سوشل میڈیا میں خواتین کی دعوتی و سماجی سرگرمی

ایڈمن

ناز آفرین اسلام مرداور عورت دونوں کو مساوی طور پر ایمان لانے اور اُس پر جم جانے کی دعوت دیتا ہے ۔ اِن پر اقامت دین کی انفرادی و اجتماعی ذمہ داری عائد کرتا ہے ۔ ایمان لانے،اس پر عمل…

ناز آفرین


اسلام مرداور عورت دونوں کو مساوی طور پر ایمان لانے اور اُس پر جم جانے کی دعوت دیتا ہے ۔ اِن پر اقامت دین کی انفرادی و اجتماعی ذمہ داری عائد کرتا ہے ۔ ایمان لانے،اس پر عمل کرنے ، تبلیغ و اشاعت اوراپنے رب کے حضور اعمال کی جواب دہی کے لیے دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں ۔ان میں سے نہ کوئی ایک دوسرے کے لیے نجات کا باعث بن سکتے ہیں۔ نہ ہی کسی کی خدمات کا حوالہ دے کر راہِ فرار حاصل کرنے کی گنجائش ہے ۔قرآن مجید میں دعوت کا لفظ انسانوں کو حق کی طرف،سچائی کے لیے،اللہ کی جانب بلانے کے لیے استعمال ہوا ہے۔قرآن پاک کہتا ہے۔ ـــ’’اے نبی ﷺ اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دوحکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔‘‘(النحل:25 )


اس وقت سوشل میڈیا میں خواتین کی حصہ داری تقریباً مردوں کے برابر ہے۔مختلف ممالک میں استعمال کنندگان کی تعداد مختلف ہے ۔بعض کا خیال ہے کہ چند مخصوص سائٹس پر خواتین زیادہ سرگرم ہیں۔مثلاًفیس بک ،انسٹاگرام اور یو ٹیوب ۔سوشل میڈیا میں خواتین کی یہ سرگرمی کسی بڑی تبدیلی کی مثال بن سکتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا خواتین کی یہ فعالیت منظم اور با مقصد ہے ؟ان مقاصد کے کچھ بہتر نتائج سماج میں مرتب ہو رہے ہیں ؟سوشل میڈیا میں خواتین کی سرگرمی کتنی ضروری ہے ؟ویمن اینڈویب اسٹڈی کی رپورٹ کے مطابق جملہ 150ملین انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں 60 ملین خواتین ہیں ۔ اس تحریر میں خواتین کا رول کیا ہو؟ وہ کس طرح دعوتی کاموں کے لیے موجودہ دور میں میڈیا کا استعمال کر سکتی ہیں ، اس حوالے سے گفتگو مقصود ہے۔ان سوالات کے جواب تلاش کریں تو معلوم ہوتا ہے یہ دنیا نعمتوں سے بھری پڑی ہے ۔

سوشل میڈیا کا استعمال بھی خواتین بطور نعمت ساری دنیا سے جڑنے کے لیے کر سکتی ہیں ۔ سماجی تبدیلی میں خواتین کا رول ہمیشہ موثر ثابت ہو ا ہے۔ اس لحاظ سے مسلم خواتین اور بالخصوص مسلم طالبات حالات حاضرہ سے استفادہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا کو بہ طور پلیٹ فارم استعمال کرسکتی ہیں۔وہ دعوتی،تعلیمی و سماجی خدمات انجام دیں ۔ سوشل میڈیا نے گویا انسانی خدمات کا کام اپنے ذمے لے لیا ہے ۔ امریکہ میں ہر دس میں سے آٹھ افرادانٹرنیٹ کے ذریعہ شادی کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہر دس میں سے پانچ طلاق کی وجہ بھی مختلف سائٹس پر نامحرموں سے بیجا تعلقات اور دوستی ہے۔ اگر مذکورہ اعداد وشماراس طرح ہو جائیں کہ دس میں سے تین افراد سوشل میڈیا میں دی جانے والی دعوت دین کی وجہ سے اسلام قبول کررہے ہیں اور یہ تعداد بڑھتی جائے تو اس کے زبردست نتائج سامنے آئیں گے ۔

مسلم خواتین و طالبات فیس بک، ٹیوٹر اور انسٹاگرام وغیرہ میں خالصتاً دعوتی و سماجی تبدیلی کے اغراض و مقاصد کوپورا کرنے کے لیے سرگرم رہ سکتی ہیںبشرطیکہ منصوبہ بند طریقے سے منظم انداز میں کام کریں ۔جو خواتین ان کاموں میں لگی ہوئی ہیں انہیں اس تعلق سے پوری حکمت عملی طے کرنے میں کلیدی اور فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔بعض دفعہ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا میں اکائونٹ تو دعوتی و تنظیمی کاموں کے لیے بنایا گیا، بعد میں مقصدصر ف تفریح ،پوسٹ شیئر کرنااور فرینڈ لسٹ میں اضافہ کرنا رہ گیا۔ یہ اپنے وقت کے ضیاع کے ساتھ ساتھ دوسروں کے وقت کا بھی ضیاع ہے۔ ہمارے ذہن و دل میں اگر ہمہ دم یہ خیال غالب رہے کہ اپنے وقت کا حساب دینا ہے ۔اپنے مال کی باز پرس ہونی ہے اور اپنے جسم کے استعمال پر سوال کیا جائے گا تو ممکن ہے خواتین بے مقصد کاموں سے اجتناب کریں۔ دراصل سماجی رابطے کی ان ویب سائٹس پر بہت محتاط ہوکر کام کرنے کی ضرورت ہے اور جب کوئی خاتون ہوں تب اور بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایک سروے کے مطابق اسمارٹ فون استعمال کرنے والے لڑکے یا لڑکیاں ایک دن میں کم از کم دو گھنٹے سوشل میڈیا میں صرف کرتے ہیں ۔ یہ اوقات تبلیغ اسلام کے لیے استعمال ہو رہے ہیں تو قابل مبارکباد ہیں ۔اگر ایسا نہیں ہے تو یاد رہے خدا کے حضور اپنے اچھے برے کاموں کا پورا پورا حساب دینا ہے ۔ اللہ کے یہاں سخت بازپرس ہو سکتی ہے ۔

ایسی خواتین جو سوشل میڈیا میں حد درجہ ایکٹیو ہیں ،ان کی سرگرمی اسلامی ، سماجی و تعلیمی نوعیت کی ہونی چاہئے ۔بلا ضرورت انٹرنیٹ سرفنگ مثلاً بلا تحقیق پوسٹ شیئر کرنا ،تصاویر فارورڈ کرنا، لائک اور شیئر کا بٹن دبانا، ویڈیوزاور ہنسی مذاق کی چیزوں کو پھیلانا ایک داعی حق کے لیے نامناسب عمل ہے۔ اس کے برے اثرات ماتحتوں پر پڑتے ہیں ۔ خواتین و طالبات اپنے بلند او ر اعلی اخلاق سے وطنی بہنوں میں بہت اچھے اثرات مرتب کر سکتی ہیں ۔خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتی ہوں ۔ اس وقت سوشل میڈیا کے توسط سے مسلم اور غیر مسلم دونوں میں اشاعت دین کی ضرورت ہے ۔ اس کاز کے لیے خواتین کو کن محاذ پر اور کیسے دعوتی و سماجی خدمات انجام دینے ہیں اس کا گہر ا شعور ناگزیر ہے ۔


سوشل میڈیا میں خواتین کی فعالیت کی احتیاطی تدابیر اور سرگرمیاں

  • سوشل میڈیا میں خواتین و طالبات کی موجودگی اہل خانہ کے علم میں ہونی چاہئے۔
  • سوشل میڈیا اکائونٹ Createیا Openکرنے کے لیے اپنے ای میل کا استعمال کریں۔ ایک سے زائد ای میل وغیرہ سے بچنا چاہئے۔
  • اکائونٹ بنانے کے دوران شخصی معلومات بقدر ضرورت ہی شیئر کریں۔
  • دعوتی کام کا آغاز دوستوں اور رشتے داروں سے ہو۔
  • میڈیا میں تمام قسم کی سرگرمیوںکے درمیان ہمارا مشن اور وژن دونوں واضح ہوں ۔ ایسا نہ ہو کہ دین کی اشاعت کی غرض سے میڈیا کا استعمال کرنے والی خواتین اور طالبات بے معنی تفریح کی اسیر ہوکر رہ جائیں اور اصل مشن فراموش ہوکر رہ جائے۔
  • پہلے ہی اپنا ہدف طے کر لیں کہ میڈیا میں کب ،کیسے اور کتنوں دنوں یا مہینے میں کتنی خواتین و لڑکیوں کے درمیان دعوت دین کا پیغام پہنچانا ہے۔ایک وقت میں ایک ہی پلیٹ فارم پر دعوتی کوشش کی جائے۔
  • جن خواتین سے دعوتی و سماجی ایشوز پر گفتگو ہو رہی ہے ان سے مستقل رابطے میں رہیں۔
  • یہ بھی بہتر ہے کہ اپنے اکائونٹ میں محرم رشتوں کو شامل کریں ، تاکہ محافظت کا تصور برقرار رہے۔
  • سوشل میڈیا میں خواتین و طالبات کی سرگرمیاں صرف اللہ کے بندوں تک اللہ کے دین کو پہنچانے کی غرض سے ہو۔


خواتین کے مختلف مسائل پر دنیابھر میں مباحثے چل رہے ہیں ۔ ان میں اسلام مخالف طاقتیں یہ باور کرانے کی پرزور کوششیں کر رہیں ہیں کہ اسلام عورتوں کے ساتھ ظلم و ناانصافی کرتا ہے ۔ ایسے میں مسلم خواتین موقعہ کی مناسبت سے مدلل انداز میں اسلام کی عائد کردہ تمام تر عنایات،حقوق اور آزادی کا تصور پیش کر سکتی ہیں ۔ اس کے لیے وہ خود اپنی ذات کو بھی بطور نمونہ پیش کر سکتی ہیں ۔یہ بھی ممکن ہے صحیح اور مدلل انداز کے باوجود کسی کو غلط فہمی ہو جائے یا مخاطب کار بیہودہ اور ناگوار انداز اختیار کر لے۔ ان حالات میں بھی داعیات صبر ،تحمل اور حکمت سے کام لیں ۔ بات بالکل بھی بنتی نظر نہ آئے تو ایسے لوگوں سے خاموشی کے ساتھ کنارہ کشی اختیار کر لیں۔


دعوت دین کے کام میں داعیات کے لیے ضروری ہے کہ ہندستان کے مختلف مذاہب سے واقفیت ہو۔ خاص طور سے ہندوازم،عیسائیت اور بدھ ازم کے لیے گہرا مطالعہ ناگزیر ہے۔ وقتاً فوقتاً اس موضوع پر مدلل انداز میں مباحثوں میں حصہ لیں۔ بین الالقوامی مذاہب کا تقابلی مطالعہ بھی سود مند ثابت ہوگا۔ جہیز، خدمت خلق، خودکشی، تعلیم کے مقاصد، خوبصورتی کا معیار ، نکاح ، طلاق، وراثت، جنین کشی، خواتین میں فیصلہ سازی کی سمجھ، گھریلو جارحیت اور عورتوں کے حقوق کی نفاذ کی صورتیں ایسے موضوعات ہیں جن پر مسلم خواتین کو ہر طرح سے کام کرنا چاہئے ۔اسلام کے حوالے سے غلط فہمیوں کی وجہ سے اکثر اس طرح کے سوالات پوچھتے ہیں ۔ صرف اسلام کی ہی پیروی کی کیوں کی جائے ؟ کیا اسلام تلوار سے پھیلا؟ کیا مسلمان کعبہ کو پوجتے ہیں ؟مسلمان جیو ہتیا (گوشت خوری)کیوں کرتے ہیں؟ مسلمان روایتی اور دقیانوس کیوں ہیں ؟ مسلمان غنڈہ گردی کرتے ہیں ؟ موت کے بعد کی زندگی کو کس نے دیکھا ہے؟ مسلم مرد ایک سے زیادہ یا چار شادیاں کیوں کرتے ہیں؟ چار شادی عورتوں پر ظلم ہے؟پردہ عورتوں پر جبر کی علامت ہے ؟ مسلمان فرقوں میں کیوں بنٹے ہیں ؟کون سا فرقہ سب سے اچھا ہے ؟ غیر مسلموں کوکعبہ میں داخلے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟آریہ سماجی کہتے ہیں: اللہ معاف کیوں کرتا ہے ۔کیا یہ انصاف کے خلاف نہیں ہے؟ عیسائیوں کے بیشتر سوالات قرآنی احکامات پر مبنی ہوتے ہیں ۔ہر نبی کی شریعت میں تبدیلی کیوں ہے ؟ مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں؟ایک اللہ کی پوجا کیوں کرتے ہیں ؟


یہ چند ایسے سوالات ہیں جن کے جواب داعیات کو معلوم ہونے چاہئیں۔ان میں سے کچھ کے جواب بروقت نہ دئیے جا سکیں تو احسن طریقے سے دوسرے وقت پر جواب دینے کی کوشش ہونی چاہئے۔اس ضمن میں اکائونٹ اکسیس سے پہلے کچھ تیاری کر لیں تاکہ سوال کرنے والی خواتین کے جواب ذہن میں محفوظ رہیں۔سوشل میڈیا میں دعوتی و سماجی خدمات کے لیے چند معروف خواتین سرگرم عمل ہیں ۔ان سے واقفیت مفید ہوگی۔


ڈاکٹر فرحت ہاشمی: ڈاکٹر فرحت ہاشمی دعوتی و اصلاحی کاموں میں خواتین کے درمیان مسلسل کوشاں ہیں ۔وہ اسلامیات میں پی ایچ ڈی ہیں اور انٹرنیشنل اسلامک یو نی ورسٹی ،اسلام آباد میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ ان کے فالووَرس کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان کا یو ٹیوب چینل خواتین کے درمیان سماجی و دینی بیداری کا باعث ہے ۔ وہ جدید ٹکنالوجی کا استعمال مثبت انداز میں کر رہی ہیں ۔ ان کی کوششوں سے خواتین و طالبات بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں ۔


ذکیہ بتول نجفی: ان کا تعلق بھی پاکستان سے ہے ۔ ان کا شمار بین الاقوامی سطح پر معروف اسلامی اسکالروں میں کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے مجموعی طور پر خواتین کے ایشوز کو اپنا موضوع دلچسپی بنایا ہے ۔ اسلامی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے پوری دنیا میں اسلامی اقدار کو پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ خواتین کے درمیان پائی جانے والی اوہام پرستی اور تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے میں کوشاں ہیں ۔


عائشہ لیمو:1961میں اسلام قبول کرنے کے بعد تبلیغ اسلام کو انہوں نے اپنا مشن بنا لیا۔ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر انہوں نے اسلامک فائونڈیشن ٹرسٹ،نائجیریامیں قائم کیا ۔ زمینی سطح پر کام ،ان کی انفرادیت ہے ۔ عائشہ نے ایک داعیہ اور مصنفہ کی حیثیت سے تعلیم ،تہذیب و ثقافت اور اسلامیات پر درجنوں کتابیں لکھی ہیںاور خواتین کے درمیان کام کو اپنا ہدف بنایا۔ مختلف مذاہب کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ میں انہیں عبور حاصل ہے۔


جمیلہ حنان: یہ برطانیہ کی ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے معروف ہیں۔ انہوں نے انسانی حقو ق کی پامالی کے خلاف بڑے ہی منظم انداز میں ٹیوٹر پر مخالفت کی ہے ۔ مشرق وسطیٰ، فلسطین ،بحرین، یمن اور میانمار میں ان کی کوششوں سے فنڈ اکٹھا کرنے میں کافی کامیابی ملی ہے ۔ انسانیت کو پامال ہونے سے بچانے میں اس خاتون نے بے خوف قدم اٹھائے ہیں اور کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں۔


منال الشریف: ان کا تعلق سعودی عرب سے ہے ۔ یہ صحافی ،مصنفہ اور سماجی کارکن کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں ۔انہوں نے سعودی عرب میں خواتین پر کار ڈرائیو کرنے پرپابندی کی پر زور مخالفت کی ۔جس وجہ سے حکومت نے انہیںقید بھی کیا، باوجود اس کے وہ اپنے موقف پر ڈٹی رہیں ۔ خواتین پر ظلم و تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے میں ان کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔


جنی جہاد تمیمی:اس تیرہ سالہ بچی کا تعلق فلسطین سے ہے ۔ اپنے خاندان والوں کو ہلاک کیے جانے پر اس نے اسرائیلی فوجیوں کے خلاف مورچہ کھول دیا۔ اس دستاویز جمع کیے اور دنیا کے سامنے ان کے مظالم لائیں ۔ تمیمی اسرائیلیوں کے ظلم و بربریت کے ویڈیوز وغیرہ سوشل میڈیا میں اپلوڈ کرتی رہتی ہیں ۔ فی الوقت وہ فلسطین کی سب سے کم عمر صحافی مانی جاتی ہیں ۔

NAAZ AAFREEN
Research Scholar
Ranchi University, Ranchi
Email:[email protected]

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں