ادب سے اس نعش کو اُتارو
یہ لاشہ رحمان کا مطیع ہے
یہ پھول چہرہ، بہت حسیں ہے
مجھے تو ایسے ہی لگ رہا ہے
کہ جیسے پیارا سا کوئی بچہ
اُتر کے جھولے سے سو گیا ہو
سکوں کی وادی میں کھو گیا ہو
وہ تیز قدموں سے خود ہی چل کے
فلک کے اُس پار جا چُکا ہے
گلے میں فتح مبیں کی مالا
وہ اپنی منزل کو پا چُکا ہے
میں اُس کی فُرقت میں
پا شکستہ
زمیں پہ بیٹھا
بس ایک مصرع ہی لکھ سکا ہوں
“سقوط ڈھاکہ تو اب ہوا ہے
“(محمد عبدالشکور)