زلزلہ، وجوہات اور ہماری ذمہ داریاں

0

۲۵؍اپریل ۲۰۱۵ ؁ء کو ایک بار پھر حضرت انسان کو اپنی بے چارگی کے احساس سے دوچار ہونا پڑا۔ نیپال ہند کے شمالی حصے میں آن کی آن میں نقشہ ہی بدل گیا۔ ہندوستان اور دیگر ممالک سے رضاکارانہ طور ٹیمیں روانہ کی گئیں، تادم تحریر ہزاروں افراد کے ہلاک ہونے اور کئی ہزار افراد کے زخمی ہونے کی خبریں میڈیاکے ذریعے ساری دنیا میں پھیل چکی ہیں۔ اس واقعہ نے ایک بار پھر ہمارے مادہ پرستانہ طرز زندگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
علم طبعیات اور ہیئت کے مطابق زمین بنیادی طور سے تین حصوں میں منقسم ہے۔ سب سے نچلا حصہ درجہ حرارت کے بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے پگھلی ہوئی حالت میں ہے۔ اس پگھلی ہوئی حالت کو لاوا کہتے ہیں۔ اس لاوے کے اوپر Tectonic Plates تیرتی رہتی ہیں۔ جن کی مجموعی تعداد پورے کرۂ ارض میں ۱۲؍ ہے۔ یہ پلیٹیں ہزاروں کلومیٹر چوڑی اور سو کلومیٹر تک موٹی ہوتی ہیں۔ ہلکی رفتار سے یہ پلیٹیں گردش کرتی رہتی ہیں، سال بھر میں یہ اپنے مقام سے پانچ ملی میٹر تک ہٹ جاتی ہیں، گردش کے دوران کبھی کبھی یہ پلیٹیں ٹکرا بھی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں وافر مقدار میں توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ اس اخراج کی وجہ سے زمین کی بالائی پرت پر ایک ہلچل پیدا ہوجاتی ہے جو زلزلے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن ان واقعات کا ظہور کب ہوجائے گا، اس کے بارے میں جدید سائنس بالکل خاموش ہے۔
اکثر بڑے زلزلوں سے پہلے کئی چھوٹے چھوٹے جھٹکے آتے ہیں، ان چھوٹے جھٹکوں کو Fore Shocks کہا جاتا ہے۔ بڑے زلزلے کے بعد بھی چھوٹے چھوٹے زلزلوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جنہیں After Shocks کہا جاتا ہے۔ یہ کچھ ہفتوں تک بھی جاری رہ سکتے ہیں۔ برطانیہ کے ایک انجینئر نے زلزلہ آنے کی وجہ کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا ہے، ’’زمین کی سطح کے میلوں نیچے چٹانوں کے کھسکنے سے زلزلے آتے ہیں‘‘۔
قیامت کے زلزلے کی طبعی وجوہات کیا ہوں گی؟ اس کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ لیکن قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ وہ زلزلہ پورے کرۂ ارض کو ہلا کر رکھ دے گا۔ سورہ زلزال میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلاڈالی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی‘‘۔ اس کائنات میں ہونے والا ہر واقعہ اللہ کے حکم سے ہی انجام پاتا ہے، جن طبعی قوانین کے تحت یہ کارخانۂ حیات چل رہا ہے، ان کا وضع کرنے والا اللہ ہی ہے، انسان تو بس ان کا علم ہی حاصل کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشش ثقل کے باعث ہر چیز زمین پر ہی گرتی ہے اور انسان اسے اڑنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔
خدا بیزار زندگی گزارنے کے نتیجے میں انسان طرح طرح کی برائیوں میں ملوّث ہوجاتا ہے، بعض اخلاقی برائیاں ایسی ہیں جو قدرتی آفات کو دعوت دیتی ہیں، یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ یکلخت نیست ونابود نہیں کرتا ، بلکہ پہلے وارننگ دیتا ہے تاکہ انسان سنبھل جائے اور اپنا طرز زندگی درست کرلے۔ سورہ سجدہ میں ا للہ رب العزت کا ارشاد ہے: ’’اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزہ چکھاتے رہیں گے، شاید کہ یہ اپنی (باغیانہ روش سے) باز آجائیں‘‘ (سورہ سجدہ: آیت: ۳۱) اس آیت کریمہ کی تشریح میں سید ابوالاعلی مودودیؒ رقم طراز ہیں: ’’عذاب اکبر سے مراد آخرت کا عذاب ہے جو کفر اور فسق کی پاداش میں دیا جائے گا، اس کے مقابلے میں عذاب ادنی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جس سے مراد وہ تکلیفیں، مصیبتیں اور آفتیں ہیں جو اسی دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں، مثلا افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت، المناک حادثے، نقصانات، ناکامیاں وغیرہ۔ اور اجتماعی زندگی میں طوفان، زلزلے، سیلاب، وبائیں، فسادات، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی کہ عذاب اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں، اور اس طرز فکروعمل کو چھوڑ دیں، جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالی نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ بالکل آرام اور سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے کہ اس سے بالاتر کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو۔ ‘‘ (تلخیص تفہیم القرآن، صفحہ ۶۵۳؍ حاشیہ ۳۳؍)
قدرتی آفات کے مواقع پر ہم پر درج ذیل ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں:
(۱) بلا تفریق مذہب وملت رضاکارانہ خدمات، ریلیف ورک میں شرکت کریں، اور ’’تعاونوا علی البر والتقوی‘‘ کے اصول کے تحت اس کار خیر میں کسی بھی مسلم وغیر مسلم تنظیم سے تعاون کیا جاسکتا ہے۔ (۲) Disaster Managementکو سمجھیں، اور اس کا شعور اپنے حلقہ احباب اور متعلقین میں عام کریں۔ (۳) زلزلہ آنے کی اخلاقی وجوہات، اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دلائیں، نیز ہم وطن ساتھیوں کو فکر آخرت اور عقیدہ توحید کی طرف حکمت کے ساتھ دعوت دیں۔(۴)توبہ واستغفار، خوداحتسابی اور اپنے گناہوں پر خود بھی نادم ہوں نیز طلبہ ونوجوانوں میں بھی اس احساس کو بیدار کریں۔

محمد معاذ، جامعہ ملیہ اسلامیہ

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights