شجر ہائے سایہ دار

ایڈمن

ایچ عبدالرقیبیہ ان دنوں کی بات ہے جب مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی ؒ دوبارہ امیر جماعت ہوکر مرکز تشریف لائے تھے ۔چتلی قبر کے صحن میں میری ملاقات ہوئی اور میں نے یہ سوال مولانا سے پوچھا”مولانا یہ بتائیے کہ…


ایچ عبدالرقیب


یہ ان دنوں کی بات ہے جب مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی ؒ دوبارہ امیر جماعت ہوکر مرکز تشریف لائے تھے ۔چتلی قبر کے صحن میں میری ملاقات ہوئی اور میں نے یہ سوال مولانا سے پوچھا”مولانا یہ بتائیے کہ آپ کے تحریک کے دورانیے میں کس شخصیت سے آپ متاثر ہوئے” ۔پہلے تو مولانانے اس سوال کو ٹالنے کی کوشش کی تو میں نے اصرار کیا،فرمایا کہ “وہ تھا محمد علی ملباری”۔میں نے پھر پوچھاکہ” محمد علی صاحب کی وہ کیا خصوصیت تھی جس کی وجہ سے آپ یہ بات کہہ رہے ہیں؟” مولانا ابواللیثؒ نے کہاکہ” تقسیم ہند کے فوراًبعد کا زمانہ تھا پورا ملک پر آشوب دور سے گزررہا تھا اور سفر کرنا بہت دشوار تھا لیکن مرکز کے اجلاس کے لئے محمد علی کیرالا سے دہلی آئے ۔میں نے پوچھا محمد علی صاحب اس خطرناک صورتحال میں اتنا طویل سفر کرکے آپ کیسے آئے ؟” محمد علی مرحوم نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طر ف کی اور دوسرے ہاتھ سے اپنے تہہ بند سے خنجر نکالا اور کہا کہ ان کے بھروسے پر “۔
یہ تھے مولانا وی پی محمد علی صاحب مرحوم جنہوں نے کیرالا کی سرزمین میں تحریک اسلامی کا بیج بویا تھا اور پھر اس کا ایک نوجوان جانشین صدیق حسن کی شکل میں کیرالا کے امیر حلقہ کی حیثیت سے 1990میں ابھرا اور دیکھتے ہی دیکھتے کیرالا کی سرزمین میں ایک نئے انداز سے کام کا آغاز کیا اور نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ پورے کیرالاکے سماج و سوسائٹی میں تحریک اسلامی کو ایک شجر ہائے سایہ دار بنادیا ۔
یہ 1981ءکی بات ہے جب کالی کٹ میں پورے ملک سے طلبہ تنظیم کے نمائندوں کی نشست بلائی گئی تھی مولانا محمد شفیع مونس صاحب اور مولانا سراج الحسن صاحب سے مرکزسے تشریف لائے تھے ۔ پیش نظر یہ سوال تھا کہ کیا جماعت کی سرپرستی میں پورے ملک کیلئے ایک ہی طلبہ تنظیم بنائی جائےیا آزاد طلبہ تنظیم بنائی جائے ؟ تمل ناڈو کی طرف سے میں اور صدیق حسن صاحب کیرالاکی جانب سے نمائندگی کررہے تھے۔جو آہستہ ، سنجیدگی اور متانت کے ساتھ گفتگو کرنے والےنوجوان۔بعض دوستوں سے اسی وقت معلوم ہوا کہ کیرالاکے اس نوجوان میں بلا کی صلاحیت اور صالحیت ہےا ور مستقبل میں ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔اس کے بعد1990میں مولانا سراج الحسن صاحب کے دور میں صدیق حسن صاحب کیرالا سے اور میں تملناڈو سے امیر حلقہ کی حیثیت سے منتخب ہوئے۔ اس کے بعد رفاقت اور دوستی کاچالیس سالہ رشتہ قائم ہوا۔مزاج میں فرق کے باوجود تحریک کے وژن اور کام کو وسیع کرنے کے نت نئے طریقوں کو اپنانے کے جنون نے ہمیں ایک دوسرے سے قریب کیا اور میں نے ہمیشہ ان کے کام اور آئیڈیازسے فائدہ اٹھایا اور خود تملناڈو حلقہ میں کیرالا جماعت کے طرزپر کئی کاموں کا آغاز کیا جس سے اپنے حلقے میں تحریک کو آگے بڑھانے اور وسعت دینے میں بڑی مدد ملی ۔
جناب صدیق حسن سے اکثر ملاقاتیں مرکز کےامراء حلقہ کے اجلاس میں ہوتی تھیں ۔موصوف کی اچھی صلاحیت ملیالم اور عربی میں بولنے اور لکھنے کی تھی لیکن اردو میں اپنی رپورٹ پیش کرنا اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرنا کافی مشکل ہوتا تھا ۔ہم اردو بولنے والوں کی یہ بری عادت ہے کہ کسی کے اظہار خیال میں تذکیر و تانیث میں تھوڑا بھی فرق ہوتا تو اس کا مذاق اڑانا یا کم از کم فوری اصلاح کرنا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔صدیق حسن صاحب اپنے حلقہ میں بڑے نمایاں کام تو انجام دیتےلیکن رپورٹنگ تو ٹھیک نہیں ہوتی۔اختصار کے ساتھ اور وہ بھی اردو زبان میں رپورٹ پیش کرنے میں دقت کی وجہ سے کام کا پورا نقشہ سامنے نہیں آتا ۔حسن اتفاق سے انڈمان سے میرے ملیالی دوست ایم کے محمد عمری سے روابط رہے۔ان سے کیرالاکے حالات،وہاں کے تجربات ،مادھیمم اور پربودھنم کے مضامین وغیرہ پر تفصیلی گفتگو ہوتی اور میں کیرالا کے کاموںسےواقفیت حاصل کرتارہتا۔صدیق حسن صاحب کی رپورٹنگ کے بعد مزیدمیں اردو جاننے کی وجہ سے مزید تفصیلات سناتا اور ان کے کاموں کی اہمیت اور افادیت کو اجاگرکرتا۔جماعت کے ذمہ داروں خصوصا مولانا محمد شفیع مونس صاحب کہتے کہ تم کب سے کیرالا کے نمائندہ ہوگئے ہو ۔ پروفیسر صدیق حسن صاحب کی چند نمایاں خدمات کا ذکر درج ذیل ہے۔
مادھیمم: گویا کہ مادھیمم کا اجراء محترم کے سی عبداللہ مولوی کےدور امارت میں ہی ہوچکا تھا لیکن اس کی نشوو نما اور اس کی تیز رفتار ترقی صدیق حسن صاحب کےدور امارت میںہوئی۔
مادھیمم صرف اسلام اور مسلمانوں کے موضوعات اور معاملات کو اجاگر نہیں کرتا ہے بلکہ سماج کے دبے کچلے لوگوںکے مسائل، سماج میں کئےجانے والے مظالم اور عوام کی ضرروریات کو معتدل انداز میںپیش کیا۔ پارٹی، قوم اور گروپ سے اوپر اٹھ کر مسائل کا تجزیہ اور اس کا حل پیش کرنا مادھیمم کی پہچان بن گیا۔اس طرح مادھیممVoice of the voicelessبن کر اور پورے کیرالا کی سوسائٹی کے ترجمان کی حیثیت سے ابھرا بلاشبہ اس میں صدیق حسن کی قیادت کابنیادی حصہ ہے ۔آج نہ صرف کیرالا میں اس کے کئی ایڈیشن نکلتے ہیں بلکہ کرناٹک میں بھی دو ایڈیشن شائع ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ بلاد عرب کے کئی شہروں میں اس کے متعدد ایڈیشن کی وجہ سےمادھیمم ہندوستان کاپہلا بین الاقوامی اخبار بن چکا ہے۔پروفیسر صدیق حسن کا خواب یہ بھی تھا کہ اسلام، مسلمانوں اورتحریک اسلامی کے پیغام کو تمام ہندوستانی سماج اور انسانی سوسائٹی میں پھیلانے کیلئے مادھیمم کا ہندی اور دوسری علاقائی زبانوں میں بھی آغاز ہونا چاہئے جو ہنوز باقی ہے ۔
میڈیا ون:میڈیا ون نیوز چینل کے اجراء اور اس کے لائسنس کے حاصل کرنے میں صدیق حسن صاحب نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اپنے تمام ہی سیاسی اور سماجی تعلقات کو مؤثر طور پر استعمال کرکے اس خواب کو شرمندہ تعبیرکیا۔ اور آج میڈیا ون کیرالا میںایک معتبر اور مستند آوازمانا جاتا ہے ۔
