رویندر ناتھ ٹیگور کا نظریۂ حیات

ایڈمن

رویندر ناتھ ٹیگور کا نظریۂ حیات کیا رہا ہے، اس پر گفتگو کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم انیسویں صدی عیسوی کے اس دور پر ایک نظر ڈال لیں جب کہ فکرونظر کی دنیا میں مادّی فکر غلبہ پانے کے لیے منظم طریق پر اپنے ہاتھ پاؤں پھیلا رہا تھا۔ مار کس کا معاشی فکر ہو یا ڈار دن کا نظریۂ ارتقاء، اس طرح کے نظریات کے فروغ کو دیکھ کر مادیت کے علمبردار یہ اعلان کرنے لگے تھے کہ انہوں نے زندگی کی پہیلی کو حل کرلیا ہے۔ کائنات کا راز ہمارے لیے کوئی راز نہیں رہا۔ کائنات میں جو کچھ ہے اور جو کچھ ہورہا ہے وہ محض مادہ کی کرشمہ سازی ہے۔ کائنات اور زندگی کی تشریح اور توجیہ کے لیے نہ تو کسی اخلاقی نظریہ کی ضرورت ہے اور نہ اس کے لیے(نعوذ باللہ) کسی غیبی خدا کی ضرورت ہے۔ ہکسلے نے تو صاف اعلان کردیا تھا کہ کائنات کے تجربہ کا اخلاقی مقاصد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ زندگی اور شعور اور کائنات مادّی توانائی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔
لیکن یہ کیفیت دیر تک قائم نہیں رہی اور نہ رہ سکتی تھی۔ چنانچہ برگساں یہ لکھنے پر مجبور ہوا کہ آج انسان کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ زندہ رہنا چاہتا ہے یا نہیں، پھر صرف زندہ رہنا چاہتا ہے یا اس سے آگے بڑھ کر اس فریضہ کو ادا کرنے کو تیار ہوتا ہے یا نہیں کہ ایسے انسان تیار کیے جائیں جن کی زندگی خدا کی صفات کی آئینہ دار ہو۔ اسے وہ Getting back to God(خدا کی طرف پلٹنے یا رجوع الی اللہ) سے تعبیر کرتا ہے۔
عام حیوانات اور انسان کے درمیان ایک بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ عام جانور جس حیوانی سطح پر جی رہے ہیں وہ اس پر راضی دکھائی دیتے ہیں۔ حیوانی سطح سے بلند ہونے کی ان کے اندر کسی خواہش کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی، جبکہ انسان حیوانی سطح پر جینے پر کبھی بھی راضی نہیں ہوا ہے۔ وہ حیوانی اور مادی سطح سے بلند ہوکر سوچتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ محض جسم نہیں ہے۔ وہ اس کے سوا کچھ اور بھی ہے اور وہی بیش قیمت ہے۔ جسم تو روح کا محض ایک خا دم ہے۔ انسان زندگ�ئجادواں کا خواب دیکھتا ہے۔ انسان میں ایکDirim Sharkایک الوہی شعلہ بھی پایا جاتا ہے جس سے صرفِ نظر کرنا آسان بات نہیں ہے۔ اسے نظرانداز کرنے سے جو خلش دل میں پیدا ہوتی ہے اس کو کوئی مادی فکر ونظر یہ دور نہیں کرسکتا۔
مادی افکار کے ہنگامے رویندر ناتھ ٹیگور کو کہیں گمراہ نہ کرسکے۔ مادی نظریات میں ان کے لیے کشش کا کوئی سامان نہ تھا۔ ان کے سینے میں ایک زندہ دل تھا اور وہ نہایت حساس واقع ہوئے تھے۔ وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ کائنات میں جس جمال وکمال اور معنوی حسن کا مشاہدہ ان کی آنکھیں کررہی ہیں ان کی توجیہ وتشریح مادی نظریات کے ذریعہ سے ممکن نہیں۔
ٹیگور کے والد برمھ سماج کے لیڈر تھے انہیں مہارشی کہا جاتا تھا۔ والد کے اثرات ٹیگور پرپڑے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنشدوں کے مطالعہ سے ان کی چشم باطن وا ہوئی، اور فطرت کے دلکش نغمات ان کے کانوں کو سنائی دینے لگے۔ یہ نغمات محض نغمات نہ تھے، ٹیگور کے لیے یہ درحقیقت کسی شاہد عینی کے پیغام محبت تھے۔ ٹیگور نے زندگی کی گہرائیوں میں اتر کر زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی اور وہ اپنی کوشش میں کامیاب رہے۔
ٹیگور نے جو فکر مرتب کیا وہ جاذب نظر بھی ہے اور اس میں دلوں کے لیے سامان راحت وسکون بھی پایا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے فکرواحساس کو اپنی تخلیقات میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اس فکر کی اشاعت کی غرض سے انہوں نے بیرون ملک کے سفر بھی کیے۔ انہوں نے انسان کے اذہان کو اس طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے مقام کی بلندی سے آگاہ ہوسکے اور زندگی کے اعلیٰ مقصد سے وہ آشنا ہوسکے۔ انہوں نے انسان اعمال، مقصود حیات اور انسانی تہذیب وغیرہ کے بنیادی مسائل پر علمی گفتگو کی اور اتحاد اور یگانگت پر پورا زور صرف کیا۔ وہ کثرت میں وحدت کا نظارہ کرتے تھے۔ اور معمولی سے معمولی چیزیں بھی انہیں غیر معمولی حقائق کا مشاہدہ کراتی تھیں۔ وہ کہتے ہیں:
جب میں بچوں کے ہاتھوں میں مٹھائی کا دونا رکھتا ہوں اور وہ خوشی سے ناچنے لگتے ہیں تب مجھے یہ گیان ہوتا ہے کہ پھولوں میں رس کیوں ہے! اور جب میں چھوٹے بچوں کو چومتا اور ان کے بوسے لیتا ہوں اور وہ خوشی کے مارے رقص کرنے لگتے ہیں تب مجھ پر یہ راز کھلتا ہے کہ کہ صبح کو باد نسیم کے جھونکے کیوں آتے ہیں!
ٹیگور انسانی زندگی کو ایک سادھنا قرار دیتے ہیں۔ زندگی کی حیثیت ایک سعی کی ہے اور یہ سعی کسی اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے ہے۔ ان کے نزدیک انسان حق تک پہنچنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قدیم بھارت کا آدرش یہ رہا ہے کہ کائنات میں انسان خود آگہی کو وسعت دے کر برمھ وہار کرسکتا ہے۔ برمھ وہار یعنی سیرفی اللہ۔
وہ کہتے ہیں:
’’ انسان کے اندر ترقی کی انتہا تک پہنچنے کے لیے ایک اضطراب پایا جاتا ہے، لیکن وہ نہیں سمجھتا کہ انسانی ارتقاء کی انتہا طاقت اور دولت جمع کرنا نہیں اور نہ اسے مادی ذرائع ووسائل سے حاصل کیا جاسکتاہے۔ ہاں جب باطن کی شمع روشن ہوجاتی ہے تو اس کے روشن ہوتے ہی یہ راز منکشف ہوجاتا ہے کہ انسان کی تکمیل کا دارومدار اس پر ہے کہ اس کے باطن میں ایک خدا کی جلوہ فرمائی ہو۔ ان کے نزدیک محدود میں لامحدود کی جلوہ ریزی اور محسوس ومرئی اشیاء کی غیر مرئی حقیقت کے مظہر ہونے ہی میں کائنات کی معنویت کا راز پنہاں ہے۔ انسان خدا کی چاہت میں اگر آگے بڑھتاہے، جس کے لیے وہ مجبور نہیں کیا گیا ہے، تو خدا کا قرب اسے حاصل ہوسکتا ہے۔ پھر ایسا شخص ہی دنیا کے سارے انسانوں سے رشتہ محبت استوار کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔‘‘
ٹیگور کے نزدیک انسان کی سچی نجات جہل (Ignorance)سے نجات پانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پلکیں اٹھیں تو آنکھیں دیکھنے لگ جاتی ہیں۔ اور پلکوں کا اٹھنا آنکھوں کا ضائع ہونا نہیں ہے۔ ٹھیک اسی طرح زندگی میں حق کی روشنی کا پھیلنا زندگی کا زیاں نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں جہل سے نکلو،آتما کو پہچانو اور اپنی خودی کی گرفتاری سے بچو۔
اس سلسلے میں ایک اہم بات وہ یہ کہتے ہیں کہ دھرم کا کام ہماری فطرت کو نشٹ کرنا یا اسے کچلنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ دھرم تو اس لیے ہے کہ وہ ہماری فطرت کی تکمیل میں معاونت کرے۔ ان کے نزدیک گناہ کے معنی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم اپنی سچی فطرت کے خلاف کوئی کام کرنے لگ جائیں۔ سچائی کو حصوں میں نہیں بانٹا جاسکتا۔ اندرون کی دنیا ہو یا ظاہری دنیا، ہمیں ہر جگہ خدا کی اطاعت کرنی ہوگی۔ جہاں بھی ہم اس کے حکم اور منشأ کی خلاف ورزی کریں گے سزا کے مستحق ہوں گے۔ برمھ ہمیں نہیں چھوڑ سکتا، ہم بھی برمھ سے وابستہ رہیں، اسے چھوڑیں نہیں۔
ان کے نزدیک روحانیت درحقیقت باطنی اور ظاہری توانائیوں کے توازن میں مضمر ہے۔ وہ کہتے ہیں ستیہ(Truth)کے اپنے ضابطے اور اصول بھی ہوتے ہیں لیکن ستیہ خود آنند بھی ہوتا ہے،جسے enjoyکیا جائے، جس سے ہم لذت گیر ہیں۔ یہ انکشاف بھی کرتے ہیں کہ منطق کے ذریعہ صرف اس چیز کو جان سکتے ہیں جو حصوں میں تقسیم ہوسکتی ہو۔ لیکن برمھ کا تجزیہ ممکن نہیں۔ وہ کامل ہے اسے ہم آنند کے ذریعہ ہی پاسکتے ہیں۔ منطق سے ہمیں صرف ظاہری علم حاصل ہوتا ہے۔ باطنی علم کا حصول اس کے ذریعہ ممکن نہیں۔ برمھ کو آنند کے ذریعہ سے جان سکتے ہیں، لیکن اسے جاننے کے بعد بھی جاننا باقی رہ جاتا ہے۔ ٹیگور اپنیشد کا یہ خوبصورت جملہ نقل کرتے ہیں:
’’میں نہیں مانتا کہ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں یا بالکل جانتا ہوں لیکن میں یہ بھی نہیں مانتا کہ میں اسے نہیں جانتا۔‘‘
یہی بات اپنیشدمیں ایک جگہ اس طرح بیان ہوئی ہے:
بانی(کلام،منطق) اورمن دنوں اس برمھ کو نہ پاکر لوٹ آئے، صرف آنند کے ذریعہ ہی اسے پایا جاتا ہے۔ اسے پاکر سب خوف دور ہوجاتے ہیں‘‘
پریم در حقیقت آنند ہی کا ایک روپ ہے۔ اس لیے اسے پانا پریم کے ذریعہ سے بھی ممکن ہے۔ اپنیشدوں میں برمھ کے لیے دوقسم کے تصورات (Concept) ملتے ہیں۔ ایک تصور یہ ہے کہ وہ نرگُن ہے، اس کے متعلق ب ’’نیتی نیتی‘‘ یعنی’’وہ یہ نہیں ہے، وہ یہ نہیں ہے‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے سوا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن محض سلبی تصور انسان کے لیے باعث تسکین نہیں ہوسکتا۔ سلبی(Negative) تصور کے ساتھ ایجابی (Positive) تصور بھی درکار ہے۔ ٹیگور کو اس ضرورت کا پورا احساس تھا۔ وہ کہتے ہیں اپنیشدوں میں یہ تصور بھی ملتا ہے کہ ایشور پرش ہے، یعنی وہ شخصیت (Personality) کا حامل بھی ہے، چنانچہ اپنیشد میں ہے:
’’ اس مہان پرش کو جانا ہے‘‘۔
ٹیگور فرقہ پرستی کے خلاف رہے ہیں، وہ جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ کثرت میں وحدت کے دیکھنے کے قائل تھے۔ انہوں نے اپنی تخلیقات میں خدا کے لیے کسی فرقے میں رائج نام کے استعمال سے قصداً گریز کیا۔ وہ خدا کو پریتم (محبوب)، پربھو، اور سوامی وغیرہ کہہ کر پکارتے ہیں۔
ٹیگور رہبانیت یا سنیاس کی تائید نہیں کرتے، کہتے ہیں:
’’اگر میں اپنا گھر چھوڑ دوں تو تیرے گھر تک نہیں پہنچ سکتا۔ اگر میں اپنا کام ترک کردوں توعمل میں تر اہم مسلک نہ بن سکوں گا۔‘‘
اس کے آگے وہ کتنی پیاری بات کہہ گئے ہیں، وہ کہتے ہیں:
’’میں اس گھر کو تیرا گھر بناکر ہی تجھ سے مل سکتا ہوں، اس کاروبار کو تیرے کاروبار میں بدل کرہی تیرا یوگ سادھ سکتا ہوں۔‘‘
رویندر ناتھ ٹیگور انسان کو سماج کا ایک رکن قرار دیتے ہیں، اس لیے ان کی نظر میں سب کی سیوا اور سب سے پریم کرکے ہی آدمی ذہنی صحت اور آنند حاصل کرسکتا ہے۔ ٹیگور مادّہ پرست تہذیب کو انسانیت کے لیے مہلک سمجھتے تھے، چنانچہ انہوں نے لکھا ہے:
’’مادہ پرست قوموں میں آدمی کی قسمت کا اندازہ مادّی اشیاء کی طرح لگایا جاتا ہے، یعنی انسان کی قسمت مادّی افادیت کے نقطۂ نظر سے متعین کی جاتی ہے۔ ایسی قوموں میں انسانی تہذیب پنپ نہیں سکتی،کیونکہ آدمی حیوانیت کی سطح پر آجاتا ہے، اور اپنی فضیلت اور عظمت کو فراموش کر بیٹھتا ہے۔‘‘
لکھتے ہیں:
’’ہم خود کشی کی راہ پر چل رہے ہیں جو ہماری تہذیب کے جسم پر بدنما داغ چھوڑ جاتا ہے۔ یہی شہروں میں گناہ کے ٹھکانے، قحبہ خانے اور شراب خانے تعمیر کرتا ہے پھر تشدد آمیز قوانین بنتے ہیں، یہی ہوس پرست ایک قوم کو دوسری قدم کے منظم استحصال پر آمادہ کرتی ہے، اور ان کو ہمیشہ کے لیے غیر محفوظ وغیر مامون کرکے انہیں اس قابل نہیں رہنے دیتی کہ وہ خود اپنی حکومت قائم کرسکیں‘‘۔
ٹیگور اپنیشدوں کے علاوہ بھگتی روپ اور بودھ دھرم کے اخلاقی پہلو سے بھی متأثر ہوئے ہیں۔ مغرب سے بھی وہ واقف تھے۔ مغربی فلسفہ کا مطالعہ انہوں نے کیا تھا۔ کئی ایک مغرب کے فلاسفہ سے ان کے تعلقات بھی رہے ہیں۔ قرآن مجید اور بائبل کے اثرات بھی ان پر پڑے ہیں۔
ہندو فکر وادب پر اس میں شبہہ نہیں کہ ٹیگور نے بہت گہرے اثرات ڈالے ہیں، ڈاکٹر رادھا کرشنن اور ٹیگور کی تحریروں کے ذریعہ سے ہندو ذہنوں سے مغرب سے مرعوبیت کا اثر بہت حد تک دور ہوا ہے، اور انہیں یہ موقع ملاکہ وہ اپنے قدیم کلچر پر فخر محسوس کریں۔
ٹیگور نے کئی اصناف ادب کے ذریعہ سے اپنے خیالات کی اشاعت کی ہے۔ وہ ایک شاعر اور خطیب ہی نہیں، وہ ایک بہترین افسانہ نگار اور ناول نگار بھی ہیں، انہوں نے چھ ہزار گیت لکھے، پھر بھی وہ کہتے ہیں ؂
’’زندگی دنیا کے تاروں کو ٹھیک ٹھاک کرنے میں بیت گئی، جو انتم اور آخری گیت مجھے گانا تھا وہ اب تک نہ گاسکا‘‘
ٹیگور کے نظریات اور افکار ایسے ہیں کہ ان کے صرف ہم مذہب ہی ان سے استفادہ نہیں کرسکتے بلکہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی ان میں غوروفکر کا کافی کچھ سامان موجود ہے۔

مولانا محمد فاروق خاں، معروف اسلامی دانشور

ستمبر 2015

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں