سیرت کے آئینے میں کردار کا جائزہ

ایڈمن

ربیع الاول کا مہینہ آتا ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اور آپؐ کی سیرت طیبہ کے واقعات کو یا دکرنے کے لئے جلسے جلوس ، خطبات اور تذکیروں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے، اور ہر طرف آپؐ کے تذکروں سے ایک خوشگوارفضا قائم ہوتی ہے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ یہ صرف ایک مہینہ کے لئے نہ ہو بلکہ اپنی پوری زندگی کو ان واقعات کی روشنی سے منور کرنے کی کوشش ہوتی،سیرت کے واقعات کی بار بار تذکیر صرف سننے اور سر دھننے تک محدود ہونا کافی نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی ذات سے محبت ایمان کا جز ہے، اگر دل آپ کی محبت سے خالی ہے تو زبانی جمع خرچی کسی کام کی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کو جشن منانے تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ آپؐ کی سیرت کا شفاف آئینہ لے کر آپ ؐ کے لائے ہوئے پیغام کے تئیں اپنے رویے او رکردار کا بھر پوراحتساب کیا جائے۔
آ پؐ کی سیرت کے ان گنت پہلو ہیں ۔ بحیثیت والد، بحیثیت آقا، بحیثیت استاذ،بحیثیت دوست، بحیثیت تاجر، بحیثیت قائد، بحیثیت سپہ سالار، بحیثیت مدبر ومنتظم، غرض آپ کی ذات بہر طور نمونہ ہے۔ہم ا پنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر سوچیں کہ کیا ہم نے کبھی حضورا کرمؐ کو ان حیثیتوں سے نمونہ مان کر اپنے مسائل کا حل تلاش کیا ہے ۔ جب ہمیں یہ بات قطعی طور پر معلوم ہے کہ آپؐ کی ذات کے یہ تمام روپ ہمارے لئے نمونہ ہیں توجائزہ لیں کہ ہمارا طرز عمل پھر اس سے مختلف کیوں ہے ۔ ایک باپ اور معلم ہونے کی حیثیت سے اگر ہم غور کریں تو کیا ہم اپنے ماتحت افراد کے ساتھ بے جا سختیاں تو نہیں کر رہے ہیں ؟۔ کیاحضرت انسؓ کی طرح ہمارا کوئی شاگرد یہ گواہی دے سکتا ہے کہ ہم نے اس کے ساتھ کبھی بے جا سختی کا معاملہ نہیں کیا ۔ بحیثیت ناناحضرت حسنؓ اور حسین کے سا تھ آپ کا مشفقانہ برتاؤکیا ہمیں اپنے گھریلوکاموں میں بچوں کی مداخلت کے وقت یاد رہتا ہے؟ بحیثیت استاذ ابوہریرۃؓ اور عمر ابن ابو سلمۃؓ کے ساتھ پیارے بنیؐ کا انداز تربیت اگر ہم اپنے شاگردوں کی تربیت کے مواقع پر فراموش کردیں تو کیا محبت رسولؐ کے دعوی میں ہم صادق کہلائیں گے ؟بحیثیت تاجر حضرت خدیجہؓ کے سامان تجارت کے ساتھ پائی پائی کا حساب رکھ کر ایمانداری کا ایسا مظاہر ہ ہماری ذات سے ہو سکتا ہے؟ بحیثیت قائد خندق کھودنے کے دوران پیش آنے والی مشقتوں میں رفقاء کے ساتھ ہم بھی برابر شریک ہو کر عاشق رسولؐ ہونے کا دعوی کر سکتے ہیں ؟ آقا ہونے کی حیثیت سے اگر سو چیں تو کیا زید بن حارثہؓ کی طرح آج کو ئی بچہ اپنے والدین پر ہمیں ترجیح دے سکتا ہے ؟
اگر اس پر ہم پورا اتر نے کی کوشش کر رہے ہیں تو پھر ہمارا دعو ئ ایمان صحیح ہو سکتا ہے ۔ سچائی یہ ہے کہ ہم آپؐ کی ذات سے محبت کے خوب دعوی کرتے ہیں، لیکن عملی زندگی میں کسی اور کو اپنا نمونہ بنائے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عبادات اور معاملات کے ہر پہلومیںآپؐ کی ذات سے رہنمائی لیں ۔ا س کے علاوہ تواضع، انکساری ، صبر وحلم ، طریقہ تربیت ، سخاوت، عفو ودر گذر ، رحم و کرم ، فکرآخرت ، جنت کے حصول کاشوق، حسن سلوک ، ایفائے عہد ، مہمان نوازی ، جانوروں پر رحم، امت کی تڑپ جیسی لا تعداد خوبیوں کے حامل پیارے نبیؐ کی ذات ہمارے لئے نمونہ ہوتے ہوئے کسی اور ذات کی طرف للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنا انتہائی درجہ کی بد قسمتی کہلائے گی ۔
آئیے ! ہم ان پہلوؤں پر غور کر یں اور محبت رسولؐ کے دعوی کو حقیقت میں بدل دیں۔ یقیناًاطاعت رسولؐ کے بغیرصرف محبت رسولؐ کا دعوی کرنا ناکافی ہے ۔
عمل سے دور ہیں ہم صرف ان کا نام لیتے ہیں
خدا جانے سرِ محشر ہماری کیا سزا ٹھہرے
(برماور سید احمد سالک ندوی، بھٹکل )

جنوری 2014

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں