رہبر کارواں : مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ

ایڈمن

مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ کی شخصیت کم ازکم ہندوستان کے تحریکی حلقے میں محتاجِ تعارف نہیں۔مولانا مرحوم ایک جید عالم دین، ایک بلندپایہ اسلامی دانشور، اور تحریک اسلامی ہند کے ایک عظیم قائد ورہنما تھے۔ عین جوانی میں تحریک اسلامی…

مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ کی شخصیت کم ازکم ہندوستان کے تحریکی حلقے میں محتاجِ تعارف نہیں۔مولانا مرحوم ایک جید عالم دین، ایک بلندپایہ اسلامی دانشور، اور تحریک اسلامی ہند کے ایک عظیم قائد ورہنما تھے۔ عین جوانی میں تحریک اسلامی سے وابستہ ہوئے اور تادمِ حیات اس سے مختلف صورتوں میں وابستہ رہے۔ آزادئ ہند کے بعد کے سخت اور صبر آزما حالات میں جن افراد نے آگے بڑھ کر تحریک اسلامی کے قافلے کو سنبھالادیا، اور ملت اسلامیہ ہند کی بروقت اور صحیح رہنمائی کی سعی وجہد کی، ان میں سرفہرست مرحوم مولانا ابواللیث اصلاحی کا نام آتا ہے۔
مولانا مرحوم ایس آئی او آف انڈیا کے سرپرست اعلی تھے اور ایس آئی او سے وابستہ طلبہ ونوجوانوں سے بہت ہی والہانہ تعلق رکھتے تھے۔ اسی طرح جامعۃ الفلاح سے بھی آپ کے دیرینہ تعلق تھے، جامعہ کی تاسیس سے لے کر تادمِ حیات آپ کسی نہ کسی شکل میں نہ صرف یہ کہ جامعہ سے وابستہ رہے، بلکہ اس کی تعمیر وترقی کے لیے بھی کوشاں رہے۔ مولانا مرحوم کی رحلت کے بعد ایس آئی او آف انڈیا کے ترجمان ماہنامہ رفیق منزل اور انجمن طلبہ قدیم جامعۃ الفلاح کے ترجمان حیات نو نے مرحوم کی حیات وخدمات پر خصوصی شماروں کی اشاعت کا اہتمام کیا تھا۔ زیرنظر کتاب دراصل ماہنامہ رفیق منزل اور ماہنامہ حیات نوکے اِن ہی خصوصی شماروں کے مضامین کا انتخاب ہے، جس کو ایک نئی ترتیب اور حذف واضافہ کے ساتھ جناب انتظار نعیم صاحب نے کتابی شکل دی ہے۔ مرتب موصوف کے بقول: ’’کتاب کی ترتیب وتدوین میں اگرچہ میں نے ایک طویل مدت صرف کی ہے، اور مولانا سے محبت اور اپنے شوق کی بنا پر مختلف موسموں میں بہت سی راتیں لگائی ہیں، لیکن اس کا حقیقی کریڈٹ اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے ترجمان ماہنامہ رفیق منزل اور انجمن طلبہ قدیم جامعۃ الفلاح بلریاگنج اعظم گڑھ کے ترجمان حیات نو کو جاتا ہے، جس کے مولانا کی رحلت کے وقت مدیران جناب طارق فارقلیط فلاحی اور جناب محمد اسماعیل فلاحی نے خاص نمبر نکال کر ان اداروں کی جانب سے مولانا کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔‘‘ (پیش لفظ)
کتاب مجموعی طور پر ۶؍حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصے میں پیش لفظ کے علاوہ ۲؍تحریریں ہیں۔ اس کے بعدکے حصے بالترتیب کچھ اس طرح ہیں: عمائدین ملت کے تأثرات، رفقائے تحریک کے تأثرات، احباب کی نظر میں، اہل خاندان کے جذبات، اور آخر میں مرحوم کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
کتاب میں شامل اہم تحریروں میں مولاناعلی میاں ندویؒ ، مولانا سید رابع ندوی، جناب نعیم صدیقیؒ ، ڈاکٹر عبدالمغنیؒ ، مولاناضیاء الدین اصلاحیؒ ، مولانا مجیب اللہ ندویؒ ، مولانا سراج الحسن، مولانا سید جلال الدین عمری، مولانا شفیع مونسؒ ، جناب شمس پیرزادہؒ ، حسنین سیدؒ ، مائل خیرآبادیؒ ، مولانا شہباز اصلاحیؒ ، مولانا عبدالعلیم اصلاحی، مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی، جناب پرواز رحمانی، اور مرتب موصوف کے علاوہ جماعت سے وابستہ اور غیر وابستہ دیگر افراد کی تحریریں اور احباب واہل خاندان کے انٹرویوز ہیں۔
کتاب میں شامل تمام ہی تحریروں اور انٹرویوز سے مولانا مرحوم کی عظمت اور لوگوں کے دل میں ان کے مقام کا پتہ چلتا ہے، مولانا علی میاںؒ کے یہ تأثرات یقیناًتحریک اسلامی سے وابستہ افراد اور قائدین کے لیے بہت ہی اہم ہیں کہ ’’ایک عظیم مؤقر جماعت کے امیر ہونے کے باوجود ان کی سادگی، تواضع اور عالمانہ ومدرسانہ طرز زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا، وہ اپنے قدیم دوستوں سے اسی بے تکلفی اور اخلاص سے ملتے تھے جیسے اپنے زمانۂ طالب علمی وتدریس میں ملتے تھے۔ مشائخ وعلماء سے بھی ان کے روابط قائم رہے۔‘‘
اسی طرح مولانا شفیع مونسؒ نے مرحوم کی جن ۶؍خوبیوں کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ بھی یک گونہ اہمیت رکھتی ہیں کہ ’’(۱) مولانا ذہین ترین آدمی تھے۔ جو لوگ مولانا کے قریب رہتے تھے اور قریب سے جانتے تھے ان کو اس بات کا بارہا اندازہ ہوا ہوگا۔ (۲) مولانا ایک معتدل مزاج فرد تھے، حالات کیسے ہی موافق یا ناموافق ہوں، کوئی گھبراہٹ، مایوسی یا بددلی ان کے یہاں راہ نہیں پاسکتی تھی۔ (۳) مولانا اعلی درجہ کے مردم شناس تھے۔ جس سے ایک بار ملاقات ہوجاتی، اس کے نام اور کام دونوں کو یاد رکھتے تھے، اور یہ سمجھنے میں ان کو دیر نہیں لگتی تھی کہ یہ کس قسم کا آدمی ہے اور کس صلاحیت کا ہے۔ (۴) مولانا بہت ملنسار تھے۔ مولانا کے اندر یہ صفت اتنی زیادہ تھی کہ وہ لوگ جو جماعت کے شدید مخالف تھے مولانا کا نام آنے پر معتدل ہوجاتے تھے۔ مولانا نے اپنے مخالف، موافق ہر طرح کے لوگوں سے تعلقات استوار کررکھے تھے اور جب کہیں تشریف لے جاتے تھے تو وہاں اگر کوئی قابل ذکر شخصیت ہوتی تو ضرور ملاقات کرتے۔ بعض دفعہ رفقاء کو زبردستی لے کر جاتے تھے۔ اس لیے معاصر علماء اور بزرگوں میں مولانا کے مخالف بہت کم تھے۔ (۵) مولانا نظم قرآن کے تعلق سے فکر فراہی کے مداح تھے اور قرآن پر بھی ان کی نظر بہت گہری تھی۔ (۶) مولانا نے حدیث کو اصل موضوع کے طور پر اختیار کیا تھا، جس کا علم بہت کم لوگوں کو ہے۔ مولانا حدیث کا مسلسل مطالعہ کرتے رہتے تھے۔
مرتب موصوف نے گرچہ اس کتاب میں رفیق منزل اور حیات نو کے مضامین کے علاوہ بھی کئی ایک اہم مضامین کا اضافہ کیا ہے، تاہم اس کے باوجود یہ کتاب تعزیتی تأثرات کا مجموعہ بن کر رہ گئی ہے۔ کتاب کی اہمیت اور افادیت سے انکار قطعاََ مقصود نہیں، البتہ اس کو پڑھنے کے بعد یہ تشنگی اپنی جگہ جوں کی توں باقی رہ جاتی ہے کہ مولانا موصوف کی تحریک اسلامی ہند اور ملت اسلامیہ ہند کے سلسلے میں واقعی خدمات کیا تھیں، اور واقعی آپ کا علمی وفکری مقام کیا تھا۔ موصوف تقریباََ تین دہائیوں سے زائد جماعت اسلامی ہند کے امیر رہے، اس طویل دورِ امارت میں تحریک نے کیا کیا مراحل طے کئے، اور کن کن محاذوں پر کیا کیا پیش قدمی ہوئی۔ آزادی کے بعدکے سخت ترین اور صبرآزما حالات میں ملک بھر میں تحریکی اسٹرکچر کے قیام اور استحکام میں موصوف کی قیادت کا کیا رول تھا۔ آپ کے دوروں اور اسفار کی نوعیت کیا ہوتی تھی۔ ایمرجنسی کے دوران آپ نے کس طرح حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی، اور اس کے بعد کے دور میں تحریک کے استحکام کے سلسلے میں کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ موصوف کے بارے میں کہا جاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ وہ ایک جید عالم دین اور زبردست اسلامی دانشور تھے، بالخصوص قرآنیات پر گہری نظر رکھتے تھے، تاہم جماعت کی امارت سنبھالنے کے بعد اس محاذ پر انہوں نے توجہ نہیں دی یا کم دی، اس سلسلے میں ان کا اصل موقف کیا تھا۔وہ تحریک اسلامی کی قیادت اور تصنیفی وتحقیقی مصروفیات کے درمیان کس طرح توازن قائم رکھتے تھے۔ اسی طرح ملت اسلامیہ ہند کے سامنے آزادی کے بعد جو حالات پیش آئے، اور بعد میں ملت کے جو مشترکہ پلیٹ فارم وجود میں آئے، ان پلیٹ فارمس کی تشکیل اور تشکیل کے بعد ان کی قیادت اور منصوبہ سازی میں موصوف کا کیا رول تھا۔ مذکورہ بالا امور میں سے بعض پرضمنی طور پر مختلف مضامین میں کچھ باتیں ضرور آئی ہیں، جو اپنی جگہ یک گونہ اہمیت کی حامل ہیں، تاہم ان تمام ہی موضوعات پر جن میں مزید اضافہ بھی ممکن ہے، علیحدہ علیحدہ مضمون کی شکل میں قدرے تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے، (اور یہ کام فوری سے پیشتر کرلینے کا ہے کہ ابھی بھی اِن حالات کے بہت سے عینی شاہدین باحیات ہیں) تاکہ نئی نسل ان امور سے صحیح طور سے واقف ہوسکے، اور اپنے اس عظیم رہنما سے محض عقیدت کے جذبات پر اکتفاء نہ کرے بلکہ اس کی حیات وخدمات کے مطالعہ سے اُسے ایک تحریک اور جذبہ بھی نصیب ہو۔
کتاب کا آخری باب مرحوم کی خدمات پر روشنی ڈالتا ہے، لیکن یہ باب جس قدر اہمیت کا حامل ہے، اسی قدر ناکافی معلوم ہوتا ہے۔ مرحوم کی خدمات کے اہم پہلوؤں میں تحریک، علم وفکر، قرآنیات (نظم قرآن یا فکر فراہی کے حوالے سے)، ملی خدمات، سیاست، صحافت وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، تاہم اس میں محض ایک دوپہلوؤں کے ذکر پر اکتفاء کیا گیاہے، گرچہ یہ بھی تشنہ معلوم ہوتے ہیں۔
کیا ہی بہتر ہوتا کہ ایک الگ باب کے تحت مختلف موضوعات پر مرحوم کی منتخب اور نادر تحریریں اور کچھ خطوط وغیرہ بھی اس کتاب میں شامل کردئیے جاتے، تاکہ کتاب کے تنوع اور اہمیت وافادیت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔
طباعت کے پہلو سے دیکھا جائے تو مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز کی عام کتابوں کی طرح اس کتاب کا ٹائٹل بھی ذوق پر حددرجہ گراں گزرتا ہے۔اس سب کے باوجود اس پہلو سے یہ کتاب اہم ہے کہ تحریک اسلامی ہند کے عظیم قائد مولانا ابواللیث اصلاحی مرحوم کی حیات وخدمات کا تعارف پیش کرنے والی یہ پہلی باقاعدہ کتاب ہے۔ امید کہ آئندہ اشاعت میں مذکورہ بالا پہلوؤں پر توجہ دی جائے گی۔
مرتب:انتظار نعیم
صفحات:۲۸۸
قیمت: ۱۵۰؍روپے
تاریخ اشاعت:جنوری ۲۰۱۴ ؁ء
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز
مبصر: ابوالاعلی سید سبحانی

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں