عفیف احمد
ڈی یو ہندوستان میں اعلیٰ درجے کی مرکزی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ یہ اس کا غیر معمولی کٹ آف ہی ہے جو اسے ہندوستان کی سر فہرست تین یونیورسٹیوں میں جگہ دیتا ہے۔ ہر سال داخلے کے لیے یہاں بڑی تعداد میں درخواستیں آتی ہیں۔ مختلف شعبوں کے لیے پچھلے سال ۳؍لاکھ سے زائد امیدوار ہوئے جب کہ یونیورسٹی میں کل سیٹیں تقریباً ۵۰۰۰۰ ہیں۔ سخت مسابقہ ہی ہے جو یہاں کی تعلیم کی عظمت کی عکاسی کرتا ہے۔ اتنے سخت مسابقہ کے باوجود مختلف ذات اور علاقوں کے طلبہ یہاں آنے میں کسی طرح کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کالجوں کو ثقافتی سنگم کہا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں مختلف تہذیبیں تو ہیں لیکن ان کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان نظر آتا۔ کیوں کہ یہاں مختلف طرح کے امتیازات اور تعصبات کی لہر دوڑتی نظر آتی ہے۔ کچھ سالوں سے خاص کر روہت ویمولا کی موت کے بعد ذات ا ور مذہب کے نام پر تعصبات وامتیازات کے خلاف کالج کیمپس میں سنجیدہ مباحثوں کا آغاز ہوا ہے۔ حیدرآباد یونیورسٹی اور پانڈیچیری یونیورسٹی میں اس کے خلاف کوششیں زوروں پر ہیں۔ لیکن دہلی یونیورسٹی اس کے خلاف زبان کھولنے کو تیار نہیں ہے۔ کیا یہ خاموشی اس لیے ہے کہ دہلی یونیورسٹی میں امتیازات نہیں ہوتے اس لیے یہاں اس کی ضرورت نہیں؟ نہیں حقیقت یہ نہیں ہے۔ ڈی یو درحقیقت گھاس کی دبیز چادر میں چھپا ہوا ہرا سانپ ہے۔ یہاں اگرچہ ذاتی و مذہبی تعصبات واضح نظر نہیں آتے ہیں لیکن یہ تعصبات یہاں خوب پھل پھول رہے ہیں۔
آل انڈیا سروے آف ہایر ایجوکیشن کے مطابق ہندوستانی کالجز اور یونیورسٹیز کے تدریسی مناصب پر 58.2 فی صد ایسے افراد فائز ہیں جو ایس سی، ایس ٹی، او بی سی، پی ڈبلیو ڈی ہیں اور نہ ہی مذہبی اقلیتی والے۔ تو آخر ان پر کون قبضہ جمائے بیٹھے ہیں؟ برہمن، جی ہاں یہ برہمن اور ان کے حلیف طبقات ہیں۔ ہندوستان کے کل 496 وائس چانسلرس میں سے صرف46ان بیک ورڈ کلاسس سے ہیں جو کہ دس واں حصہ بھی نہیں ہے۔ دہلی یونیورسٹی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہاں کے تقریباً سارے کالجز میں اعلیٰ ذات والوں کا قبضہ جما ہوا ہے۔ اس حقیقت پر سے پردہ اٹھانے والا نیدھن سبھانا کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جو 2016 میں راؤنڈ ٹیبل انڈیا میں شائع ہوا تھا۔ اپنی تحقیق میں اس نے کوشش کی کہ مرانڈا کالج کے بورڈ ممبرز، پرنسپل، اکیڈمک اسٹاف اور اسٹوڈنٹ یونین ممبرز کی فہرست میں دلت، آدی باسی وغیرہ کا نام تلاش کرے۔ ان مناصب پر ان پچھڑی ذات والوں کا نام تک نہیں ملا ۔ کیوں کہ ہر جگہ بڑی ذات والے قابض تھے۔ ہاں ایک جگہ تھی جہاں یہ پچھڑی ذات والے ملے اور یہ لسٹ ڈرائیور، چوکیدار، صفائی کرمچاری، حولدار اور دیگر نوکروں کی تھی۔ یہ صورت حال صرف مراندا کالج کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ دہلی یونیورسٹی کے سارے کالجز اسی رخ پر گامزن ہیں۔ اگر انتظامیہ کا حال یہ ہے تو سوچا جاسکتا ہے کہ پچھڑی ذاتوں کے متعلق طلبہ (بڑی ذات والے) کا رویہ اور برتاؤ کیسا ہوگا؟
طلبائی سیاست ، الیکشن اور ذات پات:
دہلی یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ یونین الیکشن کا ہمیشہ سے جنرل الیکشن سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ جنرل الیکشن کی طرح یہاں کے اسٹوڈنٹ یونین الیکشن میں شرکاء کی تعداد بڑی ہوتی ہے، بلکہ دونوں کے انتخابات میں اخراجات کے تناسب میں بھی بڑی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ جب بھی کوئی فریشر پہلی بار نارتھ کیمپس آتا ہے تو اس طرح کے بڑے بڑے بینر اور بورڈز کے ساتھ اس کا استقبال ہوتا ہے جس میں اس کے نام کے ساتھ اعلیٰ ذاتی علامتوں کو خوب نمایاں کیا جاتا ہے۔ اور اسٹوڈنٹ یونین الیکشن میں یہ طبقاتی نظام پوری طرح حاوی رہتا ہے۔ یہ صورت حال کسی پارٹی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ یہ پارٹیاں اگرچہ نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے بڑے اختلافات رکھتی ہیں، لیکن ہندوستانی طبقاتی نظام پر عمل کرنے میں یہ ساری پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر کھڑی نظر آتی ہیں۔
دہلی یونیورسٹی میں شمال مشرق کے طلبہ پر تشدد
جولائی ۲۰۱۵ء کی بات ہے مارتھا نامی طالب علم جس کا تعلق ناگا لینڈ سے تھا جو ہنس راج کالج میں زیر تعلیم تھا۔ اس کے ساتھ بڑی بدکلامی کی اور چینی کہہ کر علاقائی عصبیت کا ثبوت دیا۔ کچھ مہینوں بعد مارتھا نے اس شخص کو پہچان لیا جو کہ الیکشن کا ٹکٹ لیے تشہیری مہم چلا رہا تھا۔ دیواروں پر جا بجا اس شخص کی تصویریں لگی تھیں۔کھمبے، ای رکشا، ہر کوئی اس شخص کا پرچار کررہے تھا اور وہی وجے ناگر نامی شخص وہاں جہاں شمال مشرق کے اسٹوڈنٹس بڑی تعداد میں رہتے ہیں، جاکر کہتا ہے وہ شمال مشرقن(نارتھ ایسٹ) کی اٹھان اور ترقی کے لیے الیکشن لڑنا چاہتا ہے اور اس کو ان کی مدد چاہیے۔ مکاری اور نقالی کی بھی حد ہوتی ہے۔ شمال مشرق کے اسٹوڈنٹس کے خلاف تشدد بہت ہی عام ہے۔ ۲۹؍جنوری ۲۰۱۴ء کی بات ہے، جب ایک ۲۰ سالہ طالب علم نیڈو تانیا نسلی زیادتی کے سبب دماغی مرض کا شکار ہو کر مرجاتی ہے۔ جس کے بعد پورے ملک میں بحث چھڑ جاتی ہے کہ آخر نارتھ ایسٹ کے طلبہ کے ساتھ کیوں اتنی عصبیت برتی جاتی ہے۔ یہ کہانی صرف نیڈو موت پر ہی ختم نہیں ہوجاتی۔ آج بھی نارتھ ایسٹ کے طلبہ کے ساتھ یہاں طرح طرح کے امتیازات اور تعصبات آسمان چھو رہے ہیں۔
حاصل کلام
ہمارے کالج میں ایک مذاکرہ رکھا گیا، جس میں شریک ممتاز سماجی کارکن بیزوادا ویلسن نے کہا کہ ہندوستان میں ہر جگہ ذات پات کا نظام اپنے قدم جمائے ہوئے ہے۔ کوئی بھی جگہ ایسی نہیں جہاں یہ طبقاتی نظام پکڑ نہ رکھتا ہو۔ تعلیمی اداروں میں تو اس کی جڑیں بہت ہی مضبوط ہیں۔ یہاں ساری سہولیات اسی کی بنا پر ملتی ہیں۔ برہمنوں کا قبضہ اس پر یوں ہے کہ پورے تعلیمی نظام کو برہمنی شکل دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ بڑی تعداد ان طلبہ اور اساتذہ کی ہے جو تعلیم کے رخ کو سرے سے دوسری طرف موڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جو کہ دہلی یونیورسٹی میں صاف نظر آتی ہے۔ اس لیے طلبائی سیاست میں ایک بڑے انقلاب کی سخت ضرورت ہے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب یہ عظیم تعلیمی ادارے بالخصوص دہلی یونیورسٹی اپنی گہری دانش گاہی اور حقیقی روح سے محروم ہوجائے۔
مصنف دہلی یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