AICL:جن دنوں صدیق حسن صاحب امیر حلقہ تھے پورے کیرالا میں سودی لین دین کا بڑا زور تھا اور ان قرضوں کی بروقت ادائیگی نہ ہونے اور بھاری سود کی وجہ سے سینکڑوں قر ض داروں نے خودکشی کی۔اس موقع پر کیرالا کی جماعت نے سود کے خلاف ایک عوامی مہم چلائی اور لاکھوںلوگوں کے دستخط حاصل کئے جس میں تمام مذاہب کے لوگ شامل تھے۔بالآخر ایک میمورنڈم حکومت کیرالا کو پیش کیا کہ اس خطرناک مصیبت سے بچنے کیلئے بلاسودی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔الحمد للہ 1990میں ملک میں پہلی بار ایک(NBFC)Non Banking Financial Corpسود سے پاک بنیادوں پر(AICL) Alternate Investment & Credit Limitedکے نام سے شروع ہوا جس کا اجرا اس وقت کے وزیر اعلیٰ اے کے انٹونی نے کیا ۔ اس موقع پرصدیق حسن صاحب اور وزیر اعلیٰ نے جو تقاریر کیں وہ سود کے بارے میں آنکھیں کھول دینے والی ہیں ۔بدقسمتی سے جب کیرالا حکومت نےاین آر ایز کے ساتھ مل کر ایک بڑے پیمانہ پر (NBFC)بنانے کا منصوبہ البرکہ فائنینشیل سرویسس کے نام سے شروع کیا تو ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے اس کے خلاف مہم چلائی اور کیرالا ہائی کورٹ میں مقدمہ بھی دائر کیا تو بعض تکنیکی وجوہات کی بناء پر AICLکو نوٹس دے دیا گیا ۔ جس کے بعد یہ ادارہاب تک محدود پیمانہ پر کام کررہا ہے ۔
بیت الزکاۃ : اجتماعی نظم زکوۃ کیلئے کیرالا میں بیت الزکاۃ کا قیام اکتوبر 2000میں صدیق حسن صاحب کے زیر قیادت ہوا اور الحمد للہ سالوں کی محنت سے اس نےسماج کے امیروں سے زکوۃ کی رقم حاصل کرکے مستحقین اور معذورین کی مدد کا ایک اچھا میکنزم تیار کیا ہے۔تعلیم ،مکانات کی تعمیر و فراہمی ،بیماروں کے علاج و معالجہ ،مقروضوں کو قرض سے چھڑانا ،پینے کے پانی کی فراہمی ،صحت و صفائی ،شادی بیاہ،اور افراد کو خود کفیل بنانے کی اسکیمیں اس ادارہ کی جانب فراہم کی جاتی ہے۔
ماراڈ کا قضیہ:یہ 2003کا واقعہ ہے کہ کالی کٹ کے قریب ہندو اور مسلم کےدو گروہوں میں شدید جھڑپ ہوئی اور تناؤکا عالم تھا یہاں تک کہ صوبہ کے وزیر اعلیٰ کی بھی ہمت نہیں ہوئی کہ وہاںکا دورہ کریں ۔صدیق حسن صاحب نے اپنے چند ساتھیو ں کے ساتھ جان پر کھیل کر فساد زدہ علاقہ کا دورہ کیا ۔دونوں گروہوںسے بات چیت کی اور امن قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔پھر وزیر اعلیٰ کو دعوت دی کہ وہ بھی تشریف لائیں اورمسئلہ کو پرامن طریقہ سے سلجھائیں۔اس طرح ایک حوصلہ مند قیادت کی مثال صدیق حسن نے پیش کی جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔
Solidarity Yout Movement:یہ کیرالا کی نوجواں کی منفرد تحریک ہے جس نے سرمایہ داروں کے استحصال کے خلاف جدوجہد کی تاریخ مرتب کی ہے۔ پچیماڈا کے آدی باسی علاقہ میں Cocoa Cola کی فیکٹری کے آغاز کے بعد وہاں پانی کی کمی اور ماحول میںآلودگی پیدا ہوئی۔اس کے خلاف مضبوط اور متواتر اجتماعات و احتجاجات کےذریعہ فیکٹری کو بند کرانے پر مجبور کیا ۔ انڈیا ٹوڈے کے مطابق دنیا کی تاریخ میں کارپوریٹ سرمایہ کاری کے خلاف نتیجہ خیز تحریک کی ایک کامیاب مہم ہے۔مجھے یاد ہے کہ محترم ٹی کے عبداللہ صاحب نے مرکز میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا کہ” جہاں ہم اللہ کی حاکمیت کی بات کرتے ہیں اس کے ’مالکیت‘کے تصور کو بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ہوا پانی اور دیگر عام قدرتی وسائل اللہ کی ملکیت ہیں اور اسے سارے انسانوں کی ضرورت کیلئے عام قرار دینا اور اس کے استحصال کے خلاف جدوجہد بھی ہمارا کام ہے “۔ دوسرے کسی بھی علاقہ میں اس قسم کی مہم نہیں چلائی گئی ۔
تعلیمی اداروں کا قیام:یوں تو کیرالا میں مختلف مقامات پر دینی و سیکولر تعلیم کے مراکز قائم ہیں لیکن شانتا پورم کے جامعہ اسلامیہ اس میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے صدیق حسن نوجوانی کے ایام میں جامعہ سے وابستہ تھے ۔اور الجامعہ کو بین الاقوامی ادارہ بنانے میں ان کا بڑا حصہ ہے نہ صرف کیرلا کے بلکہ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے طلبہ وطالبات اس جامعہ کے مختلف فیکلٹی میں داخلہ لیتے تھے ۔اورایک کھلی فضا میں مسلکی تعصبات سے پاک قابل قدر اساتذہ کی زیر نگرانی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔الحمد للہ کہ ملک کے کئی علاقوں کے نوجوانوں نے یہا ں کی فضا میں تعلیم و تربیتحاصل کی۔ الجامعہ نے نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کی ہے جو انشاء اللہ آگے چل کر نہ صرف تحریک اسلامی کیلئے بلکہ امت مسلمہ اور ملک کے لئے ایک قیمتی سرمایہ شمار ہوںگے۔
اسی طرحSAFI institute of advancend studiesکے قیام ، نظم و انصرام میں بھی پروفیسر صدیق حسن کاہاتھ رہا اور آگے اسے ایک Deemed Universityبنانے کی طرف پیش قدمی جاری رہی۔Center for Information and guidanceکے تحت ہونہار طلباء و طالبات کے کرئیرکےسلسلے میںرہنمائی کا ایک مثالی ادارہ صدیق حسن صاحب کی سرپرستی میں قائم ہوا جس سے بلا مبا لغہ کئی بلین نوجوانوں نے فائدہ حاصل کیا ۔
حرا کانفرنس :کیرالا ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی تاریخ میں جماعت اسلامی ہند کا ایک تاریخی اور یادگار اجتماع کالی کٹ کے قریب ایک بہت بڑےمیدان میں 1998 میں منعقد ہوا. اس اجتماع سے پہلے اس کے تعارف کے لیے کئ مقامات پر launching کے لئے بڑے بڑے اجتماعات کیرالا کے مختلف اضلاع میں کئے گئے۔ اس کے سب سے پہلے لانچ کے موقع پر کوچین میں مرین ڈرائیوپرہزاروں کے اجتماع میں اس کے افتتاحی خطاب کا مجھے موقع ملا۔ جو میں اپنی سعادت سمجھتا ہوں۔ حرا کانفرنس کی خصوصیت یہ تھی کہ مردوں سے زیادہ خواتین اپنے بچوں کے ساتھ اور بڑی عمر کی خواتین بھی شرکت کررہی تھیں۔ اسٹیج پر بیٹھ کر میں دیکھ رہا تھا کہ نوجوان لڑکیاں تقاریر کے نوٹس بھی لے رہی ہیں۔ اس اجتماع میں ملک کی نامور شخصیات کے علاوہ بین الاقوامی شہرت یافتہ علماء و دانشواران نے بھی شرکت کی جس میں سید قطب شہید کے بھائی محمد قطب، امریکہ سے امام سراج وہاج، علامہ یوسف القرضاوی کے ساتھی اور اسلامی معیشت کے ماہر شیخ علی قرۃ داغی اور امریکہ کے معروف اسکالر John Espito بھی شامل تھے۔ اجتماع میں ایک خاص واقعہ یہ ہوا کہ غیر متوقع طور پر کثیر تعدادکی شرکت کی وجہ سے دوپہر کے کھانے میں کمی واقع ہوگئی۔ فوراً امیر حلقہ صدیق حسن صاحب نے اعلان کیا کہ جماعت کے ارکان، کارکنان اور انکے خاندان کے لوگ آج دوپہر کا کھانا نہیں کھائیں گے بلکہ مہمانوں کو کھلانے کے بعد ہی ان کی باری آئے گی۔ ہمارے یہاں اس قسم کا اعلان ہوتا تو افراتفری مچ جاتی۔لیکن کسی ہنگامہ کے بغیر ہی یہ مرحلہ بحسن و خوبی انجام پایا۔میں نے رات کے وقت ایک نوجوان کارکن سے جو دبئی یا قطر سے صرف خاص طور پر اس اجتماع میں شرکت کے لئے آئے تھے، پوچھا کہ” کیا دوپہر کا کھانا نہ کھانے سے انہیں کوئی دقت پیش آئی ؟ “اس نوجوان کارکن کا جواب حیران کن تھا۔ اس نے کہا” ہم لوگ مہینوں سے اس اجتماع میں شرکت کی آرزو لیے بیٹھے تھے اور چھٹی لے کر میں اس میں شریک ہوا ہوں۔ بھائی صاحب بتائیے کہ اپنے گھر میں اپنے رشتہ دار کی شادی ہو تو کیا ہم مہمانوں کو پہلے کھلا کر بعد میں گھر والے نہیں کھاتے؟ کیا ہوا کہ دوپہر کے ایک وقت کا کھانا نہیں ملا۔میرے لئےیہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔” نظم و ڈسپلن کی جو مظاہرہ کانفرنس کے شرکاء نے کیا تھا اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
