڈنٹس یونین بحال ہو، اور جمہوری ماحول پروان چڑھایا جائے۔ لیکن اپنے آپ میں مرکزی یونیورسٹیز کو کیمپس زون کا درجہ دینے سے متعلق فیصلہ ایک اہم اور مثبت فیصلہ ہے، اس پر کام کو مزید آگے بڑھانا چاہئے۔
ایک بات یہ دیکھی جاتی ہے کہ طلبہ کے درمیان ملکی وعالمی حالات کے تناظر میں اجتماعیت سے بیزاری پائی جارہی ہے، کیا یہ صحیح ہے، آپ کی رائے کیا ہے؟
کچھ حد تک یہ بات صحیح ہے، بیزاری کی کیفیت پائی جاتی ہے اور نوجوانوں کے یہاں ایک خدشہ بھی محسوس کیا جاتا ہے،لیکن میرا ماننا ہے کہ اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ ہم جب اپنی پالیسی وپروگرام بناتے ہیں تو اس میں اتنی وسعت اور کشادگی ہوتی ہے کہ کوئی بھی اس کو دیکھے گا تو اطمینان اور نیک تمناؤں کا اظہار کرے گا ، لیکن جب یہی پالیسی وپروگرام نچلی سطح تک پہنچتی ہے تو ایک الگ رُخ اختیار کرلیتی ہے، اور اپروچ میں کافی تبدیلی آجاتی ہے، اور کہیں نہ کہیں یہ احساس ضرور پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ تنظیم صرف مسلمانوں کے درمیان کچھ اندرونی سرگرمیاں انجام دینے والی تنظیم ہے۔ ہمیں اس اپروچ کو تبدیل کرنا ہوگا، اور بہت زیادہ کشادگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ میرے خیال سے یہ ایک بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے عام طلبہ ونوجوان ہماری اجتماعیت سے جڑنا نہیں چاہتے۔ اس کے لیے ہمیں عام سماج میں اترنا ہوگا، عام سماج کے ساتھ گھلنا ملنا ہوگا،مثال کے طور پر ہماری ایجوکیشن موومنٹ صرف ملت کی صورتحال کو تبدیل کرنے یا اس کو ایڈریس کرنے کے لیے نہ ہو، بلکہ یہ پورے سماج کے تعلیمی مسئلے کو پیش نظر رکھے۔ ہمیں اپنی سرگرمیوں کے لیے کسی مخصوص طبقے یا گروہ کو پیش نظر رکھنے کے بجائے سماج کے تمام ہی ضرورتمند افراد کو سامنے رکھنا ہوگا۔ تعلیم کے محاذ پر ہمارا کام صرف ملت کے لیے نہ ہو، بلکہ عام سماج کے تعلیمی مسائل کو بھی ایڈریس کریں۔ سماج میں ایک مخصوص سوچ رکھنے والا گروہ ہے جو سماج میں دوریاں پیدا کرنے، اور نفرت کے بیج بونے کے لیے کوشاں ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ایک ایسے مثبت اور تعمیری ایجنڈے کے تحت سماج میں آنا ہوگا، جو سماج کے ہرطبقے اور گروہ کے لیے مفید اور ان کی ضرورت پوری کرنے والا ہو۔ اس سے لوگوں کا ذہن ہمارے تعلق سے صاف ہوگا، کیونکہ جب ہم اندر اندر اپنے گھروں میں محدود رہ کر کام کرتے ہیں تو اس سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
دعوت دین کے محاذ پر بحیثیت مجموعی ملت اسلامیہ ہند اور بالخصوص وابستگان تنظیم کے موجودہ کردار کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ہندوستان کے پس منظر میں دعوت دین کسے کہتے ہیں، ا س کی سمجھ بہت ضروری ہے، الحمدللہ آج تحریک اسلامی اور خود ایس آئی او کی پہچان اسی سے ہے کہ ہم ایک داعی گروہ ہیں اور ہماری آئیڈیالوجی کی ایک اہم بنیاد یہ ہے کہ ہم دعوت دین کا کام کرتے ہیں۔لیکن میرے نزدیک سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہندوستانی سماج میں ہم دعوت دین کو کیسے پیش کرتے ہیں۔ ترکی اور سعودی عرب میں دعوت کا کام الگ انداز کا ہوگا، اور ہندوستان میں الگ انداز کا۔ ہندوستان میں دعوت دین کا کام یہاں کی جمہوری فضا، تکثیری ماحول اور سیکولر روح کو سامنے رکھ کر کیسے انجام دیا جائے یہ ایک اہم سوال ہے۔ ایس آئی او آف انڈیا نے اپنی پالیسی میں ا س کو بہت ہی واضح انداز میں پیش کیا ہے۔ ہندوستان میں جماعت اسلامی، ایس آئی او اور بہت سے لوگ دعوت کا کام کررہے ہیں، لیکن میرے خیال سے دعوت کے کام میں ہمارا انداز اور ہماری اپروچ کیسی ہو، اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں دو باتیں میں کہنا چاہوں گا۔ ایک تو یہ کہ صبروضبط کے ماحول کو ہمیں بہت زیادہ پروان چڑھانا ہے، مذہبی رواداری کی فضا عام کی جائے، آپ اپنے مذہب پر بہت ہی مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں، لیکن دوسرے مذاہب پر آپ ناروا قسم کے حملے اور چوٹیں نہ کریں، بلکہ سب کو یکساں طور سے احترام اور عزت دیں۔ دوسری چیز یہاں ہمیں پیغمبرانہ کردار ادا کرنا ہوگا، اور انسانیت کی خدمت کے ذریعے ہمیں سماج میں فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہم جذباتی نہ ہوں، ردعمل کا رویہ اختیار نہ کریں، بلکہ بہت ہی مثبت اور تعمیری انداز سے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
سائبر اور ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں جبکہ سماج اور آپسی تعلقات کے تمام زاوئے تبدیل ہورہے ہیں، آپ نے اس صورتحال میں بالخصوص نئی نسل کے سلسلے میں اور ان کے تزکیہ کے محاذ پر کس طرح کام کیا ؟
جدید ترقیات اور ٹکنالوجیز کے اپنے کچھ فائدے ہیں اور کچھ نقصانات ہیں، اس کے فائدوں سے فائدہ اٹھانا ہے اور نقصانات سے محفوظ رہنا ہے۔ اس کے خطرناک اور غلط اثرات سے زیادہ سے زیادہ کیسے بچا جائے اس پر ہمارے یہاں غور ہونا چاہئے۔ میرے خیال سے یہ جو جدید ٹکنالوجیز ہیں،ان سے جہاں دوسرے نقصانات ہوئے ہیں، وہیں ہمارے یہاں انسانی رشتوں میں کمزوری بھی واقع ہوئی ہے اور اس کے اثرات خود ہمارے یہاں تنظیم میں بھی نظر آئے ہیں، اس سے انسانی اقدار بری طرح مجروح ہوئی ہیں، اس کے سلسلے میں ہمیں بیداری کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ ایک بات سوشل میڈیا کے سلسلے میں کہنے کی ہے کہ سوشل میڈیا ایک بہت بڑا اسپیس فراہم کرتا ہے کام کا، اور اپنے خیالات کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے کا، لیکن اگر سوشل میڈیا کے سلسلے میں ہمارے اندر حساسیت نہ پائی جاتی ہو تو یہ وقت گزاری کا ایک خطرناک ذریعہ بن جاتا ہے، لہذا سوشل میڈیا کے سلسلے میں وابستگان کے اندر حساسیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اس کا کیسے استعمال کریں اور کس انداز کی ان کی ایکٹوٹیز ہونی چاہئیں سوشل میڈیا پر۔میرا پیغام عام طلبہ اور وابستگان تنظیم کے لیے یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے سلسلے میں ہم بہت زیادہ حساس بنیں، اور پھر ہم وہاں پر اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کریں، اور کبھی بھی ردعمل کا شکار نہ ہوں۔ ہم نے کیڈر کو سوشل میڈیا کے لیے تیار کرنے کا کام بھی اس میقات میں کیا ہے، اور مرکزی سطح پر ایک گروپ بھی تشکیل دیا ہے، جو سوشل میڈیا پر نظر رکھتا ہے اور جہاں بھی کچھ ضروت محسوس ہوتی ہے وہ توجہ دلانے کا کام بھی کرتاہے۔ اس کے علاوہ ہم نے اس میقات کے تقریبا تمام ہی اہم مرکزی پروگرامس میں سوشل میڈیا کو لے کر ایک سیشن رکھاہے تاکہ اس کے سلسلے میں بیداری کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے، مرکزی سطح پر جماعت اسلامی کے اشتراک سے اس موضوع پر ایک اچھا ورکشاپ بھی ہوا ہے۔ جہاں تک بات تزکیہ کی ہے تو یہ ہماری تنظیم کا سب سے بنیادی کام ہے، اور یہ ہماری تنظیم کی ایک امتیازی خوبی ہے کہ ہمارے یہاں تزکیہ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، اس میقات کا پالیسی وپروگرام دیکھیں تو آپ کو شروع ہی میں ملے گا کہ قرآن وسنت اور اسلامی لٹریچر ہمارے مطالعے کے اہم پہلو ہیں۔ قرآن سے تعلق مضبوط کیا جائے، سیرت رسول کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا جائے، اور فکری لٹریچر کے مطالعہ کا عام رجحان بنایا جائے۔ ہم نے اس میقات میں بھی اور ہم سے پہلے کے ذمہ داران نے بھی ایک اچھا تزکیہ کا ماحول فراہم کیا ہے، اور تنظیم کا اصل کام یہ ماحول فراہم کرنا ہی ہے، اس کے بعد وابستگان کی ذمہ داری ہے کہ اس سے کس حد تک مستفید ہوتے ہیں، یقیناًتزکیہ فرد کی اپنی ذمہ داری ہے۔
تنظیمی گروتھ اور پھیلاؤ کے بارے میں خاص طور سے نارتھ انڈیا اور ڈیولپنگ زونس کے بارے میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ہم ابھی تک ان ہی علاقوں میں محدود ہیں جہاں پچھلے کئی سالوں سے کام کررہے ہیں۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
جہاں تک میری اسٹڈی ہے، مجھے لگتا ہے کہ کافی تبدیلی آئی ہے، مثال کے طور پر نارتھ ایسٹ کا علاقہ ہے جہاں ہمارا کام بالکل نہیں کے برابر تھا، لیکن آج الحمدللہ وہاں ہمارے دوساتھی ہمہ وقتی طور پر کام میں لگے ہوئے ہیں۔ وہاں کے کئی اسٹیٹ تری پورہ، منی پور،میگھالیہ، آسام نارتھ اور ساؤتھ وغیرہ میں کافی کام ہواہے۔ گزشتہ میقاتوں میں یہاں کام شروع ہوا، اور ابھی اچھی گروتھ نظر آرہی ہے۔ اسی طرح چھتیس گڑھ کی پوزیشن بھی کافی اچھی ہے، وہاں ممبرس کی تعداد اور پروگرامس کی نوعیت، دونوں کے اعتبار سے کافی تبدیلی آئی ہے۔ اسی طرح ایم پی ویسٹ، اڑیسہ، ہریانہ، انڈمان میں بھی کافی اچھی پیش رفت ہوئی ہے۔ البتہ ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ میں بعض اسباب کی بنا پر کام بہت حد تک نہیں ہوسکا، اس کی اپنی وجوہات ہیں، البتہ اتراکھنڈ میں سیلاب کے موقع پر ہمارے افراد نے وہاں بڑے پیمانے پر ریلیف ورک کیا ہے۔ بہرحال ضرورت ہے کہ ان تمام ہی علاقوں میں کام کو اور مضبوط شکل دی جائے۔
دینی مدارس میں کام اس میقات کے اہم پروگرامس میں شامل تھا، اس کے سلسلے میں آپ کے کیا تأثرات ہیں، کیا اس کے نتائج سے آپ مطمئن ہیں؟
دینی مدارس کے سلسلے میں ہمارے یہاں کافی ڈسکشن رہے ہیں، آپ دینی مدارس کے خود ذمہ دار بھی رہے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ دینی مدارس میں تنظیم کی موجودہ صورتحال کیا ہے، اور ہماری پالیسیاں مدارس پر کس قدر اثرانداز ہوپائی ہیں، یہ ایک بڑا سوال تھا۔ اس بار بھی میقات کے آغاز میں سی اے سی میں اس پر کافی ڈسکشن رہا، اور بالآخر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اس وقت وہاں کے دیگر اشوز کی جگہ اسٹوڈنٹس کے تعلیمی، سماجی ومعاشی جو مسائل ہیں، ان پر ہم لوگ اسٹڈی کریں گے اور ان پر گفتگو کا آغاز کریں گے، اور جس قدر بھی ہوسکے گا ہم وہاں کے طلبہ کے ساتھ تعاون کریں گے۔ اس سے پہلے وہاں سرکل اور یونٹ کے قیام پرفوکس کیا جاتا تھا، لیکن میری اسٹڈی ہے کہ یہ تجربہ کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ چنانچہ اس وقت ابتدائی طور پر ہم نے ملک کے کچھ اداروں پر ایک اسٹڈی کروائی تھی، اس اسٹڈی کی رپورٹ جلد ہی شائع ہونے جارہی ہے، اس کے علاوہ رفیق منزل کا ایک خصوصی شمارہ بھی اس موضوع پر شائع کیا گیا جس میں مدارس کے اشوز کو زیربحث لایا گیا، اور تعمیر ملک وملت میں مدارس کے کردار پر اچھی گفتگو ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ مدارس میں اپنی اسٹڈی کو بنیاد بناکر ایک کل ہند مدرسہ کانفرنس کا بھی انعقاد کیا گیا۔ اس کے علاوہ ریاستی سطح پر دیکھیں تو کرناٹک زون نے اپنے یہاں مدارس سروے کی رپورٹ شائع کی، اور اسے میڈیا میں بھی اچھا کوریج ملا۔ ابھی وہاں ایک اور اہم پروگرام مدارس کو لے کر ہونے جارہا ہے۔ الحمدللہ مدارس کے سلسلے میں بحیثیت مجموعی اچھی پیش رفت ہوئی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ آئندہ دنوں اس میں مزید پیش رفت ہوگی۔
وابستگان تنظیم کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
تحریک اسلامی ہند نے ایس آئی او کو قائم کیا ہے، تحریک کا ایک مقصد ہے اور اس کے لیے افراد کی تیاری ایس آئی او کا کام ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ تحریک اسلامی اس وقت دو قسم کے چیلنجز کا شکار ہے، جس کے لیے ایس آئی او کو آگے آنا ہوگا۔ ایک فکری چیلنج ہے اور ایک اخلاقی چیلنج۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس چیلنج کو ایڈریس کرنا ایس آئی او کی ذمہ داری ہے۔ مولانا مودودی علیہ الرحمۃ کی ایک بات یاد آتی ہے، انہوں نے بہت ابتدائی دور میں ایک بات کہی تھی کہ تنظیمیں اپنی موت خود مرتی ہیں جب ان کے اندر فکری بحران اور فکری جمود پیدا ہوتا ہے، اس کے لیے ایس آئی او کے ہر فرد کو آگے آنا ہوگا، اور اپنے طور پر اس کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری کو سمجھنا اور اسے ادا کرنے کے لیے تیاری کرنا ہوگا۔ ملت اسلامیہ ہند اورتحریک اسلامی ہند کو جو دوسرا چیلنج درپیش ہے وہ اخلاقی چیلنج ہے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اخلاقی طور پر مضبوط افراد تیار کئے جائیں جو صحیح طور سے اسلام کی نمائندگی کرسکیں اور سماج میں اپنے اخلاق وکردار کے ذریعہ ایک رول ماڈل کا کام کرسکیں۔ یہ ہر فرد کے سوچنے کا کام ہے، یہ محض یونٹ، حلقے اور مرکز کے سوچنے کا کام نہیں ہے، بلکہ ہر فرد اس کے لیے ذمہ دار ہے۔ دوسری بات میں یہ کہوں گا کہ تنظیم کے اندر ایسا ماحول اور کلچر ڈیولپ کریں کہ یہاں کے اشوز اور مسائل پر آزادانہ ہم سوچ سکیں، انٹلکچول ایکٹوزم ہماری ایک اہم ضرورت ہے، ہم نے ۲۰۰۷ ء میں تعلیم کی تعریف نو کا نعرہ لگایا تھا، لیکن آج تک اس کا آئیڈیا ہم سے ڈیولپ نہیں ہوسکا، اس کے لیے ہمارے یہاں بہت ہی اکیڈمک اور ریسرچ ورک کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ سماج کے اہم ڈسکورسیز اور مسائل میں ہمارا کوئی نقطۂ نظر نہیں ہے، ہمیں میڈیا کے ذریعہ اسی وقت بلایا جاتا ہے جب میڈیا کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ ہمارے ذریعے سے ایک قدامت پسندانہ نظریہ پیش کیا جائے گا۔ ہمیں سماج میں ا یک ڈسکورس کھڑا کرنے والی اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بننا ہے، Gender اشوز ہوں، ایجوکیشن سے متعلق مسائل ہوں، خواتین کی سیکورٹی کے اشوز ہوں، اس پر ایک مضبوط ورک کی ضرورت ہے، ہم کو ایک مضبوط ڈسکورس کھڑا کرنا ہے، ایسا نہ ہو کہ ہمارے نقطہ نظر کو پہلی ہی نظر میں رد کردیا جائے۔ تیسری بات یہ کہ تخصص (Expertise)کا دور ہے، ہمیں آل راؤنڈرس کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہمیں ہر فیلڈ میں ماہرین کی ضرورت ہے۔ چوتھی بات یہ کہ ہم دیکھتے ہیں کہ عموما کریئر اور مشن کے درمیان ایک گیپ پایا جاتا ہے، ایسا صحیح نہیں ہے، بلکہ ہمیں اپنے کریئر کے میدان میں ہی تحریک کی خدمات بھی انجام دینی ہیں، مثال کے طور پر ڈاکٹرس اپنی فیلڈ میں اور انجینئرس اپنی فیلڈ میں کام کریں۔ اسی طرح ایک بات یہ کہ تنظیم میں مطالعہ کے رجحان کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے، مطالعہ کا رجحان ہمارے یہاں سے ختم ہوتا جارہا ہے، یہ ایک تشویشناک مسئلہ ہے۔ اس وقت اصل چیلنجز آئیڈیاز کی سطح پر ہیں، ان کا آئیڈیاز کی دنیا ہی میں مقابلہ ممکن ہے، آج سیاسی جدوجہد سے زیادہ آئیڈیاز اور افکار کی دنیا میں جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ایک بڑا مسئلہ ہمارے ورک کلچر کا بھی ہے، ہمارے درمیان وسعت اور کشادگی پیدا ہونی چاہئے، ہمارے معاملات میں بھی اور ہمارے تنظیمی سرگرمیوں اور خیالات میں بھی، یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ آخری اور سب سے اہم چیز قرآن وسنت سے ہمارا تعلق ہے، عملی سطح پر بھی اور فکری سطح پر بھی، یہ ہماری بنیاد ہے، اگر یہ مضبوط رہی تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوجائے گا۔یہ کچھ اہم امور ہیں جن کی جانب توجہ دلانا میں ضروری سمجھتا ہوں، اس پر وابستگان تنظیم کو مزید سوچنے سمجھنے اور اس کی روشنی میں مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔
آپ نے اپنی تنظیمی عمر بھی مکمل کرلی ہے، اس موقع پر آپ کیا محسوس کررہے ہیں؟
مجھے لگتا ہے کہ تنظیمی زندگی میرے لیے اور میری پوری زندگی کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ رہی ہے، میں تنظیم سے باقاعدہ اس وقت وابستہ ہوا، جب میرے اندر پڑھنے کی خواہش بالکل نہیں تھی، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج جس مقام پر ہوں اور جو کچھ میرے پاس صلاحیت ہے وہ صرف اور صرف تنظیم کی وجہ سے ہے۔ تنظیم نے بہت کچھ مجھے سکھایا، ایک وقت ایسا بھی تھا کہ میں اردو ٹھیک سے نہ پڑھ پاتا تھا، اور نہ ہی بول پاتا تھا، لیکن تنظیم میں آنے کے بعد اردو پڑھنا، بولنا، بات چیت کرنا یہ سب آسان ہوگیا۔ ۲۰۱۰ ء تک میں نے کبھی کسی مجمع کو خطاب نہیں کیا تھا، اور آج الحمدللہ ملک بھر میں سفر کرنے اور وابستگان کے ساتھ ساتھ پبلک کو خطاب کرنے کا خوب موقع ملا، اس میں تنظیم اور تنظیم کے ساتھیوں کا اہم رول ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے اس دوران میری اچھی رہنمائی فرمائی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ میں سب کا نام لے پاؤں گا، لیکن ضرور کچھ نام میں یہاں لینا چاہوں گا۔ بالخصوص والدین کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے مجھے تنظیم کا کام کرنے کا پورا موقع دیا، میں دس سال ہمہ وقتی طور پر تنظیم میں لگارہا ، اس دوران انہوں نے میرا ہر طرح سے تعاون کیا۔ میرے بھائیوں نے بھی کافی سپورٹ کیا ہے، بڑے بھائی فہیم الدین کا نام خاص طور سے لینا چاہوں گا کہ ان کے یہاں میرے تعلق سے ایک فکرمندی تھی، وہی مجھے ایس آئی او تک لے کر آئے، وہ میرے لیے کافی فکرمند رہا کرتے تھے۔اسی طرح اس دوران جتنے بھی صدور حلقہ گزرے ہیں، ان کا بھی کافی تعاون رہا، اور کچھ اہم ساتھیوں کا بھی میری زندگی میں اچھا رول رہا ہے، جیسے اشتیاق، مجاہدالاسلام، مصعب اقبال، سعادت ذکی، اشفاق، شوکت، منگلور کے شبیر ہیں، اس طرح بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے میری زندگی میں کافی رہنمائی کی، ان سب کا شکریہ اداکرنا لازمی ہے۔ جنرل سکریٹری اور مرکز کی پوری سکریٹریٹ اور رفیق منزل کی پوری ٹیم کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے اس دوران کافی تعاون کیا۔ اہلیہ محترمہ کا شکریہ بھی ضروری ہے کہ انہوں نے میری مصروفیات کو سمجھا اور مجھے تنظیم کے لیے فارغ ہونے میں پوری مدد کی۔ ایک بار پھر کہوں گا کہ یہ بہت قیمتی لمحات تھے جو میں نے تنظیم میں گزارے ہیں، اس کے ایک ایک موومنٹ کو میں حسرت سے یاد کرتا ہوں، اپنے تمام محسنین اور ساتھیوں کا جن کا نام لے سکا ہوں اور جن کا نہیں لے سکا ہوں سب کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں۔