مبشر فاروقی
قومی سطح کے ادارے
ای پی ڈبلیو ریسرچ فاونڈیشن :
سمیکشا ٹرسٹ کے زیر اہتمام ۱۹۹۳ء میں قائم کردہ ای پی ڈبلیو ریسرچ فاونڈیشن ملک کے اقتصادی معاملات اور معیشت سے متعلق معاملات کی تحقیق کرنے والا اہم ادارہ ہے۔ اس ادارہ کا بنیادی کام معیشت پر اثر اندازہونے والے مختلف عوامل( زراعت،تجارت،صنعت و حرفت وغیرہ)کی صورتحال اورترقی(progress)پر مبنی حقیقیمعلومات حاصل کرنا،رپورٹ کی تدوین کرنا ،شماریات پیش کرنا ،تنقیدی جائزہ لینا اور اسباب و تدارک کا ممکنہ جائزہ لینا ہے۔فاونڈیشن کی جانب سے ملکی معیشت کی صورتحال پرمبنی ہفتہ واری شماریاتی رپورٹ ویب سائٹ پر پیش کی جاتی ہے ۔ اسے ایک باوقار اور قابل اعتبار ادارہ کی حیثیت حاصل ہے ۔مرکزی و ریاستی حکومتوں کے علاوہ کئی ایجنسیوں کے ذریعے مختلف ریسرچ پروجیکٹس اس اداراہ کو تفویض کئے جاتے ہیں۔ ریزو بینک آف انڈیا سمیت نمایاں ادارے اسے تعاون فراہم کرتے ہیں۔
سمیکشا ٹرسٹ کی جانب سے شائع کیا جانے والا میگزینــ’’اکنامک اینڈ پالیٹکل ویکلی‘‘سماجی علوم میں تحقیقی مقالات شائع کرنے والا معتبر رسالہ تصور کیاجاتا ہے۔آزاد تحقیقی مقالات کے ساتھ حالات حاضرہ پر تبصرے بھی اس میں شائع کئے جاتے ہیں ۔
نیشنل کاونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ:
۱۹۵۶ء میں قائم کردہ یہ ادارہ معاشی پالیسیوں کے حوالے سےتحقیق میں بھارت کا قدیم ترین تحقیقی ادارہ مانا جاتا ہے۔ معیشت کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ہی معاشی و سماجی تغیر کے زمانے میں حقیقی صورتحال سے واقفیت کے لئے اعدادو شمارحاصل کرنے،تجزیہ کرنے اور وسیع پیمانے پر ترسیل کرنے کا کام ادارہ پچھلے ۶۰ سالوں سے انجام دے رہا ہے ۔ معاشی ترقی، تجارت، اقتصادی پالیسی، صنعت و حرفت، انفراسٹرکچر، دیہی و زرعی ترقی، قدرتی وسائل، ماحولیات، غربت، مساوات وغیرہ جیسے متنوع موضوعات پر تجرباتی بنیادں پر معلومات کا حصول اس ادارہ کا طریقہ کار رہاہے۔
بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے ویژن کے تحت آزاد بھارت کے آزاد تحقیقی ادارے کی حیثیت میں اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ابتداء ہی سے اس ادارہ کو حکومت اور پرائیوٹ سیکٹر کی جانب سے تعاون حاصل رہا۔ اس ادارہ کی پہلی گورننگ باڈی میں حکومت کے کابینی وزراء برائے معیشت سمیت پرائیوٹ سیکٹر کے کئی بڑے نام جیسے جمشیدٹاٹا وغیرہ شامل تھے۔ کئی ماہر معاشیات(ڈاکٹر منموہن سنگھ وغیرہ) اس ادارہ کے رکن رہے ہیں۔
ادارہ کی جانب سے خواہشمند طلباء کے لئے پرکشش انٹرنشپ پروگرام کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ وہ معیشت کے میدان میں کرئیر بناسکیں۔ ادارہ کی ویب سائٹ سے مزید معلومات حاصل کی جاسکتی ہے۔
عظیم پریم جی فاونڈیشن:
۲۰۰۰ء میں قائم کردہ عظیم پریم جی فاونڈیشن بنیادی طور پر ملک کے دیہی سرکاری اسکولوںمیں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کی کوشش کرنے والا ادارہ ہے۔ ملک کی ۶ ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقے کے کل تین لاکھ پچاس ہزاراسکولوں تک فاونڈیشن نے رسائی کی ہے۔
ملک کے ۴۰ سے زائد اضلاع میں فاونڈیشن کی جانب سے ادارے(فیلڈ انسٹی ٹیوٹ) قائم کئے گئے ہیں جو درج ذیل امورانجام دیتے ہیں۔
۱)اسکولوں میں تعلیمی عمل اور مشق کی صورتحال کو بہتربنانا۔
۲)تعلیم و تدریس کے عمل میں(ورکشاپ،ٹیچر فورم،سیمینار،نمائش وغیرہ کے ذریعے)تخلیقی و تعمیری طریقوں کی حوصلہ افزائی کرنا۔
۳) اسکولی نصاب ،تعلیم اساتذہ کے نصاب اور ایجوکیشن پالیسی میں اصلاحات کی کوشش کرنا ۔
فاونڈیشن نے محسوس کیا کہ تعلیمی میدان میں کام کرنے کے لئے قابل اور صلاحیت مند افراد کی زبردست کمی ہے جو نصاب کی تیاری،جائزہ ،ٹیچر ایجوکیشن وغیرہ سے متعلق کوئی ٹھوس کام کرسکیں۔ اسی کے نتیجے میں فاونڈیشن کی ایماء پر کرناٹک اسمبلی نے عظیم پریم جی یونیورسٹی ایکٹ پاس کیا اور یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ یونیورسٹی کی جانب سے تعلیم کے علاوہ صحت،طرز زندگی،انتظام حکومت، sustainability جیسے شعبہ جات میں ماسٹرس اور پی ایچ ڈی پروگرام کی تعلیم دی جاتی ہے۔
فیلڈ انسٹی ٹیوٹ میں فاونڈیشن دوسالہ فیلو شپ پروگرام کا اہتمام کرتا ہے جس کے ذریعے تعلیمی میدان میں کام کرنے کی عملی تربیت کی جاتی ہے ۔ یونیورسٹی اور فاونڈیشن کی جانب سے ریسرچ سنٹر چلایا جاتاہے جو متعلقہ موضوعات میں ریسرچ کا کام انجام دیتا ہے۔یونیورسٹی کی جانب سے سالانہ ریسرچ کانفرنس’’منتھن(Meet Anually Think & Analyze)کا انعقاد کیا جاتا ہے۔یہ کانفرنس فاونڈیشن کے ممبرز اور طلباء کوایجوکیشن اور ڈیولپمنٹ کے موضوع پر تبادلہ خیال ،گفتگو اور بحث کا موقع فراہم کرتی ہے۔ کانفرنس کا مقصد فاونڈیشن میں ریسرچ کے کلچر کو فروغ دینا ہوتا ہے ۔ تحقیقی کام کا شوق اور صلاحیت پیدا کرنا،ریسرچ کے ذریعے حاصل کی گئی معلومات کی ترسیل و تبادلہ ،دوران تحقیق در آئے مسائل پر گفتگو،ریسرچ کی فیلڈ میں باہمی تعاون کا فروغ اس کانفرنس کے ذیلی مقاصد ہیں۔
دی نیو انڈیا فاونڈیشن:
جدید بھارت جغرافیائی اعتبار سے وسعت اور تہذیبی اعتبار سے تنوع کا حامل ہے۔ لیکن بھارت میں آزادی کے بعد کی تاریخ پر اعلیٰ تحقیقی کام کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے بہت کم کیا گیا ہے۔ اس خلاء کو پر کرنے اور خواہشمند افراد کو زبردست مالی تعاون کے ذریعے ترغیب دینے کا کام ’دی نیو انڈیا فاونڈیشن‘کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ آزاد بھارت کی مختلف جہات پر ریسرچ کرنے والے افراد کو فاونڈیشن کی جانب سے ایک سال کے لئے ماہانہ ایک لاکھ روپئے کی فیلو شپ فراہم کی جاتی ہے ۔ فیلو شپ کے علاوہ لیکچر کا انعقاد ،آزاد بھارت کی تاریخ اور کلچر پر کتابیں شائع کرنا فاونڈیشن کی دیگر سرگرمیاں ہیں ۔
فیلوشپ:فاونڈیشن کا مرکزی کام آزاد بھارت کی مختلف جہات پرریسرچ کرنے والے افراد کو فیلو شپ فراہم کرنا ہے ۔سینکڑوں درخواست گذار افراد میں سے ۱۵-۲۰ ؍ افراد کو انٹرویو کے لئے منتخب کیا جاتا ہے اور ۵-۱۰منتخبہ افراد کو فیلو شپ فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے لئے افراد کو اپنے کام کا منصوبہ اور واضح خاکہ روانہ کرنا ہوتا ہے۔ان کا موضوع معیشت،سیاست اور کلچر سے متعلق ہوسکتا ہے۔شرط یہ ہے کہ تحقیقی کام خالص نوعیت کا ہو(یعنی محض نقل سے کام نہ لیا گیا ہو)اور مجوزہ کام آزاد بھارت کو سمجھنے کے لئے معاون ہو۔
سال رواں کی فیلوشپ کے لئے اعلانیہ جاری ہوچکا ہے،جس کے مطابق خواہشمند افراد اپنے سی وی،منصوبہ ،تحریری نمونہ ۱؍ جون تک فاونڈیشن کے مرکز پر بذریعہ پوسٹ روانہ کرسکتے ہیں۔
انڈین ہسٹری کانگریس:
یہ بھارت کے تاریخ دانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔۱۹۳۵ء میں پونہ میں اس کا پہلا سیشن ’’ماڈرن ہسٹری کانگریس ‘‘ کے نام سے منعقد ہوا۔پروفیسر شفاعت احمد خان اس کے پہلے صدر تھے۔۱۹۳۸ء میں اسکے دوسرے سیشن میں تنظیم کا نام بدل کر ’’انڈین ہسٹری کانگریس‘‘رکھا گیا ۔تب سے تنظیم کی جانب سے تاریخ کے موضوع پر سالانہ کانگریس کا پابندی سے انعقاد کیا جاتا رہاہے(ماسوا چند سالوں کے جب قومی سطح پر بحران کے باعث ایسا ممکن نہ ہوسکا)۔اس کا ۷۸ واں سیشن گذشتہ سال کے اواخر میں کولکاتہ میں منعقد ہوا تھا۔اس کے فی الحال ۷۰۰ سے زائد ممبران ہیں ۔
اغراض و مقاصد:
۱۔بھارت کی تاریخ کے علمی مطالعہ کو فروغ اور ترقی دینا۔
۲۔سالانہ کانگریس کا انعقاد کرنا اور اس کی کارروائی ،پیش کردہ منتخبہ مقالات ،جرنلس وغیرہ شائع کرنا۔
۳۔ ملک اور بیرون ملک یکساں مقاصد رکھنے والی تنظیموں سے تعاون کرنا۔
۴۔ اغراض و مقاصد کے حصول میں معاون ممکنہ سرگرمیاں انجام دیناوغیرہ۔
سالانہ کانگریس میں درج ذیل ۶ موضوعات(تھیم)پر مقالات پیش کئے جاتے ہیں۔
قدیم بھارت کی تاریخ ، عہد وسطیٰ کے بھارت کی تاریخ ،جدید بھارت کی تاریخ ،معاصر حالات،دیگر ممالک کی تاریخ،آثار قدیمہ ۔
سالانہ کانگریس میں زائد از ۶۰ تحقیقی مقالات پیش کئے جاتے ہیں جن میں سے منتخبہ ۱۰۰ موضوعات کو سالانہ مجلہ میں شائع کیا جاتا ہے۔اس کانگریس میں صرف ممبران کو ہی شرکت کی اجازت حاصل ہے۔ ممبرشپ اختیار کرنے کے لئے فارم بھرنے کے ساتھ بنیادی فیس کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔کانگریس میں پیش ہونے والے بہترین مقالات کو اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔مندرجہ بالا ۶ موضوعات کے علاوہ بھارت کی معاشی و سماجی تاریخ،صنفی عدل کی تاریخ،قومی تحریکات کی تاریخ وغیرہ پرپیش ہونے والے منتخبہ تحقیقی مقالات کو بھی انعامات دئے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ منتخبہ کتابیں بھی اعزاز سے سرفراز کی جاتی ہیں۔
انڈین کاونسل آف سوشل سائنس ریسرچ:
یہ ادارہ ۱۹۶۹ء میں حکومت ہند کی جانب سے قائم کیاگیا تھا۔بھارت میں سماجی علوم میں تحقیقی کام کو فروغ دینا اس ادارہ کا بنیادی مقصد ہے۔دیگر مقاصد درج ذیل عناوین سے عبارت ہے۔
۱)ملک میں سوشل سائنس میںتحقیقات کی صورتحال پر نظر رکھنا،جائزہ لینا اور محققین کی مناسب رہنمائی کرنا۔
۲) ریسرچ پروگرام اور پروجیکٹ کو اسپانسر کرنااور اس کے لئے فردیا ادارہ کو تعاون فراہم کرنا۔
۳)اسکالرشپ اور فیلو شپ کے ذریعے ترغیب دینا۔
۴)تحقیقکے لئے حقیقی اور مطلوبہ میدانوں کی نشاندہی کرنا اور نظر انداز کردہ شعبہ جات میںتحقیق کے لئے اقدامات کرنا۔
۵)مطلوبہ مقاصد کے لئے سیمینار، ورکشاپ، اسٹڈی گروپ کا انعقاد یا مالی تعاون کرنا۔
واضح رہے کہ حکومت ہند کی وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے زیر اہتمام تاریخ کے میدان میں ریسرچ کے لئے ’’انڈین کاونسل آف ہسٹورکل ریسرچــ‘‘اور فلسفہ میں ریسرچ کے لئے’’انڈین کاونسل آف فلاسوفکل ریسرچ‘‘ ادارے کام کرتے ہیں۔
ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسس:
ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسس (TISS) بھارت کا بہت ہی معروف تحقیقی ادارہ ہے۔جس کا قیام ۱۹۳۶ء میں عمل میں آیا۔یہ ایشیاء کے قدیم ترین اداروں میں سے ہے جو سماجی علوم کی نشرواشاعت کی خدمات انجام دے رہاہے۔ اس ادارہ کا مقصد سماجی خدمت کے شعبے میں ایسے ماہرین تیار کرنا ہے جو انسانی سماج کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے ہر دم کوشاں رہیں۔
یہ ایک حکومتی ادارہ ہے ،جس کے سارے انتظامات مرکزی حکومت کے جانب سے طے کئے جاتے ہیں۔اس کا مرکز ممبئی میں ہے جبکہ اس کی ذیلی شاخیں تلجاپور،گوہاٹی اور حیدرآباد میں موجود ہیں۔ مختلف ریاستوں میں اس کے ذیلی ادارے اپنی کارکردگی انجام دے رہے ہیں جس میں کل ۴۵۰۰ طلباء سماجی علوم میں اختصاص حاصل کررہے ہیں۔ ادارہ خدمت خلق اور سماجی فلاح و بہبود کے مختلف شعبوں مثلاً صحت،تعلیم،معیشت ،ثقافت،میڈیا،دیہی و شہری ترقی ،سماجیات ،سماجی علوم ،ماحولیات،نظام حکومت وغیرہ میں ماہرین کو تیار کرتا آرہاہے۔ اس کا نصاب طلباء کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ ہندوستانی سماج کی سمجھ پیدا کریں اور درپیش مسائل کاکارگر حل پیش کرسکیں۔
عالمی سطح کے ادارے
ایمنسٹی انتر نیشنل :
ایمنسٹی انٹر نیشنل کا قیام ۱۹۶۱ء میں لندن میں عمل میں آیا ۔یہ ادارہ بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق سے متعلق معاملات کی تحقیق اور مظلوموں کی حمایت کے لئے مشہور ہے۔ اداراہ کا مقصد ـ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات کی تحقیق اور ان کے روک تھام کے لئے اقدامات کرنا اور مظلوموں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانا ـــ‘‘ہے۔ ادارہ کی جانب سے حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے واقعے کا نوٹس لیا جاتا ہے ،مظلوموں کے حق میں مہم چلائی جاتی ہے اور حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس سلسلے میں عوامی بیداری اور رائے عامہ کو ہموار کرتے ہوئے حکومتی اداروں پر دباو بنانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے ۔ ’’ظلم کے خلاف انسانیت کی لڑائی لڑنے ‘‘ کے لئے ۱۹۹۷ء میں اسے امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ تنظیم کا دعو ٰی ہے کہ۱۵۰ ممالک کے تقریباً ۷ ملین افراد کی حمایت حاصل ہے۔
تنظیم اپنے مقاصد کے لئے درج ذیل تین جہات پر کام کرتی ہے۔
۱)انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق واقعات کے حقائق دریافت کرنا
۲)اس سلسلے میں عدلیہ اور انتظامیہ سے اپروچ
۳)مہمات اور مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے عوامی شعور بیدار کرنااور دباوبنانا۔
اس میدان میں کرئیر بنانے کے خواہشمند افراد کے لئے تنظیم کی جانب سے انٹرنشپ اور روزگار کے مواقع مہیا کئے جاتے ہیں۔مہمات،بین الاقوامی سطح پر فنڈ جمع کرنے،ریسرچ کر نے وغیرہ سے متعلق امور کی انجام دہی کے لئے خواہش مند حضرات تنظیم سے رابطہ کرسکتے ہیں۔
یونیسکو(UNESCO):
یونسکو یعنی United Nations Educational, Scientific and Cultural Organisation اقوام متحدہ کا مشہور ادارہ ہے جو مختلف ممالک کے درمیان تبادلہ خیال اور باہمی افہام و تفہیم کے فروغ کے لئے کوشاں ہے۔یونیسکو تعلیمی ،سائینسی و ثقافتی ذرائع کااستعمال کرتے ہوئے نفرت و عدم روادری سے آزاد ایک عالمی شہری کی حیثیت میں زندگی گذارنے کی ترغیب دیتا ہے۔تنظیم کا مانناہے کہ انسانیت اور انسانی حقوق کے اصولوں کی بنیاد پر ہی پائیدار امن قائم کیا جاسکتاہے۔اسے آئیڈیاز کی تجربہ گاہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں مختلف ممالک کے صحت،تعلیم،ترقی وغیرہ سے متعلق آئیڈیاز پربحث کی جاتی ہے اور ارکان ممالک کے لئے ایکشن پلان بنایا جاتا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم:
اس ادارہ کا قیام ۱۹۷۱ء میں جنیوا(سوٹزر لینڈ) میں عمل میں آیا۔ابتداء میں اس کا نام ’’یورپین منیجمنٹ فورم‘‘تھا،اوردائرہ کار بھی یورپی ممالک تک محدود تھا۔۱۹۸۷ء میں اس کا میدان وسعت اختیار کرگیا اور اس کانام ’’ورلڈ اکنامک فورم‘‘رکھا گیا۔
یہ فورم جنوری کے اواخرمیں داوس میں ہونے والے سالانہ کانفرنس کے لئے مشہور ہے۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر کے قریب ڈھائی ہزار مشہور صنعت کار،تاجر،سیاسی قائدین،ماہر معاشیات ،صحافی شریک ہوتے ہیںاور دنیا کے موجودہ مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔اس کانفرنس کے علاوہ ۶تا ۸ علاقائی کانفرسیں بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ فورم کی جانب سے کانفرنسوں کے علاوہ مختلف ممالک کے معیشت،تعلیم ،صحت،توانائی ،روزگار،صنفی مساوات وغیرہ سے متعلق ریسرچ رپورٹ شائع کی جاتی ہیں۔