سوشل میڈیا : نئے رجحانات

ایڈمن

کچھ ماہ قبل ہم نے سوشل میڈیا، اس کی اہمیت اور اثرات پر گفتگو کی تھی۔پچھلے آٹھ ماہ کے دوران سوشل میڈیا نے زندگی کے ہر میدان میں اپنے ہمہ گیر اثرات مرتب کئے ہیں۔ چاہے وہ نریندر مودی کی الیکشن کے دوران سوشل میڈیا پر جاری مہم ہو یا کئی مشہو ر شخصیات کا سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی رابطہ ہو، امریکہ میں آئیس بکٹ چیلنج ہو، یا اس کا ہندوستانی جواب رائس بکٹ چیلنج ہو، یہ ہر سطح سے لوگوں کو متأثر کررہا ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس میدان میں تبدیلیاں اس قدر تیزرفتار ہورہی ہیں کہ وہ چیزیں جس کا ہم نے ایک یا دو سال قبل مشاہدہ کیا تھا وہ اب مکمل تبدیل ہوگئی ہیں۔ یہ تبدیلیاں ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی ہیں اور لوگوں کے مزاج و اطوار کے معاملے میں بھی۔ اس مضمون کے ذریعے ہم سوشل میڈیا میں جاری کچھ نئے رجحانات کا مطالعہ کریں گے۔
خبروں کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال
سوشل میڈیا کا نیوز کی ترسیل کے لئے ایک مؤثر ذریعے کے طور پر استعمال سال 2014ء کی ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس سے قبل سوشل میڈیا کا استعمال لوگ کسی خبر پر تبصرے کے لئے یا اس کو مزید پھیلانے کے لئے کیا کرتے تھے۔ لیکن اب ایک اہم تبدیلی یہ آئی ہے کہ کئی مواقع پر کسی واقعے کی ترسیل سب سے پہلے سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ہورہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق سوشل میڈیا کے فعال طور پراستعمال کرنے والوں )ایکٹیویوزرز) کی ایک قابل ذکر تعداد (تقریباً14%)نے ازخود کسی واقعہ کے فوٹوز یا ویڈیوز کو شئیر کیا۔ اس نئے رجحان نے جہاں واقعات کی تیز رفتار ترسیل میں مدد کی ہے وہیں اس کے ذریعے یہ بھی ممکن ہوپایا ہے کہ ایسے تمام واقعات جنہیں میڈیا جانے انجانے میں ترسیل نہیں کرتا ان کی بھی اشاعت سوشل میڈیا کے ذریعے ممکن ہوپائی ہے۔ اس سال میڈیسن اسکوائر پر مشہور صحافی راجدیپ سردیسائی کے ساتھ ہوئی ہاتھاپائی کا واقعہ اس بات کی ایک اہم دلیل ہے جس نے معاملے کے دونوں رخ کو بلا کم و کاست سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کردیا۔ سوشل میڈیا میں نیوز کی ترسیل میں اپنے سب سے بڑے یوزر گروپ کے ساتھ ’فیس بک‘ بہرحال ایک اہم رول ادا کررہا ہے لیکن اسی کے ساتھ ’ٹویٹر‘، ’یو ٹیوب‘ ، ’لنکڈان‘ وغیرہ کا بھی کردار اس سلسلے میں کافی اہم ثابت ہورہا ہے۔
خبروں کی اشاعت صرف بڑی خبروں یا معاملات تک محدود نہیں ہے، بلکہ سوشل میڈیا کی اس تیز رفتار ترقی نے چھوٹے مقامات کی ایسی خبروں کی بھی اشاعت میں مدد دی ہے جو عموماً میڈیا میں جگہ نہیں پاسکتے۔ پونے میں ہوئے ایک سافٹ وئیر پروفیشنل کی فرقہ پرست عناصر کے ہاتھوں موت کی خبر نے سوشل میڈیا کے ذریعے ہی نیشنل میڈیا میں اہمیت حاصل کی اور اسی کی بنا پر پورے ملک کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی۔
ٹرینڈ بنانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال
اس بات پر اب لگ بھگ سبھی لوگوں کا اتفاق ہوگیا ہے کہ کسی چیز پر عوامی رائے ہموار کرنے کے لئے سوشل میڈیا اب سب سے مؤثر ٹول کی حیثیت اختیار کرچکا ہے بشرطیکہ اس کا مؤثر استعمال کیا جائے۔ امریکہ میں ہونے والا آئیس بکٹ چیلنج اس کی ایک اہم مثال ہے۔ اے ایل ایس آئیس بکٹ چیلنج دراصل ایک بیماری اے ایل ایس سے متعلق بیداری پیدا کرنے کے لئے شروع کی گئی آن لائن مہم ہے جسے سوشل میڈیا (سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس اور یو ٹیوب) کے ذریعے فروغ دیا گیا۔ اس بیماری پر ریسرچ کے لئے درکار فنڈ کے حصول کے لئے اس چیلنج کو شروع کیا گیا۔لوگ اس مہم میں شامل ہونے کے لئے یا تو ریسرچ فاؤنڈیشن کو امداد دیتے ہیںیا اپنے سر پر سرد پانی کی بالٹی انڈیلتے ہیں۔ اور پھر اپنی طرح کچھ اور لوگوں کو اس مہم میں شامل ہو نے کے لئے چیلنج پیش کرتے ہیں۔ یوٹیوب پر اس طرح کے ہزاروں ویڈیوز موجود ہیں جن کے ذریعے اس مہم کو خوب فروغ حاصل ہوا اور فاؤنڈیشن نے درکار فنڈس جمع کئے۔ اگرچہ بادی النظر میں یہ ایک غیرسنجیدہ عمل لگتاہے اور اس پر بہت زیادہ تنقیدیں بھی کی گئیں (جیسے کہ اس کے ذریعے ہزاروں لوگ خواہ مخواہ لاکھوں لیٹر پانی ضائع کررہے ہیں جس کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔ ) لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فنڈ کے حصول کے لئے انتہائی منفرد طریقہ کار اختیار کیا گیا جس نے لوگوں کی توجہ فوری اپنی جانب مبذول کروالی، اور اس کام کے لئے انہوں نے سوشل میڈیا کا بہت زیادہ مؤثر استعمال کیا۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس چیلنج میں شامل ہونے والی کئی مشہور شخصیات تھیں جیسے بل گیٹس (مائیکروسوفٹ)، مارک زکربرگ(فیس بک)، ستیہ نادیلا (مائیکرسوفٹ کے موجودہ سربراہ) کئی فلمی شخصیات وغیرہ۔
سوشل میڈیا کے ذریعے ٹرینڈ بنانے کے اس عمل کو بعد ازاں خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ ہندوستان میں ہی آئس بکٹ چیلنج کے ردعمل کے طور پرایک ہندوستانی نوجوان نے رائس بکٹ چیلنج کو متعارف کروایا جس میں چیلنج کرنے والا کسی غریب کو چاول سے بھری ایک بالٹی عطیہ دیتا ہے اور اسی طرح کا چیلنج اپنے کچھ اور دوستوں کو پیش کرتا ہے۔ اس مہم نے بھی سوشل میڈیا اور یوٹیوب کے ذریعے خوب فروغ حاصل کیا۔ موجودہ وزیراعظم نریندرمودی سوشل میڈیا کے اس استعمال سے خوب واقف ہیں۔ ’سوچھ بھارت ابھیان‘ کے فروغ کے لئے انہوں نے اسی طریقہ کا استعمال کیا، اور کئی مشہور شخصیات کو نامزدکیا جو اس مہم میں شامل ہورہے ہیں۔
اپریل اور مئی 2014میں ہندوستان میں ہوئے جنرل الیکشن میں موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی تائید میں رائے عامہ کی ہمواری اور نوجوانوں کو متأثر کرنے میں سوشل میڈیا نے جو مؤثر رول ادا کیا وہ بذات خود ریسرچ کا ایک اہم موضوع ہوسکتا ہے۔ الیکشن سے چند ماہ قبل بھی کسی نے یہ اندازہ نہیں لگایا تھا کہ بی جے پی اس قدر واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگی اور کانگریس کی حالت اس قدر خراب ہوجائے گی۔ جہاں اس کے لئے کئی سارے عوامل ذمہ دار ہیں، وہیں سوشل میڈیا کا رول کافی اہم رہا۔ نریندر مودی کے ٹویٹر پر فالو اَرس، ان کے تھری ڈی شوز، گوگل ہینگ آؤٹس کے ذریعے نوجوانوں اور عوام سے براہ راست رابطہ، بی جے پی کے میڈیا سیل کے ذریعے انٹرنیٹ یوزرز اور فیس بک یوزرز تک براہ راست انفرادی پیغام کی ترسیل، مودی کے فیس بک پیج کے ذریعے عوام تک رسائی، اور یوٹیوب اور دیگر ویڈیو سائٹس پر ان کے درجنوں ویڈیو پیامات ان تمام نے مل کے عوام کو اور بالخصوص نوجوانوں کو یہ یقین دلادیا کہ ہندوستان کے سینکڑوں مسائل کا حل نریندرمودی اور بی جے پی کی قیادت میں پوشیدہ ہے۔
جو لوگ ٹویٹر سے واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹویٹر پر ہیش ٹیگ(Hashtag)کااستعمال رجحان کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ جو لوگ ٹویٹر کو اچھی طرح استعمال کرنا جانتے ہیں وہ پوری ذہانت سے انوکھے hashtagتشکیل دیتے ہوئے اپنے موضوع کو وقت کا سب سے اہم موضوع بنادیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کچھ موضوعات ہمیں انتہائی بچکانہ یا غیر سنجیدہ محسوس ہوتے ہیں لیکن وہ ٹویٹر پر سب سے زیادہ بحث کا موضوع بن جاتے ہیں اور اس کے پیچھے اصل وجہ یہی ہوتی ہے کہ کسی نے اس کو انتہائی عقل مندی سے ٹرینڈ بنادیا ۔ کبھی کبھار کوئی اہم واقعہ یا خبر بھی ٹرینڈ کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن بسااوقات کوئی خبر اہم نہ ہوتے ہوئے بھی بحث میں سرفہرست بن جاتی ہے۔ یہ سب سوشل میڈیا پر ٹرینڈنگ کے اثرات ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ٹویٹر پر کسی چیز کا ٹرینڈ بن جانا ازخود اس کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ (اس بات سے قطع نظر کہ وہ چیز صحیح ہے یا غلط ، وہ بحث کا موضوع ضرور بن جاتی ہے)۔ کچھ لوگ اس بات کے بھی ماہر ہوتے ہیں کہ ٹویٹر پر چلنے والے کسی ٹرینڈکا استعمال کرتے ہوئے کمال ہوشیاری سے اپنی کسی دوسری بات کو پیش کردیں۔ یہ تمام باتیں سوشل میڈیا میں مہارت کی متقاضی ہیں۔ لیکن بہرحال یہ بات سمجھنی چاہئے کہ سوشل میڈیا کا ذہانت سے استعمال کرتے ہوئے لوگ اپنے پیغام کی بھر پور انداز میں تشہیر کررہے ہیں۔
مارکٹنگ کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال
ایک ایسے دور میں جب کہ آن لائن مارکٹنگ اور آن لائن شاپنگ وقت کی ایک بڑی حقیقت بن چکے ہیں اور فلپ کارٹ اور امیزان جیسی سائٹس ریٹیل شعبے کی کئی بڑی بڑی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑچکی ہیں، سوشل میڈیا مارکٹنگ اور بزنس کا ایک بڑا میدان بن چکا ہے۔ وہ دن گزرگئے جب سوشل میڈیا کو محض تفریح اور وقت گزاری کے ایک ذریعے کے طور پر جانا جاتا تھا، اب کئی بڑی کمپنیز اپنے سالانہ مارکٹنگ بجٹ میں ایک بڑا حصہ سوشل میڈیا پر خرچ کررہی ہیں۔ آپ میں سے اکثر نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ اب سوشل میڈیا پر اکثر آپ کے پیج پر ایڈس آپ کی پسند اور دلچسپیوں کے مطابق آتے ہیں۔ Suggested Postsوالا فیس بک کا سیکشن اکثر آپ کی دلچسپی سے قریب تر ہوتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ آج کل ہر فرد کی آن لائن پسند، اس کی دلچسپیوں اور اس کے مشاہدات ،پوسٹس وغیرہ پر گہری نظر رکھی جاتی ہے۔ آپ میں سے اکثر نے امیزان یا اس قسم کی کئی دوسری مارکٹنگ سائٹس کا مشاہدہ کیا ہوگا ۔ اگر آپ ایک بار کسی چیز کو وہاں پر سرف(Surf)کریں تب اگلی دفعہ آپ کے یوزر آئی ڈی یا آئی پی اڈریس کی بناء پر وہی چیز یا اس سے ملتی جلتی چیز وہ آپ کو دکھا دے گا۔ یہ تمام چیزیں ممکن ہوپائی ہیں آپ کے آن لائن رجحان (Online behavior)کی ریکارڈنگ کی بنیاد پر۔ اور سوشل میڈیا ان رجحانات کو ریکارڈ کرنے میں بہت زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے لہٰذا کمپنیز اس میدان کی جانب بڑی تیزی سے مائل ہورہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اب یہ بات بھی ممکن ہوپائی ہے کہ کس یوزر نے کس پیج پر کتنا وقت گزارا ہے ، اس نے کیسی معلومات تلاش کی ہیں، کن پیجیس کو کلک کیا ہے ، کن پیجیس کو فوری بند کیا ہے اور کن پیجیس پر اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے ، یہ تمام باتیں ریکارڈ کی جاسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیس بک اگرچہ اپنے عام یوزرز کے لئے اپنی خدمات مفت رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود آج دنیا کی سب سے بڑی کمپنیز میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
انفو گرافکس کا زیادہ سے زیادہ استعمال
یہ بات نوٹ کی جانی چاہئے کہ پچھلے چند ماہ کے دوران تحریر (ٹیکسٹ) کا کم سے کم استعمال اور فوٹوز، ویڈیوز ، کارٹونس وغیرہ (انفو گرافکس) کا زیادہ سے زیادہ استعمال سوشل میڈیا کے ایک نئے رجحان کے طور پر ابھرا ہے۔ اگرچہ کہ یہ بات انسانی فطرت سے سے زیادہ مناسبت بھی رکھتی ہے کہ انسان ٹیکسٹ کے بہ نسبت کسی تصویر ، ویڈیو سے زیادہ متأثر ہوتا ہے۔ لیکن اس رجحان نے سوشل میڈیا پر حالیہ دنوں میں تیزی سے فروغ حاصل کیا ہے۔ اس رجحان کو اسمارٹ فونس کے فروغ نے مزید تقویت دی ہے ۔ آنڈرائڈ فونس کی بڑی تعداد اب مارکیٹ پر قبضہ جماچکی ہے اور ان فونس کے استعمال کنندگان کی ایک بڑی اکثریت انٹرنیٹ ، میلس اور سوشل میڈیا کے استعمال کے لئے فونس کو ترجیح دے رہی ہے۔ Whatsappجیسے موبائل سوشل میڈیا اپلی کیشن کی ایجاد کے بعد موبائل فونس سوشل میڈیا کے لئے سب سے اہم ذریعہ بن چکے ہیں۔ چنانچہ یہ تمام استعمال کنندگان ا س بات کے خواہش مند ہیں کہ وہ انفوگرافکس کی شکل میں سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کو حاصل کریں۔ جو فرد جس قدر انوکھے اور منفرد انداز میں اپنی معلومات کو پیش کرے گا وہ اسی قدر توجہ حاصل کرپائے گا۔ فیس بک پر مقبول عام پیجیس جیسے لوجیکل انڈین ، ڈاکٹر سبرامانیم سوامی وغیرہ ( قطع نظر اس کے کہ وہ کیا نظریات پیش کرتے ہیں) کی مقبولیت کی اہم وجہ یہی ہے کہ وہ اس رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے خیالات کو انفوگرافکس کی مدد سے موثر انداز میں پیش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر کے ساتھ انسٹا گرام جیسی سوشل میڈیا سائٹس کو تیزی سے فروغ حاصل ہورہا ہے جو فوٹوز شئیر کرنے کے تصور پر کام کرتی ہیں۔ سال 2014 کو سیلفی سال بھی کہا گیا۔انٹرنیٹ کی دنیا میں سیلفی سے مراد خود کی لی گئی تصویر ہے۔ اسمارٹ فونس کی آمد کے بعد خود کی تصویر لینے اور انہیں سوشل میڈیا میں پوسٹ کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ بھی اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سوشل میڈیا اب انفوگرافکس کی جانب تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
استعمال کنندگان کے ذریعے معلومات کی تشکیل (User generated contents)
وکی پیڈیا نے آج سے کچھ سال قبل اس نظریے کی بنیاد ڈالی تھی اور آج تک بھی ا س نظریہ کا وہی بانی مانا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وکی پیڈیا اس میدان میں بہت کامیاب بھی ہوا۔ یہ ایک ایساآن لائن انسائیکلوپیڈیا ہے جس پر ہزاروں موضوعات پر ہر قسم کی معلومات موجود ہے اور اس کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہ تمام معلومات مکمل طور پر انٹرنیٹ پر موجود عام لوگوں نے تیار کی ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا نے پچھلے دنوں اس تصور کی ازسرنو تشکیل کی۔ سوشل میڈیا پر نیوز کی ترسیل ہو یا مختلف خبروں اور واقعات پر تبصرہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا آپ کو کئی نیوز اور دیگر سائٹس سے معلومات کو شئیر کرنے کا بھی موقع فراہم کرتا ہے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ سوشل میڈیا پر موجود معلومات کا ایک بڑا حصہ اس کے یوزرز کے ذریعے خود تشکیل دیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بسااوقات یہ معلومات کچھ اس قسم کی ہوتی ہے کہ وہ کسی اور انٹرنیٹ پیج یا کتاب میں بھی نہیں پائی جاتی ہیں۔ ابھی اوپر لوجیکل انڈین پیج کی مثال دی گئی۔ اسی سال شروع کئے گئے اس پیج کی مقبولیت کی دیگر وجوہات میں ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یہ اپنے فالووَرس سے دلچسپ، دل کو چھولینے والی یاسماجی مسائل پر متأثر کرنے والی ویڈیوز، واقعات، تصاویر کو جمع کرتا ہے اور انہیں کے حوالے سے اپنے پیج پر شائع کرتا ہے۔ یہ User content generationکی ایک اچھی مثال ہے۔ اسی طرح آج کل بڑی کمپنیز میں ایک نیا رجحان یہ چل رہا ہے کہ اپنے بزنس کے فروغ یا ریسرچ و ڈولپمنٹ یا کسی اور مقصد کے لئے وہ اپنے نیٹ ورکنگ پیج کے ذریعے کچھ نئے خیالات پیش کرنے کی دعوت عام لوگوں کو دیتے ہیں۔ اور کسی انوکھے اور اچھوتے خیال کو منتخب کرتے ہوئے اس پر عمل آوری کرتے ہیں۔ یہ خیالات عام لوگوں کے ہوتے ہیں اور کسی بھی ویب سائٹ یا کتاب سے ان کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ عام لوگوں کو معلومات کی تخلیق میں سوشل میڈیا نے مشغول کیا ہے، یہ رجحان آج سے چند سال قبل بالکل نہیں تھا اور توقع ہے کہ اس میں مزید ترقی ہوگی۔
سوشل میڈیا سے غلط پروپگینڈہ
اگرچہ کہ اوپر بیان کیے گئے کئی رجحانات میں اس رجحان کی بھی نشاندہی کی جاچکی ہے لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ سوشل میڈیا کے مؤثر استعمال کے ساتھ ساتھ غلط پروپگنڈہ اور ذہنوں کو پراگندہ کرنے کے لئے اس کے استعمال میں پچھلے چند ماہ کے دوران کافی تیزی سے اچھال آیاہے۔ امسال اتر پردیش میں ہوئے فسادات کے دوران یہ بات سامنے آچکی ہے کہ سوشل میڈیا نے واقعہ کو بگاڑنے اور صورتحال کو خراب بنانے میں بڑا خطرناک کردار ادا کیا۔ اس واقعہ کے بعد ملک بھر میں فرقہ وارانہ تصادم اور گڑبڑ کے کئی واقعات تواتر سے پیش آرہے ہیں اور یہ بات قابل تشویش ہے کہ سوشل میڈیا کا کردار اکثر معاملات میں نظر آرہا ہے۔ ماجرا یہ ہے کہ ماضی کے بہ نسبت کسی بھی خبر (چاہے وہ اچھی ہو، بری ہو یا محض افواہ ہو) کی فوری تشہیر سوشل میڈیا کی بنا پر اب کافی آسان ہوگئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسے اکثر معاملات میں انتظامیہ کے نوٹس لینے سے قبل سوشل میڈیا کے ذریعے معاملات مزید بگڑ جارہے ہیں۔
کچھ شدت پسند گروہوں کے بارے میں بھی یہ خبریں مل رہی ہیں کہ نوجوان ذہنو ں کو متأثر کرنے کے لئے وہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے دیگر ذرائع کا استعمال کررہے ہیں۔ غلط فوٹوز، ویڈیوز اور اس قسم کے دیگر مواد کو بآسانی سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلاتے ہوئے ان گروپس کے لئے یہ ممکن ہوپارہا ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں نوجوان ذہنوں کو بآسانی پراگندہ کرسکیں اور انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے آلہ کار بنالیں۔ سوشل میڈیا کے استعمال او ر اس کے نئے رجحانات کا یہ ایک ایسا تاریک پہلو ہے جس پر فوری توجہ اور روک لگانے کی ضرورت ہے۔
سوشل میڈیا زبان کی تشکیل
یہ رجحان اگرچہ نیا نہیں ہے اور یاہو میسینجر کے دور سے انٹرنیٹ پر چیٹ کرنے والوں کی اپنی زبان ہواکرتی ہے جو گرامر، اسپیلنگ اور اس قسم کی دیگر قیود سے آزاد ہواکرتی ہے لیکن پچھلے چند ماہ کے دوران سوشل میڈیا کے تیزی سے فروغ نے اس زبان کو مزید فروغ دیا ہے۔ جو لوگ سوشل میڈیا سے جڑے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ زبان اب سوشل میڈیا سے نکل کر عام بول چال بلکہ بسااوقات سنجیدہ دفتری کام کاج میں بھی استعمال ہونے لگی ہے۔ کئی جگہ شارٹ فارمس کا استعمال، الفاظ کو نئے جامے پہنانا، مختصر الفاظ میں مدعا بیان کرنا وغیرہ اس نئی زبان کی خصوصیات ہیں اور یہی رجحان اب تیزی سے فروغ پارہا ہے۔
فہرست کسی قدر طویل ہے اور یہ مختصر مضمون اس بات کا متحمل نہیں کہ اس موضوع پر بہت تفصیل سے بات کی جاسکے۔ یہ بات بھی ہمارے مدنظر رہنی چاہئے کہ اگرچہ کہ یہ سوشل میڈیا کے نئے رجحانات ہیں جو ہر ایک کو کسی نہ کسی درجے میں متأثر کررہے ہیں لیکن یہ ہر فرد کے استعمال پر منحصر ہے کہ وہ ان نئے رجحانات سے کس قدر متأثر ہورہا ہے۔ بطور مثال سوشل میڈیا نئے خیالات کی تشکیل، نئے لوگوں سے جڑنے اور User generated contentsکی تشکیل میں مددگار ہے لیکن اس کے باوجود یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کنندگان کی ایک بڑی تعداد اپنے چھوٹے چھوٹے گروہوں(ghettos)میں بند ہوتی ہے جنہیں سوشل میڈیا کی اس بڑی اور ہمہ گیر دنیا سے بہت کم تعلق ہوتا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ Online Ghettosحقیقی دنیا سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں جہاں فکر و نظر کی پوری دنیا سوشل میڈیا کے ایک چھوٹے سے دائرہ میں قید ہوجاتی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ کچھ نفرت انگیز گروہ بھی اس میڈیا کے ذریعے بھولے بھالے لوگوں کو گمراہ کرنے میں بھی کامیاب ہورہے ہیں۔
اس تیز رفتار بدلتی دنیا میں اسلام پسند طلبہ کی بڑی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ ان نئے رجحانات کو سمجھیں اور صالح و اعتدال پسند سوچ کو دنیا والوں کے سامنے مؤثر اور قابل رسائی پیرائے میں پیش کریں۔

سید صبغت اللہ حسینی، 
سابق مدیر ماہنامہ رفیق منزل

جنوری 2015

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں