عقل مند وہ ہے جو دوسروں کی غلطی سے ہوشیار ہوجاتا ہے اور کم عقل خود ٹھوکر کھاکر سدھرتا ہے لیکن بے وقوف اس کے باوجود اصلاح قبول نہیں کرتا۔ تحریک اسلامی بھی اپنی ہم عصر تحریکات کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنے آپ کو سنبھال سکتی ہے۔ آر ایس ایس ہندوستان کی ایک بہت بڑی نظریاتی تحریک ہے۔ وہ ان ہی حالات سے دوچار ہے جس میں ہم کام کررہے ہیں، اس لیے سنگھ کی کامیابیوں اور ناکامیوں میں بھی ہمارے لیے سامانِ عبرت موجود ہے۔ سنگھ پریوار کا مطالعہ اس لیے بھی سہل تر ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں پر اس کے غیر معمولی اثرا ت پڑے ہیں ۔ سیاسی میدان میں وہ نہ صرف اپنی اکثریت کے بل بوتے اقتدار پر فائز ہے بلکہ سرمایہ دارانہ رحجان رکھنے والی اس تحریک کے بھارتیہ مزدور سنگھ کو ملک کی سب سے بڑی مزدور یونین ہونے کا اعزازبھی حاصل ہے۔ جدید ہندوستان میں جہاں اشتراکی روایت قدیم اور مضبوط تررہی ہے زعفرانی نظریات کی تحریک کا خود اس کے میدان میں آگے نکل جانا آسان نہیں ہے۔طلبہ، اساتذہ ، کسانوں اور قبائلیوں میں بھی اس کا بہت کام ہے۔ تعلیمی میدان میں اس کاجال (سرسوتی ودیامندر) ہندوستان کی حدود سے نکل کر امریکہ اور یوروپ کے علاوہ امارات تک پھیل چکا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندو اقدارو ثقافت کے احیاء کا دعویٰ کرنے والی یہ تحریک معاشرت کے میدان میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ پچھلے سو سالوں میں اس نے اپنی توانائی کا بڑا حصہ مسلم دشمن تنازعات کو پیدا کرنے اور ان سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں جھونک دیا۔
سنگھ پریوار کا اہم ترین ہدف ہندو راشٹرکا قیام ہے۔اشوک سنگھل نے پیشین گوئی کی تھی کہ ۲۰۲۰ء تک ہندوستان ہندو راشٹر بن جائے گا۔ اشوک سنگھل ہندوستان کو ہندو راشٹر کیا بناتے ان کے دیکھتے دیکھتے دنیا کا واحد ہندو راشٹر نیپال سیکولر بن گیا۔ وہاں کا قتدار ہندو راجہ کے ہاتھ سے نکل کر پہلے تو ہند نواز نیپال کانگریس کے ہاتھ میں آیا مگر اب اشتراکیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ فی الحال بھارت کی زعفرانی حکومت نے سابقہ ہندو راشٹر کا ناطقہ بند کررکھا ہے اور نیپال بڑی تیزی کے ساتھ چین کی گود میں جارہا ہے۔ خیر اشوک سنگھل تو بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کا سپنا دیکھتے دیکھتے اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ہندو راشٹر تو خیر بہت بڑی بات ہے وہ اپنی زندگی میں رام مندر تک نہیں دیکھ سکے۔ اشوک سنگھل اگر بضدنہ ہوتے کہ رام مندر کی تعمیر بابری مسجد ہی کے مقام پر ہی ہوگی تو بڑے آرام سے ان کا سپنا ساکار ہوجاتا لیکن بے جا ہٹ دھرمی نے ان کے خوابوں کو چکنا چورکردیا۔
سنگھل کی موت کے بعد دہلی اسمبلی میں بی جے پی کے ارکان نے ایک تعزیتی تجویز پیش کی جسے عام آدمی پارٹی نے مسترد کردیا۔ وجہ یہ بتائی کہ وہ نہ تو اسمبلی کے رکن تھے اور نہ پارلیمان کے۔اس معقول دلیل پر مطمئن ہونے کے بجائے بی جے پی والوں نے ہنگامہ مچا دیا تو اس کے جواب میں عآپ کے ارکان اسمبلی نے اشوک سنگھل کو ایک ایسادہشت گرد قرار دے دیا جس نے نہ صرف بابری مسجد شہید کروائی بلکہ نہ جانے کتنے معصوموں کے خون سے ہولی کھیلی۔ ویسے اس بات پتہ لگانا بھی اب ممکن نہیں ہے کہ سنگھل جی سرے سے رام مندر کی تعمیر میں مخلص تھے بھی یا نہیں؟ ہوسکتا ہے سنگھ پریوار نے رام مندر کی آڑ میں ہندوستان کی عوام کوو رغلا کر ہندو راشٹر بنانے کا منصوبہ بنایا ہو ؟ یہ بھی ممکن ہے رام مندر تحریک کامقصدِحقیقی بھی ہندوراشٹر کے بجائے کسی طرح اقتدار پر قبضہ کرکے عیش کرنا رہا ہو؟
رام مندر کی بابت تو سنگھل جی اور سنگھ پریوار ناکام رہا مگر اس کے ذریعہ سیاست کا زینہ چڑھنے میں اسے پہلے تو جزوی اور پھر کلی کامیابی ضرور ملی۔ ایمرجنسی کے خلاف جنتا پارٹی میں شامل ہو کر جن سنگھ کے لوگ پہلی مرتبہ قومی اقتدار میں حصہ دار بنے۔ اٹل جی کو وزیرخارجہ اور اڈوانی جی کو وزیر مواصلات و نشریات بننے کا سوبھاگیہ پراپت ہوا۔ اس کے بعد جب ان لوگوں نے پر پھیلانے شروع کیے تو جنتا پارٹی کے لوہیا وادیوں نے انہیں دوہری رکنیت کی بنیاد پر نکل بھاگنے پر مجبور کردیا۔ اس طرح جنتا پارٹی کی کوکھ سے جن سنگھ کا پونر جنم ہوا اور وہ بھارتیہ جنتاپارٹی کہلائی۔ اس کے بعد اندراگاندھی کے قتل سے راجیو گاندھی کے حق میں ہمدردی کی ایسی آندھی آئی کہ جس نے ایوان پارلیمان میں بی جے پی کے ارکان کی تعداد کو ۲؍ پر پہنچا دیا۔ اس سے قبل کہ یہ نوزائیدہ بچہ دم توڑتا اسے جیون دان دینے کے لیے اشوک سنگھل نے بابری مسجد کے تالے کھلوانے کی تحریک شروع کردی۔ اس کے جواب میں راجیو گاندھی نے نہ صرف تالے کھلوائے بلکہ شیلا نیاس کرواکررام راجیہ کے قیام کا اعلان کردیا۔ رام کی اس قدر سیواکے باوجود یہ رام بھکتی راجیو گاندھی کے کسی کام نہیں آئی اور وی پی سنگھ نے بوفورس کی توپ سے کانگریسی اقتدارکے پرخچے اڑا دیئے۔
وی پی سنگھ کے دور میں بی جے پی والے پہلے تو کنگ میکر اور پھر کنگ بسٹر بن کر اپنی منفرد شناخت کے ساتھ اقتدار سے مزید قریب آگئے لیکن اٹل جی کی اولین کوشش تیرہ دنوں کے بعد تین تیرہ ہوگئی ؟ مگر جلد ہی گوڈا اور گجرال کے لڑ جھگڑ کر بکھر جانے کے بعد بی جے پی کو حکومت سازی کا دوسراموقع مل گیا۔ اس وقت چونکہ بی جے پی نے سیکولر جماعتوں کی مدد سے حکومت سازی کی تھی اس لیے رام رتھ یاتری اڈوانی جی وزیراعظم نہ بن سکے۔ اٹل جی کے پاس رام مندر کی تعمیر کو ٹالنے کے لیے یہ بہانہ موجود تھا کہ جمہوری قومی محاذ کے دیگر رہنمارام مندر کے حق میں نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے وی ایچ پی نے اٹل جی کو خوب برا بھلا کہا لیکن بات نہیں بنی۔ اس کے بعد قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کو خود اپنے بل بوتے پر اقتدار حاصل ہوگیا۔ اب تو مندر کی تعمیر میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں تھی لیکن اس کے باوجود سنگھ پریوار نے ابھی تک لو جہاد سے لے کر گھر واپسی تک نہ جانے کیا کیاکرڈالا مگر مندر وہیں بنائیں گے کا گھساپٹا راگ نہیں الاپا۔سنگھل جی بھی شاید اپنی آخری عمر میں مندر سے مایوس ہوچکے تھے اس لیے ہندوراشٹر کے سپنے سجانے لگے تھے ۔
اشوک سنگھل کی موت پر وزیراعظم سمیت بہت سارے لوگوں نے تعزیتی پیغامات بھیجے لیکن سوشیل میڈیا میں یہ دلچسپ تعزیت نامہ بھی منظر عام پر آیاکہ ’’ہم اشوک سنگھل کی موت پر ان کی بیٹی سیمانقوی اور ان کے داماد مختار عباس نقوی کے غم میں شریک ہیں‘‘۔ کیا یہ چونکانے والی بات نہیں ہے کہ سارے ملک کو ہندوراشٹر بنانے والا خود اپنی بیٹی کو ایک مسلمان کے ساتھ نکاح کرنے سے نہیں روک سکا۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بالغ اور خودمختار اولاد پر والدین کا اختیار نہیں رہتا لیکن تربیت اور سنسکار بھی تو کوئی چیز ہے اور اگر اس میں کمی رہ جائے تو کم از کم ایسی نافرمان اولاد کو عاق بھی کیا جاسکتا ہے۔مختار عباس نقوی اپنے کامیاب’’لو جہاد‘‘ کے باوجود اشوک سنگھل کے نورِ نظر بنے رہے اور ان کے آشیرواد سے اٹل اور مودی دونوں سرکاروں میں وزارت سے سرفراز ہوئے ۔یہی حال مرلی منوہر جوشی کے داماد شاہنواز حسین کا ہے کہ بار بار ناکام ہونے کے باوجود وہ ٹکٹ سے نوازے جاتے ہیں اور بی جے پی کے اہم عہدوں پر فائز رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قدر انتہا پسند ہندو رہنماؤں کے چراغ تلے اندھیرا کیوں ہے؟
اس پیچیدہ سوال کا نہایت سہل جواب خواتین کے ساتھ سنگھ پریوار کے رویے میں پنہاں ہے۔ سنگھ کے بہت سارے رہنماتو برہما چاری بن کر اپنے آپ کو شادی بیاہ کے بکھیڑوں سے دور رکھتے ہیں۔ ان میں سے جو بیاہ رچاتے ہیں ان کا رویہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ کیسا ہوتا ہے اس کا بہترین نمونہ وزیر اعظم نریندر مودی نے پیش فرما دیا ہے۔ مودی جی نے وزیراعظم بننے کے بعد اپنے پہلے سال میں جملہ ۵۳ دن ۱۷ ممالک میں گذارے۔ ایک سال میں کل ۵۲ ہفتے ہوتے ہیں اس طرح گویا اوسطاً وہ ہر ہفتے میں ایک دن ملک سے باہر رہے۔ وہ تو خیر اس دوران پانچ ریاستوں میں صوبائی انتخاب کی مہم ان کے قدموں کی زنجیر بن گئی ورنہ یہ تناسب بڑھ بھی سکتا تھا۔ لیکن اس کے برعکس ان کی اہلیہ جسودہ بین کو ان کے ہمراہ دورے پر جانا تو کجا پاسپورٹ بنانا تک نصیب نہیں ہوا۔
جسودہ بین نے پاسپورٹ کے لیے درخواست دی تو اسے نامکمل قرار دے کر لوٹا دیا گیا۔ وہ اپنے ساتھ وزیراعظم کے حلف نامہ کی نقل لے کر پاسپورٹ آفیسر زیڈ اے خان کے پاس پہنچیں تو وضاحت کی گئی کہ شادی شدہ خاتون کو پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے نکاح نامہ ( میرج رجسٹریشن سرٹیفکٹ) جمع کرانا لازمی ہے۔ شادی اگر ۲۰۰۶ء سے قبل ہوئی ہو تو میاں بیوی کے دستخط سے ایک مشترکہ حلف نامہ (ایفیڈیوٹ) جمع کرانے کی سہولت بھی ہے۔ یہ ایک ایسی معمولی دستاویز ہے کہ جسے ہر کس و ناکس حاصل کرسکتا ہے لیکن وزیراعظم کی دھرم پتنی کے لیے ممکن نہیں ہے کہ اس کے لیے ۵۶ انچ کے سینے میں وہ کشادہ دلی کہاں کہ اس میں اہلیہ کے لیے معمولی سی گنجائش نکلے اور بے دلی کے ساتھ ہی سہی مشترکہ حلف نامہ پر دستخط ہوجائے۔
مسئلہ پاسپورٹ کی حد تک محدود نہیں ہے جسودہ بین نے اپنی حفاظت پر لگائے گئے اہلکاروں کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا۔ ان کے سبب پیش آنے والی دقتوں کا اظہار کرکے اپنی شکایت میں کہا میں اپنے آپ کو نہ صرف غیر محفوظ تصورکرتی ہوں بلکہ میری جان کو خطرہ ہے۔ جن مودی بھکتوں نے عامر خان کی اہلیہ کرن راؤ کے یہ کہنے پر کہ وہ اپنے بچے کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں اس لیے انہیں کسی اور ملک کی جانب کوچ کرنا چاہیے یہ مشورہ دیا تھا کہ کرن راؤ کو ملک نہیں شوہر بدل دینا چاہیے۔ کیا وہ جسودہ بین کی شکایت پر ملک کے عوام کویہ مشورہ دیں گے کہ جس وزیراعظم کی زوجہ عدم تحفظ کا شکار ہو اسے اس کے عہدے سے سبکدوش کردیا جانا چاہیے۔ یہ ہماری ستم ظریفی ہے کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کے وزیرسومناتھ بھارتی کو ان کی اہلیہ کی شکایت پر گرفتار کرلیا جاتا ہے مگر اسی دہلی میں وزیراعظم کی زوجہ کی شکایت پر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔
سرکار دربار کا تو یہ حال ہے کہ جسودہ بین آرٹی آئی کی درخواست میں اپنا نام جسودہ بین نریندر بھائی مودی لکھتی ہیں اور جواب میں انہیں جسودہ بین بنتِ چمن لال مودی کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم خود تو اس بابت زبان نہیں کھولتے مگر ان کی ترجمانی بڑے بھائی سوما مودی کرتے ہیں جن کے مطابق پچاس سال قبل کیا جانے والا مودی جی کا بیاہ ایک جبری سماجی خانہ پری (فورمالٹی) تھی جو غربت اور دقیانوسیت کے سبب عمل میں آئی گویا رشتۂ ازدواج نہ ہوا کوئی مذاق ہوگیا۔ اس طرح کا ظالمانہ رویہ جس ہندوتوا وادی تحریک کے اندرمثالی ہو اگر اس کے رہنماؤں کی بیٹیاں اپنے مذہبی مخالفین کے ساتھ نکاح کرکے عزت و وقار کے ساتھ اپنا گھر بسانے کا فیصلہ کریں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟
اس کے برعکس میرٹھ کے کلیم کو دیکھئے گزشتہ سال عصمت دری کی کوشش کا الزام لگا کراسے گرفتار کروانے کے بعدسارے ملک میں لو جہاد کا ہنگامہ کھڑا کردیا گیا۔اس کے باوجود کلیم کی ہندو بیوی اپنے والدین کے گھرسے فرار ہو کر پولس کی حراست میں چلی گئی۔ اس لڑکی کا دعویٰ تھا کہ اپنے میکے میں اسے جان کا خطرہ ہے۔ اس نے اپنے والد نریندر تیاگی پر الزام لگایا کہ انہوں نے بی جے پی رہنماؤں سے روپے لے کراس پر دبا�ؤڈالا اورکلیم کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کروایا۔ اس لڑکی نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ بالغ ہے اور اس لیے اسے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جائے۔عدالت نے اس کی درخواست کو منظوری دے دی۔نریندر تیاگی کی بیٹی تو اپنے شوہر کلیم کے ساتھ خوش ہے مگر نریندر مودی کی بیوی اپنے شوہر کے بغیر پریشان ہے۔ سنگھ پریوار کے لیے ان مثالوں میں عبرت کا بہت بڑا سامان ہے۔
ایک طرف ملک کا وزیراعظم ہے جس نے بغیر کسی مشکل کے اپنی اہلیہ کو اپنے سے دور کردیا اور دوسری جانب کلیم ہے کہ جس نے تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی جان پر کھیل کر اپنی زوجہ کے ساتھ رہنا پسند کیا۔ کلیم نے دنیا کو دکھا دیا کہ نکاح کے رشتے کو کیسے نبھایا جاتا ہے اور اس کی اہلیہ نے بھی بے مثال وفا شعاری کا نمونہ پیش کیا؟ ان واقعات کی روشنی میں سنگھ پریوار کی بہو بیٹیاں اپنے آپ کو جسودھا بین کی طرح مصیبت میں ڈالنا پسند کریں گی یا کلیم کی مانند مضبوط سہارا تھامیں گی ؟ ایک دلچسپ مشاہدہ یہ بھی ہے کہ تمام تر فرقہ واریت کے باوجود خود ہندو سماج بھی اسے برا نہیں سمجھتا۔ اس کا ثبوت اتر پردیش کے پنچایت انتخابات میں سامنے آیا جہاں ایسی خواتین نے بھی کامیابی درج کرائی جو مسلمانوں کے نکاح میں ہیں۔
اتر پردیش کے پنچایت چناؤ میں بجنور کی تین خواتین کے علاوہ فساد زدہ مظفر نگر ضلع کے امیر علی کی دوسری بیوی بھی کامیاب ہونے والوں میں شامل ہے۔ لکھیم پور کھیری کے چودھری جلال الدین کی زوجہ پرنسپل راپت نہ صرف کامیاب ہوئی ہیں بلکہ پردھانی کی دوڑ میں بھی پیش پیش ہیں۔ فی الحال دہلی میں شاہی امام احمد بخاری کے بیٹے اور نائب شعبان بخاری کے ایک نومسلم لڑکی سے شادی کے چرچے ہیں جس نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ یہ واقعات ترغیب و ترہیب کے لیے نہیں بلکہ ان زمینی حقائق کو پیش کرنے کے لیے بیان کئے گئے ہیں جو اویدیہ ناتھ یا پروین تو گڑیا جیسے لوگوں کے اشتعال انگیز بیانات کے سبب آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ یہ واقعات سنگھ پریوار کی بہت بڑی ناکامی کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور ناکامی کا بنیادی سبب ترجیحات کے تعین میں ناکامی اور سیاسی جنون کا حد سے گزر جاناہے۔
ترجیحات کا تعین ایک بہت بڑا انفرادی اور اجتماعی چیلنج ہے۔ جو نظریۂ حیات انسان کے قلب وذہن میں مقدس اور اہم ترین ہوتا ہے وہی ترجیحات کی فہرست میں اولیت اختیار کرتا ہے۔ ترجیحات کے تغیر میں حالات کی تبدیلی بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس دنیا میں اگر تمام اشیاء کی اہمیت یکساں ہوتی یا انسانی ضروتیں کبھی تبدیل نہ ہوتیں تو ترجیحات کے تعین کی سرے سے ضرورت ہی پیش نہ آتی۔۔ انسانی معاشرے کے مختلف طبقات بھی اعضائے جسمانی کی مانند ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے نہ صرف منسلک ہیں بلکہ ایک دوسرے پر منحصر ہوتے ہیں۔ تحریکات کے اندر قائم کردہ مختلف شعبہ جات پر بھی یہ اصول صادق آتا ہے۔کسی بھی اسلامی یا غیر اسلامی اجتماعیت کے اندر قولاً یا عملاً ترجیحات کا توازن بگڑ جائے تو وہ انتشار فکر و عمل کا شکار ہوجاتی ہے۔ اگر کسی ایک شعبے کی اہمیت دیگر شعبہ جات سے بہت زیادہ بڑھ جائے تو تحریک کی صحتمند نشوونما کو متاثر کرتی ہے۔تحریکی وسائل محدود ہوتے ہیں اس لیے اگر کسی ایک شعبۂ حیات پر اس کی ضرورت سے زیادہ وسائل صرف ہونے لگیں تو دیگر شعبہ جات عدم توجہی کا شکار ہوجاتے ہیں اور تحریکات کو اس کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ جیسے کہ سنگھ پریوار دیگر میدانوں میں غیر معمولی کامیابی کے باوجود معاشرتی شعبہ میں ادا کررہا ہے۔ تحریک اسلامی کے لیے اس میں بہت کچھ سامانِ عبرت ہے۔
ڈاکٹر سلیم خان،معروف سیاسی تجزیہ نگار
سنگھ پریوار: ترجیحی عدم توازن کا شکار
عقل مند وہ ہے جو دوسروں کی غلطی سے ہوشیار ہوجاتا ہے اور کم عقل خود ٹھوکر کھاکر سدھرتا ہے لیکن بے وقوف اس کے باوجود اصلاح قبول نہیں کرتا۔ تحریک اسلامی بھی اپنی ہم عصر تحریکات کی غلطیوں سے…