آئیڈیل ریلیف ونگ : خدمت خلق کا یہ شعبہ بھی 1992 میں جناب صدیق حسن کے دور امارت میں شروع ہوا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ خدمت خلق کے مختلف شعبوں میں تربیت یافتہ والنٹیرس مہیا کیے جائیں اور فوری طور پر رضاکار جائے وقوع پر پہنچ جائیں۔IRW کے والنٹیرس نے نہ صرف کیرالا میں بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں مثلاً گجرات، کشمیر اور تمل ناڈو کے حوادث کے دوران بے مثال خدمات کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ انکے کام سے متاثر ہو کر حلقہ تمل ناڈو کے بعض رفقاء نے اپنی خواہش ظاہر کی کہ وہ بھی IRW کے ٹریننگ کیمپ میں شامل ہوکر اپنی تربیت حاصل کریں۔ لیکن ٹریننگ اتنی سخت تھی اور کھانے میں سادگی اور مختلف قسم کی ورزشوں سے دو چار دنوں ہی میں وہ سب واپس آگے۔ کیرالا کے رفقاء سے معلوم ہوا کہ وہاں اچھے خاصے امیر گھرانوں کےنوجوان بھی درخواست دے کر منظوری حاصل کر کے کورس میں داخل ہوتے ہیں۔ اور عہد کرتے ہیں کہ جب بھی ضرورت پڑے وہ اپنے نجی کاموں کو چھوڑ کر خدمت کے لیے حاضر ہوجائیں گے۔؎
اسلامی پبلشنگ ہاوس (IPH): اس اشاعت گھر سے نہ صرف تحریکی کتابیں بلکہ دنیا بھر میں جو نئے موضوعات اور دلچسپ امور پر کتابیںاور ان کے تراجم بھی شائع کیے جاتے ہیں۔ اور ایسا نادر اسٹاک ملک کے کسی تحریکی اشاعتی ارادے میں نہیں ہے۔ تقریباً 500 سے زیادہ موضوعات اور مختلف کتابیں 50 ہزار کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں۔ ان کتابوں کے e-book ورژن بھی دستیاب ہیں۔ یہ آئی پی ایچ کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ آئی پی ایچ کاشاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔ جو ایک حکومت کا ادارہ ہی کرسکتا ہے۔ لیکن آئی پی ایچ کے ذمہ دار قابل مبارک باد ہیں کہ اب تک تیرہ جلدیں شائع ہوکر منظر عام پر اچکی ہیں الحمدللہ۔
تنیمہ، کلا ساہتیہ ویدی: صدیق حسن کا خیال تھا کہ آرٹ اور فنون لطیفہ زندگی کا اہم حصہ ہے اور سماج کے بیشتر افراد اور ایک باصلاحیت طبقہ اس سے وابستہ ہوتا ہے۔ سماج کے مختلف طبقوں میں جو ادیب، شاعر اور فلم ساز ہیں ان سب کو انسانی اقدار کی بنیاد پر جوڑنا اور ایک تکثیری سماج میں انکی صلاحیتوں اور تکنیک سے فائدہ اٹھا کر مثبت اور متبادل فکر پروان چڑہانا بہت ضروری ہے۔ مسجد نبوی کے ممبر پر ادب اور شعر و شاعری کی محافل بھی منعقد ہوتی تھیں۔ حضرت حسان بن ثابت اور دیگر اصحاب رسول حمد خدا، مدح رسول، توصیف اسلام اور جاہلی دور کے واقعات اور ادبی ذوق پر مشتمل اشعار بھی پڑھتے تھے۔ تنیمہ میں نہ صرف مختلف مذاہب کے ماننے والے بلکہ یہاں تک کہ مذہب پر یقین نہ رکھنے والے ملحدین بھی شامل ہیں۔ ڈرامہ، فلم اور دیگر اصناف کوسماج کے لیے فائدہ مند بنانے میں تمام افراد کی متحدہ کوشش ہو ، اس کامرکز بنانا بھی صدیق حسن کے پیش نظر تھا۔ سینیما جو آج انسانی ذہن و فکر کی تبدیلی کے علاوہ تفریح کا اہم ذریعہ ہے اس میں مثبت تبدیلی کا رجحان پیدا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ایرانی فلموں نے دنیا بھر میں اپنے فن کے لحاظ سے بھی اور پیغام کو صاف ستھرے انداز سے پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اور کئ بین الاقوامی ایوارڈ بھی حاصل کیے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ تنیمہ کے اثرات اب نہ صرف ادبی اور فنی میدانوں میں بلکہ فلموں میں نئے ٹرینڈس بنانےمیںبھی پڑےہیں۔ حالیہ دنوں میں بعض نوجوان نے سماج میں موجود مسلم خاندان کے منفی سوچ میں تبدیلی کے لئے Sudani from Nigeria اور نئے انداز سے Halal love story نامی فلمیں تیار کیں اور کیرالا میں ایک نئ سوچ پیدا کرنے کی ابتدا کی ہے۔ آئندہ اس کے ذریعے سے آرٹ، کلچر اور سینیما جیسے رائے علامہ کو ہموار کرنے والے ذرائع سے سماج کی سوچ اور سمجھ میں مثبت تبدیلی واقع ہوگی۔ جو پورے ملک میں تحریکی حلقوں میں ایک منفرد کاوش ہے اور وقت کی ضرورت ہے اور صدیق حسن صاحب نے ہی اس فرض کفایہ کو سر انجام دیا ہے۔
مردم شناسی:مرحوم صدیق حسن کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ سماج کے با صلاحیت اور صالح افراد مرد و خواتین اور نوجوانوں سے ربط رکھتے ، ان کے کاموں کی تعریف و توصیف کرتے اور انھیں مسلسل مختلف میدانوں میں آگے بڑھانے کی کوشش کرتے۔ مرکز میںشعبہ خواتین کی سکریٹری رحمت النساء صاحبہ کہتی ہیں کہ صدیق حسن صاحب کی دورامارت میں وہ جی آئی او کیرالا کی ذمہ دار تھیں۔ ایک موقع پر انہوں نے کالی کٹ میں ایک ڈیبیٹ میں حصہ لیا جس میںایک مشہور فیمنسٹ اجیتا سے ان کے انداز ِ بحث کو سراہا اور خود ان سے مل کر مبارک باددی۔ جس سےانھیں تقریر کرنے کی صلاحیت کوابھارنے میں بڑی مدد ملی۔اس کے علاوہ وہ لوگوں کی باتوں کو غور سے سنتے ایسا لگتاتھا کہ وہ کانوں سے نہیں دل سے ان باتوں کو سن رہے ہیں ۔کیرالا سے باہر اور اندر اسی قسم کے متعدد افراد اور نوجوانوں کی فہرست مرتب کی جا سکتی ہے جو صدیق صاحب سے متاثر ہوکے آگے بڑھے ہیں ۔
پورے ملک میں کیرالاکی طرز پر کام: مولانا سراج الحق کے دور میں کیرالا کے کاموں کو اورخاص طورپرصدیق حسن صاحب کے منفرد لیکن متفرق کاموں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ۔ مولانا محترم نے مختلف حلقوں میںجو جواں سال امرائےحلقہ کو مقرر کیاتھا انہیںکیرالا کا خصوصی اور تفصیلی دورہ کروایااور مختلف جہتوں میں جو پیش رفت ہوئی ہے انہیں دیکھنے اور اگر ہو سکے تو اپنے حلقوں میں اسے رائج کرنے کی ہدایت کی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس قافلے میں مجتبیٰ فاروق صاحب ،عبدالباسط انور صاحب، انجینئر سلیم صاحب، شفیع مدنی صاحب اور مجھے جانا تھا میں اپنے کاروباری مصروفیات کی وجہ سے غیر ملکی دورے پر چلا گیا تھا، اس لئے میں اس قافلے میں شامل نہیں ہو سکا لیکن جو احباب اس دورےمیں شریک تھے وہ کافی متاثرہوئے۔
مسلم سورہاودھی: تمام مسلم تنظیموں کی وفاقی تنظیم کی بنیاد بھی صدیق حسن صاحب نے رکھی جس کے ذریعے ملت کے ااختلافی مسائل مثلا رمضان اور عید کا تعین وغیرہ ہوتاتھا۔ تقریبا بیس سال تک یہ تنظیم کامیابی کے ساتھ کام کرتی رہی۔
ہیومن ویلفیئر فاؤنڈیشن اور وژن2016: 2003 میںڈاکٹر عبدالحق انصاری صاحب امیر جماعت منتخب ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب حالانکہ ایک صوفی مزاج فلسفی تھے لیکن اپنی تعلیم کے دوران امریکہ کے قیام اور بعدکے سالوں میں سعودی عرب کے قیام میں انہوں نے محسوس کیا کہ ملک سے باہر تعلیم یافتہ مرد و خواتین کا ایک بڑا طبقہ رہتا ہے جو اپنی قابلیت اور صلاحیت کی وجہ سے بھی اور مالی اعتبار سے بھی آسودہ حال ہیں۔ انہیں متحرک کرنا اور ملکی سماج اور ملت اسلامیہ ہند کے لئے نافع بنانا بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں کیرالا کے سارے ادارے اور کیرالا کی تحریک میں خاص طور پر صدیق حسن کی قیادت میں کافی پیش رفت کی تھی۔
نئی میقات کی پالیسی اور پروگرام ترتیب دینے سے پہلے ڈاکٹر انصاری نے مرکزی شوری کے ارکان دیگر سوچنے سمجھنے والے افراد سے ملت کی موجودہ بےوقعتی اور بے وزنی کو دور کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنےکے لئے متعدد نشستیں منعقد کیں۔ پہلی بار میقاتی منصوبے میںپس منظر اور حالات کے تجزیہ کا حصہ شامل کیا گیا۔ اور خصوصا سیاسی سطح پر شرکت اور سماجی و معاشی لحاظ سے اوپر اٹھانے کی ضرورت پر اتفاق ہوا۔ ڈاکٹر انصاری نے اپنے مختصر کتابچہ سیکولرازم، جمہوریت اور انتخابات کے نام سے لکھا اور اپنی بات مدلل انداز میں پیش کی۔
سچرکمیٹی کی رپورٹ کے پس منظر میں ملکی سطح پر کام کرنےکے پیش نظر صدیق صاحب کو دعوت دی کہ وہ مرکز تشریف لائیں۔ اور سماجی و معاشی سطح پر ملک اور خصوصا ملت کے کمزور اور کچلے ہوئے لوگوں کو اوپر اٹھانے کی غرض سے ایک بلوپرنٹ تیار کریں۔ الحمداللہ صدیق حسن کی زیر نگرانی ملک کے برسرآوردہ سماجی خدمات انجام دینے والے اور جماعت کے نمائندوں پر مشتمل ایک ادارہ ہیومن ویلفئیرفانڈیشن 2006 میں قائم کیا گیا۔ صدیق صاحب نے شمالی ہندوستان کے کئی صوبوں خاص طور پر مغربی بنگال، بہار، آسام اور نارتھ ایسٹ کا دورہ کیا۔ ان کا مشاہدہ تھا کہ جنوبی ہند کے مقابلہ میں شمالی ہند کے مسلمانوں کی حالت اس قدر افسوس ناک ہے کہ انہیں بنیادی انسانی ضروریات جیسے غذا، شفاف پانی، علاج اور تعلیم وغیرہ بھی میسر نہیں ہے۔ اس لئے ہیومن ویلفئیرفاؤنڈیشن دس سالہ منصوبہ ویژن 2016 کے نام سے تیار کیا۔ جس میں خصوصا تعلیم، علاج معالجہ، پینے کا پانی، مائیکروفائنانس، عورتوں کے حقوق اور انسانی حقوق پر توجہ دی گئی۔ فاؤنڈیشن کے تحت کئی نئے اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ جن میں سہولت مائیکروفائنانس، اسوسیشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس، میڈیکل سروس سوسائٹی اورسوسائٹی فار برائٹ فیوچرقابل ذکر ہیں۔ صدیق صاحب کے پیش نظر خواتین کو اونچا اٹھانے لے لئے ایک علیحدہ ادارہ کا قیام پیش نظر تھا۔ جس کے ذریعہ تجارت، سرمایہ کاری اور انٹرپرینئرشپ کی طرف توجہ دلانامقصود تھا۔ اس کے لئے انہوں نے خصوصی ورکشاپ بھی کرایا۔ کئی ملکی و بیرون ملکی ماہرین کو دعوت دی اور اچھا خاصا پلان بھی دے ڈالا۔صدیق صاحب نےاس ادارہ کی ذمہ داری سنبھالنے کی پیش کش مجھے کی۔ لیکن میرے ذہن میں اسلامی سرمایہ کاری اور بلاسودی بنک کاری کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنےکی دھن سوار تھی۔ اس لئے میں نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے معذرت کردیا۔بعدازاںمرکز نے اس ادارہ کی قیام کی منظوری نہیں دی ۔ جس کے بعد نہ اس اہم کام کے سلسلے میں پیش رفت نہیں ہوسکی ۔ ابب ر انٹرپرینئرشپ کو مرکز جماعت نے براہ راست اپنے پروگرام کا حصہ بنایا اور خواتین کے میدان میں کام کے لئے “ٹوئیٹ” نام کا ادارہ فاؤنڈیشن کے تحت 2019 میں قائم کیا گیا۔
فاؤنڈیشن اور وژن دراصل ڈاکٹر عبدالحق انصاری اور پروفیسر صدیق حسن کاخواب تھا۔ جس کے پیش نظر ملک و ملت کو بے وزنی اور بے وقعتی سے نکال کر ایک توانا، تعلیم یافتہ، طاقت ور اور خود کفیل بنایا جائے۔ اس سلسلے میں ملک کے بیس صوبوں میں اور خاص طورپر آسام، بنگال اور نارتھ ایسٹ کے صوبوں میں سیکڑوں مقامی اداروں اور افرادسے ملک کر تفصیلی پروگرا بنائے گئے۔اس کا کامیاب بنانےکے لئے صدیق صاحب نے شب وروز جدوجہد کی۔ کئی غیر ملکی دورے کئے۔ اس میدان میں کام کررہی دنیا کی معروف تنظیموں سے روابط قائم کئے۔ خاص طور پر بلاد عرب میں مقیم کیرالا کہ این آر ایز سے باقاعدہ وعدہ لیا کہ وہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ وژن کے کاموں کے لئے مختص کریں گے اور ملک و ملت کو تبدیل کرنے کے اس عظیم منصوبے کے حصہ دار بن کر دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت حاصل کریں گے۔ صدیق حسن کی سحر انگیز شخصیت اور ان کے خلوص نے نہ صرف تحریکی حلقوں کو بلکہ دیگر ادروں کے ذمہ داروں کو بھی اس طرف متوجہ کیا۔ اس مشن کو آگے بڑھانے کے لئے باصلاحیت افراد کا انتخاب بھی ایک مشکل کام تھا۔ لیکن موصوف نے دور جدید کے اصول و طریقہ مینجمنٹ کا استعمال کرتے ہوئےکام کا آغاز کیا ۔ اپنے حلقوں کے باہر سے بھی با صلاحیت اور قابل مردوخواتین کو اپنی ٹیم میں شامل کیا۔ مرکز میں ان کا دفتر ہمیشہ سرگرم عمل رہتا تھا اورایسی سرگرمی مرکز کے کسی ادارے میںکبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ کیرالا سے تو مرد و خواتین کا تانتا تو لگا ہی ہوتا ساتھ ہی ساتھ ملک بھر سے لوگ اپنے مسائل اور منصوبے لے کر ان کے دفتر آتے اور صدیق صاحب کےمخصوص انداز اور فکر و نظر کی بنا پرمطمئن ہو کر لوٹتے۔
اس مضمون کااختتام صدیق حسن صاحب کے ایک عزیز ڈاکٹر حبیب الرحمن(اسسٹنٹ پروفیسر، جامعہ ملیہ اسلامیہ) کے تعزیتی مضمون کے ابتدائی پیراگراف سے کرتا ہوں۔ جس کا اردو ترجمہ یوں ہے:
“جیسے ہی صدیق حسن صاحب کے انتقال کی خبر ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے لاکھوں حاشیہ بردار، ضرورت مند اور بے آواز لوگوں تک پہنچی ہوگی وہ لوگ آج آنسو بہا رہے ہوں گے۔ صدیق حسن مرحوم نے جن کو کھانا کھلایا ، کپڑے پہنائے ، تعلیم سے آراستہ کیا، مضبوط اور طاقت ور بنایا اور انہیں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے خواب دکھائے۔ صدیق حسن صاحب ایک پائے دار اور تناور درخت کی مانند تھے، جس کی جڑیں زمین میں گہری، اور شاخیں آسمان کو چھوتی ہوئیں، ہر موسم میں لوگوں کو بلا تفریق مذہب و ملت، ذات و قوم اور رنگ و نسل سایہ اور پھل پہنچاتی رہی۔ وہ سادہ، شفیق، نرم دل اور با کمال بصیرت والی شخصیت کے مالک تھے۔”

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں