سکھ مت اور اسلام

ایڈمن

محمد ندیم ملک ہندوستان میں بہت سارے مذاہب کے پیروکار بستے ہیں۔ہر مذہب کی اپنی اپنی کچھ مخصوص شناخت، رسوم و رواج اور ثقافتیں ہیں۔ ہمارے لئے مختلف مذاہب کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ ہمارے آس پاس مختلف مذاہب…

محمد ندیم

ملک ہندوستان میں بہت سارے مذاہب کے پیروکار بستے ہیں۔ہر مذہب کی اپنی اپنی کچھ مخصوص شناخت، رسوم و رواج اور ثقافتیں ہیں۔ ہمارے لئے مختلف مذاہب کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ ہمارے آس پاس مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں جو مختلف عقائد رکھتے ہیں۔ ہمیں ان ہی کے درمیان اسلام کی تبلیغ و اشاعت کرنی ہے۔ اس کام کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان کے مختلف نظریات و عقائد کو جانیں، سمجھیں اور مدعو کی ذہنیت کو سامنے رکھتے ہوئے ان تک اسلام کی دعوت پہنچائیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داری ہم پر عائد کی ہے اسے بخوبی انجام دیں۔اس مقالے میں سکھ مت کامطالعہ پیشِ خدمت ہے۔ اس میں سکھ مت کی وجہ تسمیہ، اس کی ابتداء، گرو نانک صاحب کی مختصر سوانح حیات اور سکھ مت کی بنیادی تعلیمات بیان کی گئی ہیں۔ اس کے بعد اسلام اور سکھ مت کے درمیان کیا چیزیں مشترک ہیں، ان کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے درمیان اختلافات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ آخر میں ان کے مقدس مقام ا ور مقدس کتاب کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔

سکھ مت

ایس ایچ سنگھا کے مطابق ”ہر وہ مرد یا عورت سکھ ہے جو ایک غیر فانی ذات،آدی گرنتھ، دسوں گرؤوں اور ان کی تعلیمات و ملفوظات اور دسوں گرؤوں کے بپتسمہ ؎پرایمان رکھے نیز دوسرے کسی بھی مذہب کا معتقد نہ ہو“۔وائی مسیح کے مطابق ”وہ شخص سکھ ہے جو اپنی زندگی اپنے گرو کے حوالہ کرنے پر رضا مند ہو جائے۔“لفظ’سکھ‘ سنسکرت زبان کے لفظ ’شِشیہ‘ اور پالی زبان کے لفظ’سَکھا‘سے نکلا ہے۔ جس کے معنی شاگرد کے ہیں، اسے ہی پنجابی میں سکھ کہتے ہیں۔اس کے بانی گرو نانک ہیں۔ گرونانک جی نے ہندو ازم اور اسلام میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مؤرخین کی رائے میں دو باہم متصادم مذاہب کو متحد کرنے کی اتنی بڑی کوشش اس سے قبل کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اگرچہ یہ کوشش پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی اور نہ ہی ہو سکتی تھی۔تاہم گرو نانک ایک ایسے مسلک یا پنتھ کی تاسیس اور ترویج میں کامیاب ہوئے، جس میں ہندو مذہب اور اسلام کی باہمی دوری کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔

سکھ مت کی ابتداء

سکھ مت کے داعی اول، بانی گرونانک ہیں۔سکھ روایات کے مطابق 1499ء کے لگ بھگ، 30 سال کے عمر میں گرو نانک کو ایک کشف ہوا۔ وہ غسل کرکے واپس نہ لوٹ سکے اور ان کے کپڑے کالی بین نامی مقامی چشمے کے کنارے ملے۔ قصبے کے لوگوں نے یہ خیال کیا کہ وہ دریا میں ڈوب گئے ہیں۔ دولت خان نے اپنے سپاہیوں کی مدد سے دریا کو چھان مارا، مگر ان کا نشان نہ ملا۔ گم شدگی کے تین دن بعد نانک دوبارہ ظاہر ہوئے، مگر خاموشی اختیار کر لی۔جس دن وہ بولے تو انھوں نے یہ اعلان کیا:”نہ کوئی ہندو ہے اور نہ کوئی مسلمان، بلکہ سب صرف انسان ہیں۔تو مجھے کس کے راستے پر چلنا چاہئے؟ مجھے خدا کے راستے پر چلنا چاہئے۔ خدا نہ ہندو ہے اور نہ مسلمان اور میں جس راستے پر ہوں وہ خدا کا راستہ ہے“۔نانک نے کہا کہ انھیں خدا کی بارگاہ میں لے جایا گیا تھا۔ وہاں انھیں امرت سے بھرا ایک پیالہ دیا گیا اور حکم ملا:”یہ نامِ خدا کی عقیدت کا پیالہ ہے۔ اسے پی لو۔میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میری تم پر رحمت ہے اور میں تمہیں بڑھاتا ہوں۔جو تمہیں یاد رکھے گا، وہ میرے احسانات سے لطف اندوز ہوگا۔ جاؤ، میرے نام کی خوشی مناؤ اور دوسروں کو بھی اسی کی تبلیغ کرو۔ میں نے اپنے نام کی عنایات سے تمہیں نوازا ہے۔ اسے ہی اپنی  مصروفیت بناؤ“۔اس واقعہ کے بعد سے نانک کو گروکہا گیا، اور سکھ مت نے جنم لیا۔

گرو نانک

گرو نانک کی پیدائش 15اپریل 1469میں لاہور کے قریب تلونڈی میں ہوئی تھی۔ وہ مقام اب ننکا ناصاحب کے نام سے معروف ہے(جو موجودہ پنجاب، پاکستان میں ہے)۔ گرو نانک کے والد کا نام کالو چند تھا اور ان کی والدہ کا نام ترِپنا دیوی اور بیوی کا نام سُلکھشنی تھا۔ ان کی تعلیم سنسکرت اور پنجابی کے علاوہ عربی اور فارسی میں بھی ہوئی تھی۔وہ بچپن ہی سے ہر چیز سے بے نیاز تھے اور فقیرانہ زندگی گزارتے تھے۔ انہوں نے بہت سارے سفر کئے، جن میں بغداد اور مکہ کاسفر بھی شامل ہے۔

ان کی وفات70سال کی عمر میں 22ستمبر 1539کو کرتار پور (جو اب پاکستان میں ہے)میں ہوئی۔

سکھ مت کی بنیادی تعلیمات

(1) توحید باری: سلطان پور میں گرو نانک صاحب کو جو مرکزی بنیادی تجربہ ہوا تھا اس کا سب سے پہلا شعری اظہار مول مَنتر (بنیادی کلمہ) کی شکل میں ہوا۔’مول منتر‘ سکھوں کی مذہبی کتاب گرو گرنتھ صاحب کے تمام کلام میں سب سے مقدس تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس میں گرو نانک صاحب کا ذاتِ خداوندی کا تصور نہایت ایجاز کے ساتھ لیکن جامع انداز میں موجود ہے۔ اسے سکھ مت میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔مول منترکے الفاظ یہ ہیں:

”ایک اونکار ست نام کرتا پرکھ نِر بھَو نِر وَیراکال مورت اجونی سہہ بھن گُر پرسادی“(گرو گرنتھ صاحب)

ترجمہ:”خدا ایک ہے، اس کا نام سچ ہے، وہی فاعلِ مطلق ہے، وہ بے خوف ہے، اس کی کسی سے دشمنی نہیں ہے، وہ ازلی اور ابدی ہے، بے شکل و صورت ہے، خود اپنی توفیق ورضا سے حاصل ہوتا ہے“۔

یہ صحیح ہے کہ گرونانک صاحب نے اس خدائے واحد کو یاد کرنے کیلئے مختلف نام اختیار کئے ہیں، جن میں سے کچھ ہندوستانی روایت سے ماخوذ ہیں۔ مثلاً،ہری، گوبند، موہن، الکھ، اگم، کرنہار وغیرہ، اور کچھ مسلم روایت سے متعلق ہیں۔ مثلاً، اللہ، خدا،رحیم، کریم، رب وغیرہ۔ بہر صورت ان کی مراد اسی ایک ذات سے ہے جو تمام عالم کا پروردگار ہے، نہ کسی سے پیدا ہوا ہے اور نہ کوئی اس سے پیدا ہوا ہے، نہ وہ کسی شکل و صورت ہی میں ظاہر ہوتا ہے۔اس طرح اپنے روحانی تجربہ کی بنیاد توحید پر قرار دیتے ہوئے گرو نانک صاحب نے عقیدت و محبت کے ساتھ اسی ایک خدا کی بندگی اور عبادت پر زور دیا ہے۔اسی بنا پر سکھ مت خدائے واحد کا قائل رہا ہے۔گوپال چند سنگھ’گرو گرنتھ صاحب‘ کے مقدمہ میں ذاتِ باری پرسکھ مت کے اعتقاد کو یوں بیان کرتے ہیں: ”خدا کی ذ ات ازلی ہے، وہ خالق اور ہر چیز پر محیط ہے۔ تمام علتوں کی علت ہے۔ حسد اور نفرت سے دور ہے۔ وہ کسی مخصوص فرقہ کا نہیں بلکہ سب کا خداہے۔ عادل، رحیم اور کریم ہے۔ اس نے انسا نوں کو ان کے گناہوں پر عذاب دینے کے لئے نہیں بلکہ ایک عظیم مقصد یعنی اپنی بندگی کے لئے پیدا فرمایا ہے۔“سکھوں کے پانچویں گرو،گرو ارجن نے گرو گرنتھ صاحب میں کہا ہے کہ ”صرف ایک ہی قادر مطلق خدا ہے، اس کے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے“۔

(2) گرو نانک صاحب نے مسلکِ عشق یا بھکتی کے مطابق انسان کے خدا تک پہنچنے میں جس چیز کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے، وہ انانیت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انسان اپنی ذات سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے اور جب تک وہ اپنی ذات کو مرکزِ کائنات سمجھ کر اسی کی بندگی میں لگا رہے گا، اس کو خدا کی محبت اور بندگی کس طرح حاصل ہو سکتی ہے!گرو نانک صاحب نے حب ِ الٰہی کے حصول کے سلسلے میں انسان کی اپنی انانیت سے چھٹکارہ پانے پر بہت زور دیا ہے۔انانیت کے ساتھ ساتھ گرو نانک صاحب نے اس سے متعلق بعض دوسری نفسانی خرابیوں مثلاً،کام(خواہشات)، لوبھ(لالچ)، موہ(دنیا سے تعلق)، کرودھ(غصہ)، اہنکار (تکبر)سے بھی بچنے پر زور دیا ہے۔ ان کے خیال میں اس طرح کی اندرونی بیماریوں سے نجات پائے بغیر حب الٰہی کے راستہ میں آگے بڑھنا یا توفیقِ الٰہی کو متوجہ کرنا مشکل ہے۔

(3) ایک طرف تو گرونانک صاحب نے اِن موانع سے بچنے کی تاکید کی ہے اور دوسری طرف اپنے کلام میں مختلف انداز سے اُن صفات اور خوبیوں کو سراہا ہے اور اُن کی تلقین کی ہے جو عشقِ الٰہی کے حصول میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بنیادی چیز، جو کہ سکھ مت کا طریقِ عبادت بھی کہی جا سکتی ہے، ’نام اسمرن‘ یا ذکرِ الٰہی ہے۔ نام اسمرن کا ایک عام طریقہ ہر وقت خدا کا نام لیتے رہنا ہے، جو خدا کے لئے سکھوں کی عام اصطلاح ”واہے گرو“ کی صورت میں مختلف دنیوی مشاغل میں مصروفیت کے وقت بھی اپنے مذہب پر عمل پیرا سکھ دہراتے رہتے ہیں۔ لیکن اس کی ایک خصوصیت صبح اٹھ کر، نہا کر، نہار منھ، گرنتھ صاحب میں سے منتخب کلام خاص طور پر ’جپ جی‘ (بنیادی طور پر ایک حمد ہے) کے پڑھنے اور یکسو ہو کر کچھ دیر یادِ الٰہی میں غرق رہنے کی ہے۔ جپ جی مول منتر کے بعد سکھوں کے لئے تقدیس کا دوسرا درجہ رکھتا ہے۔نام اسمرن کا سب سے اہم اور مفید طریقہ ’کیرتن‘کی شکل میں ہے، جہاں باجماعت موسیقی کے ساتھ گُر بانی (گرنتھ صاحب میں جمع شدہ کلام)کا وِرد ہوتا ہے۔

(4)نام اسمرن کے علاوہ جو چیزیں گرو نانک صاحب کے نزدیک حب ِالٰہی کے حصول میں معاون ہوتی ہیں،ان میں سادھو سنگت (نیک صحبت)، سیوا(خدمتِ خلق)،حلال روزی کمانا اور اس میں دوسروں کو بھی شریک کرنا، انکساری اور مخلوق سے محبت اور ہمدردی جیسی صفات شامل ہیں۔

(5) سکھ مت کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ گرو نانک صاحب رہبانیت کے سخت مخالف تھے۔ ان کے نزدیک سماج ہی میں رہتے ہوئے اور گھر بار والی زندگی گزار کر خدا کو یاد رکھنا ہی کمالِ زندگی ہے اور اسی کی انہوں نے تعلیم دی ہے۔

(6)جہاں تک سکھ ازم میں زندگی کے بنیادی مسئلہ کا تعلق ہے، اس سلسلے میں گرو نانک صاحب نے قدیم ہندوستانی نقطہ نظر سے اتفاق کیا ہے، یعنی ’کرم‘ اور’آواگون‘کے عقیدہ کو بعینہ تسلیم کیا ہے۔ اس کے علاوہ سکھ مت ’مُکتی‘(نجات) کے تصور کا بھی پوری طرح سے تائید کرتا ہے۔

(7) وحدتِ ادیان: سکھ مت بھگوت گیتا کے اس نظریے سے پوری طرح متفق ہے کہ رضائے الٰہی کے حصول کے لئے کسی بھی مذہب کی پیروی ضروری ہے۔گرو نانک کہتے ہیں: ”ہندؤوں کے چھ فکری مدارس ہیں۔ ہر مدرسہ کا کوئی نہ کوئی مؤسّس اور بے شمار پیروکار ہیں۔ان مدارس کے بانی ایک ہی چشم شافی سے سیراب ہوتے ہیں۔خواہ تقالید، عادات اور مظاہر میں کتنا ہی فرق کیوں ہو، جو مدرسہ بھی خالقِ کائنات کی عظمت و قدرت کو مانتا ہو تم اس پر ایمان لاؤ، کیونکہ اس پر ایمان لانے والوں میں روحانی ترقی مضمر ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اِس دنیا میں سورج تو ایک ہی طلوع ہوتا ہے پھر بھی اس خطہ ارض کے مختلف علاقوں کی فضائیں اور موسم مختلف ہوتے ہیں۔ ائے نانک! اللہ تعالیٰ تو ایک ہی ہے، اگرچہ اس کی عبادت کی شکلیں مختلف ہیں اور اس کی مخلوقات کے مظاہر متنوع ہیں“۔

(8) ہر انسان کے ساتھ یکساں سلوک: سکھ مت بھید بھاؤ کا سخت مخالف ہے۔اس میں رنگ، نسل، ذات پات اور جنس کی بنیاد پر کسی سے امتیازنہ برتنے کی تعلیم دی گئی ہے۔سکھ مت کے تصورات کے مطابق تمام انسان برابرہیں۔کسی کو کسی پر فضیلت حاصل نہیں،بلکہ خدا کا دین سب کے لئے ہے۔ جو بھی اس کی شریعت کی پیروی کرے گا نجات پائے گا۔

(9) سکھ مت بت پرستی، رسومات اور ظاہر داری کے تکلفات کے خلاف ہے۔

(10)سکھ مت اس بات کو تمام سکھوں پر فرض قرار دیتا ہے کہ وہ سماجی نا انصافیوں کے خلاف اور اپنے عقیدہ کی دفاع کے لئے جنگ کریں۔ 21؎

(11)عقیدہ حلول و اتحاد: سکھ مت حلول و اتحاد کا قائل ہے۔ گرو گرنتھ صاحب میں ہے: ”ائے خدا! تو ہی قلم ہے اور تو ہی تحریر، تو ہی سیاہی ہے اور تو ہی میز“۔ایک مقام پر گرو نانک صاحب کہتے ہیں: ”تو ہی مچھلی ہے اور تو ہی جال اور تو ہی شکاری ہے۔ ائے خدا! اس کائنات میں صرف تیری ہی ذات ہے، تیرے علاوہ کوئی اور نہیں“۔یہ کلمات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ خالق اس پوری کائنات میں سمایا ہوا ہے۔ روحانیت کی آنکھ سے ہر شئے میں خالق کو دیکھنا نِروان اور مذہبی زندگی کی معراج ہے۔

(12) سکھ مت مندرجہ تین چیزوں کو لازمی قرار دیتا ہے:

۱۔ نام جپنا: ہر وقت خداکو یاد کرنا۔

۔ کیرتھ کرنا: حلال روزی کمانا، (اس میں نشہ آور اشیاء سے پرہیز کرنا بھی شامل ہے)۔

۳۔ وند چکھنا: مل بانٹ کر کھانا۔

(13) گرو نانک کا عقیدہ ہے کہ حبِ الٰہی کے حصول اور خدا تک رسائی کے لئے کسی نہ کسی پیر و مرشد اور گرو سے قلبی تعلق کا ہونا ضروری ہے، ورنہ ان چیزوں کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔اس سلسلے میں گرو نانک کا ایک شعر ہے،جس کا ترجمہ ہے:”گرو کے بغیر نہ پہلے کسی نے خدا کو پایا تھا اور نہ اب پائے گا۔ خدا شبد میں مضمرہے، گرو نے اسے نمایاں کیااور شبد سنا دیا“۔ست گرو سے مل کر جنہوں نے حرص و ہوی کا خاتمہ کر دیا ہے ان ہی کو ہمیشہ کے لئے نجات مل جاتی ہے“۔

خدا سے لَو لگانا سب سے اعلیٰ و ارفع تصور ہے۔ اس خدا کا انہیں سے وِصال ہوا ہے جو تمام دنیا کو زندگی بخشتا ہے۔

(14)سکھ مت اپنے ہر ماننے والوں کے لئے پانچ ککاروں (1) کیش (بال)، (2)کنگھا(3) کڑا، (4)کرپان(خنجر) اور(5)کچھیرا (کچھا) کو لازمی قرار دیتا ہے۔ (جاری۔۔۔)

Mohammed Nadeem

Faculty, AL Jamia Al Islamiya,

Santhapuram, Kerala.

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں