سکھ مت اور اسلام

ایڈمن

محمد ندیم

قسط دوم

اسلام او ر سکھ مت میں اتفاق

جس طرح اسلام خدائے واحد کو اس کائنات اور اس کی جملہ اشیاء کا خالق مانتا ہے، اسی طرح سکھ مت بھی خدائے واحد کو تمام اشیاء کا خالق مانتا ہے، اور ذاتِ باری کو ان تمام صفات سے متصف قرار دیتا ہے جن سے اسلام اسے متصف قرار دیتا ہے۔ڈاکٹر گوپال چند سنگھ گرو گرنتھ صاحب کے ترجمہ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: ”وہ ازلی خالق اور محیط ہے،حسد و نفرت سے دور اور علت العلل ہے، جملہ مخلوقات کا معبود، عادل، رحیم اور کریم ہے۔ اس نے انسانوں کو ان کے گناہوں پر سزا دینے کے لئے نہیں بلکہ اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے۔“اسلام نے بھی خدا کو ان جملہ صفات سے متصف قرار دیا ہے۔

سکھ مت میں نجات کا دارومدار بندگی رب اور اس کے طریقے کی پیروی ہے۔ اسلام میں بھی نجات کا دار و مدار بندگی رب اور اس کے بتائے ہوئے طریقے کی پیروی پر ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اور تیرے رب نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تم لوگ اس کے علاوہ کسی اور کی بندگی نہ کرو۔“دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اس بہتر شریعت کی پیروی کروجو تمہارے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے۔“

سکھ مت رہبانیت کو حرام قرار دیتا ہے اور سماج میں رہتے ہوئے خدا کو یاد رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔اسلام بھی رہبانیت کا سخت مخالف ہے۔ایک مشہور حدیث میں اسلام کے آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”لارہبانیۃ فی الاسلام“ (ترجمہ:اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔)

سکھ مت لوگوں کو حلال رزق کی تلاش پر آمادہ کرتا ہے اور اس کی سخت تاکید کرتا ہے۔ اسلام نے بھی حلال رزق کمانے پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”بس جب نماز ختم ہو جائے تو تم لوگ زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا رزق تلاش کرواور کثرت سے اللہ کا ذکر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔“

سکھ مت میں تمام انسان مساوی ہیں۔کسی کو کسی پر فضیلت حاصل نہیں ہے۔خدا کا دین تمام انسانوں کے لئے ہے۔ جو بھی اس کی شریعت کی پیروی کرے گا نجات پائے گا۔ اسلام بھی پوری انسانیت کو برابر قرار دیتا ہے۔ یہ دین بھی کسی خاص گروہ کا دین نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے تمام انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے۔جو شخص اس دین کی پیروی کرے گا وہ نجات حاصل کر سکے گا۔ اس کے نزدیک کالا، گورا، امیر،غریب ہر ایک خدا کی عبادت کے ذریعہ نجات پا سکتا ہے۔قرآن کریم میں ہے: ”اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تمہیں مختلف قبیلوں اور خاندانوں میں بانٹ دیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانوں، یقیناً خدا کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہے۔“

اسلام کی طرح سکھ مت بھی یہ تصور رکھتا ہے کہ خدا کا دین جملہ اقوام کے لئے ہے، کسی خاص گروہ کو خدا کے یہاں مخصوص مقام حاصل نہیں اور نہ ہی مذہبی رسوم کی ادائیگی کسی خاص طبقہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ گوپال چند سنگھ گرو گرنتھ صاحب کے مقدمہ میں ذاتِ باری پرسکھ مت کے اعتقاد کو یوں بیان کرتے ہیں:”وہ کسی مخصوص فرقہ کا نہیں بلکہ سب کا خدا ہے۔ عادل، رحیم اور کریم ہے۔ اس نے نسا نوں کو ان کے گناہوں پر عذاب دینے کے لئے نہیں بلکہ ایک عظیم مقصد یعنی اپنی بندگی کے لئے پیدا فرمایا ہے۔“ قرآن مجید میں ہے:”اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے گزری ہوئی قوموں کو پیدا فرمایا ہے شاید تمہارے اندر خدا ترسی پیدا ہو۔“

دونوں مذاہب میں عشر کا نظام پایا جاتا ہے۔

دونوں مذاہب میں مرکزی عبادت گاہ کا تصور موجود ہے۔ سکھوں کی مرکزی عبادت گاہ ’ہری مندر‘ ہے، جس کی زیارت اور امرتسر کے تالاب میں غسل سے جملہ گناہ مٹ جاتے ہیں۔ اسلام میں مرکزی عبادت گاہ ’خانہ کعبہ‘ ہے۔ اور متعدد احادیث نبوی میں حج مقبول کا ثواب جملہ گناہوں سے انسان کا پاک ہونا بتایا گیا ہے۔

سکھ مت ستی کی رسم کی مخالفت کرتا ہے،نیز بیواؤں کی شادی پر بھی زور دیتا ہے۔دوسری طرف اسلام میں بھی ستی کی رسم کا کوئی تصور نہیں ہے اور وہ بیواؤں کی شادی کی تاکیدکرتاہے۔

سکھ مت بت پرستی کا شدید مخالف رہا ہے۔ اسلام نے بھی بت پرستی کو حرام قرار دیا ہے۔

اسلام اور سکھ مت میں اختلافات

اسلام کے نزدیک انسان کا مقصدِ زندگی رضائے الٰہی ہے۔قرآن کریم میں ہے: ”وما لِأحد عندہ مِن نِعْمَۃ تُجزیٰ اِلّا اِبْتِغاءَ وَجْہ رَبِّہ الأعلیٰ“۔یعنی مومن اپنے اوپر کسی کے احسان کا بدلہ چکانے کے لئے نہیں بلکہ صرف اپنے بلند و برتر رب کی رضا کے حصول کی نیت کی وجہ سے اپنے رب کے حضور انعام واکرام کا مستحق ہوگا۔سکھ مت میں زندگی کا مقصد ’نِروان‘ (یعنی انسان کی روح کا جسم سے نکل کر برہما کی ذات میں جا ملنا) ہے۔

سکھ مت عقیدہ حلول و اتحاد کا قائل ہے جبکہ اسلام اس عقیدہ کا سخت مخالف ہے۔

اسلام میں ذبیحہ جائزہے جبکہ سکھ مت میں ممنوع ہے۔

اسلام میں ختنہ مشروع ہے جبکہ سکھ مت میں ممنوع ہے۔

بغل اور زیر ناف بالوں کی صفائی اسلام میں مسنون ہے جبکہ سکھ مت میں جسم کے کسی بھی مقام کے بالوں کا نہ کاٹنا مستحب ہے۔

پانچ ککار (1) کیش (بال)، (2)کنگھا(3) کڑا، (4)کرپان(خنجر) اور(5)کچھیرا (کچھا) سکھ مت میں لازمی ہے، جبکہ اسلام میں اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔

سکھ مت میں اصل گرو خدا ہے،اس کے علاوہ خدا جسے بھیجتا ہے اسے بھی گرو کہا جاتا کیونکہ وہ خدا کا پیغام لوگوں تک پہنچاتا ہے۔جب کہ اسلام میں ایسا نہیں ہے۔ اسلام میں خدا کو اللہ،رب، رحمن، اور رحیم وغیرہ کے نام سے یاد کرتے ہیں جبکہ اس کی جانب سے بھیجے ہوئے لوگوں کو نبی یارسول کہا جاتا ہے۔

ہری مندر

            تیسرے گرو امر داس نے گرو نانک صاحب کی زندگی سے وابسطہ ایک مقام کو، جہاں قدرتی پانی کا ایک چشمہ تھا، اکبر بادشاہ سے خرید کر کے وہاں ایک شہر کی بنیاد رکھی اور اس چشمہ کو ایک بڑے تالاب کی شکل میں بنوا دیا بعد میں یہ تالاب امرت سر (چشمہ آبِ حیات) کے نام سے مشہور ہوااور شہر کا بھی یہی نام پڑ گیا۔اس کے بعد پانچویں گرو ارجن دیو نے اس تالاب میں سکھوں کے لئے ایک مرکزی عبادت گاہ ’ہری مندر‘کی تعمیر کرائی۔

یہ سکھوں کی سب سے اہم اور مقدس عبادت گاہ ہے۔ اس مقام پر سکھ گرؤوں کی مستقل رہائش اور ان کی ذات میں ’میری‘ اور ’فقیری‘ (سیاست اور مذہب) کے امتزاج کے باعث یہ جگہ سکھوں میں ’دربار صاحب‘ کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ اس کی زیارت اور یہاں غسل گناہوں سے مغفرت کا ذریعہ ہیں۔

گرو گرنتھ صاحب

            گرو انگد نے گرو نانک اور دوسرے ہندو مسلم صوفی سنتوں کے اشعار کو جمع کر کے ایک کتاب مدون کی تھی، جسے’پوتھی‘کہا جاتا تھا۔ پھر اس کے بعد گرو ارجن دیو نے سابقہ تمام گرؤوں، صوفی سنتوں اور اپنے کلام جمع کرکے 1604میں ’آدی گرنتھ‘کے نام سے کتاب مدون کی۔ آدی گرنتھ کا دوسرا اورآخری خاکہ گرو گوبند سنگھ کے ہاتھوں تکمیل پایا۔ انہوں نے سابقہ کلام کے ساتھ آدی گرنتھ میں اپنے والد گرو تیغ بہادر کے کلام بھی شامل کرکے اسے قطعی شکل دے دی اور یہی نسخہ آج سکھوں کے نزدیک صحیح اور مستند سمجھا جاتا ہے۔ اپنی وفات کے وقت گرو گوبند سنگھ نے اپنے متبعین کو یہ نصیحت کی تھی کہ ان کے بعد گرؤوں کا سلسلہ ختم ہونے والا ہے اور اب ’آدی گرنتھ صاحب‘ہی کو اپنا گرو سمجھیں۔ اسی وقت سے آدی گرنتھ صاحب سکھوں کے لئے نہ صرف مقدس قرار دیا گیا بلکہ اس کا احترام سکھ مت کی ایمانیات میں شامل ہوگیا۔

خاتمہ

            مطالعہ ادیان کا مقصد صرف اورصرف یہ ہے کہ ہم مختلف مذاہب کے بارے میں جانیں۔ ان کے نظریات و عقائد پر نظر رکھیں اور مدعو کی ذہنیت کو سامنے رکھتے ہوئے ان تک اسلام کی دعوت پہنچائیں، اور اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داری ہم پر عائد کی ہے اسے بخوبی انجام دیں۔

اس مضمون میں ہم نے سکھ مت کا مطالعہ کیا اور اس کی بنیادی تعلیمات اور خصوصیات کے بارے میں جانا۔ اس کے علاوہ اسلام اور سکھ مت کے درمیان مشترک چیزوں اور ان کے درمیان کے اختلافات کا بھی جائزہ لیا۔

            یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ دعوت پیش کرتے وقت مدعو کی ذہنیت اور حالات کا پورا خیال رکھنا چاہئے۔قرآن کے بتائے ہوئے طریقے (حکمت، موعِظت اور جدال احسن) اورانبیائے اکرامؑ کے اسوہ کوبھی پوری طرح ملحوظ رکھنا چاہئے۔ (ختم شد)

(نوٹ: اس مقالے کے آخر میں مصنف موصوف نے اپنے ہر دعوی کے حق میں حوالہ جات بھی درج فرمائے تھے۔رفیق میں قلت صفحات کے سبب انہیں حذف کردیا گیا ہے۔ حوالہ جات کے لیے مصنف یا ادارہ رفیق سے براہ راست رجوع کیا جاسکتا ہے۔)

مئی 2019

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں