سول سروسز امتحانات

ایڈمن

ھنگامہ ہے کیوں برپا؟

نریش چندرا(سابقہ ہندوستانی سفیر برائے امریکہ)۔۔۔۔\” کلاس ون افسر کو انگریزی آنی چاہئے ۔انگلش Comprehension کے سوال سیکنڈ یا تھرڈ ڈیویژن سے پاس دسویں کا طالب علم بھی حل کر سکتا ہے۔۔۔ناگالینڈ ،میزورم اور میگھالیہ میں تو انگریزی ہی سرکاری زبان ہے۔۔۔سرکار کو سمجھنا چاہئے کہ انگریزی ضروری ہے۔۔امیدواروں کو مفت میں انگریزی کی کوچنگ دی جانی چاہئے ۔۔۔۔CSATکے ذریعہ ہم ایسے افسران کی تلاش میں ہیں جو سوچ سکیں ،سمجھ سکیں اور تجزیہ کر سکیں۔\”
ایم گوپال سوامی(سابق چیف الیکشن کمیشنر) ۔۔۔۔۔\” انگریزی کے نمبر ہٹا دینے سے ان طلبہ و طالبات کو مدد مل سکتی ہے جن کی تعلیم ہندوستانی زبانوں میں ہوئی ہے ۔۔۔۔آپ امتحان کے بعد انگریزی سکھا سکتے ہیں \” ۔
۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان میں سول سروسیس پر فائز عہدیداران ہی ملک کی انتظامیہ کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں ۔ حکومت کی پالیسی کو نچلی سطح تک نافذ کرنا،ملک کی انتظامیہ کو چلانا اور بیرون ملک سفارتی فرائض کو انجام دینا جیسی اہم اور نازک ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں۔
سول سروسیس کے لئے درکار افسران کے انتخاب کے لئے یونین پبلک سروس کمیشن امتحانات منعقد کرتا ہے ۔UPSCکے امتحانات کا عالمی سطح پر مشکل ترین امتحانات میں شمار ہوتا ہے ۔جس میں کامیابی کی شرح محض 0.1% تا 0.3% ہوتی ہے، اور ہر مرتبہ تقریباً پانچ لاکھ طلبہ و طالبات اپنی تقدیر آزماتے ہیں، جس کے لئے وہ طویل عرصہ تک محنت اور مشقت سے تیاری کرتے ہیں۔
ہنگامہ ہے کیو ں برپا:
2011میں UPSCکے ذریعہ سول سروسیس امتحانات کے پیٹرن میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں۔اس نئے پیٹرن کے مطابق جب 2011میں پہلی مرتبہ CSATکا امتحان ہوا تو سوالیہ پرچے دیکھ کر طلبہ کے ہوش اڑ گئے ۔پرانے پیٹرن کے مطابق کافی سالوں سے تیاری کر رہے ہندی میڈیم طلبہ کے سامنے یکا یک اندھیرا سا چھا گیا، اور جب CSATکے نتائج سامنے آئے تو پتہ چلا کہ ہندی میڈیم کے طلبہ کی کامیابی کا تناسب گھٹ گیا، اور نئے پیٹرن سے انگلش میڈیم طلبہ اور پروفیشنل کورسیس کے طلبہ کو کافی فائدہ پہنچا۔ہندی میڈیم طلبہ نے احتجاج کرنا شروع کر دیا اور حکومت پر دباؤ بڑھتا گیا ۔احتجاج کر رہے طلبہ کا ایک اور الزام یہ بھی ہے کہ اس پیٹرن سے اعلیٰ طبقات کو فائدہ پہنچے گا اور سول سروسیس انگریزی دور کی طرح Elite group سے تعلق رکھنے والے نوکر شاہوں کی شکل اختیار کرلے گا ۔جس کے نتیجہ میں ہندی میڈیم طلبہ میں بے چینی پھیل گئی اور احتجاج کے طور پر سڑکوں پر توڑ پھوڑ اور آگ زنی کے واقعات رونما ہوئے ۔احتجاجی طلبہ اس بات کا مطالبہ کر رہے تھے کہ CSAT (Civil Services Aptitude Test)کو ختم کر دیا جائے جس میں انگریزی کو فوقیت دی گئی ہے۔اور AptitudeTest کے پرچے میں ایسے سوالات پوچھے جا رہے ہیں جس کی وجہہ سے میڈیکل ،انجینئرنگ اور دیگر پروفیشنل کورسیس کے طلبہ کو اضافی فائدہ پہنچ رہاہے۔
ان حالات کو دیکھتے ہوے حکومت ہند نے 12 مارچ 2014 کو ایک کمیٹی بنائی تاکہ اس اشو پر ماہرین کی رہنمائی میں کوئی حل تلاش کیا جاسکے۔ حکومت کے اس اقدام سے احتجاج کر رہے طلبہ کو یہ امید بندھی کے CSATختم کر دیا جائے گا لیکن کمیٹی کی رپورٹ پیش ہونے سے پہلے ہی اس سال 24 اگست 2014کو ہونے والے CSATامتحان کے ہال ٹکٹ جاری کر دیئے گئے جس کی وجہ سے احتجاج کر رہے طلبہ کی امیدوں پر پانی پھر گیا، اور ان طلبہ اور طالبات کا احتجاج شدت اختیار کر گیا ۔سیاسی حلقوں میں بھی اس اشو کو لے کر سرخیوں میں رہنے کی دوڑ لگ گئی ۔
سوال یہ ہے کہ کیا سول سروسیس جیسے اہم امتحان کا فیصلہ سڑکوں پر کیاجائے؟جس کے ذریعہ ہ قابل اور با صلاحیت افراد منتخب کئے جاتے ہیں جو اس ملک کے طول وعرض میں انتظامیہ کو چلا سکیں۔حکومت نے طلبہ کے احتجاج کو روکنے اور لسانی سیاست کے داؤں کو کھیلتے ہوئے بیچ کی راہ نکالنے کی کوشش کی۔
حکومت کا فی الفور فیصلہ :
حکومت نے فیصلہ لیا ہے کہ CSATکے دوسرے پرچے میں موجود انگریزی کے مارکس کا شمار نہیں کیا جائے گا۔سوال یہ ہے کہ جن سوالات کے نمبر نہیں دیئے جائیں گے طلبہ امتحان میں ان کو حل کرنے میں اپنا قیمتی وقت کیوں ضائع کریں گے؟مزید برآں اس فیصلہ سے ان طلبہ کو دھکا لگا ہے جنہوں نے نئے پیٹرن کے مطابق اسٹڈی کی تھی۔کیا یہ ان کی حق تلفی نہیں ہے؟ایک اور فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ 2011کے طلبہ کو بھی 2015کے امتحان میں ایک بار پھر موقع دیا جائے گا ۔
حکومت کی تاویل:
حکومت ہند کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر 24اگست2014کے پیپر پیٹرن میں تبدیلی یا CSATکو مکمل ختم کرنا ناممکن تھا کیونکہ یونین پبلک سروس کمیشن نے اس قسم کی بڑی تبدیلیوں سے صاف انکار کردیا تھا چونکہ UPSCدستور ہند کے تحت بنائی گئی ایک آزاد کمیٹی ہے اس لئے حکومت بھی مجبور تھی۔ دوسری وجہ یہ بتائی گئی کہ اگر بڑی تبدیلیاں فی الفور کردی جاتیں تو حکومت کو CSATکے معاملہ میں PILاور مقدمات کا ڈر تھا ۔جس سے امتحان کا سارا عمل عدالتوں کی نظر ہو جاتا اور اس میں طلبہ کے لئے پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا۔اس کے علاوہ سوالیہ پرچے بنائے جا چکے ہیں، اور انہیں تبدیل کرنا اب ممکن نہیں ۔حکومت کی جانب سے بار بار یہ کہہ کر بچنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ سارا مسئلہ UPAکے دور کی کانگریس حکومت کا کیا دھرا ہے۔ اور اب NDAکی جانب سے اصلاحات کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں ۔
تاریخی پس منظر:
انگریزوں کے دور کی حکومت میں 1922سے پہلے سول سروسیس امتحانات برٹیش سول سروس کمیشن کے ذریعہ انگلینڈ میں منعقد کئے جاتے تھے۔ 1922میں پہلی مرتبہ پبلک سروس کمیشن انڈیا کے ذریعہ ہندوستان میں امتحانات منعقد کئے گئے۔ آزادی کے بعد 1950میں UPSCکا قیام عمل میں آیا اور 1976میں کوٹھاری کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی جس کے مطابق تین مرحلوں میں امتحانات منعقد کئے جانے لگے ۔ (۱)Prelims (۲)Mains(۳)Interview۔
آزادی کے بعد دستور کی دفعہ343کے تحت زبانوں کا مسئلہ سامنے آیا، 1960میں لسانی سیاست اپنے عروج پر تھی اس سیاست کے جو دیر پا اثرات ہندوستان پر ہوئے اس کے نتیجے میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد ہندوستان میں بڑا فرق نظر آتا ہے ۔ریاستی زبانیں سرکاری ماتحتی میں ترقی کر رہی ہیں ۔لیکن مرکزی سطح پر آج بھی ہندی اور انگریزی کا مسئلہ باقی ہے۔ 1968میں لوک سبھا راجیہ سبھا میں طے ہوا کہ سول سروسیس جیسے امتحانات کو ہندی اور علاقائی زبانوں میں بھی منعقد کیا جانا چاہئے، اس طرح مرکزی ہندی سمیتی کے ذریعہ کوٹھاری آیوگ بنایا گیا اور1979کے بعد سے امتحانات کا نیا پیٹرن سامنے آیا ۔جس میں بشمول ہندی علاقائی زبانوں کو بھی جگہ دی گئی ۔
لیکن انگریزی ہنوز سرکاری کام کاج کے لئے استعمال ہوتی رہی اور ہندوستان جیسے کثیر لسانی ملک میں لنک لینگویج کا کام انجام دیتی رہی، حتیٰ کہ عدلیہ اور دیگر سرکاری اداروں میں انگریزی زبان کا ہی چلن رہا ہے ۔گلوبلائزیشن کے اس دور میں انگریزی سے مفر نہیں ۔بیرون ملک سفارتی کاموں کے لئے اور ہندوستان کی نمائندگی عالمی سطح پر کرنے کے لئے انگریزی لازمی ہے ۔سروس انڈسٹری میں ہندوستان کی ترقی و کامرانی انگریزی ہی کی مرہون منت ہے۔ پڑوسی ملک چین کی لاکھ ترقیوں کے باوجود انگریزی میں کمزوری کی وجہ سے وہ ہندوستان سے سخت مقابلہ کر رہا ہے ۔
کیا نیا کیا پرانا:
2011میں نئے پیٹرن کو لاگو کیا گیا ۔اس نئے پیٹرن کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور 31مئی 2013کو ایک نئی کمیٹی بنائی گئی جس کی رپورٹ آنے سے پہلے ہی 24اگست2013کو CSATامتحان کے ہال ٹکٹ ایشو کئے گئے، اور طلبہ نے سڑکوں پر احتجاج کیا۔
نئے پیٹرن اور پرانے پیٹرن کو درج ذیل جدول کی مدد سے آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے،
۲۰۱۰ ؁ء تک پریلمنٹری امتحان میں پیپر (۱) جنرل اسٹڈیز ۱۵۰؍ مارکس کے لیے ہوتا تھا، اور پیپر (۲) میں ۲۳؍اختیاری مضامین میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تھا۔ جس میں ریاضی اور شماریات کے ۱۰۰؍سوالات اور ان دونوں مضامین کے علاوہ باقی موضوعات کے لیے ۱۰۰؍سوالات ہوتے تھے۔
۲۰۱۱ ؁ء سے سی سیٹ کو متعارف کرایا گیا، اس میں بھی دو حصے (۱) اور (۲) ہیں۔ اس میں پہلے پرچے سے ذہنی آزمائش ہٹاکر ماحولیات کو جگہ دی گئی۔
سی سیٹ کے پرچہ (۲) میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں۔ اختیاری مضمون کو ہٹاکر دسویں جماعت تک کی انگلش کو لازمی قرار دیا گیا۔ اور aptitude کو شامل کیا گیا۔ جو کہ اب تک اس امتحان کا حصہ نہیں تھا۔ اس پرچے میں استعداد، فیصلہ کرنے کی صلاحیت، اور فہم کو پرکھنے والے سوالات کئے جاتے ہیں۔ جو کہ ۲۰۱۰ ؁ء تک اس امتحان کا حصہ نہیں تھا۔ اور ۲۰۱۰ ؁ء سے پہلے کے طلبہ جو پرانے پیٹرن پر تیاری کئے ہوئے تھے، اور پچھلے امتحانات میں Mains امتحان اور انٹرویو تک پہنچنے والے طلبہ نئے پیٹرن کے مطابق ہونے والے امتحان میں پہلے ہی پرچے میں ناکام ہوگئے۔ جس کی وجہ سے ان کے غم وغصے میں اضافہ ہوا۔
نئے پیٹرن کے بعد جب سول سروس امتحان کے نتائج آئے تو ہندی میڈیم سے تعلق رکھنے والے شمالی ہند کے طلبہ کا تناسب گھٹ گیا ۔2005سے 2010کے درمیان ہندی میڈیم سے تو 10تا 15 فیصد طلبہ کامیاب ہوئے اور 2013میں ہندی میڈیم کے طلبہ کا تناسب 2.3% رہ گیا یعنی کل 1122کامیاب طلبہ میں صرف 26طلبہ کا تعلق ہندی میڈیم سے تھا، اس کے علاوہ بشمول ہندی دیگر ہندوستانی زبانوں سے صرف 53طلبہ ہی کامیاب ہو سکے۔
طلبہ کی پریشانیاں :
ہندی اور دیگر زبانوں کے سوالیہ پرچوں کو انگریزی کے سوالیہ پرچے سے ترجمہ کیا گیا تھا ۔جوکہ انتہائی ناقص تھا، جسے طلبہ سمجھنے سے قاصر تھے، Aptitude Testکے سوالات ہندی میڈیم طلبہ کے لئے نئے تھے ۔
لیکن معیار سے سمجھوتا کیوں :
اس سارے عمل میں اہم بات یہ ہے کہ اگر نئے نصاب کے مطابق طلبہ کو انگریزی اور Aptitude Test میں کامیابی مشکل نظر آرہی ہے تو کیا انگریزی اور Aptitudeکو خارج کرکے معیار سے سمجھوتا کیا جائے؟ایک IASاورIPSافسر انگریزی اور ذہنی آزمائش سے گھبرانے لگے تو وہ اپنے میدان کار میں مسائل سے کیسے نپٹے گا ۔آج کا ہندوستانی سماج ٹیکنالوجی کے ذریعہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے،نئے حالات اور نئے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے ہمیں اپنی مہارتوں کو مزید نکھارنا ہوگا ۔اگر کوئی طالب علم امتحان کے معیار پر کھرا نہ اترے تو کیا معیار کو کم کردیا جائے ۔
سید حبیب الدین، مہاراشٹر،کنوینر ایجوکیشن اسٹریٹجی سیل ایس آئی او آف انڈیا

اگست 2014

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں