زندگی کا ایک خاص قانون

0

قرآن مجید کی ایک آیت ہے:
رَبُّنَا الَّذِیْ أَعْطَی کُلَّ شَیْْءٍ خَلْقَہُ ثُمَّ ہَدَی۔ (سورۃ طہ: ۵۰)
’’ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت عطا کی ، پھر اس کے مطابق ہدایت دی۔‘‘
اس آیت میں ایک بنیادی قانون کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ قانون یہ ہے کہ خدا نے دنیا میں جو چیزیں بھی پیدا کی ہیں انہیں ان کے بنائے جانے کے حقیقی مقصد کے مطابق ساخت بھی عطا کی ہے۔ پھر جس خاص مقصد کے تحت کوئی چیز پیدا ہوتی ہے ، خدا اسے اسی مقصد کی راہ پر لگا دیتا ہے۔ جب تک کوئی چیز اپنی تخلیق کے مقصد کو پورا نہیں کرتی ، وہ نامکمل حالت میں ہوتی ہے۔ اپنے مقصد کی تکمیل ہی میں اس کی معنویت ظاہر ہوتی ہے۔
جس چیز سے جو کام لینا ہوتا ہے ، اس کی فطرت اور اس کی ساخت سب کچھ اس مطلوبہ مقصد کے مطابق ہوتی ہے۔ چڑیوں کو ہوا میں اڑنا ہے تو اس کے خدا نے چڑیوں کے جسم کی ایسی تخلیق کی جو ان کے اُڑنے میں معاون ہو۔ اسے بال و پر بھی عطا کیے اور جسمانی ساخت بھی ایسی رکھی کہ وہ فضا میں آسانی سے پرواز کر سکے۔ مچھلیوں کو پانی میں تیرنا ہوتا ہے ، تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے لیے ایک ایسا جسم دیا گیا جو پانی میں تیر سکے اور پانی میں رہنا اور تیرنا اس کی فطرت میں داخل کردیا گیا۔
پھول کا ایک پودا جب آپ اپنے گملے میں لگاتے ہیں تو وہ رفتہ رفتہ نشوونما پاکر سرسبزاور شاداب ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے پورے شباب پر آجاتا ہے ۔اب اس میں پتیاں ہی نہیں ہوتیں، بلکہ اس میں کلیاں بھی نکل آتی ہیں۔ اور پھر وہ کلیاں کھل جاتی ہیں اور پھول اپنی خوشبو بکھیرنے لگتا ہے۔ پودے میں مہکتے پھول کھل اٹھتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ اب اسے کچھ اور نہیں ہونا ہے۔ اس نے اپنی زندگی کے مقصد کو پا لیا جس کی طرف وہ روزِ اول ہی سے گامزن دکھائی دیتا تھا۔ یہ پودا اگر پھول کھلنے سے پہلے ہی سوکھ جاتا تو یہی کہا جاتا کہ وہ ضائع ہو گیا۔ اس لیے کہ وہ اپنے مقصد کو حاصل نہ کر سکا۔
دنیا میں ہر چیز اپنے کمال تک پہنچنا چاہتی ہے۔ یہی زندگی کا قانون ہے اور یہی زندگی کا حقیقی محرک بھی ہے۔ اپنے اسی فطری رجحان اور جبلت کو لے کر ہر چیز دنیا میں وجود میں آتی ہے۔ یہ قانون اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ انسانی زندگی ہی میں جاری اور نافذ ہوسکتاہے۔ ایسے لوگ بڑے ہی خوش قسمت ہیں جو اس قانون سے واقف ہیں اور اس قانون کی پامالی کو ایک سنگین جرم سمجھتے ہیں۔ قرآن میں اس قانون کا ذکر کرتے ہوئے واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ اس قانون کا نفاذ انسانی زندگی ہی میں سب سے زیادہ ثمر آور ہے۔ اس لیے اس قانون سے روگردانی انسان کے لیے بھی کسی عذاب سے کم نہیں۔
قرآن میں ہے:
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی۔ الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوَّی۔ وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدَی۔ وَالَّذِیْ أَخْرَجَ الْمَرْعَی۔ فَجَعَلَہُ غُثَاء أَحْوَی۔ (سورۃ الاعلی:۱۔۵)
پھر آگے چل کر کہا گیا:
قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی ۔ (سورۃ الاعلی: ۱۴)
یہی تکمیل انسان کا حقیقی سرمایہ اور حاصل زندگی ہے۔ اس تکمیل کا علم ہوتا ہے اس ربانی احساس کے ذریعے سے جو اُسے حاصل ہوتا جو اُس کی طرف متوجہ ہوتااور اس کے ساتھ اپنا پن کا تعلق قائم کرتا ہے۔
انسانی زندگی میں متذکرہ بالا قانون کی تکمیل صرف اسی بات سے نہیں ہو جاتی کہ انسان عالم طفولیت سے گزر کر عہد شباب تک پہنچ جائے۔یہ تو صرف جسمانی تکمیل ہوئی۔ انسان صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ ایک روحانی وجود بھی رکھتا ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کہ وہ کہ اصلاً وہ روح ہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عام نگاہوں سے انسان کے روحانی وجود کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جو کچھ نظروں سے اوجھل (Unseen) ہوتا ہے وہی حق سے زیادہ نزدیک ہوتا ہے۔ انسان کے ایک روحانی وجود ہونے کی حیثیت سے اس کی تکمیل کا مفہوم انتہائی عمدہ ، پاکیزہ اور بلند ہوگا۔ اور اس تکمیل کا مفہوم یہ ہوگا کہ انسان(شعوری طور پر بھی) زندگی کے بنیادی سرچشمے سے وابستہ ہوگیا۔ اس نے اپنی زندگی میں روحِ خداوندی کو پالیا۔ ندی نے سمندر کو جان لیا۔ کرن اپنے سورج سے وابستہ ہو گئی۔ اس نے حیاتِ جاوید کو پالیا۔ تکمیل کا یہ تصور کوئی خشک تصور نہیں۔ یہاں علم و شعور صرف علم و شعور ر نہ رہابلکہ وہ ایک جمالیاتی احساس میں بدل گیا۔ جیسے پتّی پھول بن جائے۔ ماہرِ نباتات کہتے بھی ہیں:
ٖFlower is the modification of leaves.
پھول درحقیقت پتی ہی کی بدلی ہوئی شکل ہے۔
اس جمالیاتی احساس میں کسی طرح کی کثافت یا کھوٹاپن نہیں پایا جاتا۔ یہاں محبت اپنی خالص شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ زندگی کی شیرینی ہمیشہ سے اسی کی مرہونِ منت ہے۔ اس قانون کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اپنے عروج کو پہنچ کر ہر شئے اپنے کمال تک جا پہنچتی ہے۔ اسے سکون حاصل ہوتا ہے۔ بکھراؤ اور بھٹکاؤ کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اس پر سے بوجھ اتر جاتا ہے۔ اس حالت میں انسان اپنے کو ہلکا محسوس کرتا ہے۔ کسی طرح کا تناؤ باقی نہیں رہتا۔ جو کچھ اس پر منکشف ہوتا ہے وہ اتنا قیمتی ہوتا ہے کہ آدمی ہر چیز سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔اب وہ ایک ایسی فضا میں سانس لے رہا ہوتا ہے جہاں ہر چیز سامنے ہوتی ہے۔ اسے اپنی منزل مل جاتی ہے۔ اس حالت کو مختلف نام دئیے جاتے ہیں۔ کسی نے اسے بیداری یا شعور کہا تو کسی نے اسے آنند یا سچی خوشی کے نام سے یاد کیا ہے اور کسی نے اسے سمادھی(مراقبہ) یا امانوشی ریتی کا نام دیاہے۔

مولانا محمد فاروق خاں، معروف دانشور ومترجم قرآن مجید ہندی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights