۱کیسویں صدی کے ٹکنالوجی انقلاب نے دنیا پر کئی اثرات مرتب کئے۔ ان مثبت اور منفی اثرات سے دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ متأثر ہوا ہے۔ سیاسی ، سماجی اور معاشی سطح پر یہ اثرات اس قدر ہمہ گیر ہیں کہ اس سے کوئی مستثنیٰ نہیں ہے۔ ٹکنالوجی اور انٹرنیٹ کے اس عظیم انقلاب کا ایک بڑا پہلو سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا ، اس کے بڑھتے چلن اور نوجوان نسل پر اس کے وسیع تر اثرات آج کل ریسرچ کا ایک اہم موضوع بن گئے ہیں۔ اس مضمون میں انہیں اثرات کو سامنے لانے نیز سوشل میڈیا کے مختلف پہلو ؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سوشل میڈیا میں ہمارے رول اور اس میں کام کرنے کی حکمت عملی پر کسی اور مضمون میں بات کی جائے گی۔
سوشل میڈیا کیا ہے؟
سوشل میڈیا انٹرنیٹ سے جڑا ایک ایسا نیٹ ورک ہے جو افراد اور ساتھ ہی اداروں کو ایک دوسرے سے مربوط ہونے، خیالات کا تبادلہ کرنے ، اپنے پیغام کی ترسیل کرنے اور ساتھ ہی انٹرنیٹ پر موجود دیگر کئی چیزوں (جیسے گرافکس، ویڈیوز، آڈیوز، پوسٹرس وغیرہ) کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں اس میں تیز رفتار ترقی ہوئی ہے اور اب انٹرنیٹ نوجوانوں کی بڑی تعداد کی دلچسپی کا محور و مرکز بن چکا ہے۔ گوگل اس میدان میں موجد کی حیثیت رکھتا ہے جس نے اپنے دو مقبول سائٹس یو ٹیوب اور آرکٹ(Orkut)کا آغاز کیا تھا۔ فیس بک کے آغاز کے بعد اس کی بڑھتی مقبولیت کی بناء پر Orkutمیں نوجوانوں نے دلچسپی کھودی اور فیس بک دھیرے دھیرے اس میدان کا لیڈر بن گیا ۔ لیکن اب گوگل کی نئی سروس گوگل پلس اس میدان میں نئی جست لگانے کی تیاری کررہی ہے۔ فیس بک کے علاوہ اسی دوران کئی اور سائٹس اس میدان میں داخل ہوئیں جیسے Twitter، My Space، LinkedIn، وغیرہ۔ آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سائٹس میں facebook، یوٹیوب اورTwitterکا شمار ہوتا ہے۔
مقبولیت کی وجوہات
یہ ایک لازمی سوال ہے کہ سوشل میڈیا کی اس مقبولیت کی وجوہات کیا ہیں؟ جس رفتار سے اس نے ترقی کی اور نوجوان نسل سے آگے بڑھتے ہوئے ہر عمر کے لوگوں کو اپنی جانب راغب کیا ، اس قسم کے اثرات کسی اور ٹکنالوجی یا ایجاد کے ذریعہ کبھی مرتب نہیں ہوئے۔
مفت استعمال:تقریباً تمام سوشل میڈیا سائٹس مفت ہیں۔ ان سائٹس کے استعمال کنندگان کو کسی قسم کی کوئی قیمت ادا نہیں کرنی پڑتی ہے۔ کچھ سائٹس جیسے LinkedInمعمولی قیمت پر Premium خدمات بھی فراہم کرتی ہیں لیکن اس قسم کی سائٹس کو استعمال کرنے والے لوگ محدود ہیں اور ان کے استعمال کرنے والے بھی مخصوص قسم کے لوگ ہوتے ہیں، جیسے LinkedIn پروفیشنل نیٹ ورکنگ سائٹ مانی جاتی ہے۔بقیہ تمام بڑی سائٹس جیسے فیس بک، Twitter وغیرہ مفت خدمات پر یقین رکھتی ہیں۔
ہر قسم کی ٹکنالوجی پر نیٹ ورکنگ سہولیات:ٹکنالوجی کے اس تیز رفتار دور میں جبکہ انٹرنیٹ تک رسائی کافی آسان ہوگئی ہے اور 3Gنیٹ ورکس کی بدولت موبائل آلات پر بھی تیزرفتار انٹرنیٹ میسر ہے، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس نے بھی اپنے آپ کو اس رفتار سے ہم آہنگ کیا۔ پرسنل کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ سے لے کر ٹیبلیٹ اور چھوٹے موبائل فونس تک ہر جگہ یہ سائٹس موجود ہیں اور ہر جگہ ایک ہی طرح ظاہر ہوتے ہیں (Look and feel)۔موبائلس پر ان سائٹس کی موجودگی نے ان سائٹس کو مقبول بنانے او ران کے تیزرفتار پھیلاؤ میں بڑی مدد کی ہے۔
آسان استعمال:ان تمام سائٹس کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ ان کا آسان استعمال ہے۔ فیس بک، Twitter،یو ٹیوب، گوگل وغیرہ نے اس بات کو کافی اہمیت دی ہے کہ ان کے استعمال کرنے والے کسی بھی عمر، نسل اور علاقے کے ہوسکتے ہیں، اس لئے انٹرنیٹ سے ان کی واقفیت یکساں نہیں ہوگی۔ انٹرنیٹ پر ترسیل کے دیگر ذرائع جیسے ای میلس، بلاگس، ڈسکشن بورڈس وغیرہ استعمال کرنے کے لئے کچھ معلومات درکار ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس نے اپنے آپ کو کچھ اس طرح ڈیزائن کیا ہے کہ انٹرنیٹ کے ان بنیادی تصورات سے ناواقف یا کم واقفیت رکھنے والا شخص بھی ان سائٹس کا کچھ نہ کچھ استعمال ضرور کرسکتا ہے۔ Twitterنے اپنے مختصر میسیج کی سہولت کے بناء پر سیاست دانوں، فلمی اداکاروں، سماجی کارکنوں وغیرہ میں بڑی تیزی سے مقبولیت حاصل کرلی ہے۔
نئے لوگوں سے ملنے کا موقع: یہ سائٹس نئے لوگوں سے ملنے، ان سے دوستی کرنے ، ان کے پیغامات دیکھنے اور ان پر تبصرہ کرنے جیسی کئی سہولیا ت فراہم کرتی ہیں۔ فیس بک اس معاملے میں کافی حساس واقع ہوا ہے اور وہ لوگوں کو اپنی دلچسپی، مصروفیات وغیرہ کی مناسبت سے ہم مذاق لوگوں سے خود بخود جوڑ دیتا ہے۔ نوجوان نسل میں اس چیزنے کافی مقبولیت حاصل کی اور انھیں اصل دنیا (Real world)کے بالمقابل یہ دنیا کافی پرکشش محسوس ہوئی جہاں آپ بوریت کا شکار ہوئے بناء اپنے ہی طرح کے لوگوں کے درمیان اپنا وقت گزار سکتے ہیں۔
خیالات شیئر کرنے کے وسیع تر مواقع: ٹکنالوجی کے اس دور میں ان تمام سائٹس نے کوشش کی کہ ہر اس ٹکنالوجی تک لوگوں کو پہنچایا جائے اور اس کو ان سائٹس پر استعمال کرنے دیا جائے جو انٹرنیٹ پر عام لوگوں کے لئے موجود ہیں۔ چنانچہ صرف Textual Postsہی نہیں بلکہ تصاویر، گرافکس، کارٹونس، ویڈیوز وغیرہ ہر چیز آپ پیش کرسکتے ہیں۔ آپ جن چیزوں کو پسند کرتے ہیں وہ دوسروں تک پہنچاسکتے ہیں جیسے کوئی سائٹ، کوئی نیوز، کسی یونیورسٹی کا اڈمیشن بروچر، کسی مضمون پر تبصرہ، کسی معاملے پر اپنے ساتھیوں سے رائے لینا یا اس کو ووٹ کی شکل میں حاصل کرنا، ہم آہنگ لوگوں کے ساتھ انٹرنیٹ پر آن لائن گیمس میں حصہ لینا، کسی اور کی کسی بات کو پسند یا ناپسند کرنا یعنی اپنی رائے کا اظہار کرنا، غرض ہر وہ چیز جس کے ذریعے انسان اپنے سماجی رویہ کا اظہار کرتا ہے وہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس نے جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔
بڑے نیٹ ورک کی موجودگی: یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں ان سائٹس کی مقبولیت اور ان سے جڑے لاکھوں لوگوں کی موجودگی نے زبانی تشہیر اور تجسس کی بناء پر کئی اور لوگوں کو ان کی جانب متوجہ کیا ہے، جس کی بناء پر ان کے پھیلاؤ کی رفتار کئی گنا بڑھ گئی۔
سوشل میڈیا کے اثرات
سوشل میڈیا کے اثرات پر آج کل ہر جگہ بات کی جاتی ہے۔ یہ اثرات اس قدر وسیع او ر واضح ہیں کہ ہر کوئی ان کا مشاہدہ بآسانی عام زندگی میں بھی کرسکتا ہے، ان اثرات کی وضاحت کے لئے ایک طویل مضمون درکار ہے۔ کچھ اہم اور بنیادی قسم کے اثرات ذیل میں درج کئے جارہے ہیں:
خبروں کا پھیلاؤ: سوشل نیٹ ورکنگ آج کل کسی بھی قسم کی خبر یا اطلاع کی اشاعت کا بہت بڑا ذریعہ بن چکی ہے۔ یقیناًان خبروں کی صداقت یقینی نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہونے والا کوئی بھی واقعہ سوشل میڈیا کے ذریعے سیکنڈوں میں دوسری جگہ پہنچ جاتا ہے۔ مصر کے انقلاب کے دوران جبکہ ہر قسم کی اطلاعات کی ترسیل پر مبارک حکومت نے سخت پابندی عائد کررکھی تھی، سوشل میڈیا نے انقلاب کے واقعات دنیا تک پہنچانے میں کافی اہم رول ادا کیا۔ سوشل میڈیا کی غیر موجودگی میں شائد دنیا مصری انقلاب سے کما حقہ واقف نہیں ہوسکتی تھی۔ پچھلے دنوں مظفر نگر میں ہوئے فساد سے قبل سوشل میڈیا پر چند فرقہ پرست عناصر کے ذریعے پھیلائی گئی افواہوں اور ویڈیوز نے نفرت پھیلانے اور فساد کی آگ بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
آپس میں تبادلہ خیال:ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرنے اور جڑنے کا موقع فراہم کرنا سوشل میڈیا کا ایک اہم مقصد ہے۔ اس میدان میں سوشل میڈیا کی کامیابی قابل دید ہے۔ ایک دوسرے سے مستقل ربط برقرار رکھنے کی سبیل جو سوشل میڈیا نے فراہم کی ہے، دنیا میں لاکھوں لوگ اس کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔ کئی پرانے دوستوں کو جوڑنے کا کام اس نے انجام دیا ہے اور اس سے متعلق کئی کہانیاں ہمیں انٹرنیٹ پر نظر آتی ہیں۔
ایک نئی زبان اور ایک نئے روئیے کا جنم:سوشل میڈیا نے ایک نئی زبان کو جنم دیا ہے۔ لمبی تقریروں یا لمبے مضامین کے بجائے آسان اور سہل انداز اور کم از کم الفاظ میں اپنی بات کو ادا کرنے کا ہنر سوشل میڈیا نے بہتوں کو سکھایا ہے۔ بالخصوص Twitterا س معاملے میں اپنی جداگانہ پہچان رکھتا ہے۔ چبھتے تبصرے، تیکھے جواب اور ذومعنیٰ بیانات یہ ٹویٹرکے پیغام)ٹویٹس)کا خاصہ ہیں۔ جو لوگ ٹویٹر پر متحرک ہیں اوراس کا استعمال جانتے ہیں وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ سوشل میڈیا پر الفاظ سے کیسے کھیلا جاتا ہے اور لوگ اپنے پیغام کو کس ذہانت سے پیش کرتے ہیں۔ اور معاملہ یہیں تک محدود نہیں ہے۔ نوجوان نسل نے اس زبان کو اپنی پوری زندگی تک وسعت دے دی ہے۔ چنانچہ کم و بیش اسی زبان کا استعمال اب آپ کالج کے کینٹینس سے لے کر دوستوں کی گپ شپ کی محفلوں تک پائیں گے۔ انگریزی الفاظ جیسے LOL، BUZZ، اب صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں ہیں بلکہ ہر جگہ یہ اب اپنی جگہ بناچکے ہیں۔
پروپیگنڈہ کا وسیع اور آسان تر ذریعہ: سوشل میڈیا آج کل کسی بھی بڑی تنظیم (سیاسی، سماجی وغیرہ)کے لئے اپنے پیغام کی وسیع تر اشاعت کا ایک بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ یہ پیغام صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔ سوشل میڈیا کی پروپیگنڈہ ٹول کی حیثیت سے پہچان مسلمہ بن چکی ہے۔ خود ہندوستان میں کئی سیاسی جماعتوں نے اس کا مؤثر استعمال کیاہے۔ زعفرانی جماعت کے وزارت عظمیٰ کے دعویدار کے بارے میں کئی رپورٹس آچکی ہیں کہ کس طرح انھوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی مصنوعی لہر کو پیدا کیا اور کچھ اس طرح پیدا کیا کہ ہر کسی کو وہ حقیقت نظر آنے لگی۔ حکمراں جماعت کانگریس بھی اس معاملے میں گرچہ کہ قدرے پیچھے ہے لیکن ان کی ٹیم بھی زور شور سے جٹی ہوئی ہے۔ ہندوستان کی ایک ریاست میں ترقی کے دعوؤں کو تقویت دینے اور اس کو نوجوان نسل تک پھیلانے میں سوشل میڈیا نے کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔کسی غیر جانبدا ر شخص کی رائے پر اثرانداز ہونے، اس کے مزاج کی تشکیل اور اس کے ذریعے سیاسی وسماجی معاملات پر رائے قائم کرنے میں اس کی مدد یہ سب کچھ آج سوشل میڈیا کے بدولت ممکن ہوپایا ہے۔
بڑے گروپ تک رسائی: سوشل میڈیا کی مدد سے آج یہ بھی ممکن ہوپایا ہے کہ سیکنڈوں میں ایک بڑے گروپ تک بآسانی رسائی ہوجائے۔ فیس بک کے گروپس، یو ٹیوب کے ویڈیوز اور ٹوئٹر پر Followers کی بڑی تعداد یہ تمام چیزیں پیغام کی بڑے گروپ تک رسائی میں مدد دیتی ہیں۔ اس لئے سوشل میڈیا پر جو کچھ بھی لکھا جاتا ہے اس میں یہ بات پیش نظر ہوتی ہے کہ اس کی رسائی کن لوگوں تک اور کتنے لوگوں تک ہوپائے گی۔
عوامی رجحان کی تشکیل: Twitter اور فیس بک پر رجحانات (Trends) کی موجودگی کسی معاملے پر کسی مخصوص علاقے یا لوگوں کے عمومی رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ HashTagجو ٹویٹر کی ایجاد ہے ، نے رجحانات کو پہچاننے میں بڑی مدد فراہم کی ہے۔ کسی اشو پر جو Hashtag سب سے زیادہ استعمال میں ہو، اسے سوشل میڈیا سائٹس سب سے بڑا رجحان قرار دیتی ہیں، اور یہ رجحان سائٹ پر موجود افراد کی عمومی رائے کی عکاسی کرتا ہے۔
سیکھنا اور علم کی ترسیل: سوشل میڈیا کئی اشوز اور امور پر لوگوں کو سیکھنے اور نئی معلومات کے حصول کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ کئی چیزیں جن پر انسان کی عموماً دلچسپی نہیں ہوتی یا جن کو وہ نہیں پڑھ پاتا، سوشل میڈیا کی بدولت ایسی چیزوں کو وہ پڑھ لیتا ہے اور پھر اس کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ یہ رویہ افراد کی علمی قابلیت اور معلومات میں اضافے کا بھی باعث بنتا ہے۔
کچھ اہم پہلو
سوشل میڈیا سے تعلق کے ضمن میں کچھ اہم پہلو پیش نظر رہنے چاہئیں:
کس سے تعلق رکھا جائے؟
سوشل میڈیا میں تعلقات کی نوعیت کئی اقسام کی ہوتی ہیں۔ جہاں ٹوئیٹر پر آپ کسی کو Followکرتے ہیں یا کوئی آپ کو Follow کرتا ہے وہیں فیس بک پر فرینڈشپ، پیج لائیک، گروپ ممبرشپ اور Followکرنے سے تعلق کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح یو ٹیوب جیسی سائٹس پر اگرچہ کہ اس طرح کا کوئی اظہار نہیں ہوتا لیکن آپ کن ویڈیوز کو دیکھتے ہیں اور کن چینلس کو Followکرتے ہیں وہ آپ کی دلچسپی کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ہم کس کو Followکریں یا کس سے تعلقات بنائیں اس سے متعلق ہمارے تصورات واضح رہیں۔ فیس بک جیسی سائٹس پر نقلی فرینڈشپ درخواستوں کے ذریعے کسی فرد کی سرگرمیاں معلوم کرنے کی وارداتیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ اسی طرح آپ کے فرینڈس اور آپ کے پیج لائیکس کی مناسبت سے فیس بک آپ کو اسی طرح کی چیزیں پیش کرتا ہے۔ ہمارا رویہ اس سلسلے میں محتاط رہنا چاہئے۔ جہاں بڑی فرینڈ لسٹ آپ کے پیغام کو کئی لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنتی ہے وہیں اس میں غیر محتاط رویہ مسائل کا باعث بھی بنتا ہے۔
کیا پوسٹ کیا جائے؟
یہ بات بھی کافی اہمیت کی حامل ہے کہ آپ کس قسم کے پوسٹ سوشل میڈیا پر ڈالیں یا آپ کا پیغام کس قسم کا ہو۔ جہاں مختصر اور بامعنیٰ پوسٹ منٹوں میں سینکڑوں لوگوں تک پھیل جاتا ہے وہیں آپ کا پیغام اگر بڑا ہو اور بامعنی نہ ہو تب اپنی افادیت کھودیتا ہے۔ ایک ساتھ کئی پوسٹ کرنا یا دوسرے الفاظ میں Spammingکرنا بھی آپ کے پوسٹ کو بے معنی بنادیتا ہے اور لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے۔ آج کل سوشل میڈیا پر اپنی ہر سرگرمی کی اطلاع دینے کا رجحان بھی نظر آرہا ہے۔ اس قسم کے پوسٹس پر عموماً توجہ نہیں دی جاتی۔ بات مختصر اور بامعنی کی جائے ۔
پوسٹ کا Contentsکیسا ہو؟
سوشل میڈیا پر بالعموم صرف8%لوگ ہی ہوتے ہیں جو Contentsبناتے ہیں، بقیہ تعداد عموماً اس کو شیئر کرنے یا پھیلانے کا کام ہی انجام دیتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ، آپ کا پوسٹ بامعنی ہونا چاہئے، صرف Textپر بھروسہ نہ کیا جائے بلکہ تصاویر، گرافکس، آڈیوز اور ویڈیوز جیسا مواد پوسٹ کی Valueبڑھادیتا ہے۔ اور صرف پوسٹ یا Contentبنادینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس پر بحث و مباحثہ یا ڈسکشن میں آپ کی شمولیت بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے۔ بالعموم یک طرفہ پیغام کی ترسیل کی بہ نسبت ڈسکشن میں شرکت آپ کے پیغام کی اہمیت کو بڑھادیتی ہے۔ twitter پر کئی اہم سیاست دانوں کی Tweetsکی مقبولیت کی اہم وجہ ان کا عام لوگوں کے ڈسکشنس میں شریک ہونا بھی رہی ہے۔
دوسروں کے ڈسکشنس میں کیسے شرکت کی جائے؟
سوشل میڈیا میں صرف آپ کا پوسٹ اہم نہیں بلکہ آپ دوسروں کے ڈسکشن میں کس طرح شرکت کرتے ہیں اس پر بھی کافی اہمیت دی جاتی ہے۔ آپ کے لائیکس، آپ کے شیئرز، آپ کے Retweets، آپ کے Commentsیہ تمام چیزیں آپ کے رویہ کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں بھی ہمیں اپنے رویے کا تعین کرنا چاہئے اور یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہر کسی پوسٹ پر ہمارا تبصرہ یا لائیک ضروری نہیں۔ وہیں تبصرہ یا لائیک یا شیئر کیا جائے جو آپ کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہو اور جب تبصرہ کیا جائے تو وہ بے معنی نہ ہو بلکہ آپ کے خیالات ظاہر کرنے والا ہو۔
ویڈیوز کی تخلیق
ویڈیوز عموماً وہی دیکھے جاتے ہیں جن میں لوگوں کی دلچسپی ہوتی ہے۔ لیکن آج کے ٹکنالوجیکل دور میں ویڈیوز کی تخلیق بھی کافی آسان عمل بن چکا ہے۔ اگر آپ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ہوں تو اس میدان میں بآسانی آپ اپنے پیغام کی ترسیل کرسکتے ہیں۔ اسمارٹ فونس کی ایجاد کے بعد اعلیٰ کوالٹی ویڈیوز بآسانی بنائے جاسکتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے پیغام کو طے کریں اور اس کو پہنچانے کا ذریعہ تلاش کریں۔ تخلیقیت اس میدا ن میں کامیابی کے لئے انتہائی اہم ہے ۔ آپ اپنا پیغام جس قدر اچھے اور اچھوتے انداز میں پیش کریں گے وہ اسی قدر مقبولیت حاصل کرے گا۔ ساتھ ہی وہ مختصر رہے کیونکہ پیغام جتنا مختصر ہوتا ہے اس کے دیکھے جانے کے امکانات اس قدر زیادہ ہوتے ہیں۔
پوسٹ کی تخلیق میں ذہانت کا استعمال
Twitterجیسے سوشل سائٹس پر ذہانت کا استعمال آپ کے پیغام کو پھیلانے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ Hashtags کی تخلیق، پیغام کو کم سے کم الفاظ میں سمونا، الفاظ کا بھرپور اور ذہانت سے استعمال، نیز Top Trendsکا استعمال وغیرہ امور آپ کے پوسٹ کی اہمیت کو بڑھادیتے ہیں۔
موبائیل سوشل نیٹ ورکنگ کا استعمال
whatsappجیسی اپلی کیشنس نے سوشل نیٹ ورکنگ کو موبائل میں کافی آسان بنادیا ہے۔ یہ روایتی ایس ایم ایس کی طرز پر کام کرتا ہے لیکن اس کے ذریعے تقریباً وہی کام لیا جاتا ہے جو ایک سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ انجام دیتی ہے اگرچہ اس کے پیغامات یک طرفہ ترسیل(One way communication)ہوتے ہیں۔ اس اپلی کیشن کو فیس بک کے ذریعے خرید لئے جانے کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ کی بہت ساری سہولیا ت میں یہ دونوں اپلی کیشنس ایک دوسرے سے مدد حاصل کریں گی۔
سوشل میڈیا آج کے دور کی ایک اہم حقیقت ہے جس سے صرف نظر ممکن نہیں۔ اگر ہم اپنے پیغام کو مؤثر بنانا چاہتے ہیں تب یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس کے مختلف پہلوؤں اور زمانے کے ساتھ اس میں آنے والی تبدیلیوں اور اثرات پر ہمیشہ نظر رکھیں۔ ایک متوازن رویہ اور حکمت و تدبر سے بھر پور استعمال ہی ہمیں اس کے مطلوبہ فوائد سمیٹنے کا موقع فراہم کرسکتا ہے۔
2n2
سوشل میڈیا اور اس کے بڑھتے اثرات
سوشل میڈیا کی مقبولیت اس کی ٹکنالوجی اور اس کی اپلی کیشن کی مہارت میں نہیں چھپی ہوئی ہے، بلکہ انسانی فطرت اس کی کامیابی کی اصل وجہ ہے۔ دنیا میں زیادہ تر وہ ٹکنالوجی اور دریافتیں کامیاب ہوئی ہیں، جنہوں نے یا تو انسان کے کاموں کو آسان بنایا ہے، یا اس کی فطرت سے قریب تر رہی۔ انٹرنیٹ ہو، چاہے ای میل ہو، یا سوشل میڈیا ہو، یہ تمام چیزیں انسان کو آپس میں گفتگو کرنے، اپنے آئیڈیاز کو آپس میں شیئر کرنے اور مختلف پلیٹ فارمس پر اپنی باتیں رکھنے کا موقع پوری آزادی کے ساتھ دیتا ہے۔ سوشل میڈیا کی کامیابی کا بھی اصل راز یہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ہندوستان کی ۱۶۰؍لوک سبھا سیٹوں میں فیس بک اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فیس بک یا سوشل میڈیا کس طرح لوگوں کی رائے کو متأثر کررہا ہے۔
یہ بات تو اب بلا تنازع کہی جاسکتی ہے کہ دنیا میں اس وقت جتنے بھی سوشل یا پولیٹکل موومنٹ چل رہے ہیں، اس میں سوشل میڈیا نے لوگوں کو متحرک اور مجتمع کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ سوشل میڈیا کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں سوشل میڈیا کے لیے استعمال ہونے والی ویب سائٹس پر نہ صرف نگاہ رکھتی ہیں، بلکہ اس کے ڈیٹا کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ سنوڈن کا کیس بھی اسی کی غمازی کرتا ہے۔ نہ صرف اس نے لوگوں کو اظہار رائے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا ہے، بلکہ اس نے اسٹیٹ کی خودمختاری پر بھی سوالیہ نشان لگانے شروع کردیئے ہیں، پہلے حکومتیں مختلف چیزوں پر بہت ہی آسانی سے پابندیاں لگادیا کرتی تھیں، اور آئیڈیاز کو کنٹرول کرنے میں مصروف رہا کرتی تھیں۔ لیکن اب کسی بھی ملک کا کوئی بھی قانون ہو، چاہے وہ کسی کتاب یا فلم پر پابندی لگانا چاہتی ہو، لیکن سوشل میڈیا نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ملکوں کے مختلف قانون اس کے لیے کچھ اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے انسانی اخلاق پر بھی بہت گہرے اثرات ڈالے ہیں، اس لیے تمام طرح کے برے جرائم کا ارتکاب کرنے والے لوگ، چاہے وہ جسم فروشی کا دھندا کرنے والے ہوں، چاہے پورنوگرافی کا کاروبار کرتے ہوں، سب لوگ سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کررہے ہیں۔ جس کے اثرات آج کل بچوں اور نوجوانوں پر صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔
سوشل میڈیا کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے ایک عالمی معاشرہ وجود میں آرہا ہے، جو بہت ہی کم پابندیوں کے زیر اثر آتا ہے، اگر اس کا استعمال بہتر اور مثبت انداز سے کیا جائے تو سچ مچ میں اس کے ذریعہ ایک سرحدوں سے آزاد عالمی معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ جو آباد تو ہوگا اسی دنیا کے مختلف ممالک میں، لیکن وہاں کے قوانین اور وہاں کی سیاسی سرحدیں اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی ہوں گی۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ سرکاروں کے ایسے اقدام کی مخالفت کی جائے جو انسانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوں۔ جیسے امریکہ اور دوسرے ممالک سوشل میڈیا کی جاسوسی میں لگے ہوئے ہیں، دوسری طرف سوشل میڈیا کے غلط استعمال جیسے جسم فروشی یا غلط چیزوں کا پروپیگنڈہ ہے، اس پر بھی کنٹرول کی ضرورت ہے۔
(ڈاکٹر جاوید ظفر، نئی دہلی)
سوشل میڈیا کی اخلاقیات
(سدید ازہر فلاحی، الجامعۃ الاسلامیۃ، شانتاپرم۔ کیرلا)
انسان کوحیوان سے ممتاز کرنے والی چیز اخلاق ہی ہے۔ دین کا مقصد بااخلاق شخصیت کی تعمیر ہے۔انسانی زندگی میں اخلاق کا ظہور تعلقات میں ہوتا ہے۔ جدید ٹکنالوجی کی ترقی نے انسانی تعلقات کی نت نئی شکلیں پیدا کردی ہیں، اور ان کے دائرے کو وسیع تر کردیا ہے۔ ان ہی ترقیاتی شکلوں میں آن لائن سوشل نیٹ ورکنگ بھی ہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا سے تعلق رکھنے والا ہر شخص Facebook، Twitter Linkedin، Tumblr، Youtube،Myspace، Flickrوغیرہ سے نہ صرف واقف ہوتا ہے بلکہ ان ویب سائٹس کی صورت میں پائی جانے والی ایک دوسری ورچول(Virtual) دنیا کا باشندہ بھی ہوتا ہے۔ اس کے شب و روز کا بیشتر حصہ اسی دنیا میں گزرتاہے۔یہ ورچول دنیا ہرآن ارتقاء پذیر ہے اور یہاں نئے نئے اخلاقی چیلنجزپیدا ہوتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی اخلاقیات کا تعلق سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس استعمال کرنے والے افراد سے بھی ہے اور انہیں بنانے اور چلانے والے افراد اور کمپنیوں سے بھی ہے۔ یہاں گناہ کے دائرے میں آنے والے افعال بھی سرزد ہوتے ہیں اور جرم کے دائرے میں آنے والے افعال بھی۔کچھ اخلاقی عیوب ہیں جو انسانی زندگی میں پہلے سے موجود ہیں اور ورچول دنیا میں ایک نئے انداز سے ان کا ظہور ہورہا ہے، اور کچھ اخلاقی مسائل ہیں جنہیں خود سوشل میڈیا نے جنم دیا ہے۔
سوشلنیٹ ورکنگ سائٹس کو جہاں خیر کے فروغ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے وہیں کبھی لاپروائی میں اور کبھی قصداً ان کااستعمال شر کے فروغ کے لیے بھی کیا جارہا ہے۔ یوٹیوب جیسے میڈیا شیئرنگ سائٹس کے ذریعے علمی ،فکری، دینی ، تعلیمی اور سماجی موضوعات پر ویڈیوزبھی نشر کیے جارہے ہیں، اور فحاشی وبے حیائی، لا دینیت، نفرت ، تعصب، فرقہ وارانہ عناد اورمسلکی جدل کوبھی خوب خوب فروغ حاصل ہورہا ہے۔ روایتی میڈیا کے برعکس سوشل میڈیا زیادہ قابل رسائی و قابل استعمال (accessible) ہے۔ یہاں ہر شخص اپنی بات آسانی کے ساتھ دوسروں تک پہنچاسکتا ہے۔ اس صورتحال نے جہاں ایک طرف عام آدمی کوایمپاور کیا ہے وہیں اس کے لیے اخلاقی چیلنجز بھی پیدا کردئیے ہیں۔ اس میدان کا شکست خوردہ فرد دس منٹ کی سستی شہرت کے لیے فیس بک میں اسٹیٹس اَپ ڈیٹ کرتاہے، بغیر علم و تحقیق کے ہر رطب و یابس کو پھیلاتا ہے،عدل و قسط کے اصول پر قائم رہنے کے بجائے likesاورshares کی politics کا حصہ بنتا ہے، اپنی علمی و فکری برتری جتانے کی غرض سے commentsلکھتا ہے، حیا سوز تصویریں اور گندے جوکس shareکرتا ہے، پبلک فورمس میں اجتماعی غیبت کا مزہ لیتا ہے، استہزاء و تمسخر کے دلائل سے مسلح ہوکرعلمی و فکری مباحث میں خم ٹھونک کر کود پڑتا ہے۔ غرض یہ کہ حقیقی دنیا میں اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار فرد ورچول دنیا میں اپنے اسی اخلاقی بحران کا اظہار ایک نئے انداز سے کرتا ہے۔ اس کے برعکس حقیقی دنیا میں بلند اخلاق کا حامل فرد اچھے اور اونچے مقاصد کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہے۔
سوشل میڈیا نے جو مسائل پیدا کیے ہیں ان میں سوشل میڈیا کا جنون (Obsession)ایک بڑا مسئلہ ہے۔فیس بک کے ورچول چوپال میں آدمی روزانہ اپنے قیمتی اوقات کے کئی گھنٹے ضائع کردیتا ہے۔ یہ جنون تعلیم اور کام میں ارتکاز(concentration) اور پیداواریت (productivity)کو بہت کم کردیتاہے۔اس مرض کا شکار فرد اپنے شب و روز کی ہر چھوٹی یا بڑی بات کو فیس بک کے دوستوں کی likes اور commentsکے لیے پیش کردیتا ہے۔ گویا اس کی پوری زندگی نمائش (display)میں ہوتی ہے۔ اس کی زندگی خدا رخی (God Oriented) ہونے کے بجائے اپنی ذات کے محور پر گھومنے والی (Self centred)اور دوسروں کی توجہ چاہنے والی (People Oriented) ہوجاتی ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر لوگوں کے سامنے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے لگتاہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے آدمی بسا اوقات شناخت کے بحران (identity crisis) میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ دوہری شخصیت میں جینے لگتا ہے۔ ایک اس کی حقیقی دنیا کی شخصیت ہوتی ہے اور دوسری ورچول دنیا کی مہذب(refined)شخصیت جس کا وہ خود خالق ہوتاہے ۔کچھ افراد اس سے آگے بڑھ کر\”role play\” کرنے لگتے ہیں۔ ورچول ورلڈ میں لڑکے لڑکیوں کے نام اورخوب صور ت تصویروں کے ساتھ اکاؤنٹ کھول کر ان کا رول پلے کرتے ہیں اور اس کے برعکس لڑکیاں لڑکوں کا رول پلے کرتی ہیں۔ بد صورت لڑکی یہاں خوب صورت لڑکی کا رول پلے کرتی ہے اور بوڑھا جوان کا رول پلے کرتا ہے۔ اپنی حقیقی شخصیت کی تعمیر سے غافل ہوکر یہاں لوگ خیالی شخصیت کی تخلیق میں مگن رہتے ہیں۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے دوریاں سمٹ آئی ہیں لیکن اس نے قریبی لوگوں کو دورکرنے کا کام بھی کیا ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعے جہاں بہت سارے لوگ سماج کی تعمیر نو کا کام کررہے ہیں وہیں اس نے بہت سارے لوگوں کے احساس مروت کو کچل دیا ہے ۔سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے ذریعے فحاشی وعریانی کا فروغ (pornography)، بلاک میلنگ، cyber bullying جیسے سائبر کرائمس بھی انجام دئیے جارہے ہیں۔
سوشل میڈیانے خلوت اور جلوت کے فرق کو مٹادیا ہے اور پرائیویٹ اور پبلک کے حدود کوختم کردیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آن لائن پرائیویسی نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر موجود ذاتی معلومات، پیغامات، تصاویر وغیرہ کا تجارتی استعمال کیا جاتا ہے۔کمپنیاں گاہکوں (consumers) کی پسند و ناپسند کا اندازہ ان کے فیس بک اکاؤنٹس سے لگالیتی ہیں۔نوکری کے لیے درخواست دینے والے افرادکی آن لائن مانیٹرنگ کی جاتی ہے اور ان کے تمام مشاغل کے بارے میں معلومات حاصل کرلی جاتی ہیں ۔ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان سب میں اخلاقی حدود کو پامال کیا جاتا ہے۔
اپنے اخلاقی وجود کے تئیں حساس افرادکے لیے ضروری ہے کہ وہ Be ethical, Click right کو اپنا شعار بناتے ہوئے سوشل میڈیا کاتعمیری مقاصدکے لیے استعمال کریں۔
سید صبغت اللہ حسینی
سابق مدیر ماہنامہ رفیق منزل
[email protected]
09573615347